A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ایکشن پنجابی فلموں کے مشہورزمانہ کردار "مولاجٹ" کو اپنے کرخت اور وحشت ناک حلیے اور سفاک "گنڈاسے" کے ساتھ پہلی بار فلم وحشی جٹ (1975) میں متعارف کروایا گیا تھا۔۔!
عام طور پر میری طرح کے بہت سے لوگ ایسی پرتشدد فلموں کا نام سن کر بدکتے ہیں اور ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔ انھیں کسی جاہل ، اجڈ اور غیرمہذب شخص کی کارستانی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بیشتر فلم بینوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہوگا کہ ان پرتشدد فلموں کا آئیڈیا ، اردو ادب کے ایک بہت بڑے اور محترم نام جناب احمدندیم قاسمی کے ایک افسانے سے ملا تھا اور اسے فلمی شکل دینے کا "کارنامہ" سر انجام دینے والے ہدایتکار حسن عسکری تھے جو خود ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، مہذب اور انتہائی سلجھے ہوئے فنکار تھے اور جن کے کریڈٹ پر سلاخیں (1977) ، دوریاں (1984) اور تیرے پیار میں (2000) جیسی شاہکار فلمیں بھی تھیں۔ وہ عرصہ پانچ سال تک یونیورسٹی میں فنون لطیفہ پڑھاتے رہے تھے اور افسانہ نگاری سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔
کالج کے زمانے سے ہی انھیں فلمی دنیا سے گہری دلچسپی تھی۔ اس دوران متعدد فلم کمپنیوں کی بلا معاوضہ خدمات بھی سر انجام دیں۔ ماسٹرز کی ڈگری لے رہے تھے کہ اس دوران ان کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ایک فلم کے معاون ہدایتکار بننے کا موقع ملا۔ ہدایتکار کیفی اپنی دوسری فلم چن مکھناں (1968) بنارہے تھے اور انھیں کوئی اسسٹنٹ نہیں مل رہا تھا۔ حسن عسکری نے موقع غنیمت جانا اور اپنی خدمات پیش کردیں۔
اس کامیاب فلم کی تکمیل کے دوران انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، خاص طور پر لالہ سدھیر نے خوب رہنمائی کی تھی جو ان کے بڑے کام آئی۔ کیفی صاحب نے جب اپنی اگلی فلم سجن پیارا (1968) میں خود کو ہیرو کے طور پر پیش کیا تو حسن عسکری کی ذمہ داریاں دوچند ہوگئی تھیں ، یہ فلم بھی سپرہٹ رہی تھی۔ ہدایتکار وحیدڈار کی مشہورزمانہ فلم ماں پتر (1970) میں بھی حسن عسکری کانام معاون ہدایتکار کے طور پر موجود تھا۔ ہدایتکار عبید قادری کی فلم میرا بابل (1972) کی شوٹنگ کے دوران بطور مکمل ہدایتکار انھیں اپنی پہلی فلم مل گئی تھی۔
ہدایتکار حسن عسکری کی پہلی فلم خون پسینہ (1972) ایک انتہائی بامقصد اور شاہکار فلم تھی جس میں غریب کسانوں کےروایتی استحصال کی منظرکشی کی گئی تھی۔ مرکزی کردار پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے کیا تھا اور کیا خوب کیا تھا۔ ساتھی اداکاروں میں رخسانہ ، اجمل اور طالش کی کردارنگاری متاثرکن تھی۔ فردوس ،محض خانہ پری کے لیے تھی۔ ولن کے کرداروں میں مظہرشاہ کے علاوہ سلطان راہی بھی تھے جنھوں نے اس خوف سے پہلے یہ کہہ کر اس فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا کہ کہیں عسکری صاحب ، اپنی پہلی فلم میں میرے کیرئر کو تباہ ہی نہ کردیں لیکن سدھیر کے کہنے پر کام کرنے کی حامی بھرلی تھی اور ایک بھرپور ولن کا رول کیا تھا۔
