A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
قیام پاکستان کے کافی عرصہ بعد تک بھارت سے کئی ایک مسلمان فنکار پاکستان آتے رہے ہیں۔ جن فنکاروں کو وہاں کامیابی ملی ، وہ تو وہیں رہے لیکن ناکام رہنے والوں نے قسمت آزمائی کے لیے پاکستان ہجرت کی ، کچھ کامیاب ہوئے ، باقی گمنام رہے۔۔!
ہدایتکار اکبرعلی اکو کا شمار بھی ایسے ہی فنکاروں میں ہوتا تھا جنھیں بھارت میں پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں دو درجن کے قریب فلمیں بنانے کا موقع ملا۔
بھارت میں وہ "Akkoo" کے نام سے جانے جاتے تھے اور ان کی اپنی فلم کمپنی 'اکو پروڈکشنز' بھی تھی۔ وہ ہدایتکار کے علاوہ ایک آدھ فلموں میں فلمساز اور تدوین کار بھی تھے۔ زیادہ تر کاسٹیوم ، ایکشن ، جادوئی ، مذہبی اور تاریخی نوعیت کی فلمیں بناتے تھے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ، ان کی بھارتی فلموں کی فہرست کچھ اس طرح سے تھی: سمبا (1951) ، باما (1952) ، گوریلا (1953) ، ستمگر (1954) ، آدم خور (1955) ، حسن بانو ، نوریمن یا حاتم طائی کا بیٹا (1956) ، جہازی لٹیرا (1957) ، الہلال یا اللہ کا انصاف ، بھولا شکار (1958) ، بہرام ڈاکو (1959) ، پیدرو ، بلیک ٹائیگر ، عبداللہ (1960) ، جپسی گرل (1961) ، دکن کوئین ، میڈم زورو ، جادو محل (1962) ، خفیہ محل (1964) ، چھپا رستم , شاہی لٹیرا (1965) ، پیاسی شام (1969)۔ ان فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بی اور سی کلاس فلمیں تھیں جن کی وجہ سے وہ کسی خاطرخواہ کامیابی سے محروم رہے تھے۔
پاکستان آمد کے بعد ان کی پہلی فلم عادل (1966) تھی جو اصل میں ان کی اپنی ایک فلم الہلال (1958) کا ری میک تھی۔ بلاشبہ نقل ، اصل سے ہر شعبے میں بہتر تھی۔ فلم الہلال (1958) کی خاص بات ایک مشہورزمانہ قوالی تھی "ہمیں تو لوٹ لیا ، مل کے حسن والوں نے ، کالے کالے بالوں نے ، گورے گورے گالوں نے۔۔" موسیقار بولوسی رانی کی دھن میں یہ قوالی اسمعٰیل آزاد اور ساتھیوں نے گائی تھی۔ شیون رضوی کے بول تھے جنھوں نے اس فلم کی کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ بھی لکھا تھا اور شاید اکو صاحب کے ساتھ ہی پاکستان چلے آئے تھے۔ شکیلا ، ماہی پل ، شیخ اور رام کمار بوہرا جیسے گمنام اداکار تھے۔
ہدایتکار اکبرعلی اکو کی پاکستان میں پہلی فلم عادل (1966) اکو پروڈکشنز کے بینر تلے ریلیز ہوئی تھی۔ اداکار محمدعلی نے پہلی بار کسی فلم کے لیے سرمایہ کاری کی تھی جو اس فلم کا ٹائٹل رول بھی کررہے تھے۔ سلونی ، صابرہ سلطانہ ، ادیب ، ایم اسماعیل ، ماسٹرمراد اور نذر دیگر اہم کردار تھے۔
اس فلم کی خاص بات اس کی موسیقی تھی۔ موسیقار نثاربزمی نے چند سپرہٹ دھنیں تخلیق کی تھیں۔ مالا کا کورس گیت "شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے ، دل پروانہ دھڑک رہا ہے۔۔" ، مالا اور ناہیدنیازی کا دوگانا "بچ نہ سکو گے میری جان ، بانکی اداؤں کے وار سے۔۔" اور مہدی حسن کا گیت "راہی بھٹکنے والے ، پڑھ لاالہ کے اجالے ، دل کا دیا جلا لے۔۔" اہم گیت تھے۔ ان کے علاوہ فلم کا تھیم سانگ "پیاری ماں ، کرو دعا ، میں جلد بڑا ہو جاؤں۔۔" چائلڈ سٹار مراد پر فلمایا گیا تھا جو ناہیدنیازی کی آواز میں تھا۔ ایسا ہی ایک گیت بھارتی فلم الہلال (1958) میں بھی تھا "اماں ، میں بڑا ہو کے بہت کام کروں گا ، اللہ کے بندوں میں بڑا نام کروں گا۔۔" ثمن کلیان پور کی آواز تھی۔
اکبرعلی اکو کی دوسری فلم حاتم طائی (1967) تھی جو ایک اوسط درجہ کی فلم تھی۔ محمدعلی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ ساتھی فنکار سلونی ، رخسانہ ، یوسف خان ، ادیب ، سلطان راہی اور رنگیلا تھے۔
نثاربزمی کی موسیقی تھی لیکن اس فلم کے گیت اتنے ہٹ نہیں ہوئے تھے سوائے تھیم سانگ کے جو مسعودرانا کی آواز میں تھا "مشکل میں سب نے تجھ کو پکارا ، پروردگارا ، پروردگارا۔۔" گو اسے تنویر نقوی نے لکھا تھا لیکن اصل بول ایک بھارتی فلم حاتم (1956) میں اختررومانی کے لکھے ہوئے تھے جو محمدرفیع نے گائے تھے اور جنھیں ردوبدل کر کے ایک نئی حمد کی شکل دی گئی تھی۔
نثاربزمی صاحب اپنے ایک انٹرویو میں اس گیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے بیان کرتے تھے کہ فلمساز ان کے پاس اس فلم کی کہانی لے کر آیا اور فرمائش کی کہ جیسی حمد ، محمدرفیع نے بھارتی فلم حاتم (1956) میں گائی تھی ، بالکل ویسی ہی گوا دیں یا کاپی کر دیں۔ نثاربزمی نے صاف انکار کر دیا تھا اور فلمساز کو یہ گارنٹی دی تھی کہ وہ اس سے بہتر حمد بنا کر دکھائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا ، محمدرفیع کی دھیمی سروں میں گائی ہوئی حمد کو مسعودرانا سے اونچی سروں میں گوایا گیا تھا۔ اس حمد کے دو ورژن تھے ، ایک گراموفون ریکارڈ پر ہے جس میں دو انترے ہیں جبکہ فلم میں تیسرے انترے کا اضافہ کیا گیا تھا جو فلم کی صورتحال کے مطابق تھا۔ مسعودرانا اور محمدرفیع کی گائی ہوئیں حمدیں لفظ بہ لفظ لکھی جارہی ہیں جو ایک مذہبی تاریخ بیان کر رہی ہیں۔۔
ان دونوں حمدیہ کلام کے موازنے سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ رفیع صاحب کے گیت میں تفصیلی مضمون ہے جبکہ مسعودرانا کا گیت ایک خلاصہ ہے۔ بھارتی فلموں میں پاکستانی فلموں کے مقابلے میں حمدیں ، نعتیں اور قوالیاں زیادہ ملتی ہیں جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر اقلیت کو اپنے دین و ایمان اور تہذیب و تمدن کے تحفظ کی فکر زیادہ ہوتی ہے جبکہ اکثریت ان معاملات میں قدرے لاپرواہ ہوتی ہے۔
اکبرعلی اکو کی تیسری فلم لوان جنگل (1970) تھی۔ یہ فلم مغربی پاکستان میں اردو اور مشرقی پاکستان میں بنگالی میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا یہ پاکستان کی پہلی جنگل فلم تھی جو درست نہیں تھا ، اس سے قبل ہابو (1961) اور دارا (1968) بھی جنگل فلمیں تھیں۔ اس اردو فلم میں اداکارہ عالیہ کو پہلی بار ایک مکمل ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا۔ فلم کے ہیرو بنگالی اداکار عظیم تھے جن کی لاہور میں بنی ہوئی یہ اکلوتی فلم تھی۔ اسوقت کی لاہور کی فلموں میں عام طور پر بنگالی اداکاروں کو کم ہی کاسٹ کیا جاتا تھا۔
اکو صاحب کی آخری دونوں فلمیں ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی تھیں جن میں فلم سوداگر (1972) میں رانی کے مقابل ایک نئے ہیرو عادل کو پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کے چند گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں مالا کا گیت "تیرا میرا پیار کیسے روکے گا زمانہ۔۔" اور رونالیلیٰ کا گیت "میری وفا کا آج ہوا ہے کتنا حسین انجام۔۔" ایم اشرف کی موسیقی میں خواجہ پرویز کے گیت تھے۔ طالش ، ٹائٹل رول میں تھے۔
اکبرعلی اکو کی ریلیز ہونے والی آخری فلم آزادی (1972) تھی جس میں رانی کے ساتھ نصراللہ بٹ تھے جن کی بطور ہیرو یہ آخری فلم تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک باڈی بلڈر تھے اور 'مسٹر پاکستان' تھے۔ چند فلموں میں ہیرو آئے لیکن ناکام رہے۔ اسی کے عشرہ میں ولن پارٹیوں میں شامل ہوتے تھے۔
اکبرعلی اکو نے پاکستان میں صرف پانچ فلمیں بنائیں جو سبھی اردو زبان میں تھیں۔ صرف فلم عادل (1966) ہی کامیاب تھی۔ ان کا انتقال 6 جون 1971ء کو ہوگیا تھا۔
1 | فلم ... حاتم طائی ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نثار بزمی ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: محمد علی |
1. | Urdu filmHatim Taifrom Friday, 5 May 1967Singer(s): Masood Rana, Music: Nisar Bazmi, Poet: , Actor(s): Mohammad Ali |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین