A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
زیبا ، ساٹھ اور ستر کے عشروں کی ایک مایہ ناز اداکارہ تھی جس نے اپنی پرکشش اور باوقار شخصیت کے بل بوتے پر لاکھوں دلوں پر حکمرانی کی۔ زیبا چونکہ صرف اردو فلموں کی ہیروئن تھی ، اس لیے اس عظیم فنکارہ کے سال بہ سال فلمی سفر کو صرف کراچی فلمی سرکٹ کے ریکارڈز کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے:
1962ء میں زیبا کی پہلی اور اکلوتی فلم چراغ جلتا رہا ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور شاعر فضل احمدکریم فضلی تھے جو فلم دوپٹہ (1952) فیم ہدایتکار سبطین فضلی کے بھائی اور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے۔
یہ ان کی پہلی فلم تھی جو فروغ تعلیم کے بارے میں تھی۔ نشاط سینما کراچی میں اس فلم کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا جہاں یہ فلم مسلسل چار ماہ تک چلتے ہوئے سلورجوبلی منانے میں کامیاب ہوئی۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عظیم اداکار محمدعلی بھی متعارف ہوئے جنھیں ایک منفی کردار میں پیش کیا گیا تھا جبکہ روایتی ہیرو عارف نامی اداکار تھے جن کی یہ اکلوتی فلم تھی۔ نامور اداکار طلعت حسین اور کمال ایرانی کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔
اس فلم کے موسیقار نہال عبداللہ تھے جو کراچی ریڈیو کے ایک موسیقار تھے۔ انھوں نے جہاں میڈم نورجہاں اور اقبال بانو سے گیت گوائے ، وہاں ایم کلیم اور مہناز کی والدہ کجن بیگم سے بھی گیت گوائے تھے۔
یہ پاکستان کی واحد فلم ہے کہ جس میں بھارتی غزل لیجنڈ طلعت محمود کے تین گیت یا غزلیں شامل ہیں۔ اس فلم کے شاعروں میں جہاںفضل احمدکریم فضلی کا اپنا نام آتا ہے وہاں اردو کے کلاسیک شاعروں ، امیر خسرو ، مرزا غالب ، میر تقی میر ، جگر مرادآبادی اور ماہر القادری کا کلام بھی گایا گیا تھا۔
1963ء میں اپنے دوسرے فلمی سال میں زیبا کی 5 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ صرف ایک فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں (1963) کامیاب تھی۔ اس فلم کے علاوہ اوسط درجے کا بزنس کرنے والی ایک بہت بڑی میوزیکل فلم باجی (1963) میں بھی زیبا کے ہیرو درپن تھے جبکہ ٹائٹل رول نیرسلطانہ نے کیا تھا۔
دل نے تجھے مان لیا (1963) بھی ایک اوسط درجہ کی فلم تھی جس میں کمال ہیرو تھے۔ فلم سمیرا (1963) بری طرح سے ناکام رہی جس میں رتن کمار نے پہلی اور آخری بار زیبا کے ہیرو کا رول کیا تھا۔
اسی سال زیبا کی اکلوتی پنجابی فلم مہندی والے ہتھ میں سلطان نامی اداکار ہیرو تھے جو اداکار اورنگزیب کے بڑے بھائی تھے۔
1964ء میں زیبا کو بریک تھرو ملا اور دو گولڈن جوبلی فلموں کے ساتھ وہ سال کی کامیاب ترین اردو اداکارہ ثابت ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں سپرہٹ فلموں نے اپنے اپنے سینماؤں میں سولو سلورجوبلیاں یعنی ایک ہی سینما پر مسلسل 25 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
ان میں پہلی فلم توبہ (1964) تھی جو ایک سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی۔ کمال ، زیبا کے پہلے کامیاب ہیرو بنے جن کے ساتھ ایک اور کامیاب فلم آشیانہ (1964) بھی تھی جس نے سلورجوبلی کی۔
اس سال کی دوسری سپرہٹ فلم ہیرا اور پتھر (1964) تھی جس نے گولڈن جوبلی کی۔ یہ زیبا کی وحیدمراد کے ساتھ پہلی فلم تھی جو اس فلم کے فلمساز بھی تھے۔
اسی سال ، محمدعلی بھی پہلی بار زیبا کے ہیرو بنے اور ایک اوسط درجہ کی فلم ہیڈ کانسٹیبل (1964) میں نظر آئے۔ اسی سال زیبا کی سدھیر کے ساتھ پہلی فلم باغی سپاہی (1964) بھی ایک ایوریج فلم تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی فلم کے دوران زیبا نے سدھیر سے دوسری شادی کرلی تھی۔
1965ء کا سال زیبا کے لیے 6 فلمیں لے کر آیا۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم کنیز (1965) تھی جس کا ٹائٹل رول تو صبیحہ خانم نے کیا لیکن روایتی جوڑی زیبا اور وحیدمراد کی تھی۔ محمدعلی نے منفی رول کیا تھا۔ یہ ایک بھاری بھر کم سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی۔ دیگر پانچ فلموں میں صرف تیرے شہر میں (1965) ناکام ہوئی جس میں زیبا کے ہیرو علاؤالدین تھے جو فلم بینوں کو ہضم نہیں ہوئے تھے۔ باقی چاروں فلمیں ، ایسا بھی ہوتا ہے ، رواج ، شبنم اور عید مبارک (1965) کامیاب فلمیں تھیں۔ ان میں دو فلموں کے ہیرو وحیدمراد اور ایک ایک کے ہیرو کمال اور محمدعلی تھے۔
1966ء کا سال زیبا کے لیے انتہائی یادگار رہا جب اس نے 8 فلموں میں کام کیا۔ ان میں فلم ارمان (1966) نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی (یعنی 75 ہفتے) چلنے والی پہلی اردو فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ فلم اپنے مین تھیڑ پر مسلسل 34 ہفتے تک چلتی رہی تھی۔ اس فلم کے فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور ہیرو وحیدمراد تھے جو زیبا کی ایک اور کامیاب فلم جاگ اٹھا انسان (1966) کے ہیرو بھی تھے۔ اسی فلم میں مسعودرانا کا مالا کے ساتھ گایا ہوا ایک بڑا دلکش رومانٹک گیت "دل میں بسایا پیار سے ہم نے ، تم کو اپنا جان کے ، ہم بھی بن گئے تیرے دیوانے ، دل کا کہنا مان کے۔۔" ان دونوں پر فلمایا گیا تھا۔ دکھی پریم نگری کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی۔
فلم کوہ نور کے علاوہ فلم جوش (1966) میں بھی زیبا کی جوڑی سدھیر کے ساتھ تھی اور اس فلم میں وحیدمراد ، سیکنڈ ہیرو تھے۔ فلم لوری (1966) میں پہلی بار زیبا کی جوڑی جزوی طور پر سنتوش اور محمدعلی کے ساتھ تھی۔ کمال کے ساتھ درددل (1966) ایک ناکام فلم رہی جبکہ فلم تصویر (1966) میں وہ ، مہمان اداکارہ تھی۔
فلم جوکر (1966) پہلی فلم تھی جس میں زیبا نے رانی کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو کمال تھے جو فلم کے فلمساز بھی تھے۔ اسی سال 29 ستمبر 1966ء کو زیبا نے محمدعلی سے تیسری شادی کر لی تھی اور مستقبل میں دیگر ہیروز کے ساتھ فلمیں نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
1967ء کا سال زیبا کے لیے 7 فلمیں لے کر آیا۔ ان میں اپنے شوہر محمدعلی کے ساتھ بطور فلمساز پہلی فلم آگ (1967) سب سے کامیاب گولڈن جوبلی فلم تھی۔ یہ فلم بھی اپنے مین سینما پر مسلسل 26 ہفتے چلتی رہی تھی۔
اسی سال زیبا کی پہلی رنگین فلم رشتہ ہے پیار کا (1967) ریلیز ہوئی تھی جس کے ہیرو وحیدمراد تھے اور یہ بیرون ملک بنائی گئی فلم تھی۔ وحیدمراد ہی کے ساتھ فلم انسانیت اور احسان (1967) بھی کامیاب فلمیں تھیں لیکن اسی سال کی فلم ماں باپ (1967) ان کی دسویں اور آخری مشترکہ فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس جوڑی کی اس سال چاروں فلمیں کامیاب ہوئی تھیں اور یہ اب تک ایک کیلنڈر ایئر میں کسی بھی فلمی ہیرو کے ساتھ زیبا کی سب سے زیادہ فلمیں تھیں۔ اس سال زیبا کی واحد ناکام فلم وقت کی پکار (1967) تھی جس کے ہیرو طاہر نامی گمنام اداکار تھے۔
1968ء کا سال زیبا کے لیے اب تک کا سب سے مصروف ترین سال تھا جب اس کی 9 فلمیں ریلیز ہوئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر یہ زیبا کی ناکامیوں کا سال تھا جب 9 میں سے 6 فلمیں ناکام ہوئی تھیں۔ یہی آخری سال تھا جب اس نے اپنے شوہر محمدعلی کے علاوہ کسی دوسرے ہیرو کے ساتھ کام کیا تھا۔
اس سال کی سب سے کامیاب فلم محل (1968) تھی جو ایک گولڈن جوبلی فلم تھی اور اس میں ہیرو محمدعلی تھے جن کے ساتھ ایک اور کامیاب فلم تاج محل (1968) بھی تھی۔ اس فلم میں زیبا اور محمدعلی کی جوڑی پر فلمایا جانے والا مسعودرانا اور مالا کا اکلوتا گیت بھی تھا "مٹ گئے سارے غم ، مل گئے جب حضور۔۔"
زیبا کی سدھیر کے ساتھ چوتھی اور آخری فلم مفرور یا جنگ آزادی (1968) ریلیز ہوئی جو کامیاب رہی تھی۔ اس سال کی ناکام فلموں میں درپن کے ساتھ بالم (1968) ، حیدر کے ساتھ عدالت (1968) ، محمدعلی کے ساتھ دل دیا درد لیا اور مجھے جینے دو (1968) شامل تھیں۔ اعجاز کے ساتھ عصمت (1968) میں زیبا ، حسنہ کے مقابل ثانوی کردار میں تھی جبکہ فلم پاکیزہ (1968) میں زیبا کے ہیرو اعجاز اور ولن محمدعلی تھے۔ دونوں ناکام فلمیں تھیں۔
اب تک کے 9 برسوں میں زیبا نے 41 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے وحیدمراد کے ساتھ 10 ، کمال کے ساتھ 7 ، سدھیر کے ساتھ 4 ، درپن کے ساتھ 2 ، عارف ، رتن کمار ، سلطان ، علاؤالدین اور طاہر کے ساتھ ایک ایک فلم میں کام کیا تھا۔ سنتوش کے ساتھ دونوں فلموں میں روایتی ہیروئن نہیں تھی جبکہ محمدعلی کے ساتھ گو 7 فلموں میں روایتی جوڑی تھی لیکن ان کا ساتھ کل 16 فلموں میں ہوا تھا۔ اس کے بعد زندگی بھر زیبا نے پھر کسی اور ہیرو کے ساتھ کام نہیں کیا اور اپنی اگلی 49 فلموں میں اس کے ہیرو ، اس کے مجازی خدا ، محمدعلی تھے۔ فلموں کی فہرست میں تو مسلسل 53 فلموں میں ان دونوں کا ساتھ رہا جو سترہ مرتبہ کی 'ہٹ ٹرک' بنتی ہے ، ممکن ہے کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو۔۔؟
1969ء ، پہلا سال تھا جب زیبا کے اکلوتے ہیرو محمدعلی رہ گئے تھے لیکن لگتا تھا کہ جیسے یہ فیصلہ سودمند نہیں تھا کیونکہ اس سال کی کل 5 فلموں میں سے کوئی ایک بھی فلم گولڈن جوبلی نہ کر سکی ، سبھی فلمیں سلورجوبلی تھیں۔ ان فلموں میں تم ملے پیار ملا ، جیسے جانتے نہیں ، زندگی کتنی حسین ہے ، بہورانی ، بہاریں پھر بھی آئیں گی (1969) شامل تھیں۔
فلم زندگی کتنی حسین ہے (1969) ، پہلی فلم تھی جس میں میں نے زیبا اور محمدعلی کو دیکھا تھا جب کہ لاہور میں ایک شادی کے موقع پر بس میں بیٹھے ہوئے روای روڈ پر کھمبے سے لٹکا ہوا فلم بہاریں پھر بھی آئیں گی (1969) کا بورڈ بھی آج تک ذہن سے چپکا ہوا ہے۔
1970ء کا سال زیبا کی 6 فلمیں لے کر آیا جن میں واحد کامیاب فلم انسان اور آدمی (1970) تھی۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی کی تھی اور اپنے مین سینما پر سولو سلورجوبلی منائی تھی۔ اس فلم میں زیبا اور محمدعلی نے جذباتی اداکاری کا ایک نیا معیار مقرر کیا تھا اور پہلی بار ینگ ٹو اولڈ کردار کیے تھے۔
اس شاہکار فلم کے علاوہ دیگر پانچوں فلموں ، انجان ، نورین ، محبت رنگ لائے گی ، نجمہ اور ایک پھول ایک پتھر میں سے کوئی ایک بھی فلم سلورجوبلی نہیں کر سکی تھی۔
ستر کا عشرہ ، پاکستان میں فلمی بزنس کے لحاظ سے سب سے سنہرا دور تھا۔ عام طور پر ایک کامیاب فلم اپنی لاگت سے زائد کمانے والی فلم ہوتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسے حقائق سامنے نہیں آتے تھے ، اسی لیے فلم کی کامیابیوں کو جوبلیوں سے ماپا جاتا تھا۔
اس دور میں کراچی میں سلور جوبلی کرنے والی ایک اردو فلم ، ایک ناکام یا زیادہ سے زیادہ ایک اوسط درجہ کی فلم تصور کی جاتی تھی ، گولڈن جوبلی فلم البتہ ایک کامیاب فلم ہوتی تھی۔ اگر ایک اردو فلم کراچی میں ناکام ہوتی تھی تو وہ ہمیشہ کے لیے ڈبوں میں بند ہو جاتی تھی اور باقی ملک میں اس فلم کا صرف نام ہی اخبارات میں پڑھنے کو ملتا تھا۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ، بڑی تفصیل سے لکھا جائے گا۔
1971ء میں زیبا ، محمدعلی کے ساتھ 6 فلموں میں نظر آئی۔ سب سے کامیاب گولڈن جوبلی فلم تیری صورت میری آنکھیں (1971) تھی لیکن معیار میں سب سے اعلیٰ فلم انصاف اور قانون (1971) تھی جس میں ایکبار پھر اس جوڑی نے اہل درد کو تڑپا دیا تھا۔ اس فلم میں احمدرشدی کا گیت "اگر تو برا نہ مانے ، تجھے پیار میں سکھا دوں۔۔" میرے پسندیدہ ترین گیتوں میں سے ایک رہا ہے۔ اس گیت کی پکچرائزیشن بھی بڑے کمال کی تھی ، زیبا نے شاید ہی کبھی اپنے گھر میں بھی ایسے آٹا گوندھا ہوگا جیسے اس گیت کے دوران گوندھا تھا۔
سلام محبت (1971) ایک اور دلکش رومانٹک فلم تھی جس میں مہدی حسن کا گیت "کیوں ہم سے خفا ہوگئے ، اے جان تمنا۔۔" کبھی میرے لبوں پر اکثر مچلتا رہتا تھا۔ دنیا نہ مانے ، یادیں اور آنسو بہائے پتھروں نے (1971) دیگر فلمیں تھیں۔
1972ء میں زیبا کو صرف 5 فلموں میں دیکھا گیا تھا۔ افسانہ زندگی کا اور سبق (1972) گولڈن جوبلی فلمیں تھیں جبکہ محبت (1972) بھی ایک کامیاب فلم تھی۔ اس فلم میں مہدی حسن کی غزل "رنجش ہی سہی ، دل ہی دکھانے کے لیے آ۔۔" امر سنگیت میں شامل ہے۔ دیگر دونوں فلمیں الزام اور بدلے گی دنیا ساتھی (1972) ناکام فلمیں تھیں۔
اس سال کی فلم افسانہ زندگی کا (1972) سے میرا ایک ناقابل فراموش واقعہ منسلک ہے۔ یہ اتوار کا دن تھا ، میں حسب معمول قیصرسینما کھاریاں میں میٹنی شو دیکھنے گیا۔
دیکھا کہ سینما کا مالک اپنے دفتر کے باہر کھڑا کسی کا منتظر ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنی طرف بلایا۔ میری اس سے کوئی جان پہچان نہ تھی لیکن ایسے لگتا تھا کہ سارے عملے کی طرح اسے بھی میرا غائبانہ تعارف ہو چکا تھا۔
وہ ایک بنگالی تھا ، شیخ صاحب کہلاتا تھا اور صحیح معنوں میں بنگالی سیٹھوں والا حلیہ ، سر سے گنجا ، موٹا تن و توش ، ململ کا کرتہ ، سفید کھلا پاچامہ اور پیروں تلے چپل۔۔
وہ ، مجھے اپنے دفتر میں لے گیا اور جاتے ہی بولا "بیٹا ، تمہاری ضرورت پڑ گئی ہے ، یہ سلائیڈ تو لکھ دو ، ہمیں اگلے ہفتہ کے لیے فلم بہارو پھول برساؤ (1972) مل گئی ہے اور آج کافی جینٹری آئی ہوئی ہے ، اس لیے انھیں باخبر کرنا ضروری ہے۔۔"
عام طور پر کھاریاں کینٹ کے فوجی افسران مع اہل و عیال صرف اردو فلم دیکھنے ہی آتے تھے اور انھیں عرف عام میں 'جینٹری' کہا جاتا تھا۔
اس دور میں میری معلومات کے مطابق سینما سلائیڈوں کی دو قسمیں ہوتی تھیں ، ان میں پہلی قسم میں بڑی فرموں یا فلم کمپنیوں کی پروفیشنل سینما سلائیڈیں ہوتی تھیں جنھیں عرف عام میں 'پکی' سلائیڈیں کہتے تھے۔ دوسری قسم ' کچی' سلائیڈوں کی ہوتی تھی جو شیشے کے دو ٹکڑے ہوتے تھے ، غالبا اڑھائی یا تین انچ کا سائز ہوتا تھا ، ایک شیشے پر چاک کی مٹی لگائی جاتی تھی جس پر خشک ہونے پر خالی قلم سے لکھا یا کھرچا جاتا تھا۔ اس پر دوسرا شیشہ جوڑ کر ٹیپ لگا دی جاتی تھی۔ جب وہ سلائیڈ ، سینما مشین میں سے گزرتی تھی تو کھرچے ہوئے الفاظ ، روشنی کی مدد سے فلم کے پردے پر نظر آنے لگتے تھے۔
ایسی عارضی سلائیڈیں عام طور پر سینما پر فلم بینوں کے لیے پیغامات اور مقامی دکانداروں کی تشہیر وغیرہ کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ میں ، استاد رشید کو ایسی سلائیڈیں لکھتے ہوئے دیکھ چکا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اکیلے یہ کام کرنا پڑا۔
سلائیڈ پر میرا 'بہارو پھول برساؤ' لکھا ہوا دیکھ کر شیخ صاحب مسکرائے اور جو جملہ کہا ، وہ آج تک نہیں بھلا سکا
"بیٹا ، آپ لکھتے تو بہت اچھا ہیں لیکن ابھی آپ کو بڑا تجربہ چاہیے۔۔"
مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ فلم کا نام ایک ہی لائن میں لکھنے کے بجائے 'بہارو پھول' اوپر اور 'برساؤ' نیچے لکھ دیا تھا جو ظاہر ہے اچھا نہیں لگتا تھا ، ناتجربہ کاری تھی۔
اس دن انعام کے طور پر شیخ صاحب نے مجھے ، قیصر سینما کی اپر کلاس (گیلری تھی ہی نہیں) میں اپنے ساتھ بٹھا کر فلم افسانہ زندگی کا (1972) دکھائی تھی۔ اردگرد فوجی افسران اور ان کی بیگمات وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ذرا تصور کریں ، ایک دس سالہ بچہ اس وقت کتنی اونچی ہواؤں میں اڑ رہا ہو گا جب اتنی عزت افزائی کے علاوہ اپنے ہاتھ کی لکھائی کو سلور سکرین پر دیکھ رہا تھا۔۔!
1973ء کا سال زیبا کے لیے صرف دو فلمیں لے کر آیا۔ ان میں ندیا کے پار (1973) تو ایک ناکام فلم تھی لیکن دامن اور چنگاری (1973) ایک سپرہٹ نغماتی فلم تھی۔
اس فلم میں محمدعلی ، مین ہیرو تھے لیکن زیبا نے پہلی بار ندیم کے ساتھ رومانٹک سین فلمائے تھے اور ان پر مسعودرانا اور ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا "یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے ، سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے۔۔"
اس گیت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ ندیم کا زیبا کے ساتھ غالباً ایک دوگانا فلم پالکی (1975) میں بھی تھا جسے ناہیداختر اور رجب علی نے گایا تھا۔ یہ دو ہی دوگانے تھے جو ندیم کے زیبا کے ساتھ تھے۔
مسعودرانا کا منفرد ریکارڈ یہ تھا کہ وہ واحد گلوکار تھے جنھوں نے زیبا اور اردو فلموں کے تینوں سپرسٹارز یعنی محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم کے لیے دوگانے گائے تھے۔ رجب علی نے 'زیبا ندیم' کے علاوہ 'زیبا محمدعلی' کے لیے بھی فلم یادیں (1971) میں ایک گیت گایا تھا لیکن 'زیبا وحیدمراد' کے لیے کوئی گیت نہ گا سکے تھے۔ اردو فلموں میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار احمدرشدی نے 'زبیا وحیدمراد' اور 'زیبا محمدعلی' کے لیے بہت سے دوگانے گائے لیکن 'زیبا ندیم' کے لیے نہ گا سکے۔ مہدی حسن نے صرف 'زیبا محمدعلی' کے لیے دوگانے گائے ، 'زیبا ندیم' کے علاوہ وہ 'زیبا وحیدمراد' کے لیے بھی کوئی دوگانا نہ گا سکے کیونکہ ساٹھ کے عشرہ کی فلموں میں ان کے گیت بہت کم ہوتے تھے ، ان کے عروج کا دور ستر کا عشرہ تھا۔
1974ء میں زیبا کی 5 فلمیں منظرعام پر آئیں جن میں سے تین بہت بڑی گولڈن جوبلی فلمیں تھیں۔ زیبا ، پھول میرے گلشن کا (1974) کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی اس میں پہلی بار اردو فلموں کے تینوں سپرسٹار محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم ایک ساتھ نظر آئے تھا۔ اسی فلم میں وحیدمراد نے آخری بار احمدرشدی کا گیت "چھیڑ چھاڑ کروں گا۔۔" زیبا کے لیے گایا تھا۔ دوسری دونوں سپرہٹ فلموں شمع اور دشمن میں زیبا ، مہمان اداکارہ تھی جبکہ پرچھائیں اور ٹائیگر گینگ (1974) ناکام فلمیں تھیں۔
1975ء کا سال زیبا کی مصروفیت کا سال تھا جب کل 9 فلمیں ریلیز ہوئیں اور ظاہر ہے کہ سبھی فلموں میں محمدعلی ہیرو تھے۔ بن بادل برسات ، آرزو ، محبت زندگی ہے ، جب جب پھول کھلے اور نوکر (1975) ، گولڈن جوبلی سپرہٹ فلمیں تھیں۔ شیریں فرہاد ، ایثار اور پالکی (1975) ، سلورجوبلی تھیں جبکہ اکلوتی فلم گمراہ (1975) ناکام فلم تھی۔
فلم شیریں فرہاد (1975) میں مسعودرانا کا ایک تھیم سانگ "کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے۔۔" زیبا اور محمدعلی کے پس منظر میں فلمایا گیا تھا۔ اس طرح مسعودرانا نے زیبا کے لیے وحیدمراد ، محمدعلی اور ندیم کے بعد پس منظر میں بھی ایک گیت گا کر اپنے منفرد ریکارڈ کو سر بمہر کر دیا تھا۔۔!
1976ء میں زیبا کی 5 فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے جن میں کوئی ایک فلم بھی سپرہٹ نہیں تھی لیکن سلورجوبلی سبھی تھیں۔ ان میں عورت ایک پہیلی ، دھڑکن ، گونج اٹھی شہنائی ، آپ کا خادم اور پھول اور شعلے (1976) تھیں۔
1977ء میں زیبا کی واحد فلم بھروسہ تھی جو ایک ہفتے کے فرق سے پلاٹینم جوبلی نہ کر سکی تھی۔ یاد رہے کہ زیبا اور محمدعلی کی جوڑی کی کوئی فلم کبھی ڈائمنڈ (100 ہفتے) یا پلاٹینمم (75 ہفتے) جوبلی نہیں کر پائی تھی۔
1978ء میں زیبا کی دو فلمیں آئیں ، کورا کاغذ اور ٹکراؤ (1978) ، دونوں سلورجوبلی فلمیں تھیں۔
1979ء میں زیبا کی ایک بار پھر دو ہی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں چوری چوری (1979) گولڈن جوبلی جبکہ عبادت (1979) سلورجوبلی رہی۔
دس سال کے وقفہ کے بعد زیبا کی آخری فلم محبت ہو تو ایسی ہو (1989) ریلیز ہوئی اور بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی بڑی دلگداز تھی۔ زیبا اپنے شوہر محمدعلی سے طلاق لے کر شیری ملک سے شادی کر لیتی ہے لیکن اس کا دل اپنے سابقہ شوہر کی طرف مائل رہتا ہے۔ اس فلم کی کہانی رضیہ بٹ کے ناول 'شبو' سے ماخوذ تھی۔
اس طرح زیبا نے کل 90 فلموں میں کام کیا تھا ، صرف ایک پنجابی فلم تھی۔ 21 فلمیں گولڈن جوبلی تھیں ، 36 سلور جوبلی جبکہ 33 فلمیں ناکام ہوئیں۔ اپنے شوہر محمدعلی کے ساتھ کل 64 فلموں میں کام کیا تھا لیکن بطور ہیروئن اس وقت کے مقبول ہیرو حبیب کے ساتھ نہیں دیکھی گئی۔ صبیحہ اور نیرسلطانہ کے ساتھ نظر آئی لیکن اپنی مدمقابل ہیروئنوں ، شمیم آرا ، نیلو اور شبنم کے ساتھ کبھی کسی فلم میں کام نہیں کیا تھا۔ زیبا کو فلموں میں ہمیشہ ایک 'نیک پروین' ٹائپ کرداروں میں پیش کیا جاتا تھا، اس نے اپنے اس مخصوص سٹائل سے ہٹ کر شاید ہی کبھی کوئی چونکا دینے والا رول کیا ہوگا۔ مداحوں کی طرف سے اسے 'بیوٹی کوئین' بھی کہا جاتا تھا۔
زیبا کا اصل نام شاہین بانو تھا ، بھارتی شہر امبالہ میں پیدا ہوئیں ، اردو مادری زبان تھی۔ پہلی شادی خواجہ رحمت سے ہوئی جس سے ایک بیٹی تھی۔ دوسری شادی سدھیر اور تیسری شادی محمدعلی سے ہوئی جو کامیاب رہی۔ زیبا ، پنجاب سنسر بورڈ کی سربراہ بھی رہی ہیں اور حکومت نے ان کے نام پر لاہور میں ایک سڑک کا نام 'علی زیب روڈ' بھی رکھا ہوا ہے۔ زیبا اور محمدعلی نے ایک بھارتی فلم کلرک (1989) میں بھی کام کیا تھا جس میں ان کے متنازعہ فلمی کرداروں پر بڑی سخت تنقید ہوئی تھی اور پاکستان کی فلم انڈسٹری نے ان دونوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا تھا۔
1 | دل میں بسایا پیار سے ہم نے ، تم کو اپنا جان کے..فلم ... جاگ اٹھا انسان ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: لال محمد اقبال ... شاعر: دکھی پریم نگری ... اداکار: زیبا ، وحید مراد |
2 | مٹ گئے سارے غم مل گئے جب حضور..فلم ... تاج محل ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: نثار بزمی ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: محمد علی ، زیبا |
3 | یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے ، سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے..فلم ... دامن اور چنگاری ... اردو ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ، نورجہاں ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: ندیم ، زیبا |
4 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے..فلم ... شیریں فرہاد ... اردو ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، زیبا ، محمد علی ) |
1 | دل میں بسایا پیار سے ہم نے ، تم کو اپنا جان کے ...(فلم ... جاگ اٹھا انسان ... 1966) |
2 | مٹ گئے سارے غم مل گئے جب حضور ...(فلم ... تاج محل ... 1968) |
3 | یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے ، سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے ...(فلم ... دامن اور چنگاری ... 1973) |
4 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے ...(فلم ... شیریں فرہاد ... 1975) |
1 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے ...(فلم ... شیریں فرہاد ... 1975) |
1 | دل میں بسایا پیار سے ہم نے ، تم کو اپنا جان کے ...(فلم ... جاگ اٹھا انسان ... 1966) |
2 | مٹ گئے سارے غم مل گئے جب حضور ...(فلم ... تاج محل ... 1968) |
3 | یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے ، سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے ...(فلم ... دامن اور چنگاری ... 1973) |
1. | 1963: Jab Say Dekha Hay Tumhen(Urdu) |
2. | 1963: Dil Nay Tujhay Maan Liya(Urdu) |
3. | 1965: Aisa Bhi Hota Hay(Urdu) |
4. | 1965: Kaneez(Urdu) |
5. | 1966: Tasvir(Urdu) |
6. | 1966: Joker(Urdu) |
7. | 1966: Jaag Utha Insan(Urdu) |
8. | 1967: Maa Baap(Urdu) |
9. | 1967: Rishta Hay Pyar Ka(Urdu) |
10. | 1968: Taj Mahal(Urdu) |
11. | 1969: Bahu Rani(Urdu) |
12. | 1972: Dil Ek Aaina(Urdu) |
13. | 1973: Daaman Aur Chingari(Urdu) |
14. | 1974: Parchhaen(Urdu) |
15. | 1974: Dushman(Urdu) |
16. | 1975: Shirin Farhad(Urdu) |
17. | 1976: Goonj Uthi Shehnai(Urdu) |
1. | Urdu filmJaag Utha Insanfrom Friday, 20 May 1966Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Lal Mohammad Iqbal, Poet: Dukhi Premnagri, Actor(s): Zeba, Waheed Murad |
2. | Urdu filmTaj Mahalfrom Sunday, 22 December 1968Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Nisar Bazmi, Poet: Tanvir Naqvi, Actor(s): Mohammad Ali, Zeba |
3. | Urdu filmDaaman Aur Chingarifrom Sunday, 28 October 1973Singer(s): Masood Rana, Noorjahan, Music: M. Ashraf, Poet: Taslim Fazli, Actor(s): Nadeem, Zeba |
4. | Urdu filmShirin Farhadfrom Friday, 9 May 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: Qateel Shafai, Actor(s): (Playback, Zeba, Mohammad Ali) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.