A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
تقسیم سے قبل کے ایک معروف اور سینئر اداکار کمار کی بطور فلمساز اور ان کے صاحبزادے ایس اے حافظ کی بطور ہدایتکار ، ایکشن اور کاسٹیوم فلم سجدہ (1967) ، مسلمانوں اور رومن ایمپائر کے تنازعہ پر بننے والی ایک تصوراتی فلم تھی جس میں محمدعلی اور طالش نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی موسیقی منظوراشرف نے ترتیب دی تھی اور گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ اس فلم میں مسعودرانا کا تھیم سانگ ایک بڑا پرجوش اور ایمان افروز جنگی ترانہ تھا:
اس کورس گیت میں دیگر آوازیں نجمہ نیازی ، مالا اور ساتھیوں کی تھیں جو محمدعلی ، لہری ، اسد جعفری ، دیبا ، زینت اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھیں۔
فلم سجدہ (1967) کے اس کورس گیت میں ایک اداکار اسد جعفری بھی تھے۔ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک فنکار تھے جنھوں نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز فلم وعدہ (1957) سے کیا تھا اور ستر سے زائد فلموں میں معاون اداکار کے طور پر نظر آئے تھے۔ ایک فلم اور بھی غم ہیں (1960) میں جمیلہ رزاق کے ساتھ ہیرو تھے لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ سلیم رضا کا فلم ہمسفر (1960) میں گایا ہوا مشہور زمانہ گیت
اسد جعفری پر فلمایا گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی بھی تھے اور کراچی کے ہفت روزہ اخبار جہاں کے مستقل کالم نویس تھے۔ 1934ء میں الہٰ آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے اور 1995ء میں کراچی میں انتقال ہوا تھا۔
فلم سجدہ (1967) کے ہدایتکار ایس اے حافظ کا نام معاون ہدایتکار کے طور پر پہلی بار ہدایتکار شریف نیر کی معاشرتی فلم معصوم (1957) میں آتا ہے۔
1964ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ اردو فلم توبہ ، بطور ہدایتکار ان کی پہلی فلم تھی۔ یہ گولڈن جوبلی فلم ، اداکارہ زیبا اور اس کے ہیرو کمال کی پہلی سپرہٹ فلم تھی جو کراچی کے ایک ہی سینما پر مسلسل پچیس ہفتے تک چلتی رہی تھی۔
اس فلم کا مرکزی کردار اداکار کمار نے کیا تھا جو بھارتی ہدایتکار محبوب کی تاریخی فلم مغل اعظم (1960) کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ اس فلم میں وہ ایک سنگتراش ہوتے ہیں اور ان پر محمدرفیع کا یہ گیت فلمایا جاتا ہے "اے محبت ، زندہ باد۔۔"
اداکار کمار کا اصل نام سید میرحسن علی زیدی تھا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز اپنی جنم بھومی لکھنو (بھارت) سے فلم یاد رفتگان (1932) سے کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے کلکتہ اور بمبئی میں ایک سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا جن میں ہیرو سے لے کر کیریکٹرایکٹرز کے رولز بھی تھے۔
پاکستان میں اداکار کمار نے دو درجن کے قریب فلموں میں معاون اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔ فیصلہ (1959) پہلی فلم تھی جبکہ توبہ (1964) کامیاب ترین فلم تھی۔ اس فلم میں انھوں نے ایک بگڑے ہوئے امیرزادے کا کردار کیا تھا جو خدا کو بھول جاتا ہے لیکن جب برا وقت آتا ہے تو توبہ کرنا پڑتی ہے۔
اس فلم میں اے حمید کی دھن میں فیاض ہاشمی کی لکھی ہوئی ایک لازوال قوالی تھی
سلیم رضا ، منیر حسین اور ساتھیوں نے یہ قوالی گائی تھی جو پاکستانی فلموں کی مقبول ترین قوالی رہی ہے۔
متعدد فلموں میں ان کی کارکردگی زبردست رہی تھی جن میں خاص طور پر فلم جلوہ (1966) اور عصمت (1968) قابل ذکر ہیں۔ آخری فلم دھڑکن (1976) تھی اور 1982ء میں انتقال ہوا تھا۔
اپنے ایک ریڈیو انٹرویو کے مطابق اداکار کمار ، اپنے بچوں کے اصرار پر بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے آئے تھے۔
کراچی کے زیادہ تر اردو بولنے والے ہندوستانی مہاجرین ، تقسیم کے فسادات کے متاثرین نہیں تھے ، بیشتر لوگ رضاکارانہ طور پر پاکستان آئے تھے جہاں ایک بہتر مستقبل ان کا منتظر تھا۔ ایک روایت کے مطابق کراچی کا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہوگا کہ جن کے عزیزواقارب ، بھارت میں مقیم نہیں ہیں۔ کراچی کو ایک 'منی پاکستان' سنا کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کی برکات سے اب 'منی ہندوستان' بھی سننے کو مل رہا ہے۔۔!
