سیف الدین سیف ، بنیادی طور پر ایک شاعر تھے لیکن فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف کے طور پر فلم کرتارسنگھ (1959) بنا کر انھوں نے فلمی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا لیا تھا۔۔!
سیف الدین سیف
نے تقسیم ہند پر سب سے بہترین فلم
کرتار سنگھ (1959) بنائی تھی
سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار ، ہدایتکار داؤد چاند کی اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جو عیدالفطر کے مبارک دن ، 7 اگست 1948ء کو لاہور کے میکلورڈروڈ پر واقع پربھات (صنوبر/ایمپائر) سینما میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فیچر فلم تھی۔ اس فلم میں انھوں نے چار گیت لکھے تھے جو موسیقار عنایت علی ناتھ کی دھنوں میں فلم کی ہیروئن آشا پوسلے نے گائے تھے۔
سیف الدین سیف کے سپرہٹ گیت
ساٹھ سے زائد فلموں میں دو سو سے زائد گیت سیف صاحب کے کھاتے میں ہیں۔ پہلا سپرہٹ گیت فلم گمنام (1954) میں اقبال بانو نے گایا تھا:
- پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ، تو لاکھ چلے رہ گوری تھم تھم کے۔۔
موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ اس دور کے ایک معروف گلوکار فضل حسین نے اپنے فلمی کیرئر کا سب سے ہٹ گیت فلم طوفان (1955) میں گایا تھا:
- آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں۔۔
بابا چشتی کی دھن میں اس گیت کے لکھاری بھی سیف صاحب ہی تھے۔
سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد کی اردو فلم وعدہ (1957) کے شاہکار گیت:
- تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں ، جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔۔
نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔
گلوکار شرافت علی
یہ سدابہار گیت رشید عطرے کی موسیقی میں ایک شوقیہ گلوکار شرافت علی نے گایا تھا۔ اپنی اس اکلوتی فلم میں انھوں نے چار گیت گائے تھے جن میں کوثرپروین کے ساتھ یہ کلاسیکل دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "بار بار برسیں مورے نین ، مورے نیناں۔۔"
اتفاق دیکھیے کہ موسیقار رشید عطرے ہی کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو کر شرافت علی ، فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ کر مستقل طور پر کراچی چلے گئے تھے جہاں انھوں نے دوائیوں کا کاروبار کیا اور پارٹ ٹائم ریڈیو پاکستان کراچی میں غزلیں اور گیت گاتے رہے۔ 1991ء میں انتقال ہوا تھا۔
گلوکار مجیب عالم
سیف الدین سیف نے لفظ 'شہر' پر دو مقبول گیت اور بھی لکھے تھے۔ ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) میں "میں تیرا 'شہر' چھوڑ جاؤں گا۔۔" اور "میں تیرے اجنبی 'شہر' میں ، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے۔۔" یہ دونوں گیت مجیب عالم کی آواز میں تھے جنھیں اس فلم میں پہلی اور آخری بار چھ گیت گانے کا موقع ملا تھا۔
مجیب عالم کا فلمی کیرئر بڑا مختصر تھا اور صرف سو کے قریب فلمی گیت گا سکے تھے ، 2004ء میں انتقال کر گئے تھے۔
مجیب عالم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔۔" جیسا گیت گا کر موسیقار نثار بزمی کی خوشنودی حاصل کی تھی جو یہ گیت پہلے مہدی حسن سے گوا چکے تھے لیکن ان کی گائیکی سے مطمئن نہیں ہو پائے تھے۔
سیف الدین سیف کی شاہکار فلم سات لاکھ (1957)
سیف الدین سیف ، ڈیڑھ درجن فلموں کے اکلوتے گیت نگار تھے۔ ایسی فلموں میں پہلی بڑی فلم سات لاکھ (1957) تھی جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔
دلچسپ بات ہے کہ رشید عطرے کی موسیقی میں اس فلم میں گائے ہوئے تین گیت اس وقت کے تینوں بڑے گلوکاروں کی پہچان بنے۔ زبیدہ خانم کا سب سے مقبول ترین اردو گیت
- آئے موسم رنگیلے سہانے ، جیا نہ ہی مانے ، تو چھٹی لے کے آجا بالما۔۔
تھا جو اداکارہ نیلو کے لیے بھی بریک تھرو ثابت ہوا تھا۔ سلیم رضا کا گایا ہوا گیت
- یارو ، مجھے معاف رکھو ، میں نشے میں ہوں۔۔
اور منیر حسین کا گیت
- قرار لوٹنے والے ، تو قرار کو ترسے۔۔
سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوثر پروین کا گیت
- ستم گر مجھے بے وفا جانتا ہے ، میرے دل کی حالت خدا جانتا ہے۔۔
کے علاوہ زبیدہ خانم کا گیت
- گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں ، سیاں جی کہنا میں مانوں کہ ٹالوں۔۔
بھی بڑے مقبول گیت تھے۔
ہدایتکار جعفرملک کی اس سپرہٹ فلم کے فلمساز اور کہانی نویس بھی سیف الدین سیف تھے۔ وقت کی مقبول رومانوی جوڑی صبیحہ اور سنتوش مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ طالش کو بھی اس فلم سے بریک تھرو ملا تھا۔
فلم سات لاکھ (1957) کے علاوہ فلم امراؤ جان ادا (1972) ، دیدار (1974) اور ثریا بھوپالی (1976) کے علاوہ فلم آن (1973) کے سبھی گیت بھی سیف صاحب نے لکھے تھے جن میں یہ انقلابی کورس گیت ناقابل فراموش تھا:
- سب ٹر گئے خان وڈیرے ، تیرا میرا دور آگیا۔۔
اے حمید کی موسیقی میں اس گیت کو رونالیلیٰ ، منیر حسین ، مسعودرانا اور ساتھیوں نے گایا تھا۔ سیف الدین سیف کا سب سے مقبول گیت جو مسعودرانا کی آواز میں تھا ، وہ حسن طارق کی اردو فلم ضرورت (1976) میں تھا:
- ہم بچھڑ جائیں گے سدا کے لیے ، اب تو کچھ یاد کر خدا کے لئے۔۔
سیف الدین سیف بطور مصنف
شاعری کے بعد سیف الدین سیف کی بطور مصنف (کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ) 14 فلموں کا ذکر ملتا ہے۔ ہچکولے (1949) پہلی فلم تھی۔سات لاکھ (1957) ، کرتارسنگھ (1959) ، سوال ، مادروطن (1966) ، امراؤ جان ادا (1972) ، لیلیٰ مجنوں (1974) اور ضرورت (1976) دیگر اہم فلمیں تھیں۔ اک سی ڈاکو (1987) آخری فلم تھی جس کے نغمہ نگار اور مصنف بھی تھے۔
سیف الدین سیف بطور فلمساز
بطور فلمساز انھوں نے سات فلمیں بنائی تھیں جن میں فلم رات کی بات (1954) پہلی فلم تھی جبکہ کالو (1977) آخری فلم تھی۔
سیف الدین سیف بطور ہدایتکار
سیف الدین سیف کے کریڈٹ پر بطور ہدایتکار چار فلمیں تھیں جن میں سے پہلی فلم کرتارسنگھ (1959) ان کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی اور یادگار فلم تھی۔ یہ پہلی فلم تھی جس کے وہ ، فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور شریک نغمہ نگار بھی تھے۔ یہ ایک سپرہٹ فلم تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے بھارتی پنجاب میں بھی ریکارڈ بزنس کیا تھا۔
فلم کرتار سنگھ (1959)
فلم کرتارسنگھ (1959) ، نسیم بیگم کے گائے ہوئے ، وارث لدھیانوی کے لکھے ہوئے ، موسیقار سلیم اقبال کے کمپوز کیے ہوئے اور اداکارہ لیلیٰ پر فلمائے ہوئے لازوال گیت
کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فلم خود ایک تاریخ ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر تاریخی فلمیں زیادہ تر مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں۔ فلم بینوں کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے من گھڑت واقعات دکھائے جاتے ہیں۔ اس فلم میں ایسا نہیں ہوا اور بڑی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
فلم کرتارسنگھ (1959) میں ایک ایسے گاؤں کا نقشہ کھینچا گیا تھا کہ جہاں ہندو ، مسلم اور سکھ ، ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
جب سیاسی قیادت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ملک تقسیم ہونا ہے اور ہمیں الگ الگ رہنا ہے تو یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے بھی ہو سکتا تھا ، آخر سگے بھائی بھی تو الگ ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس موقع پر سماج دشمن ، مفادپرست ، جرائم پیشہ اور انتہا پسند عناصر حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنگافساد ، قتل و غارت اور لوٹ مار کرکے عوام الناس کے جان و مال سے کھیلتے ہیں۔ وقتی طور پر تو وہ کامیاب رہتے ہیں لیکن انسان ، انسان ہے اور انسان ، انسانیت کو شکست نہیں دے سکتا ، چاہے جتنا بھی وحشی بن جائے۔
فلم کرتارسنگھ (1959) کا مرکزی خیال یہی تھا۔ ٹائٹل رول علاؤالدین جیسے لیجنڈ نے کیا تھا اور اپنے رول میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔
ظریف کا بے مثل کردار
ہماری فلموں میں عام طور ہندو کرداروں کو بڑے منفی رنگ میں پیش کیا جاتا رہا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ شاید یہ واحد فلم تھی کہ جس میں ظریف نے ایک ہندو حکیم کا مثبت رول کچھ اس کمال کا کیا تھا کہ پاکستان کے کسی مزاحیہ اداکار نے ایسا لاجواب سنجیدہ کردار کبھی نہیں کیا۔ میں ذاتی طور پر ظریف کی کامیڈی سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا ان کے اس لافانی کردار سے ہوا تھا۔
پاکستانی فلموں کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے ایک باوقار مسلمان جوان کے رول میں ایک ذمہ دار شہری کا کردار بڑی خوبی سے کیا تھا۔ اجمل کا ایک غیور اور بہادر سکھ ، فضل حق ایک ایماندار مسلمان اور عنایت حسین بھٹی کا ایک فقیر کا رول بھی زبردست تھا۔ مسرت نذیر ، بہار اور لیلیٰ کی معصومیت اور سادگی ہی ان کا حسن تھا۔
فلم کرتارسنگھ (1959) کی موسیقی بھی بڑے اعلیٰ پائے کی تھی۔ مقبول ترین گیت کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا یہ رومانٹک گیت
- گوری گوری چاننی دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی ، جی کرے چن دا میں ، مونہہ چم لاں نی۔۔
سیف صاحب کا لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے سرزمین پاکستان پر آنے والے پہلے قافلے کے جذبات کی ترجمانی اس گیت کی صورت میں کی تھی
- اج مک گئی اے غماں والی شام ، تینوں ساڈا پہلا سلام۔۔
سلیم رضا اور عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ اکلوتا دوگانا ہے۔
مجھے یہ بات بہت کھٹکی تھی کہ اس فلم میں سلیم رضا کی گائی ہوئی ہیر وارث شاہؒ ، اداکار عنایت حسین بھٹی پر فلمائی گئی تھی جو خود ایک پیشہ ور گلوکار تھے لیکن زوال پذیر تھے اور اس دور میں پاکستانی مردانہ فلمی گائیکی پر سلیم رضا کی مکمل اجارہ داری ہوتی تھی۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں
فلم کرتارسنگھ (1959) میں سیف الدین سیف نے ایک سکھ شاعرہ امرتا پریتم سنگھ کی یہ المیہ نظم
- اج آکھاں وارث شاہ نوں ، کدرے قبراں وچوں بول۔۔
شامل کی تھی جو زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی کی دلسوز آوازوں میں مسرت نذیر اور خود بھٹی صاحب پر فلمائی گئی تھی۔ اصل میں یہ پنجاب کی تقسیم اور فسادات پر یہ ایک 'ہاڑا' یا نوحہ تھا جو ایک بہت بڑا المیہ تھا اور صرف حساس دلوں کو ہی محسوس ہوتا تھا۔
اے راہ حق کے شہیدو
فلم دروازہ (1962) کے بعد فلم مادروطن (1966) جیسی حب الوطنی پر مبنی فلم بھی سیف صاحب نے بنائی تھی جس میں انھوں نے جنگ ستمبر 1965ء کے دوران مشیرکاظمی کے لکھے ہوئے اور نسیم بیگم کے گائے ہوئے مشہورزمانہ ملی ترانے
- اے راہ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو ، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔۔
کو بھی شامل کیا تھا۔
بطور فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور شریک نغمہ نگار کے ان کی چوتھی اور آخری فلم لٹ دا مال (1967) تھی۔ یہ ایک اشارتی فلم تھی جس میں مقتدر حلقوں کی بدعنوانیوں کا ذکر کیا گیا تھا کہ کس طرح وہ اس ملک کو اپنے باپ کا مال سمجھتے ہیں۔
یہ ایوبی آمریت کے عروج کا دور تھا اور کرپشن اپنی انتہا پر تھی۔ پورے پاکستان اور بنگلہ دیش کی دولت کے ساٹھ سے اسی فیصد حصے پر چند خاندان قابض تھے اور غریب عوام کا بھرپور استحصال ہورہا تھا۔
اس فلم کے مکالمے وارث لدھیانوی نے لکھے تھے جن کی لکھی ہوئی ایک قوالی "عاشقاں دی ریت ایخو ، رہندے چپ کر کے۔۔" شوکت علی ، مسعودرانا ، نسیم بیگم اور ساتھیوں نے گائی تھی۔ دلچسپ اتفاق ہے بطور ہدایتکار ، سیف صاحب کی چاروں فلموں کے موسیقار سلیم اقبال ہی تھے۔
سیف الدین سیف کے گیتوں کی فہرست
سیف الدین سیف ، 1922ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے اور 1993ء میں انتقال ہوا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے خاص خاص گیتوں کی ایک فہرست کچھ اس طرح سے تھی:
6 اردو گیت ... 3 پنجابی گیت