Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on renowned music director Rafiq Ghaznavi.
لاہور کی فلمی تاریخ کے پہلے فلمی موسیقار اور گلوکار ہونے کے علاوہ رفیق غزنوی کو برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا (1932) اور پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں (1941) کے ہیرو ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔۔!
رفیق غزنوی ، بنیادی طور پر ریڈیو کے ایک ممتاز موسیقار اور گلوکار تھے جنھوں نے قیام پاکستان سے قبل بہت سی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ بطورِ اداکار دو درجن سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
رفیق غزنوی ، "کسبی" یا "میراثی" نہیں بلکہ ایک "عطائی" تھے جو موسیقی کے حلقوں میں ایک مستند موسیقار کے طور پر تسلیم کیے جاتے تھے۔ انھیں "ٹھمری" ، "دادرا" اور "خیال" کے علاوہ مختلف راگ اور راگنیاں گانے میں کمال حاصل تھا اور "عطائیوں کے شہنشاہ" کہلاتے تھے۔
رفیق غزنوی کے آباؤاجداد کا تعلق افغانستان کے علاقہ غزنی کے ایک قدامت پرست مذہبی خاندان سے تھا۔ پیدائش 1907ء میں بھارت کی ایک ریاست ہماچل پردیش کے سرمائی دارالحکومت دھرم شالا میں ہوئی۔ بچپن ، راولپنڈی میں گزرا جہاں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔
دوران تعلیم ، گانے بجانے کا سلسلہ سکول کی نظمیں پڑھنے اور "پہاڑے" یاد کرنے سے ہوا۔ مختلف علاقائی گویوں اور موسیقاروں سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جرم میں کئی بار گھر سے بھی نکالے گئے۔ متعدد بار توبہ کی اور توڑی لیکن اپنے شوق سے باز نہ آئے۔
خدادا صلاحیتوں اور قابلیت کا یہ عالم تھا کہ ایک مقامی سردار جی سے صرف پندرہ روز میں طبلہ کے سارے سُر تال سیکھ لیے تھے۔ دو گھنٹے میں سارنگی بجانے کے علاوہ ہارمونیم پر بھی عبور حاصل کیا اور دیگر سازوں میں بھی مہارت حاصل کی جو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں کام آئی جہاں بی اے کی ڈگری لینے کے علاوہ موسیقی کے سبھی مقابلے بھی جیتتے رہے۔
روایت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے رفیق غزنوی کو اپنا کلام "شکوہ" اور "جواب شکوہ" گانے کی بطور خاص اجازت دی تھی کیونکہ انھیں اردو اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور درست تلفظ اور صحیح لہجے میں گا سکتے تھے۔ رفیق غزنوی نے ان نظموں کو "سندھی بھیرویں" راگ میں گایا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو دہلی پرکئی برس تک ان کی کمپوزشدہ signature tune بجائی جاتی تھی جبکہ 1940ء کی ایک ہالی وڈ فلم The Thief of Bagdad میں بھی ان کی دھنیں استعمال کی گئیں۔
لاہور میں قیام کے دوران رفیق غزنوی کو جہاں بڑے بڑے موسیقاروں سے اکتساب فن کا موقع ملا وہاں مقامی طور پر بننے والی فلموں میں کام کرنے کا چانس بھی ملا۔
فلمساز اور ہدایتکار اے آر کاردار نے رفیق غزنوی کو اپنی خاموش فلم سرفروش (1930) میں پہلی بار بطورِ اداکار موقع دیا تھا۔ اس فلم کے بعد وہ اپنے موسیقی کے شوق میں بمبئی چلے گئے جہاں ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لاہور میں اس وقت تک ریڈیو سٹیشن نہیں تھا۔