اداکار کمار کے بیٹے سیدعلی حافظ (ایس اے حافظ) نے کل 21 فلمیں بنائی تھیں جو سبھی اردو زبان میں تھیں۔
توبہ (1964) کے بعد شبنم (1965) فلم میں رانی نے ٹائٹل رول کیا تھا ، کمال ہیرو تھے جبکہ زیبا اور محمدعلی ، سائیڈ کرداروں میں تھے۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا
فلم صنم (1965) ، بطور فلمساز کمار کی دوسری اور آخری فلم تھی جس کے ہدایتکار بھی ان کے صاحبزادے ، ایس اے حافظ تھے۔ اس فلم میں محمدعلی نے کمال کے باپ کا رول کیا تھا۔
فلم اک نگینہ (1969) میں موسیقار امجدبوبی کو متعارف کرایا گیا تھا اور اس فلم میں آئرن پروین کا یہ گیت بڑا دلچسپ تھا
اسی سال کی فلم میری بھابھی (1969) میں نیرسلطانہ اور چائلڈسٹار مراد کی کارکردگی بڑی زبردست تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا تھیم سانگ
چائلڈ سٹار مراد کے پس منظر میں گایا گیا تھا۔
فلم دل دے کے دیکھو (1969) میں مجیب عالم کا یہ گیت بھی سپرہٹ تھا
فلم اللہ میری توبہ (1974) میں موسیقار امجدبوبی نے احمدرشدی سے چھ گیت گائے تھے جو کسی بھی فلم میں ان کے زیادہ سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ ہے۔
ہدایتکار ایس اے حافظ کی ایک فلم شکار (1974) بھی تھی جس میں مالا کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا
اسی فلم میں مسعودرانا کے دو گیت تھے جن میں سے یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
اسی فلم میں مسعودرانا نے ایک بڑا عجیب و غریب گیت گایا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ، پورے گیت میں صرف یہی بول تھے
اے حمید موسیقار تھے جبکہ یہ دونوں گیت شاہد پر فلمائے گئے تھے۔
فلم راجہ جانی (1976) میں آخری بار ایس اے حافظ کی کسی فلم میں مسعودرانا کا کوئی گیت ملتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑے کمال کا گیت تھا
یہ ایک اشارتی اور طنزیہ گیت تھا جو اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقارعلی بھٹو کی تحقیر کرنے کے لیے گوایا گیا تھا۔
بھٹو صاحب جیسی طلسماتی شخصیت کے مخالفین کی کبھی کمی نہیں رہی۔ اردو بولنے والوں میں عام طور پر سندھی ہونے کی وجہ سے ناپسند کیے جاتے تھے۔
ایسی ہی ایک فلم انسان اور گدھا (1973) بھی تھی جس میں پاکستانی عوام کو گدھے بنایا گیا تھا جو بظاہر بھٹو جیسے مسخرے یعنی رنگیلا کی تقریریں بڑے انہماک سے سنتے تھے اور اس کے لیے نعرے مارتے یا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے تھے۔
یہ فلم بنانے والے سیدکمال نے اپنی کتاب میں بڑی غلط بیانی کی تھی کہ اس فلم کو بھٹو دورحکومت میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی تھی جو سراسر لغو اور بکواس ہے ، میں نے یہ فلم اسی دور میں دیکھی تھی۔
ایس اے حافظ کی بطور فلمساز اور ہدایتکار ایک یادگار فلم بارات (1978) تھی جس میں دو گیت بڑے کمال کے تھے۔ مہناز کا یہ سریلا گیت
اور اے نیر کا یہ گیت تو میں اکثر گنگنگاتا رہتا تھا
تسلیم فاضلی صاحب نے بڑے کمال کے بول لکھے تھے۔
ایس اے حافظ نے بطور فلمساز اور ہدایتکار تین مزید فلمیں بنائی تھیں جن میں آتش (1980) ، سرالمبا (1983) اور آخری فلم آگ اور شعلے (1987) بھی تھی۔ ان کے بارے میں مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
1 | فلم ... سجدہ ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ، نجمہ نیازی مع ساتھی ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: دیبا ، محمد علی ، لہری ، اسد جعفری ، زینت مع ساتھی |
2 | فلم ... میری بھابی ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: امجد بوبی ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: (پس پردہ ، مراد) |
3 | فلم ... شکار ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: شاہد |
4 | فلم ... شکار ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: ریاض الرحمان ساغر ... اداکار: شاہد |
5 | فلم ... راجہ جانی ... اردو ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: امجد بوبی ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: محمد علی |
1. | 1967: Sajda(Urdu) |
2. | 1969: Meri Bhabhi(Urdu) |
3. | 1974: Shikar(Urdu) |
4. | 1976: Raja Jani(Urdu) |
1. | Urdu filmSajdafrom Friday, 10 February 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Najma Niazi & Co., Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Deeba, Mohammad Ali, Lehri, Asad Jafri, Zeenat & Co. |
2. | Urdu filmMeri Bhabhifrom Friday, 3 October 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Amjad Bobby, Poet: , Actor(s): (Playback - Master Murad) |
3. | Urdu filmShikarfrom Friday, 23 August 1974Singer(s): Masood Rana, Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): Shahid |
4. | Urdu filmShikarfrom Friday, 23 August 1974Singer(s): Masood Rana, Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): Shahid |
5. | Urdu filmRaja Janifrom Friday, 30 January 1976Singer(s): Masood Rana, Music: Amjad Bobby, Poet: , Actor(s): Mohammad Ali |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.