A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعودرانا کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں یہ منفرد اور معلوماتی سلسلہ شروع کرتے وقت اندازہ نہیں تھا کہ اس قدر ہمہ گیر ہو گا اور مجھے پاکستان کی پوری فلمی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں مسعودرانا کے ساتھی گلوکاروں ، موسیقاروں ، نغمہ نگاروں اور اداکاروں کے علاوہ ہدایتکاروں کے بارے میں لکھا جاتا ہے اور آج کی نشست میں پچاس کے عشرہ کے ممتاز فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف انور کمال پاشا پر بات ہوگی جو پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
مسعودرانا نے انور کمال پاشا کی دو فلموں میں نغمہ سرائی کی تھی اور دونوں گیت تھے:
یہ مسعودرانا کے عروج اور انور کمال پاشا کے زوال کا دور تھا جو متعدد بڑے بڑے ہدایتکاروں کے استاد تھے۔
انور کمال پاشا ، ڈبل ایم اے کرنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری اہلکار تھے۔ انھوں نے فلمسازی کے شوق میں محکمہ ٹیکس میں اپنا عہدہ تک چھوڑ دیا تھا۔ ان کے والد گرامی حکیم احمد شجاع بھی ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ ادیب تھے جن کی متعدد کہانیوں پر فلمیں بن چکی تھیں۔ ان کے مشہور ناول "باپ کا گناہ" پر تقسیم سے قبل میڈم نورجہاں کی فلم بھائی جان (1945) بنائی گئی تھی۔ پاکستان میں اس ناول پر بنائی جانے والی شاہکار فلمیں ، دوآنسو (1950) ، دلاں دے سودے (1969) اور انجمن (1970) تھیں۔
انور کمال پاشا کی پہلی فلم شاہدہ (1949) تھی جو ریلیز کے اعتبار سے پاکستان کی دوسری فلم تھی۔ اس فلم میں وہ مکالمہ نگار اور معاون ہدایتکار کے طور پر سامنے آئے۔ فلم کی کہانی ان کے والد حکیم احمد شجاع کی لکھی ہوئی تھی۔
اس فلم کے ہدایتکار لقمان تھے جن کا دعویٰ تھا کہ تقسیم کے بعد بنائی جانے والی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی اور پہلا جو سین اور مکالمہ ریکارڈ ہوا تھا ، وہ انور کمال پاشا کا لکھا ہوا تھا "اللہ ، میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔۔"
یہ مکالمہ اداکارہ شمیم بانو نے ادا کیا تھا جو آگے چل کر پاشا صاحب کی زوجیت میں آئی۔
اس فلم کے ہیرو ناصرخان تھے جو دلیپ کمار کے بھائی تھے۔ پاکستان میں یہ ان کی دوسری اور آخری فلم تھی ، پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہیرو بھی تھے۔ پاکستان میں اردو فلموں کے محدود سرکٹ کی وجہ سے یہ فلم اتنا بزنس نہیں کر سکی تھی لیکن بتایا جاتا ہے کہ دہلی اور لکھنو میں ایک کامیاب سلورجوبلی فلم تھی۔
اپنی پہلی فلم کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے انور کمال پاشا نے اپنے والد حکیم احمد شجاع کے ناول "باپ کا گناہ" پر فلم دوآنسو (1950) بنائی۔ وہ اس فلم میں مرتضیٰ جیلانی کے ساتھ شریک ہدایتکار تھے اور فلم کا منظرنامہ اور مکالمے بھی لکھے تھے۔
اس فلم میں روایتی جوڑی تو صبیحہ اور سنتوش کی تھی لیکن فلم کی کہانی شمیم بانو ، ہمالیہ والا اور شاہنواز کے گرد گھومتی تھی۔
اداکار سنتوش پر فلمایا جانے والا پہلا گیت "اس دل کو اپنا گھر سمجھو ، اپنے گھر میں آ جاؤ جی۔۔" کسی پیشہ ور گلوکار نے نہیں بلکہ اداکار علاؤالدین نے گایا تھا۔ اسی اردو فلم میں منور سلطانہ کا گایا ہوا ، حزیں قادری کا لکھا ہوا اور موسیقار مبارک علی خان کا کمپوز کیا ہوا ایک پنجابی گیت بھی شامل کیا گیا تھا "اک لیلیٰ تے مجنوں سارے ، کرماں مارے ، ہائے میں کی کراں۔۔"
یہ پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم تھی یعنی مسلسل 25 ہفتے چلنے والی فلم تھی۔ پچاس کے عشرہ میں جو فلم سلورجوبلی ہوتی تھی ، وہ ستر کے عشرہ کی پلاٹینم جوبلی فلم سے بھی زیادہ کامیاب ہوتی تھی۔ اسی فلم میں پہلی بار پنجابی فلموں کے عظیم مصنف اور نغمہ نگار حزیں قادری اور معروف مزاحیہ اداکار آصف جاہ کو متعارف کروایا گیا تھا۔ ہدایتکاری کے شعبہ میں پاشا صاحب کے معاونین میں جعفر ملک ، آغا حسینی اور آصف جاہ کے نام ملتے ہیں۔
اسی سال انور کمال پاشا کی بطور مکمل ہدایتکار پہلی پنجابی فلم گبھرو (1950) ریلیز ہوئی جس کی روایتی جوڑی شمیم بانو اور سنتوش تھے۔ پاشا صاحب نے اس فلم میں پہلی بار بطور اداکار کام کیا۔ فلم کی کہانی ان کے والد حکیم احمد شجاع کے زورقلم کا نتیجہ تھی۔
بدقسمتی سے پنجابی فلموں کا مکمل ریکارڈ دستیاب نہیں۔ اہل پنجاب کو لکھنے پڑھنے ، تاریخ اور ریکارڈز سے کبھی دلچسپی نہیں رہی جس کی بڑی وجہ ایک نفسیاتی خوف رہا ہے۔ صدیوں سے بدیسی حملہ آوروں اور دراندازوں نے اس خطہ کو تخت و تاراج کیا جس نے شدید قسم کا احساس کمتری پیدا ہوا اور یہاں ہمیشہ اغیار کو سرکار سمجھا گیا اور جو بتایا گیا ، اس پر بلا سوچے سمجھے سرتسلیم خم کرلیا گیا۔ البتہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پنجاب میں جو اہمیت پنجابی فلموں کو حاصل رہی ہے وہ اردو فلموں کو کبھی نہیں رہی۔ اس پر بڑی تفصیل سے ایک الگ مضمون ہوگا ، ان شاء اللہ۔۔!
1951ء میں انور کمال پاشا کی واحد فلم دلبر ریلیز ہوئی تھی جو پنجابی زبان میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف خود پاشا صاحب تھے اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس فلم میں ہیروئن شمیم بانو کے ساتھ ہیرو بھی انور کمال پاشا تھے۔ حسب معمول اس فلم کا بزنس ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اگر کوئی پنجابی فلم لاہور میں ناکام بھی ہوجاتی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک ناکام فلم ہے کیونکہ پنجاب سرکٹ اتنا بڑا ہوتا تھا کہ وہاں ایک عام پنجابی فلم بھی اپنی لاگت پوری کر لیتی تھی۔
انور کمال پاشا کی اگلی فلم غلام (1953) تھی جس میں صبیحہ اور سنتوش مرکزی کرداروں میں تھے۔ یہ ایک اوسط درجہ کی فلم تھی۔
1952ء تک بھارتی فلمیں آزادانہ طور پر پاکستانی سینماؤں میں ریلیز ہوتی تھیں لیکن پھر حکومت نے ایک درآمدی پالیسی بنائی جس کے تحت مقتدر حلقوں کے منظور نظر لائسنس یافتہ افراد ہی بھارتی فلمیں درآمد کر سکتے تھے۔ اس کا فائدہ فلم انڈسٹری کے بجائے مخصوص اور من پسند افراد کو ہوا جنھوں نے ملک اور فلم انڈسٹری کے مجموعی مفادات پر اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کو ترجیح دی۔ خودکفالت کے بجائے ریڈی میڈ درآمدی فلموں کو ترجیح دی گئی جس سے پاکستان میں فلمسازی کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ بالآخر 1954ء میں فلم انڈسٹری کے احتجاج پر یہ پالیسی ختم کر دی گئی اور فلم کے بدلے فلم کی پالیسی اپنائی گئی جو 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک جاری رہی تھی۔
1954ء میں انور کمال پاشا کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم گمنام ریلیز ہوئی جو سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی بھی ان کے والد صاحب کی لکھی ہوئی تھی جس میں ایک قاتل ، سزا کے خوف سے گمنام ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ سدھیر کی ٹائٹل رول میں پرفارمنس بڑی عمدہ تھی۔ صبیحہ نے اس فلم میں ایک پگلی کا رول کیا اور خوب کیا تھا۔
یہ پاشا صاحب کی پہلی فلم تھی جس کا ایک گیت "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ، تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے۔۔" سپرہٹ ہوا تھا۔ ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں سیف الدین سیف کا لکھا ہوا یہ گیت اقبال بانو نے گایا اور کیا کمال کا گایا تھا۔ پچاس کے عشرہ کی معروف گلوکارہ کوثرپروین کی یہ پہلی فلم تھی۔
اسی سال انور کمال پاشا کی دوسری فلم رات کی بات (1954) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ایک بار پھر صبیحہ اور سنتوش کی روایتی جوڑی تھی۔ یہ ایک ناکام ترین فلم تھی۔
1954ء میں بھارت کے ساتھ فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ ہوا جس سے پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلموں کی آزادنہ ریلیز ختم ہو گئی تھی۔ اس عمل سے پاکستان میں فلمسازی کے رحجان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب ہر بھارتی فلم منگوانے کے لیے ایک پاکستانی فلم کا ہونا ضروری تھا اور وہ اردو فلم ہی ہو سکتی تھی جو بھارت کے وسیع سرکٹ میں چل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دو عشروں میں اردو فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی حالانکہ پاکستان میں ان کا سرکٹ اور بزنس بڑا محدود ہوتا تھا لیکن اچھی پاکستانی فلمیں بھارت میں بھی اچھا بزنس کرتی تھیں۔
ریکارڈز کے مطابق پاکستان کے پہلے سات برسوں میں کل 47 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں صرف 10 پنجابی اور 37 اردو فلمیں تھیں۔ اردو فلموں کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہوتا تھا لیکن یہ فلمیں صرف وسیع بھارتی سرکٹ کے لیے بنائی جاتی تھیں۔
ان فلموں میں سے صرف تین فلمیں ، پھیرے (1949) ، دو آنسو (1950) اور دوپٹہ (1952) ہی سپرہٹ سلورجوبلی ہوئی تھیں۔ بھارتی فلموں کی محدود درآمد کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو سینما گھر ملنا شروع ہوئے تو فلم سسی (1954) پہلی فلم ثابت ہوئی کہ جس نے گولڈن جوبلی (یعنی پچاس ہفتے) چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
بھارت کے ساتھ فلم کے بدلے فلم کے معاہدے کے بعد 1955ء میں پاکستانی فلموں کے عروج کا دور شروع ہوا اور پہلی بار ایک کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ یعنی 19 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں انور کمال پاشا کی دو فلمیں تھیں۔
فلم انتقام (1955) تو ناکام تھی لیکن فلم قاتل (1955) ایک یادگار فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم کی روایتی جوڑی ایک بار پھر صبیحہ اور سنتوش کی تھی۔ اس فلم میں بھی ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں قتیل شفائی کا یہ گیت گا کر اقبال بانو نے میلہ لوٹ لیا تھا "الفت کی نئی منزل کو چلا ، تو ڈال کے بانھیں بانھوں میں ، دل توڑنے والے دیکھ کے چل ، ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔۔"
اس فلم میں پاشا صاحب نے تین بڑے فنکاروں کو متعارف کروایا تھا۔ مسرت نذیر اور اسلم پرویز تو اسی سال صف اول کے اداکار بن گئے تھے لیکن نیرسلطانہ کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی۔
1956ء کا سال انور کمال پاشا کے لیے ایک سنہری سال تھا جب ان کی دونوں فلمیں سرفروش اور چن ماہی (1956) سپرہٹ ہوئی تھیں۔
اردو فلموں میں سرفروش (1956) میں صبیحہ اور سنتوش کے ساتھ مینا شوری بھی تھی جس نے اس فلم کی سپرہٹ کامیابی کے بعد مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اپنے ہندو شوہر ہدایتکار روپ کے شوری (پنجابی فلم چمن (1948) فیم) کو طلاق دی اور دوبارہ اسلام قبول کرلیا تھا۔
اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں زبیدہ خانم کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی "اے چاند ، ان سے جا کر ، میرا سلام کہنا۔۔" ، "میرا نشانہ ، دیکھے زمانہ ، تیر پہ تیر چلاؤں ، بچ کے نہ کوئی جائے۔۔" اور "تیری الفت میں صنم میں دل نے بہت درد سہے اور ہم چپ ہی رہے۔۔"
اس مشہورزمانہ فلم میں معروف ہدایتکار ایس سلیمان نے بھی پاشا صاحب کی شاگردی اختیار کی تھی۔
انور کمال پاشا کی بطور فلمساز اور ہدایتکار پنجابی فلم چن ماہی (1956) بھی ایک شاہکار فلم تھی۔ اس فلم میں اسلم پرویز کے ساتھ پہلی بار اداکارہ بہار کو متعارف کروایا گیا تھا۔ میں نے یہ فلم پہلی بار یہاں ساگا سینما کوپن ہیگن میں دیکھی تھی اور بابا عالم سیاہ پوش کے لکھے ہوئے مکالمے سن کر پرانی پنجابی فلموں سے بڑی گہری دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔
اس فلم کی موسیقی بھی رشیدعطرے صاحب نے مرتب کی تھی اور زبیدہ خانم کے متعدد سپرہٹ گیت تھے جن میں "بندے چاندی دے سونے دی نتھ لے کے ، آجا ہو بیلیا۔۔" ، "نی چٹھیئے سجناں دیئے۔۔" ، "پھیر لیاں چن ماہی اکھیاں ، ڈب گئے آس دے تارے۔۔" اور "ساڈے انگ انگ چہ پیار نے پینگاں پائیاں نیں۔۔" وغیرہ۔
اسی سال کی پنجابی فلم دلابھٹی (1956) کے ہدایتکار معروف ہدایتکار اسلم ڈار کے والد ایم ایس ڈار تھے اور سپروائزر پاشا صاحب تھے۔ یہ پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم تھی جس کی کمائی سے لاہور کا جدید ترین فلمی نگارخانہ ایورنیو سٹوڈیو بنایا گیا تھا۔ اس فلم میں بابا چشتی کی موسیقی میں منور سلطانہ کے لافانی گیت "واسطہ ای رب دا تو جائیں وے کبوترا۔۔" نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔
1957ء میں انور کمال پاشا کی اکلوتی فلم لیلیٰ مجنوں ریلیز ہوئی جو ایورنیو پکچرز کے لیے بنائی گئی ایک ناکام ترین فلم تھی۔
یہ فلم ایوریڈی پکچرز اور ہدایتکار منشی دل کی سپرہٹ نغماتی فلم عشق لیلیٰ (1957) کے مقابلے میں بنائی گئی تھی اور ایک ہی کہانی پر بنی ہوئی یہ دونوں فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئی تھیں۔ صبیحہ اور سنتوش کی تجربہ کار جوڑی کا بہار اور اسلم پرویز کی ناتجربہ کار جوڑی سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ پاشاصاحب کی فلم کے موسیقار رشیدعطرے تھے لیکن ایک بھی مقبول عام گیت کمپوز نہ کر سکے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں ان کے شاگرد موسیقار صفدرحسین نے ڈیڑھ درجن میں سے بیشتر سپرہٹ گیت کمپوز کیے تھے۔
اسی سال پاشا صاحب نے بطور فلمساز اپنے شاگردوں ہدایتکار جعفرملک کے لیے فلم باپ کا گناہ (1957) اور ہدایتکار آغاحسینی کے لیے پنجابی فلم زلفاں (1957) پر سرمایہ کاری بھی کی تھی۔
1958ء میں انور کمال پاشا کی فلم انارکلی ، ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ واحد فلم تھی جس کی موسیقی بڑے اعلیٰ پائے کی تھی۔ "جلتے ہیں ارمان ، میرا دل جلتا ہے ، قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے۔۔" اور "کہاں تک سنو گے ، کہاں تک سناؤں ، ہزاروں ہی شکوے ہیں ، کیا کیا بتاؤں۔۔" وغیرہ امرسنگیت میں شامل ہیں۔رشید عطرے اور ماسٹرعنایت حسین کی موسیقی تھی اور گیت لکھنے والوں میں پاشاصاحب کے والد گرامی بھی شامل تھے۔
سید امتیاز علی تاج کی اس معروف کہانی کا مرکزی کردار خود میڈم نورجہاں نے کیا تھا۔ سدھیر ، شہزادہ سلیم جبکہ ہمالیہ والا ، شہنشاہ اکبر بنے تھے۔ شمیم آرا ، راگنی اور ظریف معاون اداکار تھے۔
اسی سال کی پنجابی فلم شیخ چلی (1958) کے ہدایتکار ان کے شاگرد آصف جاہ اور فلم سولہ آنے (1959) کے ہدایتکار آغاحسینی تھے اور سپروائزر پاشا صاحب تھے۔
انور کمال پاشا کی اگلی دو فلمیں گمراہ (1959) اور وطن (1960) ناکام فلمیں تھیں لیکن فلم محبوب (1962) ایک کامیاب نغماتی فلم تھی جو ایک بھارتی فلم کا چربہ تھی۔ اس فلم میں انھوں نے پہلی بار معروف اداکارہ رانی کو متعارف کروایا تھا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا گیت "نگاہیں ملا کر بدل جانے والے ، مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں۔۔" اور مالا کا پہلا سپرہٹ گیت "سپنوں میں اڑی اڑی جاؤں۔۔" اس فلم کے مقبول ترین گیت تھے۔
ہر عروج کو ایک زوال ہے ، انور کمال پاشا کی بطور ہدایتکار اگلی تمام فلمیں ناکام ہوئیں جن میں سازش (1963) ، سفیدخون (1964) ، ہڈحرام (1965) ، پروہنا (1966) ، خاناں دے خان پروہنے (1974) اور بارڈربلٹ (1983) شامل ہیں۔
اس دوران وہ فلم عشق پر زور نہیں (1963) کے سپروائزر تھے جبکہ فلم پروہنا (1966) میں ایک اور معروف ہدایتکار الطاف حسین ان کے معاون تھے۔
پاشا صاحب نے بطور ہدایتکار کل 21 فلمیں بنائی تھیں۔ 14 فلمیں بطور فلمساز تھیں جن میں مندرجہ بالا فلموں کے علاوہ گل فروش (1961) ، سورج مکھی (1962) ، شیرخان (1981) اور میلہ (1986) تھیں۔ اس کے علاوہ بطور مصنف انھوں نے مندرجہ ذیل فلموں کی کہانیاں ، منظرنامے یا مکالمے لکھے تھے لخت جگر (1956) ، عشق پر زور نہیں (1963) ، شکاری (1964) اور سرحد کی گود میں (1973)
انور کمال پاشا کا اپنی بیگم ، اداکارہ شمیم کے ساتھ پہلا سامنا پاکستان کی دوسری ریلیز شدہ فلم شاہدہ (1949) کے دوران ہوا تھا۔
اس وقت تک شمیم ایک جانا پہچانا نام تھا جو چالیس کی دھائی کی ایک مصروف فلمی ہیروئن تھی۔ پہلی فلم ایماندار (1939) سے تقسیم سے قبل ریلیز ہونے والی آخری فلم سندور (1947) تک اس کے کریڈٹ پر دو درجن کے قریب فلمیں تھیں۔ ان میں دلیپ کمار کی پہلی فلم جوار بھاٹا (1944) کے علاوہ پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار اے شاہ کی مشہور فلم مسٹر شکارپوری (1947) بھی تھی جس کی وہ مرکزی ہیروئن تھی۔
قیام پاکستان کے بعد شمیم نے صرف سات فلموں میں کام کیا جن میں سے چار فلموں میں فرسٹ ہیروئن تھی۔ مزے کی بات ہے کہ ان میں سے صرف ایک ہی فلم تھی جو پاشا صاحب کی نہیں تھی۔ وہ اکلوتی فلم ہدایتکار اسلم ایرانی کی تڑپ (1953) تھی جس میں شمیم کا ثانوی رول تھا۔ پاکستان کی دوسری ریلیز ہونے والی فلم شاہدہ (1949) میں شمیم ، دلیپ کمار کے بھائی اداکار ناصرخان کے ساتھ ہیروئن تھی۔ اس فلم میں جو پہلا پاکستانی فلموں کا مکالمہ ریکارڈ ہوا "اللہ ، میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔۔" ، وہ ، شمیم ہی کا ادا کیا ہوا تھا۔ پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) کی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی شمیم کو حاصل ہوا۔ کل دو پنجابی فلموں میں سے پہلی فلم گبھرو (1950) میں سنتوش اور دوسری فلم دلبر (1951) میں انور کمال پاشا ، شمیم کے ہیرو تھے۔ غلام (1953) اور رات کی بات (1954) میں شمیم ، معاون اداکارہ تھی۔ اداکارہ شمیم ، عمر میں اپنے شوہر انور کمال پاشا سے پانچ سال بڑی تھی۔ 1984ء میں انتقال ہوا۔انور کمال پاشا کا انتقال 1987ء میں ہوا تھا۔ ان کے ایک بیٹے محمدکمال پاشا بھی ایک معروف کہانی نویس ہیں۔
1 | فلم ... پروہنا ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: نذیر بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: سیف چغتائی ... شاعر: یوسف موج ... اداکار: شیریں ، ضیاء |
2 | فلم ... خاناں دے خان پروہنے ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: اخترحسین ... شاعر: ؟ ... اداکار: ؟؟ |
1. | 1966: Prohna(Punjabi) |
2. | 1974: Khana day Khan Prohnay(Punjabi) |
1. | Punjabi filmProhnafrom Friday, 26 August 1966Singer(s): Nazir Begum, Masood Rana, Music: Saif Chughtai, Poet: , Actor(s): Shirin, Zia |
2. | Punjabi filmKhana day Khan Prohnayfrom Friday, 8 November 1974Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Akhtar Hussain Akhian, Poet: , Actor(s): ? |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.