پاکستان کی ایک حسین و جمیل گلوکارہ تصورخانم جب ٹی وی پر آتی تھی تو لوگ اسے سنتے کم اور دیکھتے زیادہ تھے۔۔!
تصورخانم ، بنیادی طور پر فلم کی گلوکارہ تھی اور ریڈیو ، ٹی وی اور سٹیج پر بعد میں آئی تھی۔ ایک سٹائلش گلوکارہ جس کی گاتے ہوئے باڈی لینگویج اور فیس ایکسپریشز اتنے کمال کے ہوتے تھے کہ دیکھنے والا ادھر ادھر دیکھ نہیں پاتا تھا۔ ناک چڑھانے کی خوبصورت اور منفرد ادا تو تصورخانم کی پرکشش شخصیت کی خاص پہچان تھی۔
تصورخانم نے ایک ایسے وقت میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا جب گائیکی کی میدان میں ملکہ ترنم نورجہاں ، مالا ، نسیم بیگم ، آئرن پروین اور رونا لیلیٰ جیسی بڑی بڑی گلوکارائیں اپنے اپنے فنی کیرئر کے عروج پر تھیں۔ ان کے درمیان اپنا نام و مقام بنانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔۔!
تصورخانم کا پہلا گیت
تصورخانم نے پہلا فلمی گیت گلوکار مجیب عالم کے ساتھ ایک گمنام اور ادھوری فلم 'باپ بیٹا' میں ریکارڈ کروایا تھا جس کے بول نامعلوم ہیں۔
ریلیز کے اعتبار سے پہلی فلم تہاڈی عزت دا سوال اے (1969) تھی جس میں موسیقار نذیرعلی نے چار گیت گوائے گئے تھے۔ پہلا گیت اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
- ڈھول وے ناداناں ، ایویں پیار نئیں لکائی دا
دل جدوں ہار جاوے ، پلا نئیں چھڑائی دا۔۔
باقی تینوں دوگانے تھے۔ آئرن پروین کے ساتھ ایک روایتی گیت تھا "کہیڑی گلے تکھی ہوئی کجلے دی دھار نی۔۔" جبکہ ایک مزاحیہ گیت احمدرشدی کے ساتھ تھا "عشق تیرا گٹیاں تے گوڈیاں وچ بہہ گیا۔۔" اور تیسرا ایک کورس گیت تھا:
- ہسدیاں فصلاں تے جٹ پاوے لڈیاں۔۔
اس میں نمایاں آواز مسعودرانا کی تھی جن کے ساتھ تصورخانم نے سب سے زیادہ فلمی دوگانے گائے تھے۔
وے سب توں سوہنیا
تصورخانم کو بریک تھرو کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ اداکار ، فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف رنگیلا کی ذاتی فلم رنگیلا (1970) کا یہ لازوال گیت:
- وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا ،
میں تیری ہوگئی ، پیار وچ کھو گئی۔۔
اسقدر مقبول ہوا کہ تصورخانم کی پہچان بن گیا تھا۔
موسیقار نذیرعلی کی دھن میں اس گیت کو طربیہ اور المیہ انداز میں گایا گیا تھا۔ طربیہ انداز میں اداکارہ نشو پر فلمایا گیا تھا جو رنگیلا کے روپ میں ایک عام بلکہ ایک بدصورت شخص کے خیالوں اور خوابوں میں ایک شہزادی بن کر آتی ہے اور اس کے "حُسن" کے گن گاتی ہے۔
حسن کا عالمی میعار
نشو کو جس گوری رنگت ، نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں ، معصوم اور نازک سی تتلی کی طرح ایک نازک و اندام سی حسینہ کے روپ میں دکھایا گیا تھا ، یہ کرہ ارض پر خوبصورتی کا عالمی میعار سمجھا جاتا ہے۔ گو مغربی ممالک میں نسلی تعصب قانوناً جرم ہے لیکن گورے، اپنی رنگت کی وجہ سے خود کو دیگر اقوام سے برترو اعلیٰ اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو نسلی تعصب ، ایک شرمناک حد تک پہنچا ہوا ہے جہاں کالا رنگ ، ایک عیب شمارہوتا ہے جس کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔
بچپن میں ہم حوروں اور پریوں کی کہانیاں پڑھتے اور سنتے تھے جو تبت کریم کی طرح گوری چٹی ہوتی تھیں ، شاید ہی کبھی کسی نے کسی کالی حور اور پری کا تصور کیا ہوگا۔
بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ جب عربوں نے کوہ قاف (آرمینیا اور آذربائجان وغیرہ) کا علاقہ فتح کیا تو مال غنیمت میں انھیں جو حسین وجمیل گوری چٹی ، نازک اندام روسی عورتیں ملیں ، وہ ، ان کے تصور سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہوتی تھیں جنھیں وہ ، 'پریاں' اور ان علاقوں کو ' پرستان ' کہنے لگے تھے۔
آج بھی ہمارے ہاں احساس کمتری اسقدر شدید ہے کہ عورتیں ، رنگ گورا کرنے کے لیے میک اپ کے نام پر اپنے چہرے تک بگاڑ لیتی ہیں۔ ایک بار میری بیٹی ، گہرا میک اپ کر کے آئی اور بڑے فخر سے پوچھا کہ ابو ، کیسی لگ رہی ہوں۔۔؟ میں نے برجستہ جواب دیا کہ بیٹا ، اور اچھی لگو گی اگراچھا سا منہ دھو کر آؤ گی تو۔۔!