بمبئی کے قیام کے دوران رفیق غزنوی کو ہندی/اردو فلم لیلیٰ مجنوں (1931) میں ماسٹر مادھو لال کے ساتھ موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ ہیرو آنے کا موقع بھی ملا۔ وہ ایک خوبرو جوان تھے اور فلمی ہیرو بننے کے اہل تھے۔ فلم گھر کی لکشمی (1931) میں بھی اداکاری کی۔ ان دو فلموں کے بعد واپس لاہور چلے آئے تھے۔
ہدایتکار اے آر کاردار نے لاہور کی پہلی بولتی اور پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) بنائی تو اس کے لیے ہیرو کے طور پر رفیق غزنوی کا انتخاب کیا۔ اس فلم کے ہیرو کے طور پر لاہور کی خاموش فلموں کے پہلے سپرسٹار ، گل حمید بھی ہو سکتے تھے لیکن وہ گا نہیں سکتے تھے۔ بولتی فلموں میں مکالموں کے علاوہ موسیقی اور گیت بھی لازمی تھے اور ان کے لیے ایسے فنکاروں کا انتخاب کیا جاتا تھا جن میں یہ سبھی خوبیاں موجود ہوں۔ رفیق غزنوی ، اس میعار پر پورا اترتے تھے۔
رفیق غزنوی ، پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا (1932) کے موسیقار اور گلوکار بھی تھے۔ اس فلم میں ان کے کمپوز کیے ہوئے تین گیتوں کی معلومات دستیاب ہیں جو ان کے اپنے گائے اور خود پر فلمائے ہوئے گیت بھی ہو سکتے ہیں:
رفیق غزنوی کی فلم ہیر رانجھا (1932) میں ان کے معاون موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے جن کی فلم خزانچی (1941) نے فلمی موسیقی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔
رفیق غزنوی کی دو درجن سے زائد فلموں کا ریکارڈ دستیاب ہے۔ زیادہ تر 1930 کی دھائی میں بطورِ اداکار مصروف رہے۔
بطورِ ہیرو اس دور کی مختلف ہیروئنوں رام پیاری ، تارا ، زہرہ جان ، انورادھا ، دلاری ، مس روز ، لکشمی ، جلو بائی ، پدما دیوی ، سروجنی ، سورن لتا وغیرہ کے ساتھ کام کیا لیکن کسی بڑی فلم میں کام نہ کر سکے۔
انھیں اپنی فلموں میں ہدایتکار ایم صادق کی فلم شام سویرا (1946) اور ہدایتکار سہراب مودی کی فلم منجدھار (1947) زیادہ پسند تھیں۔
رفیق غزنوی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے برصغیر کی پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں (1941) بنائی تھی۔ سرحد پکچرز کی اس فلم کے ہدایتکار ، موسیقار اور ہیرو خود رفیق غزنوی تھے جبکہ ہیروئن کے طور پر حبیب جان کابلی نامی اداکارہ تھی۔ اس فلم کے گیت اور مکالمے نامور شاعر اوربابائے پشتو غزل امیرحمزہ خان شینواری نے لکھے تھے۔
پشتو فلم لیلیٰ مجنوں (1941) کے متعدد گیت نیٹ پر موجود ہیں:
بتایا جاتا ہے کہ پشاور کے فردوس سینما کے پاس اس فلم کا پرنٹ موجود تھا جس کی ہر سال عید کے موقع پر خصوصی شو کے طور پر نمائش ہوتی تھی۔
رفیق غزنوی ، بنیادی طور پر ایک موسیقار تھے لیکن 1930 کی دھائی میں فلمی موسیقی کے شعبہ میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
ممبئی میں بنائی گئی فلم لیلیٰ مجنوں (1931) میں ہیرو آنے کے علاوہ ماسٹر مادھو لال کے ساتھ پہلی بار کسی فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اپنی دوسری فلم ہیررانجھا (1932) میں بھی انھوں نے ٹائٹل رول کرنے کے علاوہ پہلی پنجابی فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
رفیق غزنوی کی بطور موسیقار کامیابیوں کا سفر ہدایتکار اے آر کاردار کی فلم سوامی (1941) سے شروع ہوا۔ ان کی پہلی بڑی فلم سکندر (1941) تھی جس میں میر صاحب نامی موسیقار کے ساتھ گلوکار خان مستانہ مع ساتھیوں کا یہ کورس گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
فلمساز اور ہدایتکار سہراب مودی کی تاریخی فلم سکندر (1941) ایک بہت بڑی فلم تھی جو 326 قبل مسیح کے ایک عظیم یونانی فاتح سکندر اعظم کے بارے میں تھی جو یونان سے یلغار کرتے ہوئے ترکی ، ایران ، شام ، عراق اور مصر وغیرہ فتح کرتے ہوئے جب ہندوستان کی تسخیر کی غرض سے دریاے جہلم کے کنارے ضلع گجرات تک پہنچا تو خلاف توقع شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
یہاں کے راجہ پورس نے سکندر کی فتوحات کا سلسلہ نہ صرف روکا بلکہ اسے پسپائی پر مجبور بھی کر دیا تھا۔ گو اس جنگ میں پورس کو شکست ہوئی جس کی بڑی وجہ اس کے اپنے ہاتھی تھے جنھوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالا تھا۔ اہل پنجاب کو تب سے اب تک ، اپنے ہی ہاتھیوں سے سب سے زیادہ نقصان پہنچتا رہا ہے۔
شکست خوردہ راجہ پورس کا فاتح سکندر اعظم کے دربار میں ایک تاریخی مکالمہ ہوا تھا:
فلم سکندر (1941) کا ٹائٹل رول پرتھوی راج کپور نے اور راجہ پورس کا رول خود سہراب مودی نے کیا تھا جبکہ سکندر کے استاد عظیم دانشور ارسطو کا رول اداکار شاکر نے کیا تھا۔ فلم کی روایتی ہیروئن ونمالا تھی جبکہ مینا شوری کی اپنی پہلی فلم میں جوڑی صادق علی کے ساتھ تھی۔ ظہور راجہ بھی ایک اہم رول میں تھے۔ بمبئی کی ایک اداکارہ نورجہاں (ہماری ملکہ ترنم نور جہاں نہیں!) نے بھی مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔
رفیق غزنوی نے سہراب مودی کی دو مزید فلموں پرتھوی ولبھ (1942) اور ایک دن کا سلطان (1945) کی موسیقی بھی دی تھی جن کے گیت آن لائن موجود ہیں۔
1940 کی دھائی میں رفیق غزنوی کو موسیقار اور گلوکار کے طور پر خاصی کامیابی ملی تھی۔
فلم میرے ساجن یا مڈنائٹ اینگل (1941) میں وحید قریشی کے بول اور حفیظ خان مستانہ کی دھن میں رفیق غزنوی اور امیر بائی کرناٹکی کا گایا ہوا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
اس گیت کو موسیقار سہیل رعنا نے نقل کیا اور اسی دھن میں ایک پارٹ ٹائم گلوکار حبیب ولی محمد سے فلم بازی (1970) میں گوایا تھا۔
موسیقار رفیق غزنوی کے کیرئر کی ایک یادگار فلم نجمہ (1943) تھی جو ہدایتکار محبوب خان کی ایک سپرہٹ مسلم سوشل فلم تھی۔ وینا ، اشوک کمار ، یعقوب اور کمار مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم میں ایک سلام پیش کیا گیا تھا جس میں غزنوی صاحب کی آواز بھی شامل تھی:
