A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار افتخارخان کے کریڈٹ پر متعدد بڑی بڑی فلمیں تھیں۔۔!
انھیں بڑے فنکاروں سے بڑا کام لینے میں بڑی مہارت حاصل تھی جس کی وجہ دو بڑے ہدایتکاروں ، حسن طارق اور ایم جے رانا کی شاگردی تھی۔ وہ ایک بہت بڑی فلم مولا جٹ (1979) کے ایک بڑے ہدایتکار یونس ملک کے استاد بھی تھے۔۔!
ڈیڑھ درجن فلموں کے ہدایتکار افتخارخان نے اپنے فلمی سفر کا آغاز 1965ء کی تین بڑی فلموں میں بڑے بڑے فنکاروں کی موجودگی سے کیا تھا۔
عظیم ہدایتکار حسن طارق کے معاون کے طور پر ان کی پہلی سپرہٹ فلم پھنے خان (1965) تھی جس کے ٹائٹل رول میں علاؤالدین کو بڑی عوامی پذیرائی ملی تھی۔ اس فلم میں سدھیر اور مظہرشاہ جیسے بڑے بڑے نام بھی موجود تھے۔
اسی سال کی ایک اور بہت بڑی فلم کنیز (1965) میں بھی افتخارخان ، حسن طارق کے معاون تھے۔ یہ ایک ملٹی کاسٹ فلم تھی جو اردو فلموں کے تین بڑے ہیروز ، سنتوش ، محمدعلی اور وحیدمراد کی واحد مشترکہ فلم تھی۔ اس فلم میں صبیحہ خانم ، طالش اور زیبا جیسے بڑے بڑے فنکار بھی شامل تھے۔
اسی سال ایک اور عظیم ہدایتکار ایم جے رانا کی پنجابی فلم من موجی (1965) میں بھی افتخارخان ، معاون ہدایتکار تھے۔ اس فلم میں پنجابی فلموں کے وقت کے دونوں بڑے سپرسٹارز ، سدھیر اور اکمل ، اپنے عروج کے دور میں ایک ساتھ دیکھے گئے تھے جبکہ اس فلم میں مظہرشاہ جیسا بڑا ولن ان دونوں بڑوں کے مقابلے میں اکیلا ہی کافی تھا۔
بطور مکمل ہدایتکار ، افتخارخان کی پہلی بڑی فلم جگری یار (1967) تھی جس کے پیش کار ان کے استاد حسن طارق تھے۔ یہ اپنے وقت کی ایک بھاری بھر کم ملٹی کاسٹ ، بامقصد اور تفریحی فلم تھی۔
علاؤالدین اس دور کے انتہائی مقبول اداکار تھے ، اس فلم میں انھوں نے ساون کے ساتھ ٹائٹل رول کیا تھا۔ نغمہ ، اکمل اور مظہرشاہ کے ساتھ زینت اور مینا شوری بھی اس کہانی کے اہم کردار تھے۔
حزیں قادری کی یاری دوستی کے موضوع پر لکھی ہوئی قابل تعریف کہانی اور گیتوں کے علاوہ موسیقی بابا چشتی کی تھی۔ فلم کا سب سے سپرہٹ اور لازوال گیت مسعودرانا صاحب کا گایا ہوا تھا
اس گیت کے ریکارڈنگ اور فلم ورژن میں واضح فرق تھا اور اس ایک گیت میں پوری فلم کی کہانی مل جاتی ہے۔
میری یادداشت میں محفوظ یہ گیت جب کبھی ریڈیو پر بجتا تھا تو سامعین دم بخود ہو کر سنتے تھے اور جب گیت ختم ہوتا تھا تو ہمیشہ سننے کو ملتا تھا کہ کیا آواز ہے۔۔؟
لندن کے ایک انڈین ریڈیو سن رائز پر پنجابی فلمی گیتوں کے ایک پروگرام میں ہمیشہ پہلے محمدرفیع اور پھر مسعودرانا کا ایک گیت ہوتا تھا اور زیادہ تر یہی گیت سننے کو ملتا تھا۔
مسعودرانا کا ایک دلکش رومانٹک گیت بھی اس فلم میں تھا
اسی فلم میں احمدرشدی کا ایک مزاحیہ گیت بھی تھا جو منورظریف اپنے باپ رنگیلا کے لیے گاتے ہیں
افتخارخان کی دوسری بڑی فلم سجناں دور دیا (1970) تھی۔ یہ اپنے دور کی ایک بہت بڑی نغماتی ، ڈرامائی اور اصلاحی فلم تھی جو سوتن کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔
صبیحہ خانم نے ایک نیک سیرت خاتون کا رول کیا تھا جبکہ نبیلہ ایک حاسد اور فسادی عورت کے روپ میں تھی۔
اس فلم کی کئی ایک خوبیاں تھیں جن میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اڑھائی سو سے زائد فلموں کے گیت اور ڈیڑھ سو سے زائد فلموں کے عظیم مصنف حزیں قادری کی بطور فلمساز اکلوتی فلم تھی جو انھوں نے بطور خاص موسیقار نذیرعلی کے لیے "اظہار ندامت" کے طور پر بنائی تھی۔
حزیں قادری نے فلم جنٹرمین (1969) کے ایک گیت "ساتھوں کاہنوں پھیریاں نی اکھیاں وے بابو آ۔۔" لکھتے وقت نذیرعلی کی توہین کی تھی کہ اس گیت کی دھن بابا چشتی کے سوا کوئی دوسرا موسیقار نہیں بنا سکتا۔
نذیرعلی نے اسے ایک چیلنج سمجھا اور ایسی دھن بنائی کہ خود حزیں قادری بھی انگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ اپنے اس سلوک کی تلافی کرتے ہوئے انھوں نے اس فلم میں پہلی اور آخری بار سرمایہ کاری کی اور نذیرعلی کو موسیقار لے کر انھیں فری ہینڈ دیا جس پر وہ سو فیصدی پورا اترے اور بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔
اس فلم کی دوسری خوبی یہ تھی کہ یہ اردو فلموں کی مقبول ہیروئن دیبا کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ دیبا ، ایک آل راؤنڈ اداکارہ تھی ، اس فلم میں اس نے اپنے شوخ کردار میں بہت اچھی پرفامنس کا مظاہرہ کیا تھا ، خاص طور پر اس پر فلمائے ہوئے اس سپرہٹ گیت نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے
ملکہ ترنم نورجہاں نے اس گیت کو اتنے کمال کا گایا تھا کہ بیشتر لوگ اس گیت کو سننے اور دیکھنے کے لیے بار بار فلم دیکھتے تھے اور ہر طرف اس گیت کی گونج ہوتی تھی۔
اس فلم میں موسیقار نذیرعلی کی دھنوں میں میڈم نورجہاں کے دیگر گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں
یہ آخری تھیم سانگ تین الگ الگ گیتوں پر مشتمل تھا جس میں سے دو سنجیدہ گیت ، صبیحہ خانم پر فلمائے گئے تھے جبکہ ایک شوخ انداز میں فردوس پر فلمایا گیا تھا جو اعجاز کے ساتھ فرسٹ ہیروئن تھی۔
دیبا کی جوڑی کیفی کے ساتھ تھی۔ منورظریف کی کامیڈی اور اپنا گایا ہوا ایک گیت "بھُلیا میں بھُلیا۔۔" بھی دو بیویوں کے بارے میں ہی تھا۔
فلم سجناں دور دیا (1970) اتنی بڑی فلم تھی کہ میرے ذہن پر نقش ہے کہ میرے آبائی شہر کھاریاں کے قیصر سینما کا فلمی اشتہار ہر ہفتے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں شائع ہوتا تھا۔ فلم یار تے پیار (1970) کے اشتہار کے نیچے پہلی بار یہ لکھا ہوا نظر آیا کہ "آئیندہ پروگرام" ، سجناں دور دیا (1970) ہو گی لیکن متعدد ایسے اشتہارات کے بعد بھی ایسا نہ ہو سکا تھا۔
ایک دن میں فلم دیکھنے گیا تو لوگوں کا ہجوم سینما منیجر کے دفتر کے سامنے جمع تھا۔ لوگ اس غلط بیانی پر احتجاج کر رہے تھے کہ وعدوں کے باوجود یہ فلم کیوں نہیں آرہی۔ مینجر ، لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ
"ہمیں یہ فلم نہیں مل رہی کیونکہ سرکٹ میں اس کی بکنگ اتنی زیادہ ہے کہ ہماری باری ہی نہیں آرہی۔۔"
اس وقت مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں تھی کہ یہ سرکٹ ورکٹ کیا بلا ہیں۔ جب اسی کے عشرہ میں پہلی بار یہ فلم وی سی آر پر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ کیوں یہ فلم اتنی مقبول تھی۔
اس فلم کو دیکھنے کے لیے میرے اپنے جنون کا یہ عالم تھا کہ ویڈیو شاپ پر تین پرانی فلمیں ، مکھڑا چن ورگا (1969) اور ماں پتر (1970) کے علاوہ یہ فلم یعنی سجناں دور دیا (1970) آئیں۔ اپنے وقت کی یہ تینوں سپرہٹ فلمیں میں پہلے نہیں دیکھ سکا تھا۔ اتفاق سے اس دن میرا وی سی آر سیٹ مرمت کے لیے گیا ہوا تھا لیکن مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کسی سے ادھار لے کر یہ تینوں سپرہٹ فلمیں ایک ہی نشست میں دیکھ ڈالی تھیں۔
ہدایتکار افتخارخان کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ جب اردو فلموں کے عظیم رومانٹک ہیرو وحیدمراد نے بطور فلمساز اور ہیرو اپنی پہلی پنجابی فلم مستانہ ماہی (1971) بنانے کا اعلان کیا تو ہدایتکار کے لیے ان کی نظر انتخاب افتخارخان پر پڑی تھی۔
وحیدمراد نے اس فلم میں ڈبل رول کیا تھا اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ نغمہ اور عالیہ اس فلم کی ہیروئنیں تھیں جبکہ مین کامیڈین کے طور پر منورظریف پر خلیفہ نذیر کو ترجیح دی گئی تھی۔
یہ ایک سپرہٹ فلم تھی لیکن وحیدمراد کبھی بھی پنجابی فلموں کی ضرورت نہیں بن سکے تھے۔
ملکہ ترنم نورجہاں کا مشہور زمانہ گیت
اس فلم کی جملہ خوبیوں پر بھاری ثابت ہوا تھا۔
حزیں قادری کے لکھے ہوئے اور موسیقار نذیرعلی کی سدابہار دھن میں اس گیت سے یہ تلخ یاد بھی وابستہ ہے کہ پچاس سال قبل سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران ہمارا انتہائی بدکردار اور عیاش حکمران جنرل یحییٰ خان اس گیت کی وجہ سے میڈم نورجہاں پر عاشق ہوگیا تھا اور اس گیت اور "اپنی" روایتی دھن میں مست ملنگ ہو کر قصر صدارت میں اپنے حرم کے باہر شدید سردی میں بھی الف للہ ننگا ہوکر گھومتا پھرتا ہوا نظر آتا تھا۔
فلم مستانہ ماہی (1971) کا ایک ریکارڈ یہ بھی تھا کہ اس فلم میں پہلی بار فلم مولاجٹ فیم یونس ملک ، افتخارخان کے معاون ہدایتکار یا شاگرد کے طور پر سامنے آئے تھے اور اس کے بعد ان کی تقریباً سبھی فلموں میں ان کے ساتھ رہے تھے۔ ان فلموں میں سیونی میرا ماہی (1974) بھی تھی جس میں وحیدمراد ایک بار پھر ہیرو تھے لیکن یہ فلم ناکام رہی تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا یہ گیت بڑے کمال کا تھا
یہ گیت بھی حزیں قادری کا لکھا ہوا اور نذیرعلی کا کمپوز کیا ہوا تھا۔
وحیدمراد نے جب بطور فلمساز اپنی زندگی میں ریلیز ہونے والی آخری فلم جال (1973) بنائی تو اس اردو فلم کے لیے بھی انھوں نے افتخارخان کو بطور ہدایتکار منتخب کیا تھا۔
اس رومانٹک فلم نے کراچی میں سلورجوبلی کی تھی لیکن ستر کے عشرہ میں جو اردو فلم کراچی میں صرف سلورجوبلی کرتی تھی وہ عام طور پر ایک ناکام یا زیادہ سے زیادہ ایک اوسط درجہ کی فلم ہوتی تھی۔
اس فلم سے راولپنڈی کے موتی محل سینما کا افتتاح ہوا تھا جہاں یہ فلم صرف تین ہفتے چل سکی تھی۔ راولپنڈی میں عام طور پر ایک ہی سینما میں فلم ریلیز ہوتی تھی اور جو فلم پانچ ، چھ ہفتے چلتی تھی وہ کامیاب فلم شمار ہوتی تھی۔
اس فلم کا سب سے سریلا گیت احمدرشدی اور رونالیلیٰ کا آوازوں میں تھا
یہ بڑے کمال کا گیت تھا جس کی دھن بھی نذیرعلی کی بنائی ہوئی تھی اور بول شاید مسرورانور کے تھے۔
اس فلم کی ناکامی کے بعد وحیدمراد کا زوال شروع ہوگیا تھا اور وہ فلموں میں اپنی بقاء کے لیے اپنے دیرینہ حریف محمدعلی کے ساتھ کاسٹ ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔
ہدایتکار افتخارخان کی ایک اور بہت بڑی فلم جیرابلیڈ (1973) بھی تھی جو بطور ہیرو اور ٹائٹل رول کے منورظریف کی پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ ایک جیب کترے کے کردار میں منورظریف نے حقیقت کا رنگ بھردیا تھا اور ان پر فلمایا ہوا مسعودرانا کا یہ گیت
فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا تھا۔
یاد رہے کہ اسی فلم کی بنیاد پر منورظریف کے بیٹے فیصل منورظریف کی بھی ایک فلم تھی پتر جیرے بلیڈ دا (1994) اور اس فلم کا تھیم سانگ بھی مسعودرانا نے گایا تھا
باپ بیٹوں کے لیے نغمہ سرائی کا یہ مسعودرانا صاحب کا پانچواں موقع تھا۔۔!
فلم جیرابلیڈ (1973) کا ایک کورس گیت پوری فلم کا خلاصہ بیان کرتا ہے۔ مالا کہتی ہے
مسعودرانا کا جواب ہوتا ہے
(ترجمہ: یہ چور ہے ، اسے پکڑ لو ، جانے نہ پائے۔۔ مجھے وہ پکڑے جو خود چور نہیں ، ہم اور آپ ، سبھی لٹیرے ہیں یعنی چور مچائے شور۔۔!) ۔۔ اور یہی پاکستان کی تاریخ کا مکمل خلاصہ بھی ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے پر مصنف حزیں قادری کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے ، کم ہے۔
افتخارخان کی ایک فلم اج دی تازہ خبر (1976) بھی تھی جس کے فلمساز کے طور پر درپن اور نیرسلطانہ کے بچوں کے نام آتے ہیں۔ اس فلم میں انھوں نے اداکار منصور کو متعارف کرایا تھا جو سنتوش ، درپن اور ایس سلیمان کے بعد چوتھے بھائی تھے لیکن فلموں میں گمنام رہے تھے۔ اس فلم کے مہمان اداکاروں میں خود افتخارخان کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے بطور فلمساز واحد فلم چاندنی (1985) بنائی تھی۔ ان کی آخری فلم فلمساز سرور بھٹی کی حق مہر (1985) تھی جو ناکام رہی تھی۔
1 | فلم ... جگری یار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ، تھیم سانگ ، علاؤالدین ، ساون) |
2 | فلم ... جگری یار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اکمل |
3 | فلم ... چالباز ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: شیریں ، علاؤالدین |
4 | فلم ... چالباز ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، احمد رشدی ... موسیقی: سلیم اقبال ... شاعر: ؟ ... اداکار: ؟ |
5 | فلم ... عشق بناکی جینا ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف ، امداد حسین مع ساتھی |
6 | فلم ... جیرا بلیڈ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف |
7 | فلم ... جیرا بلیڈ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف مع ساتھی |
8 | فلم ... جیرا بلیڈ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: صاعقہ ، منور ظریف |
9 | فلم ... جیرا بلیڈ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: ؟ ، منور ظریف مع ساتھی |
10 | فلم ... جیرا بلیڈ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ) |
11 | فلم ... سیو نی میرا ماہی ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ، وحید مراد) |
12 | فلم ... سیو نی میرا ماہی ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: وحید مراد |
1. | 1967: Jigri Yaar(Punjabi) |
2. | 1968: Chalbaz(Punjabi) |
3. | 1971: Ishq Bina Ki Jeena(Punjabi) |
4. | 1973: Jeera Blade(Punjabi) |
5. | 1974: Sayyo Ni Mera Mahi(Punjabi) |
1. | Punjabi filmJigri Yaarfrom Thursday, 12 January 1967Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Akmal |
2. | Punjabi filmJigri Yaarfrom Thursday, 12 January 1967Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Playback, themesong - Allauddin, Sawan) |
3. | Punjabi filmChalbazfrom Friday, 4 October 1968Singer(s): Ahmad Rushdi, Masood Rana, Music: Saleem Iqbal, Poet: , Actor(s): Rangeela, Munawar Zarif |
4. | Punjabi filmChalbazfrom Friday, 4 October 1968Singer(s): Masood Rana, Mala & Co., Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): ???, Saba, Imdad Hussain & Co. |
5. | Punjabi filmIshq Bina Ki Jeenafrom Friday, 1 October 1971Singer(s): Masood Rana, ? ? & Co., Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif, Imdad Hussain & Co. |
6. | Punjabi filmJeera Bladefrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Mala, Masood Rana & Co., Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): ?, Munawar Zarif |
7. | Punjabi filmJeera Bladefrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif & Co. |
8. | Punjabi filmJeera Bladefrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
9. | Punjabi filmJeera Bladefrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): (Playback) |
10. | Punjabi filmJeera Bladefrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Saiqa, Munawar Zarif |
11. | Punjabi filmSayyo Ni Mera Mahifrom Friday, 31 May 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): (Playback - Waheed Murad) |
12. | Punjabi filmSayyo Ni Mera Mahifrom Friday, 31 May 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Waheed Murad |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.