مسعودرانا کے بارے میں یہ عظیم سلسلہ
گزشتہ سال پاکستان کے عظیم فلمی گلوکار مسعودرانا کی پچیسویں برسی پر خراج تحسین کا جو منفرد سلسلہ شروع کیا تھا ، وہ اتنی طوالت اختیار کر جائے گا ، یہ اندازہ بالکل نہیں تھا۔ ارادہ تھا کہ اردو میں مسعودرانا کے ایک ہزار سے زائد فلمی گیتوں کے ڈیٹابیس سے مختلف النوع فہرستیں بنا کر کام مکمل کر لوں گا لیکن اس دوران خیال آیا کہ اگر دیگر ساتھی فنکاروں کے بارے میں بھی لگے ہاتھ کام ہوجائے تو اردو میں بھی پاکستانی فلموں اور فنکاروں کے بارے میں ریکارڈ محفوظ ہو جائے گا۔
شروع میں توقع تھی کہ اگر ہر ہفتے ایک مضمون لکھتا تو پچاس کے قریب مضامین تو لکھ ہی لوں گا لیکن توقعات سے بڑھ کر یہ تعداد دگنی ہو گئی تھی اور پورے سو مضامین لکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سلسلہ ابھی نامکمل ہے اور ان شاء اللہ ، مکمل ہونے تک جاری رہے گا۔
کرونا کی وباء ، ایک نعمت غیر مترقبہ
یہ سب کبھی ممکن نہ ہوتا اگر کرونا وائرس کی عالمی وبا نہ پھیلتی اور اس کے نتیجے میں مدت بعد فرصت کے جو لمحات میسر آئے ، وہ میرے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھے۔
یہاں ڈنمارک میں 9 مارچ 2020ء سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اور تو اور ، 4 جنوری 2021ء سے کرونا کی وبا میرے گھر تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اب تک دو دنوں سے اتنا شدید بخار رہا کہ بیشتر وقت بے سدھ پڑا رہا۔ اب اگلے دو ہفتے تک گھر سے باہر نکلنے اور کسی سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہے ، اور نہ کسی غیر کو ہمارے ہاں آنے کی اجازت ہے۔ اس وقت ہم تین متاثرہ افراد قرنطینہ میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنے ہی گھر میں کسی اچھوت کا سا سلوک ہو رہا ہے۔۔!
سائیں اختر اور مسعودرانا
اس نئے سال میں اب اس سلسلے کو وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلے سال ختم ہوا تھا۔
مسعودرانا کے انتہائی قابل رشک فلمی کیرئر میں ہم 1966ء کی فلم معجزہ تک پہنچے تھے جس میں انھوں نے پہلی اور آخری بار ایک اور عظیم گلوکار سلیم رضا کے ساتھ تین گیت گائے تھے۔ ان میں سے ایک قوالی تھی "داتا میرے ، جھولی بھر دے ، میں سوالی تیرے در کا۔۔" اس قوالی میں تیسری نمایاں آواز سائیں اختر کی تھی اور یہ قوالی فلم میں بھی انھی پر فلمائی گئی تھی۔
وہ ، ایک لوک اور صوفی گلوکار تھے جو مختلف مزاروں ، درباروں اور خانقاہوں وغیرہ پر عرس اور میلے ٹھیلوں کے موقع پر عارفانہ کلام گایا کرتے تھے۔ وہ فلموں اور فلمی گیتوں میں مختلف دھمالوں اور قوالوں کے درمیان نظر آتے تھے اور اپنے الاپ اور لمبی تانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔
سائیں اختر کا فلمی سفر
سائیں اختر کی پہلی فلم حاتم (1956) تھی جس میں انھوں نے سلیم رضا اور ساتھیوں کے ساتھ ایک کورس گیت گایا تھا "رہے اونچا تیرا نام ، سخی رے۔۔"
فلم اولاد (1962) کی مشہور زمانہ قوالی "حق لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے ﷺ نے۔۔" میں بھی ان کی آواز شامل تھی۔
فلم توبہ (1964) کی ایک اور قوالی "نہ ملتا ، گر یہ توبہ کا سہارا ، ہم کہاں جاتے۔۔" میں بھی انھوں نے سلیم رضا اور منیر حسین کا ساتھ دیا تھا۔
انھیں اصل شہرت فلم عشق پر زور نہیں (1963) کے اس گیت سے ملی تھی "دل دیتا ہے رو رو دہائی ، کسی سے کوئی پیار نہ کرے۔۔" مالا کے گائے ہوئے اس سپرہٹ گیت میں موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے سائیں اختر کا الاپ اتنی خوبصورتی سے پیش کیا کہ وہ ایک شاہکار گیت بن گیا تھا۔
اس کے علاوہ احمدرشدی ، مسعودرانا اور ساتھیوں کے ساتھ گائے ہوئے فلم سمندر (1968) کے اس کورس گیت "ساتھی ، تیرا میرا ساتھی ہے ، لہراتا سمندر۔۔" میں بھی ان کی آواز نمایاں تھی جبکہ فلم وریام (1969) میں مسعودرانا اور منیر حسین کے ساتھ یہ دھمال "لال میری پت رکھیوبلا ، جھولے لالن۔۔" کے علاوہ انھی بولوں کو جب قوالی کے انداز میں فلم میں اکیلا (1972) میں مسعودرانا اور عنایت حسین بھٹی کی آوازوں میں موسیقار بخشی وزیر صاحبان نے ریکارڈ کیا تھا تو اس میں بھی سائیں اختر کی آواز شامل تھی۔
سائیں اختر کے سولو گیت
سائیں اختر نے سولو گیت بہت کم گائے ہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو فلمی گائیکی کے لیے موضوع نہیں تھی۔ ان کی آواز ایک کھلے گلے اور اونچی سروں میں گانے والے معاون گلوکار کے طور پر زیادہ تر الاپ اور لمبی تانوں کے لیے فلمی گیتوں ، دھمالوں اور قوالیوں میں شامل کی جاتی تھی۔
فلم زمین (1965) میں ان کی لیڈنگ آواز میں ایک دھمال تھی "تیری شان ، شان قلندری ، تو بڑا غریب نواز ہے ، اللہ ہو۔۔"
فلم قسم اس وقت کی (1969) میں موسیقار سہیل رعنا نے اپنا واحد پنجابی یا سرائیکی گیت "ڈھوک میرے رانجھے والی ، کتنی کو دور اے۔۔" ، سائیں اختر ہی سے گوایا تھا۔
اس کے علاوہ ساٹھ کے عشرہ میں پنجابی فلموں کی ایک بہت بڑی اور کامیاب فلم کمپنی لولی پکچرز کا ٹائٹل سانگ بھی سائیں اختر کی آواز میں ہوتا تھا۔
سائیں اختر بطور اداکار
سائیں اختر ، بطور اداکار بھی متعدد فلموں میں نظر آئے تھے جن میں ان پر قوالیاں اور کورس گیت فلمائے گئے تھے لیکن نصف صدی بعد ریلیز ہونے والی فلم سجرا پیار (2016) میں ان پر مسعودرانا کا یہ سولو گیت فلمایا گیا تھا "مٹی دیا باویا ، گھڑی دا اے میلہ ، ایتھے دل کاہنوں لا لیا۔۔" ریلیز کے اعتبار سے یہی ان کی آخری فلم ہے۔
سائیں اختر حسین کی آواز اور سٹائل گلوکارہ ریشماں سے ملتا جلتا تھا اور ان کے غیر فلمی گیتوں میں سے ایک "دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا ، اپنی سوچاں وچ آپ مر جائی دا۔۔" بڑا مقبول گیت تھا۔ وہ 1920ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے اور 1987ء میں انتقال ہوا تھا۔
4 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت