A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ارشدکاظمی ، بنیادی طور پر ایک صحافی تھے جو روزنامہ زمیندار لاہور سے منسلک تھے۔
فلمی دنیا میں آمد کہانی نویس کے طور پر ہوئی تھی۔ پہلی فلم نیلم (1963) تھی جس کے فلمساز اور منظرنامہ لکھنے والے شباب کیرانوی اور مکالمہ نگار شاطرغزنوی تھے۔ ہدایتکار کے طور پر اے حمید کا نام ملتا ہے۔ فلم کا ٹائٹل رول ایک سفید گھوڑی کے علاوہ اداکارہ رخسانہ نے کیا تھا جو فرسٹ ہیروئن تھی جبکہ نغمہ سیکنڈ ہیروئن تھی۔ منورظریف کو پہلی بار اس فلم میں ایک اہم رول ملا تھا۔ سدھیر کی شباب پروڈکشنز کے ساتھ یہ اکلوتی فلم تھی۔
فلم پانی ، بھرجائی (1964) اور جاگیردار (1967) کی کہانیاں بھی کاظمی صاحب کے زور قلم کا نتیجہ تھیں جن کے ہیرو اکمل اور ہیروئنیں شیریں اور نغمہ تھیں۔ فلم کھوٹا پیسہ (1965) اکلوتی فلم تھی جس کے فلمساز اور کہانی نویس کے طور پر ان کا نام آتا ہے۔ راجہ حفیظ ، ہدایتکار تھے جبکہ محمدعلی اور سلونی کی جوڑی تھی۔
ارشدکاظمی نے بطور ہدایتکار صرف دو فلمیں بنائی تھیں جن میں پہلی فلم تابعدار (1966) تھی۔ اس فلم کی کہانی اور منظرنامہ انھی کا لکھا ہوا تھا جبکہ مکالمے بشیرنیاز کے تحریر کردہ تھے۔
اس پنجابی فلم میں انھوں نے پہلی بار رنگیلا کو ٹائٹل رول میں پیش کیا تھا جو ایک اشارتی کردار تھا جسے پاکستانی حکومتوں کی طرح ہر کسی سے ادھار مانگنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر بھی ادھار مانگ لیتا ہے۔ اس فلم میں دو بڑے پرمغز جملے سننے کو ملتے ہیں کہ مانگنے کا عادی تو ملک الموت سے بھی ادھار مانگ لیتا ہے اور یہ کہ مانگنے والوں کی جھولی ہمیشہ خالی رہتی ہے۔
دور ایوبی میں بھی اظہار و بیان پر بڑی سخت پابندیاں ہوتی تھیں اور وطن عزیز میں سچی بات کرنی ہمیشہ سے بڑی مشکل رہی ہے۔ فلم ، تفریح کا سب سے بڑا میڈیم ہوتا تھا جس میں چند باشعور لوگ ایسی سیاسی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اس وقت امریکی تابعداری میں پاکستان کی فاقہ مستی کا یہ عالم تھا کہ پورا ملک مفت اور قرض کی مے پہ پل رہا تھا اور مانگنے کی ایسی عادت پڑ گئی تھی کہ آج بھی ہمارا قومی تشخص ایک کشکول ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بڑی اکڑفوں رکھنے والا ہمارا ڈمی پرائم منسٹر بھی چند ڈالروں کی خاطر ایک معمولی عرب شہزادے کا ڈرائیور بن جاتا ہے اور عملی طور پر گفتار کا غازی اور کردار کا نیازی ثابت ہوتا ہے۔
فلم تابعدار (1966) میں پہلی بار عالیہ کو ایک بھرپور کردار ملا تھا اور اس پر تین گیت بھی فلمائے گئے تھے جن میں اس نے اپنے رقص کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا البتہ ڈائیلاگ ڈلیوری کمزورتھی۔
عالیہ ، ارشدکاظمی کی سوتیلی بیٹی تھی جس کی ماں ممتاز بانو تھی اور جس کا نام فلم دھی رانی (1969) کے فلمساز کے طور پر آتا ہے۔
اس فلم میں عالیہ اور رنگیلا پر فلمائے گئے یہ دونوں گیت بڑے دلچسپ تھے "اے بندے جہیڑے تو لیاندے ، کن وچ کردے گلاں ، وے میں نال مجاجاں چلاں۔۔" (نسیم بیگم ، منیر حسین) اور "اے حسن تیرا دن چار ، اڑیئے لٹ لے موج بہار۔۔" (شوکت علی ، نذیربیگم)
اسی فلم میں ایک کوتاہ کامت اداکار فیضی نے بھی ایک اہم رول کیا تھا۔ موصوف ایم اے پاس تھے اور اپنے چہرے مہرے سے معذور نہیں لگتے تھے۔ چند فلموں میں انھوں نے سنجیدہ کردار بھی کیے تھے لیکن اپنے جسمانی عیب کی وجہ سے انھیں صرف مزاح کے قابل سمجھا گیا تھا جو ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ جہاں ایسے معذور لوگوں کو باعث استہزا سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی فلموں ، ٹی وی چینلوں اور سٹیج ڈراموں میں ہمیشہ سے ایسے معذور افراد کو تختہ مشق بنایا جاتا رہا ہے اور مزاح کے نام پر بڑا بھونڈا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ منافقت کی انتہا دیکھیے کہ پھر بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے اخلاقیات پر درس بھی دیا جاتا ہے اور خود کو انتہائی مہذب ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔۔!
ارشدکاظمی کی فلم تابعدار (1966) پہلی فلم تھی جس میں مسعودرانا کا گایا ہوا ، بابا عالم سیاہ پوش کا لکھا ہوا اور موسیقار رحمان ورما کا کمپوز کیا ہوا تھیم سانگ "پنجرہ رہ جاؤ خالی ، پنچھی اڈ جانا ، جے لنگ گیا اے ویلا ، مڑ کے نئیں آنا۔۔" فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ یہ ایک انتہائی اعلیٰ پائے کا سبق آموز گیت تھا جو ریڈیو پر جب بجتا تھا تو لوگ دم بخود ہو کر سنتے تھے۔ یہ گیت کسی ایکسٹرا اداکار پر فلمایا گیا تھا جو اداکارہ زینت کے پس منظر میں گاتا ہے۔ اس فلم کی روایتی جوڑی شیریں اور اکمل کی تھی۔ الیاس کاشمیری مرکزی ولن ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی شیریں کی اکمل سے شادی کی انوکھی شرط عائد کرتے ہیں کہ بدلے میں اکمل کی ماں ، زینت ، ان سے شادی کرے۔۔!
ارشدکاظمی کی بطور ہدایتکار دوسری اور آخری فلم ایک یادگار نغماتی پنجابی فلم دھی رانی (1969) تھی۔ اس کی فلمساز ممتاز بانو تھی جو ان کی منکوحہ تھی۔ اس نے اپنی بیٹی عالیہ کو اس فلم میں پہلی بار فرسٹ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا تھا اور اس کا پہلا ہیرو اقبال حسن تھا۔ فلم کی کہانی اور منظرنامہ کاظمی صاحب کا اپنا تھا اور مکالمے بشیرنیاز اور سکیدار نے لکھے تھے۔ ساون اپنے عروج پر تھے جبکہ سلمیٰ ممتاز اور ناصرہ کے علاوہ اس فلم میں سلطان راہی مرکزی ولن تھے۔ کامیڈی کا شعبہ منورظریف ، ننھا اور رضیہ کا تھا۔ اس فلم کا سب سے بھاری بھر کم شعبہ اس کے گیت تھے جو خواجہ پرویز نے لکھے تھے اور ایم اشرف نے سپرہٹ دھنیں بنائی تھیں۔ سب سے مقبول ترین گیت ملکہ ترنم نورجہاں کا گلی گلی گونجنے والا یہ عوامی گیت تھا:
عالیہ اور اقبال حسن پر فلمائے ہوئے اس شوخ و چنچل گیت میں جب دونوں بار بار "آہوں آہوں۔۔" کہتے ہیں تو بڑا مزہ آتا ہے۔ میڈم نورجہاں کی اجارہ داری کے اس دور میں آئرن پروین اور نسیم بیگم کا گایا ہوا ایک ایک گیت گمنام رہا تھا جبکہ فلم کے ٹائٹل بول عنایت حسین بھٹی کی آواز میں تھے۔
فلم دھی رانی (1969) سے کاظمی صاحب کو خاصی توقعات وابستہ رہی ہوں گی لیکن یہ فلم اپنے سپرہٹ گیتوں کے باوجود اپنی کمزور کہانی اور نئی کمزور جوڑی کی وجہ سے باکس آفس پر کمزور رہی تھی۔ ویسے بھی اس دور میں مقابلہ بڑا سخت ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد ان کے کریڈٹ پر کوئی فلم نہیں ملتی۔ ارشدکاظمی کا 1981ء میں انتقال ہو گیا تھا۔
1 | فلم ... تابعدار ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رحمان ورما ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: ؟ (زینت) |
2 | فلم ... دھی رانی ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: عالیہ ، اقبال حسن |
1. | 1966: Tabedar(Punjabi) |
2. | 1969: Dhee Rani(Punjabi) |
1. | Punjabi filmTabedarfrom Friday, 9 December 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Rehman Verma, Poet: , Actor(s): ? (Zeenat) |
2. | Punjabi filmDhee Ranifrom Friday, 24 October 1969Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Aliya, Iqbal Hassan |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.