Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


اسماعیل متوالا

اسماعیل متوالا
کو قائداعظمؒ پر پہلا پنجابی گیت
لکھنے کا اعزاز حاصل ہے

اسماعیل متوالا ، پنجابی زبان کے ایک ممتاز شاعر تھے جو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک رہے۔وہ ، گیتوں ، غزلوں اور نعتوں کے علاوہ مختلف قومی تہواروں پر قومی گیت بھی لکھتے تھے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کو خراج تحسین کرنے کے لیے ریڈیو پر نشر ہونے والا پہلا پنجابی گیت لکھنے کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے جس کا مکھڑا کچھ اس طرح سے تھا:

  • ساڈے قائد شاناں والے نیں ، اوس اچیاں آناں والے نیں
    سوہنا پاکستان بنایا اے ، پھلاں دا باغ سجایا اے۔۔

اے ماں ، پیاری ماں

اسماعیل متوالا نے تیس کے قریب فلمی گیت بھی لکھے تھے جن میں سے کئی ایک سپرہٹ ہوئے تھے۔ ان گیتوں کا ذکر آگے چل کر ہوگا ، پہلے ان کے فلمی کیرئر کے سب سے یادگار گیت کا ذکر ہوگا جوماں جیسے مقدس رشتے پر گایا ہوا ایک لافانی گیت ہے "اے ماں ، اے ماں۔۔"

ماں کے موضوع پر مسعودرانا کے گیت

اے ماں ، اے ماں
ساڈی بُلیاں چوں پھُل کھڑدے نیں
جدوں لینے آں تیرا ناں
تو کعبہ ساڈے دل دا ایں
تیرے پیراں نوں چُم لاں
اے ماں ، اے ماں
تیری صورت وچوں امڑیئے نی
سانوں رب دی صورت دسدی اے
تیرے نیناں وچوں جنت دی
من موہنی مورت دسدی اے
جنت توں ود کے سوہنیے
تیرے پیار دی گوہڑی چھاں
اے ماں ، اے ماں
تو رکھیا اے دور برائیاں توں
نیکی لئی جینا دسیا اے
جہیڑا سبق پڑھایا ای غیرت دا
او من ساڈے وچ وسیا اے
جے آکھیں تے اج عرشاں توں
میں تارے توڑ لیاں
اے ماں ، اے ماں
اج زوراے ساڈیاں بانہواں وچ
تیرے شیِر نے طاقت بخشی اے
ساڈے سینے روشن ہو گئے نیں
تو علم دی دولت بخشی اے
تیرے جیاں چنگیاں ماواں دا
سدا جگ تے رہندا ناں
اے ماں ، اے ماں

فلم وریام (1969) میں پہلے سدھیر کی جگہ اکمل تھے۔
فلم وریام (1969) میں پہلے سدھیر کی جگہ اکمل تھے۔

میرے لیے یہ گیت سنتے وقت ، وقت رک سا جاتا ہے اور اس گیت کا ایک ایک بول دل میں اتر جاتا ہے اور کافی دیر تک اس گیت کے سحر میں مبتلا رہتا ہوں۔ اس شاہکار گیت کو لفظ بلفظ لکھا جارہا ہے جو لکھنے والے ، گانے والوں اور دھن بنانے والوں کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔

یہ شاہکار گیت فلم وریام (1969) سے تھا اور سدھیر اور حبیب پر فلمایا گیا تھا جو اپنی فلمی ماں ، سلمیٰ ممتاز کے لیے گاتے ہیں۔ اس گیت کی دھن موسیقار غلام حسین شبیر (یا کالے خان شبو) نے بنائی تھی۔

مسعودرانا کے ماں کے موضوع پر گائے ہوئے دو درجن کے قریب گیتوں میں سے یہ بھی ایک اعلیٰ پائے کا گیت تھا جس میں ان کا ساتھ منیر حسین نے دیا تھا جو پاکستان کے پہلے آل راؤنڈ گلوکار تھے لیکن کبھی صف اول کے گلوکار نہ بن سکے تھے۔

اس فلم میں اسماعیل متوالا کا یہ اکلوتا گیت تھا لیکن گراموفون ریکارڈ پر اس گیت کا کریڈٹ افتخار شاہد کو دیا گیا ہے۔ پلان کے مطابق یہ فلم بن جاتی تو اس کے سبھی گیت متوالا صاحب کے لکھے ہوئے ہوتے جیسا کہ اس فلم کی سینما سلائیڈ کے عکس سے ظاہر ہورہا ہے۔

اس فلم میں وریام کا رول اکمل کررہے تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ رول سدھیر نے کیا تھا اور باقی ٹیم میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اس سلائیڈ پر موسیقار کے طور پر 'کالے خان شبو' لکھا ہوا ہے جبکہ فلم وریام (1969) کے ٹائٹل پر 'غلام حسین شبیر' کا نام درج ہے جو میرے اندازے کو صحیح ثابت کرتا ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی ہیں۔

اسماعیل متوالا کا پس منظر

1922ء میں لاہور میں پیدا ہونے والے محمداسماعیل نے 1936ء میں اردو افسانہ نگاری سے اپنے کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے افسانے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے تھے۔ متعدد ادبی جریدوں کے مدیر بھی رہے۔ 1944ء میں پنجابی زبان کے ایک مشہور شاعر استاد ہمدم کی شاگردی اختیار کی اور اگلے ہی سال لاہور یونیورسٹی سے آنرز ان پنجابی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے پنجابی شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔

وہ ، آزادی کے ایک ایسے گمنام مجاہد تھے کہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں اور جلوسوں میں اپنی شاعری سے حصول پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں قائدین اور سیاسی کارکنوں میں جوش و جذبہ بڑھانے اور حصول مقصد کے لیے اپنا قومی کردار ادا کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان کی اصل کہانی

ہمارے ہاں بڑے تواتر سے یہ غلط بیانی کی جاتی ہے کہ پاکستان ، لاکھوں جانیں قربان کرکے حاصل کیا گیا تھا۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان بنانے کے لیے کوئی بہت بڑی جنگ لڑی گئی تھی یا کسی خانہ جنگی کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ، جمہوری نظام کا ایک بہت بڑا معجزہ تھا جو ایک گولی چلائے بغیر اور ایک قطرہ خون بہائے بغیر وؤٹ کی طاقت سے قائم ہوا تھا۔

قائداعظمؒ ، ایک خالص سیاستدان تھے جن کا کوئی عسکری پس منظر نہیں تھا ۔ ان کے پاس کوئی فوج یا اسلحہ بھی نہیں تھا۔ ان کی جدوجہد جمہوری اور طاقت ، وہ گمنام سیاسی کارکن تھے جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو باور کرا دیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ان کے مسائل کا واحد حل ہے اور اس کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ ہی ان کی واحد نمائندہ جماعت اور قائد اعظمؒ ہی ایک متفقہ لیڈر ہیں۔

اسی کامیاب سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ 1946ء کے انتہائی اہم اور فیصلہ کن انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد انگریز حکمرانوں کے لیے قائداعظمؒ کا مطالبہ پاکستان تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا۔

3 جون 1947ء کو متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے بعد جو فسادات ہوئے ، ان کا تحریک پاکستان یا حصول پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ سماج دشمن اور جرائم پیشہ عناصر کی مذموم کارستانیاں تھیں اور ایک ایسا شیطانی کھیل تھا جو سرحد کے دونوں جانب کھیلا گیا تھا۔ ان فسادات کے نتیجے میں لاتعداد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ بے شمار لوگ بے گھر اور اغوا ء ہوئے ۔ نجی املاک لوٹی اور جلائی گئیں اور ان پر ناجائز قبضے کیے گئے۔

قرارداد پاکستان میں یہ کہیں بھی درج نہیں تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے غیرمسلم اور باقی ہندوستان سے مسلمان ، ہجرت کریں گے یا انھیں جبراً نکالا جائے گا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے ، ہم بات اسماعیل متوالا تک محدود رکھتے ہیں جنھوں نے اس تحریک میں اپنی شاعری سے جو کردار ادا کیا تھا وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔

فلمی تاریخ میں متضاد معلومات

اسماعیل متوالا پر لکھی گئی ایک کتاب کے مطابق بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم پتن (1955) تھی جس میں

  • چھڈ جاویں نہ چناں بانہہ پھڑ کے ، ہائے وے ڈولے کالجا میرا تے دل دھڑکے میرا ، دل دھڑکے۔۔

جیسا سپرہٹ گیت ان کی پہلی فلمی کاوش تھی۔ میرے ریکارڈز کے مطابق یہ گیت طفیل ہوشیارپوری کالکھا ہوا تھا لیکن گراموفون ریکارڈ پر اس گیت کا کریڈٹ بابا چشتی کو دیا گیا ہے جنھوں نے اس گیت کی دھن بھی بنائی تھی۔

پاکستان فلم میگزین پر ریکارڈز کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ اصول اپنایا گیا ہے کہ جہاں متضاد معلومات ہوں ، وہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ یا بغض کے اس کا کریڈٹ اس فنکار کو دے دیا جاتا ہے جو اس کا دعوے دار ہو ، باقی اس کا دین ایمان ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔

سو فیصدی درست ریکارڈز یا تاریخ مرتب کرنا ویسے بھی ممکن نہیں لیکن میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی کوئی معتبر ذریعہ ہو ، مثلاً کسی فنکار کا انٹرویو وغیرہ ہو تو اس کے مطابق ریکارڈز کو درست کر لیا جائے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے بیشتر فنکار ، اپنے ہی فنی کیرئر کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں اور کئی ایک تو مبالغہ آرائی بھی کرتے رہے ہیں۔

ایک سدا بہار نغماتی فلم پتن (1955)

فلم پتن (1955) ، ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جو وقت کی سپرسٹار اداکارہ مسرت نذیر کی دوسری جبکہ بطور ہیروئن پہلی فلم تھی جس میں اس کے ہیرو سنتوش تھے۔

اس فلم کے یہ دودوگانے بڑے کمال کے تھے جو زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی نے گائے تھے

  • بیڑی دتی کھیل اوئے ، محبتاں دا میل اوئے ، رب نے ملایا ساڈا ، پتناں تے میل اوئے۔۔
  • ساڈا سجرا پیار ، کوے بار بار ، کیتے ہوئے قرار بھل جائیں نہ۔۔

میں نے یہ فلم پہلی بار کوپن ہیگن کے ساگا سینما میں دیکھی تھی اور پرانی فلموں کا دیوانہ ہوگیا تھا۔

فلم چن ماہی (1956) میں اسماعیل متوالا کا یہ گیت بھی سپرہٹ ہوا تھا

  • بندے چاندی دے سونے دی نتھ لے ، آجا ہو بیلیا۔۔

فلم ماہی منڈا (1956) کا یہ گیت بھی کیا کمال کا تھا

  • وے میں نار پٹولے ورگی ، مینوں اکھ دی پٹاری وچ رکھ وے۔۔

اور فلم یکے والی (1957) کا یہ مشہور زمانہ گیت بھی ناقابل فراموش تھا

  • ریشم دا لاچا لک وے ، نالے بُلیاں تے سجرا سک وے ، جٹی چلی مربعیاں دی سیر نوں ، نہ گھور کے اڑیا تک وے ، ریشم دا لاچا لک وے۔۔

یہ سبھی گیت پچاس کے عشرہ کی سب سے مقبول اور مصروف گلوکارہ زبیدہ خانم نے گائے تھے جنھیں جب بھی سنیں ، کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

زبیدہ خانم ، 50 کی دھائی کی مقبول ترین گلوکارہ

زبیدہ خانم کا ذکر آیا ہے تو مجھے اپنی ایک گستاخی یاد آجاتی ہے جو میں نے اپنے والدصاحب مرحوم و مغفور کی شان میں کی تھی۔ اپنے دوستوں کی ایک محفل میں وہ بتارہے تھے کہ ان کے دورمیں تو صرف زبیدہ خانم ہی ہوتی تھی جس پر میں نے یہ لقمہ دیا تھا کہ "نورجہاں بھی تو تھی۔۔" وہ میرا بچپن تھا ، ناسمجھ تھا اور میڈیا پر اندھا دھند یقین کر لیا کرتا تھا۔ والد صاحب اپنا تجربہ اور مشاہدہ بتارہے تھے جو اس وقت تو سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن اب آتا ہے اور انتہائی شرمندگی اور ندامت محسوس ہوتی ہے۔

اسماعیل متوالا نے پندرہ فلموں کے گیت لکھے تھے جن میں سے فلم ڈنڈیاں (1961) واحد فلم تھی جس کے سبھی گیت انھوں نے لکھے تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ ان کی آخری فلم کل کل میرا ناں (1976) بتائی جاتی ہے۔ 1989ء میں انتقال ہوا تھا۔

مسعودرانا اور اسماعیل متوالا کا 1 فلمی گیت

0 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت
1

اے ماں ، اے ماں ، ساڈی بُلیاں چوں پھل کھڑدےنیں ، جدوں لینے آں تیرا ناں..

فلم ... وریام ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، منیر حسین ... موسیقی: غلام حسین ، شبیر ... شاعر: اسماعیل متوالا ... اداکار: سدھیر ، حبیب

Masood Rana & Ismael Matwala: Latest Online film

Masood Rana & Ismael Matwala: Film posters
Lut Da MaalVeryamKil Kil Mera Naa
Masood Rana & Ismael Matwala:

0 joint Online film

(0 Urdu and 0 Punjabi film)
Masood Rana & Ismael Matwala:

Total 4 joint film

(0 Urdu, 4 Punjabi film)
1.1967: Lut Da Maal
(Punjabi)
2.1968: Dil Darya
(Punjabi)
3.1969: Veryam
(Punjabi)
4.1976: Kil Kil Mera Naa
(Punjabi)


Masood Rana & Ismael Matwala: 1 song

(0 Urdu and 1 Punjabi song)

1.
Punjabi film
Veryam
from Friday, 16 May 1969
Singer(s): Masood Rana, Munir Hussain, Music: Ghulam Hussain, Shabbir, Poet: , Actor(s): Sudhir, Habib


Himmat
Himmat
(1941)
Koel
Koel
(1944)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.