اختریوسف کو سابقہ مشرقی پاکستان کی اردو فلموں کے ایک کامیاب نغمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔۔!
ڈھاکہ میں بننے والی اردو فلموں میں اختریوسف نے سروربارہ بنکوی کے بعد سب سے زیادہ فلموں میں سب سے زیادہ گیت لکھے تھے۔ ریلیز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم اجالا (1966) تھی۔ پہلا مقبول گیت احمدرشدی کا گایا ہوا فلم بیگانہ (1966) کا یہ گیت تھا "بے کل رات بتائی ، بے چین دن گزارا۔۔"
اختر یوسف کی نغماتی فلم چکوری (1967)
بریک تھرو فلم چکوری (1967) کے گیتوں سے ملا تھا جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ یہ ایک ڈبل ورژن فلم تھی جس کے بنگالی گیتوں کو اردو میں ترجمہ کر کے گوایا گیا تھا۔ اختریوسف نے کیا کمال کے گیت لکھے تھے اور عین ممکن ہے کہ بنگالی گیت بھی انھوں نے ہی لکھے ہوں گے۔ سب سے بہترین گیت مجیب عالم اور فردوسی بیگم کا الگ الگ گایا ہوا گیت تھا "وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں ، میرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں۔۔" روبن گھوش نے اعلیٰ پائے کی دھنیں بنائی تھیں۔ ندیم اور فردوسی بیگم کے علاوہ احمدرشدی کے گائے ہوئے گیت "کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہے۔۔" بھی سپرہٹ ہوئے تھے۔ ان گیتوں کو انھی دھنوں میں بنگالی زبان میں سننا بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔
اختر یوسف اور مسعودرانا کا ساتھ
اختریوسف نے مسعودرانا کے لئے پہلا گیت فلم داغ (1969) میں لکھا تھا "ملنے کا موقع ہے گلے لگ جا۔۔" لیکن اس فلم کا سب سے یادگار گیت خانصاحب مہدی حسن کی پرسوز اور مترنم آواز میں تھا "تم ضد تو کررہے ہو ، ہم کیا تمھیں بتائیں ، نغمے جو کھو گئے ہیں ، ان کو کہاں سے لائیں۔۔؟" یہ غزل نہ صرف شاعری کا کمال تھا بلکہ موسیقار علی حسین کی دھن بھی لاجواب تھی۔ لیکن یہ کس قدر عجیب حقیقت ہے کہ مہدی حسن کا ڈھاکہ میں بننے والی کسی بھی اردو فلم کے لئے یہ اکلوتا گیت تھا۔۔!
اختریوسف نے ڈھاکہ کی تیرہ فلموں کے لئے گیت لکھے تھے۔ چھوٹے صاحب (1967) ، گوری (1968) ، پیاسا اور اناڑی (1969) میں کئی ایک مقبول گیت تھے جن میں "ادا تیری بانکی ہے ، روپ سہانا۔۔" ، "پھر ایک بار وہی نغمہ گنگنا دو۔۔" ، "لب پر تیرانام ، ہاتھ میں غم کا جام۔۔" ، "اچھا کیا ، دل نہ دیا ، ہم جیسے دیوانے کو۔۔" ۔ "تو تتلی تھی ، میں بادل تھا۔۔" ، "لکھے پڑھے ہوتے اگر تو تم کو خط لکھتے۔۔"
قابل ذکر ہیں۔ پائل (1970) وہاں کی آخری فلم تھی جس میں انھوں نے مسعودرانا کے لئے ایک اور گیت لکھا تھا "ہو بل کھاتی ندیا ، لہروں میں لہرائے۔۔"
اختریوسف ، بنگالی تھے لیکن مقامی نہیں تھے۔ 1957ء میں کلکتہ سے سلہٹ ہجرت کی تھی جہاں چائے کی ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ اس سے قبل بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی قسمت آزمائی کر چکے تھے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد انھوں نے پاکستان آنا پسند کیا اور پہلی فلم ہدایتکار نذرالاسلام کی احساس (1972) تھی۔ اس فلم کا اکلوتا گیت "بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا۔۔" تھا جو روبن گھوش کی موسیقی میں رونالیلیٰ اور مسعودرانا نے گایا تھا۔ اسی سال کی ندیم کی ذاتی فلم مٹی کے پتلے (1974) میں بھی انھوں نے ایک گیت لکھا تھا جو اتفاق سے مسعودرانا کے ساتھ ان کا آخری گیت ثابت ہوا تھا "تو جہاں لے چلے رے۔۔" اس میں بھی ساتھی گلوکارہ رونالیلیٰ تھی جبکہ موسیقی ایم اشرف کی تھی۔
اختر یوسف کے دیگر مقبول گیت
اختریوسف کا لکھا ہوا سب سے مقبول گیت فلم چاہت (1974) میں تھا "ساون آئے ، ساون جائے ، تجھ کو پکاریں گیت ہمارے۔۔" روبن گھوش کی دھن میں یہ گلوکار اخلاق احمد کا ایک سپرہٹ گیت تھا جو ان کے لئے بریک تھرو ثابت ہوا تھا۔
اسی گیت سے متاثر ہوکر ، بطور ہدایتکار واحد فلم ساون آیا تم نہیں آئے (1974) بنانے کا موقع ملا لیکن یہ فلم ناکام رہی تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل سانگ "ساون آیا تم نہیں آئے۔۔" مہدی حسن اور مالا کی آوازوں میں الگ الگ بڑا مقبول ہوا تھا۔ کراچی میں سب سے زیادہ چلنے والی فلم آئینہ (1977) کا یہ مشہور گیت "وعدہ کرو ساجنا ، چھو کے مجھے تم ابھی۔۔" بھی اختریوسف کے زرخیز ذہن کی تخلیق تھا۔
اختریوسف کی آخری فلم بندھن (1980) تھی جو ایک نغمہ بار فلم تھی اور تقریباً سبھی گیت مقبول ہوئے تھے ۔ مہدی حسن کا گیت "جھکے جھکے نینوں والے چین میرا لے گئے۔۔" ایک ایسا گیت تھا جو کبھی میرا چین بھی لے جاتا تھا اور دن بھر یہی گیت گنگناتا رہتا تھا۔ایسی ہی کیفیت کچھ اے نیر کےاس گیت کو سن کر ہوتی تھی "تنہائیوں میں ڈھل جائیں گے ، میرے دن رات ، تو کیا جانے۔۔" مہناز کا گیت "کہ یہ رت ہے بڑی مستانی ، پون سنگ چھیڑے رے بدرا۔۔" اور ناہیداختر کا گیت "پیار کا بندھن ٹوٹے نہ کبھی۔۔" بھی بڑے دلکش گیت تھے۔ اسی فلم میں غالباً یہ اکلوتا دوگانا تھا جو اخلاق احمد نے مالا کے ساتھ گایا تھا اور بڑا مقبول ہوا تھا "ہر تمنا کنول بن گئی ہے ، تم سے مل کے غزل بن گئی ہے ، یہ پیار کا وعدہ ہے۔۔" اس فلم کے موسیقار ایم اشرف تھے۔
اتنے اچھے گیتوں کے باوجود
اختریوسف کو مزید فلمیں نہیں ملیں اور وہ دلبرداشتہ ہوکر لاہور کی فلمی دنیا چھوڑ کر کراچی کی ایک اشتہاری کمپنی سے منسلک ہو گئے تھے۔ 1935ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 1989ء میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔
4 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت