A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
4 اکتوبر 1995ء کو عظیم گلوکار مسعودرانا کا اچانک انتقال ہو گیا تھا۔۔!
ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس سے اتفاقاً یہ افسوسناک خبر سنی کہ ایک میوزک پروگرام میں شرکت کے لئے لاہور سے صادق آباد جاتے ہوئے راستے میں ٹرین میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی روح ، جسد خاکی سے پرواز کر گئی تھی۔ عمر صرف 54 سال تھی۔
بلا شبہ ، موت برحق ہے ، ہر کسی نے اس دارفانی سے کوچ کرنا ہے لیکن اچانک موت کا صدمہ بہت ہوتا ہے۔
میرا دکھ اس لئے بھی زیادہ تھا کہ مسعودرانا ، میرے پسندیدہ ترین گلوکار تھے۔ ان کے فن اور دیگر فلمی گیتوں پرتحقیق جاری تھی اور ان سے ملنے اور ان کے بارے میں جاننے کی بڑی خواہش تھی۔ ہماری ٹیلی فون پر بات ہوچکی تھی اور چند ماہ تک ملاقات کا پروگرام بھی تھا جو ان کی اچانک موت کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا تھا اور بڑی سخت مایوسی ہوئی تھی۔
بچپن میں سنا ہوا پہلا پہلا فلمی گیت جو یاد پڑتا ہے ، وہ فلم کون کسی کا (1966) میں مسعودرانا کا گایا ہوا تھا
ہوش سنبھالا تو اپنے اردگرد کے ماحول میں ریڈیو پر جس گلوکار کو سب سے زیادہ سنا ، وہ بھی مسعودرانا ہی تھے۔
ہمارے ہاں روایتی قسم کے عشق و محبت والے گیتوں کو بے ہودگی اور بے حیائی میں شمار کیا جاتا تھا اور ان کے برعکس انسانی رشتے ناطوں اور سماجی ومعاشرتی موضوعات پر گائے گئے بامقصد گیتوں کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ مسعودرانا کو اپنی دلکش ، پرسوز، پراثر اور باوقار مردانہ آواز کی وجہ سے ایسے گیتوں پر ہمیشہ اجارہ داری حاصل ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ان سے زیادہ تعریف کبھی کسی گلوکار کی نہیں سنی تھی۔
گو اپنے پچپن میں عنایت حسین بھٹی اور نوجوانی میں مہدی حسن کے رومانٹک گیت اور احمدرشدی کے مزاحیہ گیت بڑے پسند ہوتے تھے لیکن 80کے عشرہ میں جب پاکستانی فلمی گیتوں پر تحقیق کی تو مسعودرانا سے بہتر آل راؤنڈ فلمی گلوکار کسی کو نہیں پایا۔ دیگر گلوکار مخصوص اور محدود صلاحیتوں کے مالک ہوتے تھے لیکن مسعودرانا ، لامحدود صلاحیتوں کے مالک تھے اور فلم کے سب سے مکمل ، آئیڈیل اور آل راؤنڈ گلوکار تھے۔
پاکستانی فلمی تاریخ کے سنہرے دور میں کہا جاتا تھا کہ برصغیر کی فلمی گائیکی میں دو ہی گلوکار ہیں ، ہندوستان میں محمدرفیع اور پاکستان میں مسعودرانا ، اور یہ بات سو فیصدی درست تھی۔
مسعودرانا ، پاکستانی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار تھے جنھوں نے چھ سو سے زائد فلموں کے لیے نغمہ سرائی کی تھی۔
انھیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ اپنی پہلی فلم انقلاب (1962) سے لے کر اپنے انتقال تک کی آخری فلم سناٹا (1995) تک کے 34 برسوں میں کبھی کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جب ان کی بطور گلوکار کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔
وہ اکلوتے گلوکار تھے جنھیں اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ان کی بے مثل آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے انھیں 'پاکستانی رفیع' بھی کہا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا شمار بھی انھی فنکاروں میں ہوتا تھا کہ جنھیں ہمارے قومی میڈیا میں شرمناک حد تک نظرانداز کیا گیا تھا۔ یہی تعصب اور تنگ نظری تھی جس نے مجھے ، مسعودراناکے بارے میں خاص طور پر اور دیگر فلموں اور فلمی گیتوں پر عام طور پر تحقیق کرنے کی ترغیب دی تھی اور نتیجہ اس عظیم الشان ویب سائٹ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
گزشتہ نصف صدی کے گنے چنے لمحات یاد ہیں جب مسعودراناکے بارے میں کچھ پڑھا ، سنا یا دیکھا تھا۔
1973ء میں ان کی پہلی تصویر ایک فلمی رسالہ ویکلی مصور لاہور کے کسی شمارے میں دیکھی تھی جس میں وہ ، اداکار شاہد کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور جو چادر انھوں نے اوڑھ رکھی تھی ، ویسی ہی چادر ، گلوکارہ افشاں نے بھی اوڑھ رکھی تھی جو ساتھ کی تصویر میں تھی۔ تصویر کا جو کیپشن تھا ، اس کی عبارت مجھے آج بھی یاد ہے
"مسعودرانا ، افشاں کا چادر بدل بھائی ، ریکارڈنگ نہ بھی ہو تو سٹوڈیو آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس تصویر میں شاہد کے ساتھ ایک فلم کے سیٹ پر چائے پی رہے ہیں۔۔"
مجھے یاد ہے کہ مسعودرانا کی تصویر دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی تھی کہ ایسی سیاہ رنگت ، موٹا ناک اور چنی آنکھیں۔۔؟ آواز سے تو وہ کسی افسانوی شہزادے سے کم نہیں لگتے تھے اور پھر شاہد جیسے خوبرو ہیرو کے ساتھ بیٹھ کر تو فرق زیادہ ہی محسوس ہو رہا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دو فلموں میں ہیرو بھی آئے تھے۔
دوسری بار بھی میں نے رانا صاحب کی تصویر مصور ہی میں دیکھی تھی جب انھیں فلم دل لگی (1974) کے گیتوں پر مصور ایوارڈ ملا تھا۔
مسعودرانا کا واحد مختصر ریڈیو انٹرویو "رنگ ہی رنگ ، مسٹر جیدی کے سنگ" نامی ریڈیو کمرشل میں سنا تھا۔
ٹی وی پر بھی ان کا ایک پروگرام دیکھا تھا جس میں وہ اپنے مشہور زمانہ گیتوں کو مختلف مقامات پر جا کر گاتے ہیں۔
1985ء میں روزنامہ جنگ میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جو زیادہ تر ان کے دورہ امریکہ کے بارے میں تھا۔
مسعودرانا کے بارے میں پہلا تفصیلی مضمون ان کے انتقال کے بعد ویکلی نگار میں پڑھا تھا۔
مسعودرانا کے بارے میں جاننے کا تجسس اور جستجو ہی تھی کہ 25 جون 1993ء کو انھیں ، اپنی زندگی کا واحد "فین لیٹر یا عقیدت نامہ" لکھا تھا جس کا عکس اس مضمون کے آخر میں ہے۔
میرے پاس ان کا پرائیویٹ ایڈریس نہیں تھا لیکن ایورنیو سٹوڈیو ، ملتان روڈ لاہور کے پتہ پر خط بھیج دیا تھا جس میں ان کے لئے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا تھا۔
دو ماہ بعد جواب ملا اور مسعودرانا نے دیگر باتوں کے علاوہ اپنا ذاتی پتہ اور ٹیلی فون نمبر بھی دیا تھا۔ یہ جان کر بڑا افسوس ہوا تھا کہ اتنا بڑا گلوکار اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لئے ایک روزگار ایجنسی چلا رہا ہے۔ ان دنوں ایکشن سے بھر پور فلمیں بنتی تھیں جن میں مردانہ گیتوں کی گنجائش کم ہی ہوتی تھی۔ اگرچہ مسعودرانا کو اداکار شان کی رومانٹک فلموں میں بڑی تعداد میں گیت گانے کا موقع مل رہا تھا لیکن عروج کا جو دور 60 اور 70 کی دھائیوں میں دیکھ چکے تھے ، وہ ماضی کا قصہ بن چکا تھا۔
میرے دوسرے خط کا کوئی جواب نہیں ملا تھا جس میں ان کے فلمی کیرئر کے بارے میں ڈھیر سارے سوالات پوچھے تھے۔
17 دسمبر 1993ء کو میں نے پہلی اور آخری بار مسعودرانا سے ٹیلی فون پر بات کی تھی لیکن اس کا کوئی مثبت تاثر نہیں ملا تھا۔
میں انھیں ایک خالص پنجابی فنکار سمجھتا تھا لیکن انھوں نے میرے ساتھ ہندوستانیوں کی عوامی زبان میں بات کی جس سے سخت کوفت اور اجنبیت محسوس ہورہی تھی۔
مجھے ان کے فنی کیرئر کے بارے میں جاننے کا شوق تھا لیکن انھیں اپنے بچوں کو یورپ سیٹ کروانے اور ڈنمارک میں اپنا میوزک شو کروانے میں زیادہ دلچسپی تھی۔
اس کے لئے انھوں نے اس مختصر گفتگو میں اپنے گروپ کی تفصیلات بھی نوٹ کروا دی تھیں کہ جن کے مطابق ان کے ساتھ گلوکارہ مہناز اور گلوکار منیر حسین کے علاوہ تین سازندے تھے اور کل معاوضہ اس وقت کا ایک لاکھ روپیہ مانگ رہے تھے۔ اگر میڈم نورجہاں کو ساتھ لاتے تو پھر کسی عالیشان ہوٹل میں ایک سوئٹ بھی لینا پڑتا اور اکیلے ایک لاکھ روپیہ معاوضہ ان کا بھی ہوتا۔
میرا زندگی بھر ایسے کاموں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ، یہاں تک کہ لائیو شو تک دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
مسعودرانا سے براہ راست رابطہ کا واحدمقصد ان کے فن کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنا تھا لیکن انھیں غم دوراں کی فکر زیادہ تھی۔
اپنی اس اکلوتی ٹیلی فون گفتگو کا افسوس اس لئے نہیں ہوا تھا کہ اس سے قبل مہدی حسن اور مجیب عالم سے مل چکا تھا اور انھیں بھی بیشتر پاکستانیوں کی طرح شدید قسم کے مالی عدم استحکام اور احساس محرومی کا شکار پایا تھا۔
میں خود اسی دیس کا باسی تھا جہاں ہر دور میں عام آدمی ہی نہیں ، متوسط طبقہ کے نامور لوگوں کے لئے بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنا خاصا مشکل رہا ہے ، اس لئے زمینی حقائق ، بنیادی انسانی ضروریات اور روزمرہ مشکلات سے بے خبر نہیں تھا۔
اس واقعہ کے بعد میں نے مسعودرانا سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ اس دوران 4 اکتوبر 1995ء کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
چھ ماہ بعد مارچ 1996ء میں ، عرصہ چودہ سال بعد اپنے وطن جانے کا موقع ملا تھا۔ واپسی پر آخری دنوں میں لاہور کے اقبال ٹاؤن میں مسعودرانا کے گھر گیا تھا جہاں ان کے بیٹے اور بیگم سے ملاقات ہوئی تھی۔ مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی تھی۔
ان کی بیگم نے مجھے تحفہ کے طور پر وہ یادگار تصویر دی تھی جس میں مسعودرانا ، ملکہ ترنم نورجہاں اور لتا منگیشکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان کی وہ ڈائری بھی یاد ہے کہ جس میں انھوں نے بڑے طریقے اور سلیقے سے اپنے گائے ہوئے گیت لکھے ہوئے تھے۔ مثلاً فلم بے ایمان (1973) کے گیت "اللہ کے نام پہ جھولی بھر دے۔۔" کے صفحہ پر انھوں نے بڑی ترتیب سے لکھا تھا کہ کون سے بول وہ گائیں گے اور کون کون سے بول احمدرشدی اور روشن گائیں گے۔
ایک صفحہ پر رانا صاحب کا نام بڑا خوشخط لکھا ہوا تھا جو پتہ چلا کہ گلوکار شوکت علی نے لکھا تھا جن کا ان کے ہاں اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔
اپنے اس یادگار دورہ پاکستان کی تقریباً اٹھارہ گھنٹے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تھی جس میں سے کچھ ان کے گھر کی بھی تھی۔
مسعودرانا ، 6 اگست 1941ء کو میرپور خاص ، سندھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد ، جالندھر کے ایک متمول پنجابی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ اپنی ساری زندگی ، لاہور میں اپنا ذاتی مکان تک نہیں بنا سکے تھے اور کرائے کی ایک کوٹھی میں رہتے تھے۔
مسعودرانا سے میری دلچسپی صرف ان کے فن تک محدود تھی ، ان کی ذات یا خاندان سےکوئی تعلق نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی جواز بنتا تھا۔
میرے خلوص کی انتہا تھی جب 2004ء میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی تو حرمین شریفین میں ایک ماہ کے قیام کے دوران اپنے خاندان کے تمام مرحومین کی روحوں کے ایصال ثواب کے لئے ایک ایک عمرہ کیا تھا۔ دو ہستیاں ایسی تھیں کہ جن کا میرے خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن انھیں بھی بطور خاص عمروں کا ثواب پہنچایا تھا۔ ان میں پہلی عظیم المرتبت ہستی قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہیدؒ کی تھی جبکہ دوسری شخصیت اپنے آئیڈیل گلوکار جناب مسعودرانا صاحب کی تھی۔ یقیناً ، اس سے بڑا خراج تحسین تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔!
یہ مسعودرانا ہی تھے کہ جن کی وجہ سے مجھے پاکستانی فلمی گیتوں پر تحقیق کا شوق پیدا ہوا تھا۔ یہ 80 کے عشرہ کی بات ہے جب ہماری فلموں میں مردانہ گیتوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی تھی اور زنانہ گیتوں سے میری دلچسپی بڑی محدود ہوتی تھی۔
اس دور میں وی سی آر پر فلموں کی فراوانی ہوتی تھی۔ میرے پاس فلمیں اور گیت ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود تھی اور بہت زیادہ مواد اکٹھا کر لیا تھا۔
ابتداء میں اپنی ڈائریوں پر مردانہ فلمی گیتوں کی فہرستیں مرتب کیا کرتا تھا۔ 1985ء میں پہلی بار کمپیوٹر پر مسعودرانا کے گیتوں کی رومن اردو میں ایک ڈیجیٹل لسٹ بنائی تھی۔ جون 1999ء میں اپنی ویب سائٹ بنائی تو لنکس کے ساتھ جو واحد فائل اٹیچ کی تھی ، وہ مسعودرانا کے فلمی گیتوں کی ایکسیل فائل تھی۔
3 مئی 2000ء کو پاکستان فلم میگزین کا آغاز کیا تو جو پہلی فلمی معلومات تھیں ، وہ بھی مسعودرانا کے گائے ہوئے گیتوں کے بارے میں تھیں۔ 2012ء میں ڈیٹا بیس پر ویب سائٹ بنانا شروع کی تو دیگر صفحات کی طرح تمام گیتوں کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنا اور مصدقہ ریکارڈز مرتب کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔
2020ء میں مسعودرانا کی پچیسویں برسی پر ایک منفرد خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے گیتوں کا اولین اردو ڈیٹا بیس بنانے میں بھی کامیابی ہوئی جس سے مختلف النوع اعدادوشمار اور فہرستیں بنانا ممکن ہوا۔
مسعودرانا ہی کی وجہ سے دیگر فنکاروں کے بارے میں بھی اردو میں معلوماتی مضامین کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے جو ان شاء اللہ ، مکمل کرنے کی پوری کوشش کی جائی گی۔
مسعودرانا کو جو بے مثل خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے ، شاید ہی کبھی کسی فنکار کو پیش کیا گیا ہو گا۔ وہ بجا طور پر اس اعزاز کے مستحق تھے اور یقیناً بڑے خوش قسمت فنکار تھے کہ جنھیں مجھ جیسا قدردان ملا۔۔!
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.