اسی سال ہدایتکار محبوب خان کی فلم تقدیر (1943) بھی ایک بہت بڑی فلم تھی جو بھارتی اداکارہ نرگس کی پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم میں رفیق غزنوی کی دھن میں یہ کورس گیت قابل ذکر تھا جس میں مزاحیہ اداکارہ نورمحمد چارلی پر فلمائے گئے مندرجہ ذیل بول اس دور کے ہیں جب ہندوستان پر انگریز راج تھا لیکن اس دور کی فلمیں دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک غلام ملک کی فلمیں ہیں:
موسیقار رفیق غزنوی نے ممبئی کی فلموں میں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ مشہور زمانہ فلم زینت (1945) کی پس پردہ موسیقی دی جبکہ فلم دہائی (1943) کے علاوہ ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی کی فلم نوکر (1943) میں ملکہ ترنم نورجہاں سے اختر شیرانی کا کلام ہیر کے سٹائل میں گوایا تھا:
رفیق غزنوی نے ہدایتکار ظہور راجہ کی فلم مذاق (1943) کے علاوہ فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار نذیر کی متعدد فلموں میں موسیقی بھی ترتیب دی تھی جن میں کلجگ (1942) ، سوسائٹی (1942) کے علاوہ مشہور فلم لیلیٰ مجنوں (1945) بھی تھی جس میں سورن لتا ، نذیر اور ایم اسماعیل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ اس فلم کے دیگر گیتوں کے علاوہ ایک کورس گیت اس لحاظ سے یادگار تھا کہ اسے گانے کے علاوہ پردہ سکرین پر محمد رفیع بھی نظر آتے ہیں جن کا ممبئی کی فلموں میں یہ پہلا سال تھا۔ گیت کے بول تھے:
رفیق غزنوی نے قیام پاکستان کے بعد اپنے آبائی وطن آنے کو ترجیح دی۔ کسی فلم میں بطورِ اداکار کام نہیں کیا لیکن دو فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
پہلی فلم لاہور میں بنائی گئی ہدایتکار اشفاق ملک کی پرواز (1954) تھی جو یوسف خان کی پہلی فلم تھی۔ دوسری اور آخری فلم کراچی میں بنائی گئی منڈی (1956) تھی جو تقسیم سے قبل کی ممتاز اداکارہ اور گلوکارہ خورشید کی بھی دوسری اور آخری پاکستانی فلم تھی۔ ان دونوں فلموں کا کوئی گیت قابل ذکر نہیں ہے۔ ان فلموں کی ناکامی سے وہ بھی فلموں سے کنارہ کش ہو کر صرف ریڈیو تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔
رفیق غزنوی ، ایک ہر فن مولا قسم کے فنکار تھے جن کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے فلم کو کوئی تیکنیکی کام تو نہیں کیا لیکن تخلیقی کام سبھی کیے۔ موسیقی ، گلوکاری ، اداکاری اور ہدایتکاری کے علاوہ متعدد گیت بھی لکھے اور سکرپٹ رائٹر کا کام بھی کیا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے فلمی کیرئر میں کوئی امر سنگیت تخلیق نہیں کر سکے۔
رفیق غزنوی ، فلم کو سوداگری کہتے تھے جبکہ موسیقار اور گلوکار کا اصل مقام ریڈیو کو سمجھتے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں یہ دلچسپ بات کرتے ہیں کہ جہاں موسیقار بڑا ہو ، وہاں دھن پہلے بنتی ہے اور جہاں شاعر بڑا ہو ، وہاں شاعری اور اس کی معنویت اور تاثرات کا خیال رکھ کر دھن بنانا پڑتی ہے۔
رفیق غزنوی کو اردو ادب سے بڑا گہرا شغف تھا اور بڑی شستہ اردو بولتے تھے۔ مادری زبان پشتو تھی لیکن عام طور پر پنجابی بولتے تھے۔ فارسی ، دری اور انگلش زبانیں بھی جانتے تھے۔
رفیق غزنوی ، بڑے غلام علی کے زبردست مداح تھے جبکہ غزل گائیکی میں فریدہ خانم کو پسند کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد کی فلموں ، فنکاروں ، موسیقی یا گیتوں سے زیادہ متاثر نہیں تھے۔
