A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار ایم ایس ڈار ، بنیادی طور پر ایک فلمی صحافی تھے جو تقسیم سے قبل چالیس کی دھائی میں لاہور سے شائع ہونے والے دو فلمی جریدوں کے ایڈیٹر تھے۔ اسی حیثیت سے ان کی فلمی شخصیات سے راہ و رسم بڑھی اور انھیں فلم بنانے کا شوق پیدا ہوا۔
ان کی یہ خواہش قیام پاکستان کے بعد پوری ہوئی جب اداکار ایس گل نے انھیں ، اپنی فلم کندن (1950) کی ڈائریکشن سونپی۔ اس ناکام فلم کے فلمساز کے طور پر خادم محی الدین کا نام دیا گیا جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے مصنف تھے۔ فلم کندن (1950) کی ہیروئن راگنی تھی جو گل صاحب کی بیوی اور چالیس کی دھائی کی مقبول ترین اداکارہ تھی لیکن پاکستان میں بطور ہیروئن کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
اپنے پہلے ناکام تجربے کے بعد ایم ایس ڈار نے وقت کے کامیاب ترین ہدایتکار انور کمال پاشا کی شاگردی اختیارکی اور ان کی سپرہٹ فلم گمنام (1954) کے پروڈکشن کنٹرولربنے۔
یہ اپنے وقت کی بہت بڑی فلم تھی اور پاشا صاحب کی ذاتی پسندیدہ فلم بھی تھی۔ ایورنیو سٹوڈیوز کے مالک آغا جی اے گل کی یہ پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ کہانی حکیم احمد شجاع نے لکھی تھی جو پاشا صاحب کے والدگرامی تھے۔
پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے بہترین اداکارہ ، صبیحہ خانم نے اس فلم میں ایک پگلی کا رول کیا تھا جس پر ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سیف الدین سیف کا لکھا ہوا یہ شاہکار گیت فلمایا گیا تھا:
اقبال بانوکی گائیکی لاجواب تھی۔
پاکستان کے پہلے سپرسٹار فلمی ہیرو سدھیر نے اس فلم میں ایک مفرور قاتل کا رول بڑی عمدگی سے کیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی تکمیل میں جن فنکاروں نے حصہ لیا ، وہ بعد میں بڑے فلمی نام بنے۔ ان میں ایک اداکار اکمل تھے جو میک اپ مین تھے اور اس فلم میں انھوں نے چھوٹا سا ایک رول بھی کیا تھا ۔
ان کے علاوہ ایم ایس ڈار کے اپنے بیٹے اسلم ڈار ، عکاس جعفربخاری اور اے حمید کے معاون تھے ، ان کے ساتھ معروف عکاس ، نسیم حسین اور رشید لودھی بھی سیکھنے والوں میں سے تھے۔ معروف ہدایتکار ایم اکرم ، فلم ایڈیٹر تھے جبکہ جعفرملک اور آغا حسینی معاون ہدایتکار تھے۔ موسیقی کے شعبے میں ماسٹر عاشق حسین ، معاون تھے جبکہ پچاس کی دھائی کی ایک مقبول گلوکارہ کوثرپروین کی یہ پہلی فلم تھی۔
ایم ایس ڈار کی دوسری فلم دُلابھٹی (1956) ، پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم ثابت ہوئی تھی۔ روایت ہے کہ اس فلم کی کمائی سے پاکستان کا جدید ترین فلمی نگارخانہ ، ایورنیو سٹوڈیو بنایا گیا تھا۔
پچاس کی دھائی کی فلمیں جو بزنس کرتی تھیں ، ان کا مقابلہ بعد کی فلموں سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایک بڑی وجہ تو یہ حقیقت ہے کہ ان فلموں کی کمائی سے جو سرمایہ کاری ہوئی ، وہ پھر کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آئی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ فلمیں ، بھارتی فلموں کی موجودگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرتی تھیں اور بھارت میں بھی چلتی تھیں۔ خصوصاً پاکستانی پنجابی فلمیں ، بھارتی پنجاب میں بڑا بزنس کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے اس وقت کی ایک سلورجوبلی فلم ، ستر اسی کی دھائیوں کی گولڈن جوبلی فلم پر بھاری ہوتی تھی جبکہ گولڈن جوبلی فلم تو ڈائمنڈ جوبلی فلموں سے بھی زیادہ کامیاب ہوتی تھی۔
اس دور کی فلموں کے بزنس کا ریکارڈ ٹوٹنا بھی ممکن نہیں۔ مثلاً ایک فلم یکے والی (1957) ، ایک لاکھ روپے کی لاگت سے بنی اور اس نے 45 لاکھ روپے کمائے تھے جو آج کے حساب سے ڈیڑھ ارب روپے سے بڑی رقم بنتی ہے۔ اس فلم کے بزنس کا ریکارڈ تبھی ٹوٹ سکتا ہے جب آج کے دور میں ایک فلم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے بنے اور 45 کروڑ روپے سے زائد کمائے۔ فلموں پر اب لاگت بھی بہت زیادہ ہے اور فلمی کلچر بھی ختم ہوچکا ہے ، ایسے میں ماضی کے وہ بزنس ریکارڈز ناقابل شکست رہیں گے۔
پنجاب کی اس مشہور زمانہ لوک داستان دُلابھٹی (1956) کا ٹائٹل رول سدھیر نے کیا تھا۔ ہیروئن صبیحہ خانم تھی جو دُلا کی محبوبہ 'نوراں' کے کردار میں تھی جبکہ علاؤالدین نے دُلا کے بھائی نما دوست 'حیدری' کا رول کیا تھا۔
محبت کی تکون کی یہ داستان بہت سی فلموں میں فلمائی گئی ہے اور زیادہ تر لوک کہانیاں اسی نوعیت کی ہوتی تھیں۔
اس فلم کی ہائی لائٹ اس کا یہ سپرہٹ گیت تھا:
طفیل ہوشیارپوری کا لکھا ہوا یہ گیت بابا جی اے چشتی کی دھن میں منورسلطانہ نے گایا تھا اور ایک سٹریٹ سانگ ثابت ہوا تھا۔
اس فلم کی ایک اور خاص بات اس کا مزاحیہ حصہ تھا جو آشا پوسلے ، آصف جاہ اور شیخ اقبال پر مشتمل تھا۔ یہ اتنے کمال کا تھا کہ بہت سی فلموں میں اسے کاپی کیا گیا تھا ، لیکن اصل کی نقل نہ بن سکی تھی۔ اس فلم کے سپروائزر انور کمال پاشا تھے جبکہ اسلم ڈار معاون عکاس تھے۔
تقسیم سے قبل بھی لاہور ہی میں فلم دُلا بھٹی (1940) بنائی گئی تھی جو ایک سپرہٹ فلم تھی۔
لاہور کے شوری سٹوڈیو (جو شاہ نورسٹوڈیو بنا) کے مالک اور نامور فلمساز اور ہدایتکار ، روپ کے شوری کے باپ لال کے شوری ، ہدایتکار تھے۔ اس فلم کا ٹائٹل رول ، ایم ڈی کنور نامی اداکار نے کیا تھا جبکہ ہیروئن راگنی تھی جس کی یہ پہلی فلم تھی۔
راگنی ، اپنی خوبصورت آنکھوں کی وجہ سے ' آہو چشم' کہلاتی تھی اور چالیس کی دھائی کی مقبول اور مصروف اداکار تھی۔ اس نے قیام پاکستان سے قبل لاہور کی بیشتر پنجابی فلموں میں ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا جبکہ بمبئی کی دو بڑی فلموں ، نیک پروین اور شاہ جہاں (1946) کی مرکزی ہیروئن بھی تھی۔
دُلابھٹی کے موضوع پر پاکستان میں اب تک تین فلمیں بنی ہیں۔ ایم ایس ڈار کی فلم دُلابھٹی (1956) کے بعد فلمساز اور اداکار اعجاز نے بھی فلم دُلا حیدری (1969) بنائی تھی جس کے ٹائٹل رول میں ان کے علاوہ اقبال حسن بھی تھے جبکہ ہیروئن فردوس تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا یہ گیت:
بڑا مشہور ہوا تھا۔
تیسری اور آخری فلم بھی دلا بھٹی (1984) کے نام سے بنی تھی جس میں یوسف خان نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ انجمن اور مصطفیٰ قریشی دیگر اہم کرداروں میں تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم کے فلمساز بھی آغا جی اے گل تھے اور ہدایتکار وحیدڈار تھے جو ایم ایس ڈار کے صاحبزادے تھے۔
ہدایتکار ایم ایس ڈار کی تیسری فلم سردار (1957) تھی۔ صبیحہ اور سنتوش کی کلاسک جوڑی مرکزی کرداروں میں تھی۔
اس کامیاب فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے سکرین پلے لکھنے اور معاون ہدایتکار کے طور پر خلیل قیصر جیسے لیجنڈ کا نام آتا ہے۔ راجہ حفیظ بھی معاون ہدایتکار تھے جن کے کریڈٹ پر ہمراہی (1966) جیسی شاہکار نغماتی فلم تھی۔
ڈار صاحب کی اگلی فلم سلطنت (1960) کی ٹیم بھی ایسی ہی تھی۔ اس کامیاب فلم میں بابا چشتی کی موسیقی میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا یہ رزمیہ ترانہ بڑا مشہور ہوا تھا:
عنایت حسین بھٹی ، آئرن پروین اور ساتھیوں کی آوازیں تھیں۔
ڈار صاحب کی اگلی فلم سمیرا (1963) کا ٹائٹل رول زیبا نے کیا تھاتھا جو پہلی اور آخری بار رتن کمار کے ساتھ ہیروئن آئی تھی جو اس فلم کے فلمساز بھی تھے۔ اسلم ڈار کی کہانی اور عکاسی تھی جب کہ ان کے ایک اور بھائی سعید ڈار معاون کیمرہ مین تھے۔ یہ ایک ناکام فلم تھی۔
ایم ایس ڈار صاحب کی آخری فلم لارالپا (1970) بھی ایک ناکام فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس پنجابی فلم میں اعجاز کے مقابل ایک غیر معروف اداکارہ فرزانہ کو ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کی سیکنڈ جوڑی ناصرہ اور مظہرشاہ کی تھی جن پر مالا اور مسعودرانا کا یہ خوبصورت رومانٹک گیت فلمایا گیا تھا:
اسی فلم میں مسعودرانا کا گایا ہوا ایک اور بامقصد گیت انسانی جذبات و احساسات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے:
حزیں قادری کے بول اور ماسٹررفیق علی کی موسیقی تھی۔
یہ اکلوتی فلم تھی جس میں مسعودرانا نے ایم ایس ڈار کی کسی فلم کے لیے نغمہ سرائی کی تھی۔ مزے کی بات ہے کہ ان کے دونوں ہدایتکار بیٹوں ، اسلم ڈار اور وحیدڈار کی فلموں میں بھی مسعودرانا نے گیت گائے تھے ۔
اس سے قبل وہ شباب کیرانوی اور ان کے دونوں بیٹوں ظفرشباب اور نذرشباب کی فلموں کے لیے بھی اپنی آواز کا جادو جگا چکے تھے۔
ایم ایس ڈار کا اصل نام محمدشفیع ڈار تھا اور 1983ء میں انتقال ہوا تھا۔
1 | فلم ... لارالپا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر رفیق علی ... شاعر: طفیل ہوشیارپوری ... اداکار: ناصرہ ، مظہر شاہ |
2 | فلم ... لارالپا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر رفیق علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف |
1. | Punjabi filmLaralappafrom Friday, 10 April 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Rafiq Ali, Poet: , Actor(s): Nasira, Mazhar Shah |
2. | Punjabi filmLaralappafrom Friday, 10 April 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Master Rafiq Ali, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.