پاکستانی فلموں میں 'اےحمید' نام کے دو فنکار تھے۔ ایک موسیقار تھے جبکہ دوسرے ان سے سینئر تھے جنھیں بھائیا اےحمید بھی کہتے تھے۔ وہ 29 فلموں کے عکاس ، 8 فلموں کے ہدایتکار اور 40 فلموں کے فلمساز ہونے کے علاوہ شباب کیرانوی کے مستقل ساتھی بھی تھے۔
اےحمید نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور عکاس یا کیمرہ مین کے طور پر کیا تھا۔ پہلی فلم ہدایتکار داؤد چاند کی اردو فلم ہچکولے (1949) کی عکسبندی کی تھی جو ریلیز کے اعتبار سے پاکستان کی تیسری فلم تھی۔ پاکستان کے پہلے سپرسٹار فلمی ہیرو ، سدھیر کی یہ پہلی فلم تھی جوتقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ایک فلم فرض (1947) میں کام کر چکے تھے۔ نجمہ ، نذر ، اجمل ، ظہورشاہ اور ایم اسماعیل اس فلم کے دیگر اہم کردار تھے۔ عظیم موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی بھی تقسیم کے بعد یہ پہلی فلم تھی ، وہ بھی پنجابی فلم کملی (1946) کی موسیقی دے چکے تھے۔
اےحمید کی بطور عکاس دیگر مشہور فلموں میں گمنام (1954) ، نوکر (1955) ، مکھڑا (1958) اور مہتاب (1962) وغیرہ جیسی یادگار فلمیں شامل تھیں۔
عنایت حسین بھٹی کی بطور ہیرو پہلی فلم
اےحمید کی بطور ہدایتکار پہلی فلم جلن (1955) تھی جس میں پہلی بار ان کا اور شباب کیرانوی کا ساتھ ہوا تھا۔
شباب صاحب ، بنیادی طور پر ایک صحافی تھے لیکن حافظ قرآن ہونے کے باوجود ایک فلمی رسالے 'ڈائریکٹر' کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے اسی فلم سے بطور فلمساز ، کہانی نویس اور نغمہ نگار کے اپنے عظیم الشان فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔
اس فلم کا منظرنامہ معروف ادیب سعادت حسن منٹو نے لکھا تھا۔ نامور گلوکار عنایت حسین بھٹی کو پہلی بار اس اردو فلم میں ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک خوبصورت آنکھوں والی اداکارہ نادرہ کو متعارف کروایا گیا تھا لیکن فلم ناکام رہی تھی۔ یہی فلم موسیقار محمدعلی منو کی پہلی فلم تھی جنھوں نے مزید صرف تین فلموں ٹھنڈی سڑک (1957) ، سہارا (1959) اور پھول اور کانٹے (1964) کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
سید کمال کی پہلی فلم
ہدایتکار اےحمید کی دوسری فلم ٹھنڈی سڑک (1957) بھی اس لحاظ سے ایک یادگار تھی کہ اس فلم میں اردو فلموں کے خوبرو ہیرو سیدکمال کو پہلی بار متعارف کروایا گیا تھا۔ ان کی ہیروئن مسرت نذیر تھی۔ اس فلم کے کہانی نویس علی سفیان آفاقی تھے جن کی یہ پہلی فلم تھی۔
اس فلم کے عکاس بھی اےحمید خود تھے۔ اصولاً فلم کے ہدایتکار کو ہر فلم کا عکاس یا ڈائریکٹر آف فوٹو گرافی خود ہونا چاہیے کیونکہ ایک فلم بین ہر سین کو کیمرے کی آنکھ ہی سے دیکھتا ہے اور وہ کس زاویئے سے ہونا چاہیئے ، یہ فن ، ایک ہدایتکار سے بہتر کوئی نہیں جانتا جو فلم کا ناخدا ہوتا ہے۔
اےحمید ، اپنی تیسری فلم گلبدن (1960) کے ہدایتکار اور عکاس ہونے کے علاوہ سکرین پلے رائٹر بھی تھے۔ یہ ایک جادوئی فلم تھی لیکن ٹیکنیکی طور پر بڑی کمزور فلم تھی ، خاص طور پر جب اداکار اسمعٰیل قمر ایک جن کے روپ میں فضاؤں میں اڑتے ہیں تو اس میں کیمرے کی صفائی نہیں ہوتی۔ مسرت نذیر اور اعجاز مرکزی کردار تھے اور شیخ اقبال مرکزی ولن ہونے کے علاوہ فلم کے کہانی نویس بھی تھے۔ اس فلم میں منیر حسین کا گیت
- میری برباد دنیا کا تماشہ دیکھ لے دنیا۔۔
بڑا مقبول ہوا تھا۔ بطور ہدایتکار دیگر فلموں میں بلبلی بغداد (1962) ، نیلم (1963) ، ملنگ (1964) کے علاوہ فلم پروہنا (1966) میں وہ انور کمال پاشا کے معاون ہدایتکار تھے۔
اے حمید کی ایک یادگار سماجی فلم چن جی (1967)
اےحمید کی بطور ہدایتکار آخری فلم چن جی (1967) تھی جس کے فلمساز آغا غلام محمد تھے۔ شباب کیرانوی کی کہانی اور بابا عالم سیاہ پوش کے مکالمے اور گیت تھے جو خالص پنجابی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
یہ ایک بڑے اعلیٰ پائے کی بامقصد اور تفریحی فلم تھی جس میں خاص طور پر مزاحیہ اداکار آصف جاہ اور سینئر اداکار نجم الحسن کا وہ سین کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ جب دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر جارہے ہوتے ہیں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بیچارے ایک گدھے پر دو ہٹے کٹے مرد سوار ہیں۔ وہ گدھے سے اتر کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو لوگ مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں کہ گدھا ہوتے ہوئے بھی پیدل چل رہے ہیں۔ باری باری گدھے پر سوار ہوتے ہیں تو پھر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کا حق مار رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر میں وہ گدھے کو ہی سر پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر بھی لوگوں کے طعن و تشنیع کا باعث بن جاتے ہیں۔۔!
فلم چن جی (1967) کی ہیروئن فردوس تھی جس کے حسن و جمال کا ایک عالم دیوانہ ہوچکا تھا۔ اس کے رنگا رنگ پوسٹر فلم کی شان بڑھانے میں معاون ثابت ہورہے تھے لیکن فلم کے ہیرو اسدبخاری ، ایک ناکام ہیرو ثابت ہوئے تھے البتہ ولن کے طور پر پنجابی فلموں میں بڑا نام کمایا تھا۔ اس فلم کی موسیقی منظور اشرف نے دی تھی اور کئی گیت فلم کی حد تک بڑے اچھے تھے لیکن زیادہ سننے میں نہیں آتے تھے۔ ان گیتوں میں سے نسیم بیگم کا یہ گیت
- نہ او حال ، نہ او چال ، تیرا کتھے اے خیال۔۔
کے علاوہ مالا کے یہ دو گیت
- میرے پیار دا بجھا گیوں دیوا۔۔
- لوری دیواں لال نوں میں لوری دیواں۔۔
بڑے اچھے گیت تھے۔ مسعودرانا کا یہ قومی گیت
- دھرتی دا میں سینہ چیراں ، کدی نہ ڈھولاں ، بیلیا۔۔
فلم کا حاصل تھا جبکہ نذیربیگم کے ساتھ گایا ہوا یہ مزاحیہ دوگانا بھی بڑا دلچسپ تھا
ایک کورس گیت
ایک طنزیہ گیت تھا جس میں بھارتی فوجیوں کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ آئرن پروین کے ساتھ جو مردانہ آواز تھی ، اس کے بارے میں ریکارڈز میں مسعودرانا کا نام ملتا ہے ، لیکن یہ آواز ان کی نہیں تھی کیونکہ میں نے انھیں اتنا سنا ہوا ہے کہ سات پردوں میں بھی مسعودرانا کی آواز پہچان سکتا ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ بطور ہدایتکار ، یہ فلم اےحمید کی آخری فلم تھی حالانکہ ان کا فلمی سفر جاری تھا۔
اے حمید بطور فلمساز
اےحمید کا نام بطور فلمساز چالیس فلموں میں ملتا ہے جن میں پہلی فلم تین پھول (1961) تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار نامور شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری تھے۔
یہ فلم ایک بڑے بولڈ موضوع پر بنائی گئی تھی۔ فلم کی ہیروئن نیرسلطانہ اپنے خاوند علاؤالدین کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے آشنا کے ساتھ بھی رہتی ہے جبکہ اس کا آشنا اسلم پرویز تین مختلف عورتوں یا پھولوں کا رس چوستا رہتا ہے۔ یہ فلم بری طرح سے ناکام رہی تھی۔
ادبی لوگ فلموں میں کیوں ناکام ہوئے؟
عام طور پر ہمارے ادیب ، شاعر اور اہل قلم ، خودستائی کے زعم میں مبتلا ہوتے تھے اور اہل فلم کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ، اپنے انٹرویوز یا میڈیا میں لکھے ہوئے مضامین میں فلم والوں کو بڑا حقیر ، جاہل اور نااہل سمجھتے تھے لیکن مزے کی بات ہے جب خود اس فیلڈ میں آتے تھے تو بری طرح سے ناکام ہو جاتے تھے۔ عام طور پر ان کی شاعری ردی میں بکتی تھی اور ذکر اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک محدود ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں کوئی ناول پڑھتا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ کروڑوں کی آبادی کے ملک میں اس ناول کی اشاعت محض چند ہزار ہے۔ اس کے برعکس فلم کو لاکھوں لوگ دیکھتے تھے جو لوگوں کو گھروں سے نکال کر سینما گھروں تک لاتی تھی اور کمائی بھی کرتی تھی۔ ایک کامیاب فلم بنانے والا کوئی بھی شخص ، ادبی تناظر میں جاہل تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے شعبہ کا ماسٹر اور ایک کامیاب کاروباری شخص ہوتا ہے اور ایسے لوگ قابل قدر ہوتے ہیں۔
اےحمید کی بطور فلمساز چالیس میں سے 35 فلمیں صرف شباب کیرانوی اور ان کے ایک بیٹے نذرشباب کے ساتھ تھیں۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ ظفرشباب کی 29 فلموں میں سے وہ کسی ایک بھی فلم کے فلمساز نہیں تھے۔ آخری فلم ساتھی (1980) میں فلمساز کے طور ان کا نام ملتا ہے۔
(16 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )