مزاحیہ اداکار زلفی
نے صرف سات سالہ فلمی کیرئیر میں
سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا
زلفی ، ساٹھ کی دھائی کا ایک نامور مزاحیہ اداکار تھا۔ صرف سات آٹھ برسوں کے مختصر فلمی کیرئر میں سو کے قریب فلموں میں کام کرنا ، اس کی قابلیت اور مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔!
پہلا ڈائمنڈ جوبلی کامیڈین
ایک دبلے پتلے اور نازک اندام اداکار زلفی کو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم زرقا (1969) کا مین کامیڈین ہونے کا ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے۔ پہلی فلم حسن و عشق تھی جو 1962 میں ریلیز ہوئی تھی۔
فلمی کیرئیر کے عروج پر اچانک 1969ء میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا۔ آخری فلم گل بانو بتائی جاتی ہے جو ایک پشتو فلم تھی اور 1978ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
زلفی کے ابتدائی دور میں مزاحیہ اداکاری میں نذر ، اے شاہ ، آصف جاہ اور دلجیت مرزا بام عروج پر تھے۔ اگلی پود میں رنگیلا ، منورظریف ، لہری ، نرالا اور خلیفہ نذیر کے ساتھ زلفی کا نام بھی فلموں کی ضرورت بن گیا تھا۔
زلفی کا اصل نام چوہدری ذوالفقار علی بتایا جاتا ہے۔ اس کی ذاتی معلومات تو دستیاب نہیں لیکن اس کی فلمیں ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں جن میں سے چند اوراق پلٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
زلفی کا فلمی کیرئر
زلفی نے شروع میں بہت سی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کیے تھے۔
فلم گوانڈی (1966) ایک سیاسی نوعیت کی فلم تھی جو پاک بھارت تعلقات پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں بتایا گیا تھا کہ تقسیم سے قبل کیسے ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں تھیں ، یعنی دو قومی نظریہ کا پرچار کیا گیا تھا۔ اس فلم میں طالش نے ایک مسلمان اور پھر پاکستانی اور اے شاہ شکارپوری نے ایک ہندو اور پھر بھارتی کے کردار کیے تھے۔ تقسیم سے قبل ان دونوں گروپوں پر ایک کورس گیت فلمایا گیا تھا:
- جوڑ پے گیا ، دھنے دی پتنگ دا تے منہے دی پتنگ دا۔۔
بظاہر یہ پتنگ بازی کا ایک عام سا مقابلہ ہوتا ہے لیکن اسے مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے اور بوکاٹا کے لیے اپنی اپنی مذہبی دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں اور نوبت لڑائی مارکٹائی تک جا پہنچتی ہے جو فرقہ وارانہ فسادات کا بہانہ بن جاتا ہے۔
اس دلچسپ کورس گیت کی دھن بابا چشتی نے بنائی تھی اور بول حزیں قادری نے لکھے تھے۔ اسے احمدرشدی ، مسعودرانا اور ساتھیوں نے گایا تھا اور گانے والوں میں ایک زلفی بھی تھا۔
ترانہ جو قومی ترانہ بنی
فلم گوانڈی (1966) ہی میں زلفی پر مسعودرانا کا ایک باقاعدہ مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا:
- نی آوارہ تے نئیں میں ، کرماں مارا تے نئیں میں۔۔
اس دوگانے میں دوسری آواز مزاحیہ گیتوں کی ملکہ آئرن پروین کی تھی۔
اس گیت میں زلفی کی ساتھی اداکارہ کا نام ترانہ تھا جو ایک ایرانی نژاد تھی۔ وہ چالیس سے زائد فلموں میں نظر آنے والی ایک بدنام زمانہ اداکارہ تھی جو عام طور پر ثانوی کرداروں میں بڑے بولڈ قسم کے رول کرتی تھی۔ دو فلموں ڈاکٹر شیطان (1969) اور جین بانڈ 008 آپریشن کراچی (1971) کی ہیروئن بھی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
ترانہ کے بارے میں مشہور ہے کہ جنرل یحییٰ خان جیسے بدکردار حکمران کے دور میں ایوان صدر کو حرام کاری کا اڈہ بنا دیا گیا تھا اور اس ضمن میں کئی بڑے بڑے نام ، بدنام ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور نام اداکارہ ترانہ کا بھی تھا جس کے بارے میں ایک بڑا مشہور جملہ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب وہ ، جنرل یحییٰ سے ملنے گئی تو صرف ' ترانہ ' تھی لیکن جب واپس آئی تو ' قومی ترانہ ' بن چکی تھی۔۔!
عاشقاں نوں جتیاں دی نئیں پرواہ
اسی سال کی فلم گونگا (1966) میں زلفی پرمسعودرانا کا ایک اور مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا جس میں وہ ایک دبلا پتلا اور کمزور عاشق ہے لیکن اس کی محبوبہ کے کچھ کم نہیں پورے سات بھائی ہیں اور سبھی ہٹے کٹے پہلوان۔ وہ آئرن پروین کی آواز میں زلفی کو بہت سمجھاتی ہے:
- تیری کلی جان ، میرے ست نے بھرا ، ٹیڈی ایتھوں پھٹ جا۔۔
اس پر اسے جواب ملتا ہے:
- عاشقاں نوں جتیاں دی نئیں پرواہ ، نی تو نہ گبھرا۔۔
مسعودرانا نے اس مزاحیہ گیت میں کیا غضب کے ایکسپریشنز دیے تھے ، صرف ایک جملے "نی تو نہ گبھرا۔۔" کو مختلف انداز میں گا کر ثابت کر دیا تھا پاکستانی فلموں نے ان سے بہتر آل راؤنڈ گلوکار کبھی نہیں دیکھا۔
فلم نادرہ (1967) میں بھی زلفی مین کامیڈین تھا اور اس کی جوڑی اداکارہ سیما کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں بھی اس جوڑی پر ایک مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا:
- اری او لیلیٰ کی خالہ ، میرا نکل گیا دیوالہ۔۔
نامور موسیقار کمال احمد کی یہ پہلی فلم تھی اور یہ گیت انھوں نے مسعودرانا اور مالا سے گوایا تھا۔
زلفی کے انتہائی عروج کا دور
1969ء کا سال زلفی کے انتقال اور انتہائی عروج کا سال تھا۔ گزشتہ تین برسوں میں اس کی ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد پچاس سے زائد تھی جبکہ اس کے انتقال کے بعد بھی دو درجن کے قریب فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔
فلم شیراں دی جوڑی (1969) آخری فلم تھی جس میں زلفی پر مسعودرانا کے دو گیت فلمائے گئے تھے۔ اس فلم میں رنگیلا پر لڑکیاں عاشق ہوتی ہیں لیکن نشئی زلفی سے دور بھاگتی ہیں۔ اس کیفیت میں ان دونوں پر ایک دلچسپ گیت فلمایا جاتا ہے جس میں رنگیلا ، احمدرشدی کی آواز میں اپنی مشکل بیان کرتا ہے:
- کدروں توں آواں ، میں کدروں توں جاواں ، پنڈ دیاں کڑیاں تے مل لین راہواں۔۔
اس کے جواب میں زلفی ، مسعودرانا کی آواز میں یہ شکوہ کرتا ہوا سنائی دیتا ہے:
- جدروں توں آواں ، میں جدروں توں جاواں ، پنڈ دیاں کڑیاں تے چھڈ جان راہواں۔۔
اسی فلم میں زلفی پر مسعودرانا کا ایک اور گیت فلمایا گیا تھا:
- تیرا مکھ جے نہ ویکھاں ، چین آندا نئیں۔۔
اس گیت میں چند بول حامدعلی بیلا کے بھی تھے جو فلم کا ٹائٹل رول کرنے والے اداکار مظہرشاہ پر فلمائے جاتے ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ پائے کا گیت تھا۔
زلفی اپنے عروج کا دور نہ دیکھ پائے
1969ء میں زلفی نے فلم زرقا میں ایک شعبدہ باز کا رول کیا تھا۔ اس فلم نے پہلی بار کراچی میں سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن زلفی اپنی اس کامیابی کو دیکھنے سے محروم رہا تھا۔
اسی سال کی ایک یادگار فلم دلاں دے سودے میں وہ مرکزی مزاحیہ اداکار تھا اور پنجابی زبان کو بگاڑ کر بولنے کا ایک ایسا انداز متعارف کروایا تھا جس کی بہت سے لوگ نقل کرتے ہوئے نظر آئے۔
اسی سال کی بھٹی برادران کی شاہکار پنجابی فلم جند جان میں زلفی کی مزاحیہ اداکاری بڑے کمال کی تھی۔ اس فلم میں اس کا تکیہ کلام "واقفیت ودا کے وخت ای پا لیا۔۔" بڑا مقبول ہوا تھا۔
فلم دیا اور طوفان (1969) میں زلفی ، اپنے ہم عصر تین بڑے مزاحیہ ادکاروں یعنی رنگیلا ، منورظریف اور خلیفہ نذیر کے ساتھ اہم کردار میں تھا اور شاید یہ واحد فلم تھی جس کے پوسٹر پر اس کی تصویر بھی تھی۔
فلم محرم دل دا (1970) میں زلفی کو فلم کے "ہیرو" مظہرشاہ کے سٹائل کو دیکھ کر یہ طعنہ دینا پڑا کہ "تمہیں تو ہیرو بننا نہ آیا۔۔" مجھے خود یہ دیکھ کر بڑا صدمہ پہنچا تھا کہ اس فلم میں مظہرشاہ ، رانی کے ہیرو تھے۔
فلم محلے دار (1970) واحد فلم تھی جس میں زلفی کو ہیرو ٹائپ رول ملا تھا اور جوڑی اداکارہ سیما کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا یہ گیت بڑا سبق آموز تھا:
- بے ادب نے جہیڑے ماواں دے ، او کدی نہ چڑھن جوانی۔۔
فلم ہیررانجھا (1970) میں بھی زلفی کا منورظریف کی شادی کے موقع پر مشروب پیش کرنے کا ایک مختصر رول بھی تھا۔
زلفی کی زندگی کا آخری سین فلم پردیس (1972) میں فلمایا گیا تھا۔ اس میں زلفی اور رنگیلا پر احمدرشدی اور رجب علی کا ایک گیت فلمایا گیا تھا:
- ہیلو ہیلو ، چاچاچا ، ایک شلنگو دیتا جا۔۔
فلمساز اور اداکار حبیب کی اردو فلم پردیس (1972) کے لیے لندن جانے والے جواں سال اداکار زلفی کا اچانک انتقال 11 ستمبر 1969ء کو ہو گیا تھا۔.!
فلم پردیس (1972) کی یاد میں
اداکار زلفی کی فلم پردیس (1972) سے میری بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں۔ اتوار کا دن تھا اور اس فلم کا بارہ سے تین بجے کا میٹنی شو دیکھ کر آرہا تھا۔ گھر پہنچا تو دیکھا کہ دادا جان مرحوم و مغفور کے پاس ان کے ایک باریش بھتیجے ، ائیر فورس کی وردی میں ملبوس تشریف فرما ہیں۔ دادا جان ، اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی وجہ سے بستر پر تھے۔ وہ اتنے ملنسار طبیعت کے مالک تھے کہ ان کے پاس آنے جانے والوں کی ہر وقت رونق لگی رہتی تھی ، اس لیے مہمانوں کے ہم عادی تھے اور آداب محفل سے آگہی تھی۔
میں نے بڑے ادب و احترام سے مہمان کو سلام کیا اور ہاتھ ملایا۔ دادا جان ، اس دن بڑے موڈ میں تھے۔ انھوں نے مسکراتی ہوئی شریر آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اچانک پوچھا:
"کہاں سے تشریف لا رہے ہیں ، جناب اس وقت۔۔؟"
مجھے یقین تھا کہ باپو جی کو معلوم تھا کہ میں کہاں سے آرہا ہوں لیکن ایسا سوال پہلے کبھی نہیں کیا تھا لیکن یہ آج ان کو کیا ہوا۔۔؟
میں بڑا سٹپٹایا کہ کس وقت اور کن صاحب کے سامنے کیسا سوال کیا ہے۔ باپو جی کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اتوار کے دن میں فلم دیکھنے جاتا تھا ، جس سے انھوں نے کبھی منع نہیں کیا تھا لیکن آج بے موقع باز پرس ہو رہی تھی اور وہ بھی ایک باریش مذہبی صاحب کے سامنے۔ ایک دین دار شخص کے سامنے فلم کا ذکر ویسے بھی نا مناسب تھا کیونکہ ہمارے ہاں فلم بینی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا جس کا مجھے بھرپور ادراک تھا۔ پھر ایک دس گیارہ سالہ بچے کا فلمیں دیکھنا تو اور بھی بری بات تھی۔
میں نے ٹالنے کے انداز میں سرگوشی سی کی کہ باہر کھیل رہا تھا لیکن باپو جی نے ڈانٹتے ہوئے کہا:
"صاف کیوں نہیں بتاتے کہ فلم دیکھ کر آ رہے ہو۔۔!"
باپو جی نے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا تھا ، اب چھپانے کو کچھ بھی نہ تھا لیکن اس موقع پر میں نے اپنی صفائی میں ایک ہی سانس میں جو جواب دیا ، اس پر میرے مرحوم دادا جان اور ان کے باریش بھتیجے کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا تھا۔ میرا جواب تھا:
"باپو جی ، یقین کریں ، فلم میں خانہ کعبہ دکھاتے ہیں ، مدینہ منورہ دکھاتے ہیں ، حج کرتے ہوئے اور نعتیں پڑھتے ہوئے بھی دکھایا جاتا ہے اور بھی بہت سی زیارتیں تھیں۔۔"
دادا جان مرحوم کے بھتیجے (مرحوم و مغفور) ، پاکستان ایئر فورس میں ماسٹر ورانٹ آفیسر تھے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں جب سرگودھا کے محاذ پر ایم ایم عالم نے پانچ بھارتی طیارے صرف ایک منٹ میں مار گرائے تھے تو نیچے راڈار سے انھیں گائیڈ کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ 1985ء میں وہ میرے خسر بنے اور فروری 2022ء میں انتقال ہوگیا تھا۔
(1 اردو گیت ... 7 پنجابی گیت )