فلم خون پسینہ (1972) کی انتہائی بامقصد کہانی اور جاندار مکالمے حزیں قادری جیسے نابغہ روزگار فنکار کے لکھے ہوئے تھے جن کا لکھا ہوا ایک متاثرکن گیت رونا لیلیٰ کی پرسوز آواز میں سننے کو ملتا ہے "اک بہن دی دعا ، شالا سن لے خدا۔۔" ، بابا چشتی کی دھن تھی۔
یہی اکلوتی پنجابی فلم تھی جس میں اردو فلموں کے ممتاز گلوکار احمدرشدی نے چند بول اونچی سروں میں گانے کی کوشش کی تھی "جناں چر دھرتی تھلے اسمان اے ، ایناں چر رکنے نئیں ہل کسان دے۔۔" یہ بول سدھیر پر فلمائے گئے تھے۔
لطف کی بات ہے کہ پنجابی فلموں کے عروج کے اس دور میں یہ ان گنی چنی فلموں میں سے ایک ہے جس میں میڈم نورجہاں کا کوئی گیت نہیں تھا۔ اسکی وجہ فردوس تھی جس پر میڈم کا کوئی گیت فلمانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ اس کا اس وقت میڈم کے شوہرنامدار اعجاز کے ساتھ معاشقہ چل رہا تھا۔ عسکری صاحب اور دیگر ساتھی فنکار بھی فردوس کے طرزعمل سے بڑے تنگ آئے ہوئے تھے کیونکہ وہ وقت پر شوٹنگ پر نہیں آتی تھی۔
حسن عسکری نے اپنی دوسری فلم سردھڑ دی بازی (1972) میں سلطان راہی کو مرکزی کردار میں پیش کیا تھا۔ گو اس فلم میں اقبال حسن ، فرسٹ اور شاہد ، سیکنڈہیرو تھے لیکن تھرڈ ہیرو ہوکر بھی سلطان راہی پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔
اداکار ساون اس وقت بام عروج پر تھے لیکن سلطان راہی سے خاصے بدظن اور حسن عسکری پر خفا رہتے تھے کہ ان کے مقابلے میں سلطان راہی کو اہم رول کیوں مل رہا ہے۔
فلم بشیرا (1972) کی تکمیل کے دوران ہی بہت سے فلمسازوں نے سلطان راہی کی کارکردگی سے متاثر ہوکر انھیں اپنی فلموں میں دھڑا دھڑ کاسٹ کرنا شروع کردیا تھا جن میں سے تین فلمیں حسن عسکری کی بھی تھیں۔
اس فلم میں سلطان راہی کی جوڑی اداکارہ ناہید کے ساتھ تھی جس پر ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا "اے ویلا دکھ سکھ پھولن دا ، کیوں جی نہیں کردا ڈھولن دا۔۔"
اسی فلم میں سلطان راہی پر نشے کی حالت میں مسعودرانا کا گایا ہوا یہ انتہائی اعلیٰ پائے کا ایک بامقصد گیت بھی فلمایا گیا تھا جوایک غریب مزدور کا سرمایہ داروں کے ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج تھا۔ خاص طور پر یہ جملہ "بڑی کیتی جے ، بڑی ہوئی اے ، جان دیو ، ہن جان دیو۔۔" یعنی "آپ نے بہت کچھ کیا ، ہمارے ساتھ بہت کچھ ہوا ، اب جانے بھی دو۔۔" صرف یہ ایک جملہ پاکستان کی پوری تاریخ بیان کررہا ہے۔
مسعودرانا کے ایسے لاجواب ، بامقصد اور امر گیتوں کی وجہ سے ہی یہ عظیم الشان ویب سائٹ ان کی نذر کی گئی ہے۔ حزیں قادری کے قلم سے نکلے ہوئے اس گیت کی دھن موسیقار نذیرعلی نے بنائی تھی اور بول کچھ یوں تھے:
پہلی دو کامیاب فلموں کے بعد حسن عسکری کی اگلی دونوں فلمیں ہیرا (1972) اور غیرت دا نشان (1973) ناکام رہیں جس سے ان کی مصروفیات میں خاصا فرق پڑا تھا اور انھیں فلمیں ملنا بند ہوگئی تھیں۔ اس آخری فلم میں ایک گمنام گلوکار حمیرا نے ایک سپرہٹ گیت گایا تھا "نہ میں چاندی دے ، نہ سونے دے ، نہ پیتل بھری پرات ، مینوں دھرتی کلی کرادے ، میں نچاں ساری رات۔۔"
حسن عسکری کی پانچویں فلم وحشی جٹ (1975) ایک ٹرینڈ میکر فلم ثابت ہوئی تھی جس نے پنجابی فلموں کا سٹائل ہی بدل کررکھ دیا تھا۔ "جٹ" برانڈ پرتشدد فلمیں ایک طویل مدت تک باکس آفس پر کامیابی کا نسخہ کیمیا ثابت ہوئیں۔
لفظ "جٹ' ، اس سے قبل دس پنجابی فلموں میں استعمال ہوا تھا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی پرتشدد فلم نہیں تھی بلکہ معاشرتی ، سماجی اور اصلاحی فلمیں ہوا کرتی تھیں۔ مرزاجٹ (1967) جیسی لاجواب رومانٹک اور نغماتی فلم ایک بہت بڑی مثال تھی جو پنجابی فلموں کی کلاسک جوڑی فردوس اور اعجاز کی پہلی سپرہٹ فلم تھی اور کسی طور پر فلم ہیررانجھا (1970) کے معیار سے کم نہیں تھی۔ "جٹ" پر پہلی فلم جٹی (1958) بنی تھی جو جٹ برادری کے احتجاج پر "چٹی" کے نام سے ریلیز ہوئی تھی لیکن ریکارڈز بکس میں اصل نام سے موجود رہی۔
حسن عسکری ، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہدایتکار تھے جن کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو ادب کے شاہکار ناولوں اور افسانوں کو فلم کی شکل دی جائے۔ انھوں نے معروف ادیب ، شاعر اور صحافی احمدندیم قاسمی کے ایک افسانے "گنڈاسا" کو فلمانے کا فیصلہ کیا لیکن اپنے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ اس خواب کی تکمیل کرپاتے۔
انھوں نے ایک فلمساز کو یہ کہانی سنائی تو اسے بہت پسند آئی۔ عسکری صاحب بتاتے ہیں کہ اگر صرف یہ بتاتا کہ ایک اردو افسانہ فلمانا ہے تو یقیناً انکار ہوجاتا لیکن صرف کہانی اور کردار سنانے پر فلمساز سرمایہ کاری پر رضامندہوگیا تھا۔
معروف رائٹر ناصر ادیب کو احمدندیم قاسمی کے افسانہ "گنڈاسا" پر فلمی کہانی ، سکرین پلے اور مکالمے لکھنے کی ذمہ داری سوپنی گئی تھی۔ گو موصوف ، اپنے مختلف انٹرویوز میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلم وحشی جٹ (1975) کی کہانی ان کے اپنے ذہن کی اختراع تھی جس کا اس افسانے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اگر کچھ مطابقت تھی ، تو وہ محض اتفاقیہ تھی ، ان کی یہ بات درست نہیں ہے۔ "مولاجٹ" کے کردار کے علاوہ اس کا ہتھیار "گنڈاسا" اور کہانی کا پلاٹ کہ وہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیتا ہے ، یہ سب جناب احمدندیم قاسمی کے افسانہ "گنڈاسا" سے ماخوذ تھا جو فلم وحشی جٹ (1975) کی بنیادی کہانی تھی۔
قاسمی صاحب کے شاگرد معروف شاعر قتیل شفائی صاحب نے ناصر ادیب پر مقدمہ بھی کیا تھا کہ انھوں نے بلا اجازت قاسمی صاحب کی کہانی پر ہاتھ صاف کیا تھا لیکن بقول ناصر ادیب کے ، وہ قاسمی صاحب سے روبرو ملے اور انھوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات آئی گئی کردی تھی۔
ان تمام حقائق کی روشی میں یہ بات طے ہے کہ "مولاجٹ " کا کردار اور "گنڈاسا" ، جناب احمدندیم قاسمی کی تخلیق تھا اور انھیں فلموں میں متعارف کروانے کا سہرہ ہدایتکار حسن عسکری کے سر تھا۔
سلطان راہی ہی کو فلم وحشی جٹ (1975) کا ٹائٹل رول دیا گیا جنھوں نے اس فلم میں بلا معاوضہ کام کیا تھا۔ فلم بشیرا اور سلطان (1972) کے بعد ان کی بیشترفلمیں بری طرح سے ناکام ہوئی تھیں اور وہ تقریباً فارغ تھے۔
آسیہ نے مولاجٹ (1979) کی طرح اس فلم میں بھی مکھو جٹی کا رول کیا تھا اور اس پر فلمایا ہوا ایک گیت "ڈھول سجن نئیں ملدا۔۔" ، رونالیلیٰ کا پاکستانی فلموں کے لیے گایا ہوا آخری گیت بتایا جاتا ہے۔ اقبال حسن ، بالا گاڈی کے مشہور کردار میں تھے۔ غزالہ نے وہی رول کیا تھا جو فلم مولاجٹ (1979) میں اس کی اصل سوتن ، چکوری نے کیا تھا۔ اس کہانی کےمتعدد کرداروں اور مکالموں پر کئی ایک فلموں کے ٹائٹل بھی بنے۔
پاکستان کی پنجابی فلموں میں "جٹ برانڈ" فلموں نے ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی پنجابی فلموں کو بھی بڑا متاثر کیا تھا۔ 1983ء میں نامور بھارتی اداکار دھرمیندر نے "جٹ برانڈ" بھارتی پنجابی فلم "پت جٹاں دے" بنائی جو مکمل طور پر پاکستانی جٹ سیریز سے متاثر تھی۔ اس فلم میں انھوں نے اپنے ایک کزن وریندر کو متعارف کروایا تھا جو بھارتی پنجابی فلموں کا سلطان راہی ثابت ہوا تھا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وریندر کو بھی ایک فلم کے سیٹ پر قتل کردیا گیا تھا اور اس کا قتل آج بھی ایک راز ہے۔
اگلی دو دھائیوں تک ہر دوسری بھارتی پنجابی فلم "جٹ برانڈ" ہوتی تھی اور اس طرح کے فلمی نام سننے میں آئے: یاری جٹ دی ، جٹ تے زمین ، جٹ دا گنداسا ، حکومت جٹ دی ، جوڑ جٹ دا ، وغیرہ وغیرہ۔۔
حسن عسکری کی بطور ہدایتکار 58 فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے جن میں سے دو تہائی پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی آدھی فلمیں صرف سلطان راہی کے ساتھ تھیں۔
بڑے ہیروز میں انھوں نے وحیدمراد کو کبھی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کیا تھا بلکہ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران خود وحیدمراد نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے ان سے کام مانگا تھا۔ حسن عسکری بتاتے ہیں کہ انھیں یاد تھا کہ اپنے عروج کے دور میں وحیدمراد کسی کے سلام کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس وقت وہ ایک بھولی ہوئی داستاں اور گزرا ہوا خیال بن چکے تھے۔ اللہ اکبر۔۔!
حسن عسکری کی فلم طوفان (1976) بھی ایک اعلیٰ پائے کی ایکشن فلم تھی جو مجھ جیسے شخص کو بھی پسند آئی تھی جو عام طور پر ایسی فلموں سے دور بھاگتا ہے۔ اس فلم میں سلطان راہی نے ایک ریٹائرڈ فوجی کا رول کیا تھا جو لنگڑا کر چلتا ہے لیکن اپنے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے۔ فلم قانون (1977) ، مفت بر (1981) ، میلہ (1986) کے علاوہ مفرور (1988) بھی اچھی فلم تھی جس میں مسعودرانا کا یہ گیت تھا "جگ دا میلہ ویکھی جا۔۔"
حسن عسکری کی فلم پتن (1992) میں بھی مسعودرانا ، منیر حسین اور ساتھیوں کی ایک قوالی بڑی متاثرکن تھی "میرے دکھڑے مکا دے ربا میریا ، جگا دے تقدیراں میریاں۔۔" اس دور کی بہت کم فلموں سے میری معلومات ہیں۔ گو وی سی آر کے دور میں شاید ہی کوئی ایسی پاکستانی فلم ہوگی جو میں نے نہ دیکھی ہو لیکن ایکشن فلمیں ذہن سے مٹ جاتی تھیں اور صرف وہی فلمیں یاد رہتی تھیں جن میں مسعودرانا صاحب کا کوئی گیت ہوتا تھا۔
حسن عسکری کی اب تک کی آخری پنجابی فلم بسنتی (2008) دیکھی تھی۔ ان کی دیگر اہم پنجابی فلموں میں جٹ دا کھڑاک (1979) ، قاتل (1988) ، پترجگے دا ، شیردل (1990) ، گنڈاسا (1991) ، عبداللہ دی گریٹ (1992) ، اچھا شوکر والا (1992) ، آن (1993) ، چوہدرانی (1999) اور اک جگا ہور (2001) بھی تھی جس میں انھوں نے ولن اداکار شفقت چیمہ کو ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ فلم پترجگے دا (1990) میں میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت بھی تھا "تیرے نال میں لائیاں اکھیاں ، وے تو فیر وی دوریاں رکھیاں ، تو جت گیوں بے دردا میں تکڑی ہار گئی ، تیری بے پرواہی سجناں مینوں مار گئی۔۔"
ہدایتکار حسن عسکری کی مسلسل آٹھ پنجابی فلموں کے بعد پہلی اردو فلم سلاخیں (1977) تھی جو ایک شاہکار فلم ثابت ہوئی تھی۔ ایک فرانسیسی ادیب Victor Hugo کے 1862ء میں لکھے ہوئے ناول Les Misérables کا اردو ترجمہ "بدنصیب" کے نام سے قیام پاکستان سے قبل فیض احمد فیض نے کیا تھا اور اس کہانی پر بھارت میں بھی ایک فلم کندن (1955) بنائی گئی تھی۔ عسکری صاحب نے یہ ناول ردی میں خریدا تھا اور اس پر ایک یادگار فلم بنا ڈالی تھی۔ اس عظیم فلم میں بابرہ شریف اور محمدعلی نے بڑی عمدہ جذباتی اداکاری کی تھی اور ان کی کارکردگی کو بےحد سراہا گیا تھا۔
اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں یہ فلم دوبارہ دیکھی لیکن پہلے کی طرح متاثر نہ کرسکی اور فلم میں بہت سے جھول نظر آئے۔ خاص طور پر محمدعلی کی وگ آنکھوں میں کھٹکتی رہی۔ مجال ہے کہ پوری فلم میں ان کی وگ کے سٹائل پر کسی قسم کا کوئی فرق پڑا ہو۔ محمدعلی ، بلاشبہ شہنشاہ جذبات تھے اور ایک جاذب نظر شخصیت تھے لیکن مخصوص فنکار تھے جو ہر طرح کے کرداروں میں فٹ نہیں بیٹھتے تھے ، کسی غریب مسکین کے رول میں تو بالکل ہی سوٹ نہیں کرتے تھے۔
فلم سلاخیں (1977) میں مہدی حسن اور مہناز کا الگ الگ گایا ہوا گیت "تیرے میرے پیار کا ایسا ناطہ ہے ، دیکھ کے صورت تیری دل کو چین آتا ہے۔۔" فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ غلام محی الدین اور قوی روایتی ہیرو تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ فلم میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ گجرات کے فیصل سینما میں دیکھی تھی جو جی ٹی روڈ پر ترنم سینما کے بالمقابل ہوتا تھا۔
حسن عسکری کی دوسری یادگار اردو فلم دوریاں (1984) تھیں۔ بشیرنیاز کی لکھی ہوئی اس منفرد کہانی میں ایک جاگیردار اور سیاستدان ، طالش کے بیٹے محمدعلی ، گورنر کے عہدے پر فائز ہیں اور سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر شبنم سے اپنی خفیہ شادی کا اعلان نہیں کرتے۔ وہ بغاوت کرتی ہے اور ایک صحافی کے طور پر اپنے بیٹے فیصل کے ساتھ الگ رہتی ہے جو بڑا ہوکر اپنے باپ اور دادا سے اپنی ماں کا حق لیتا ہے۔
پوری فلم میں شبنم ، پینٹ شرٹ میں ملبوس بڑی پرکشش لگتی ہے۔ اس فلم میں اسوقت کی ڈسکو کوئین نازیہ حسن اور اس کے بھائی زوہیب حسن کا ایک دوگانا بھی فیصل اور آرزو پر فلمایا گیا تھا لیکن روبن گھوش کی موسیقی میں کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔
حسن عسکری کی ایک اور فلم جنت کی تلاش (1999) بھی بڑی متاثرکن فلم تھی جس میں شان کے علاوہ ریشم کی اداکاری پسند کی گئی تھی۔ اس فلم میں شہنشاہ غزل مہدی حسن کے صاحبزادے آصف مہدی کی گائی ہوئی ایک غزل بڑی پسند کی گئی تھی "سنا ہے لوگ اسے ، آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ، سوز کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔۔"
بدقسمتی سے آصف مہدی کسی بڑی کامیابی سے محروم رہے تھے حالانکہ وہ اپنے عظیم باپ کی ہوبہو نقل کر لیا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مہدی حسن کو ان کی زندگی ہی میں نظرانداز کردیا گیا تھا جس کا وہ بہت شکوہ کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہےکہ جب اصل ہی کی قدر نہ تھی تو نقل کو کون پوچھتا۔۔؟
ہدایتکار حسن عسکری کی ایک اور اردو فلم تیرے پیار میں (2000) تھی جس میں شان اور زارا شیخ نے مرکزی کردار کئے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر یہ واحد ڈائمنڈجوبلی اردو فلم تھی جبکہ شان ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد ہیرو ہیں کہ جن کی اردو اور پنجابی فلموں نے ڈائمنڈ جوبلیاں منائی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک کی یہ آخری اردو فلم ہے جس نے سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن کچھ حلقے پنجاب نہیں جاؤں گی (2017) کو بھی ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم کہتے ہیں۔
حسن عسکری کی دیگر اردو فلموں میں سے ایک فلم جینے کی سزا (1979) بھی تھی جس میں سلطان راہی کو مکمل ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اردو فلم بینوں نے قبول نہیں کیا تھا۔
ایسی ہی ایک فلم آگ (1979) تھی جو ٹین ایجز پر بنائی گئی تھی اور جس میں بابرہ شریف کے ساتھ اپنے نوعمر بھانجے اداکار اشعر کو کاسٹ کیا گیا تھا جو اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ محمدعلی ، شاہد اور سلطان راہی کو کاسٹ کرنے کے باوجود فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ اس فلم میں اے نیر کا گیت "میں تو جلا ایسا جیون بھر جیسے کوئی دیپ جلا ہوگا۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا۔
سلمیٰ آغا کی پہلی پاکستانی فلم ہم اور تم (1985) کے ہدایتکار بھی حسن عسکری تھے۔ یہ آدھی فلم پنجابی زبان میں تھی۔ فلم بے قرار (1986) میں انوررفیع کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "میری وفا ، میرے وعدوں پہ اعتبار کرو ، ملن قریب ہے ، تھوڑا انتظار کرو۔۔" فلم تلاش (1986) میں ندیم کے مقابل ایک ترکی اداکاری نازاں سانچی کو متعارف کروایا گیا تھا۔
حسن عسکری کی اردو فلم نجات (1987) میں مسعودرانا ، ناہیداختر اور ساتھیوں کا یہ کورس گیت بڑے اعلیٰ پائے کا تھا "اس دنیا میں پیارے ، ہم سب قیدی ہیں ، اپنی اپنی قید کاٹ کے سب کو جانا ہے۔۔" فلم میں یہ گیت اظہارقاضی ، سری لنکن اداکارہ سبیتا اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔ ان کی ایک
فلم سونے کی تلاش (1987) میں ایک مصری اداکارہ فائزہ کمال کو اسماعیل شاہ کے مقابل کاسٹ کیا گیا تھا۔ فلم خزانہ (1995) بھی ایک اچھی فلم تھی۔ حسن عسکری کی آخری اردو فلم دل پرائے دیس میں (2013) صرف پانچ دنوں بعد سینما سے اتار لی گئی تھی جس میں ہما علی اور سمیع خان نے لیڈ رولز کیے تھے۔ آجکل وہ ایک فلم "چاند چہرہ" پر کام کررہے ہیں۔
1 | دولتاں والیو لوکو ، سانوں پین دیو یا گان دیو ، حقداراں نوں حق دیو یا سانوں ہوش نہ آن دیو..فلم ... سر دھڑ دی بازی ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: سلطان راہی |
2 | ہائے نی جند میرئے..فلم ... آخری میدان ... پنجابی ... (1977) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: صفدر حسین ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: ؟ |
3 | رنگ رنگ دے خوشیاں تے ہاسے ، ونڈ دا پھردا ویلہ ، سنگ سہیلیاں ، دشمن سجن ، ویکھن آئے میلہ..فلم ... میلہ ... پنجابی ... (1986) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ) |
4 | اس دنیا میں پیارے ہم سب قیدی ہیں ، اپنی اپنی قید کاٹ کے سب کو جانا ہے..فلم ... نجات ... اردو ... (1987) ... گلوکار: مسعود رانا ، ناہید اختر مع ساتھی ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: ؟ ... اداکار: اظہار قاضی ، سبیتا مع ساتھی |
5 | جگ دا میلہ ویکھی جا ، دکھ سکھ دی اگ سیکی جا..فلم ... مفرور ... پنجابی ... (1988) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: سلطان راہی |
6 | میرے دکھڑے مکا دے ربا میریا ، جگا دے تقدیراں میریاں..فلم ... پتن ... پنجابی ... (1992) ... گلوکار: منیر حسین ، مسعود رانا ، امتیاز حسین ، ریاض علی مع ساتھی ... موسیقی: طافو ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: ؟؟ (سلطان راہی ، منزہ شیخ) |
1. | 1972: Sir Dhar Di Bazi(Punjabi) |
2. | 1977: Aakhri Medan(Punjabi) |
3. | 1986: Mela(Punjabi) |
4. | 1987: Nijat(Urdu) |
5. | 1988: Mafroor(Punjabi) |
6. | 1992: Pattan(Punjabi) |
1. | Punjabi filmSir Dhar Di Bazifrom Friday, 4 August 1972Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Sultan Rahi |
2. | Punjabi filmAakhri Medanfrom Friday, 25 March 1977Singer(s): Masood Rana, Music: Safdar Hussain, Poet: , Actor(s): ? |
3. | Punjabi filmMelafrom Friday, 5 December 1986Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback, title) |
4. | Urdu filmNijatfrom Friday, 18 September 1987Singer(s): Masood Rana, Naheed Akhtar, ? & Co., Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): Izhar Qazi, Sabeeta & Co. |
5. | Punjabi filmMafroorfrom Wednesday, 18 May 1988Singer(s): Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Sultan Rahi |
6. | Punjabi filmPattanfrom Friday, 31 July 1992Singer(s): Munir Hussain, Masood Rana, Imtiaz Hussain, Riaz Ali, Music: Tafu, Poet: , Actor(s): ?? (Sultan Rahi, Munaza Sheikh) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.