رفیق غزنوی ایک انتہائی رنگین اور عاشق مزاج شخص تھے جن کے اپنے بقول ، بیویوں ، معاشقوں اور اولادوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ جس فلم میں کام کرتے ، اس کی ہیروئن سے دل لگا لیتے تھے۔ چار بیویوں کے علاوہ درجن بھر معاشقوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔
فلم ہیررانجھا (1932) کی تکمیل کے دوران فلم کے ہیرو رفیق غزنوی اور ہیروئن ، انوری بیگم ، اچانک غائب ہو گئے تھے۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ دونوں نے بھاگ کر شادی کر لی ہے۔
غزنوی صاحب کی یہ پہلی شادی بتائی جاتی ہے جس سے ان کی ایک بیٹی نسرین پیدا ہوئی جس نے اے آر کاردار کی مشہور زمانہ فلم شاہ جہاں (1946) میں اہم کردار کیا تھا۔ تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ایک فلم ایک روز (1947) میں بھی نظر آئی لیکن پاکستان میں کسی فلم میں کام نہیں کیا تھا۔ اس نے لیاقت آغا نامی شخص سے شادی کی تھی جس سے اس کی بیٹی سلمیٰ آغا پیدا ہوئی تھی۔
اداکارہ نسرین کی بیٹی سلمیٰ آغا ، 1980 کی دھائی کی ایک مقبول اداکارہ اور گلوکارہ تھی۔ بھارتی فلم نکاح (1983) پہلی فلم تھی جس میں اس کا گیت "دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا۔ پاکستان میں اس کی دو درجن کے قریب فلمیں تھیں۔ ہم اور تم (1985) پہلی فلم تھی۔
سلمیٰ آغا کی جوڑی جاوید شیخ کے ساتھ بڑی مقبول ہوئی اور دونوں نے شادی بھی کی لیکن طلاق ہوگئی تھی۔ سلمیٰ آغا نے سکوائش کھلاڑی رحمت خان سے بھی شادی کی اور اس سے ہونے والی ایک بیٹی ساشا نے بھی 2010 کی دھائی میں ایک بھارتی فلم میں کام کیا تھا۔
فلم پریم پچاری (1935) ، بطور ہدایتکار ، موسیقار اور ہیرو ، رفیق غزنوی کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی ہیروئن زہرہ جان تھی جو ان کی دوسری بیوی بتائی جاتی ہے۔ اس بیوی سے ان کی ایک بیٹی شاہینہ پیدا ہوئی جس نے پاکستان میں بیلی اور جدائی (1950) میں ہیروئن کے طور پر کام کیا لیکن بہت جلد گوشہ گمنامی میں گم ہو گئی تھی۔
رفیق غزنوی کی تیسری بیوی ، اداکارہ زہرہ جان کی بہن اداکارہ انورادھا تھی جس کے ساتھ ان کی پہلی فلم بہو رانی (1940) تھی۔
چوتھی بیوی ایک غیرفلمی خاتون تھی جس سے ایک بیٹی کی شادی اس دور کے ایک ممتاز کہانی نویس ضیاءسرحدی سے ہوئی تھی جن کی پاکستان میں سب سے یادگار فلم لاکھوں میں ایک (1967) تھی جس کی کہانی ان کے زور قلم کا نتیجہ تھی۔
ضیاءسرحدی کے صاحبزادے خیام سرحدی ، پاکستان ٹیلی ویژن کے ممتاز اداکار تھے جنھوں نے اپنے وقت کی دو اداکاراؤں ، عطیہ شرف اور صاعقہ سے شادیاں کی تھیں۔ ان کی ایک بیٹی ژالے سرحدی ، بھی ٹی وی کی ایک مقبول اداکارہ ہے۔
اس طرح سے رفیق غزنوی کی تین بیویاں ، دو بیٹیاں ، ایک نواسی اور ایک نواسا ، فن اداکاری سے وابستہ رہے جبکہ چوتھی نسل ابھی جاری ہے۔
رفیق غزنوی کا انتقال 3 مارچ 1974ء کو کراچی میں ہوا تھا۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.