فلم رنگیلا (1970) کا مرکزی خیال
فلم رنگیلا (1970) کا مرکزی خیال یہی تھا کہ ایک معمولی شکل و صورت کا شخص جو شاید آئینے میں اپنا آپ بھی نہ دیکھ سکتا ہو ، وہ بھی دنیا کی حسین جو جمیل عورت کا تصور رکھتا ہے لیکن جب اس پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے یا اس کی کتنی اوقات ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
اس موقع پر صاعقہ جو گھر کی مرغی کی طرح ہوتی ہے۔ وہ ، دل کی گہرائیوں سے "وے سب توں سوہنیا ۔۔" گا کر رنگیلا کی نہ صرف ڈھارس بندھاتی ہے بلکہ اسے سہارا بھی دیتی ہے۔ اس فلم کا وہ سین ، فلم کی جان ہوتا ہے کہ جب رنگیلا اپنی ماں (سلمیٰ ممتاز) سے پوچھتا ہے کہ دنیا تو اس کو بدصورت کہتی ہے لیکن ماں ، اسے 'سوہنا' کیوں کہتی ہے ۔۔؟ تو جواب ملتا ہے کہ دنیا ، ماں کی آنکھ سے جو نہیں دیکھتی۔۔!
تصورخانم بطور اداکارہ
دلچسپ بات تھی کہ صاعقہ کے اس رول کے لیےرنگیلا نے پہلے تصورخانم کو اداکاری کی پیش کش کی تھی لیکن اس نے انکار کردیا تھا البتہ ایک شادی و بیاہ کے ایک گیت "اج دی رات اے شگناں والی ، کل ٹر جانا دیس پرائے ، اڑیئے رات وچھوڑے والی ، نیڑے نیڑے آندی جائے۔۔" کے دوران اداکارہ نغمہ کے ساتھ شرکت کی تھی۔ اس گیت کے ضمن میں جن دوفلموں کا ذکر ملتا ہے، ان میں سے ایک فلم سیاں (1970) اور دوسری فلم اک ڈولی دو کہار (1971) تھی۔
تصورخانم اور مسعودرانا کا ساتھ
فلم سیاں (1970) میں تصورخانم نے مسعودرانا کے ساتھ ایک بڑا دلکش دوگانا گایا تھا "سن کلیے نی سرخ انار دیے ، مٹیارے نی لاٹاں ماردیے ، نیئں لبھنا جواب تیرے جیاں دا ، میں ہوگیا خادم سیاں دا۔۔" بابا چشتی کی دھن میں پہلی بار جب یہ گیت سنا تھا تو کئی دنوں تک اس گیت کے سحر میں مبتلا رہا تھا۔
فلم آنسو (1971) میں تصورخانم نے مسعودرانا اور مالا کے ساتھ اس مشہور کورس گیت میں بھی شرکت کی تھی "زندگی ، زندہ دلی کا نام ہے ، زندگی سے پیار کرنا ہی ہمارا کام ہے۔۔" یہ اداکار شاہد پر فلمایا جانے والا پہلا گیت تھا۔ اسی فلم میں تصورخانم کی سفارش پر اداکارہ ممتاز کو بھی متعارف کروایا گیا تھا جو رشتے میں اس کی پھوپھی زاد تھی۔
میں کہیا ، گل سن جا
تصورخانم کے فلمی کیرئر کا دوسرا سپرہٹ سولو گیت فلم یاربادشاہ (1971) میں تھا "او میں کیہا ، گل سن جا۔۔" ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں یہ ایک بڑی منفرد طرز تھی۔ تصورخانم کے بقول ایسی دھن پہلی بار بنی تھی جسے ریکارڈ کروانے میں اسے بڑی دقت کا سامنا ہوا تھا اور وہ بار بار بھول جاتی تھی۔ متعدد ری ٹیک کے بعد اس کی ریکارڈنگ ممکن ہوئی تھی۔
یہ گیت مسعودرانا نے بھی گایا تھا اور بڑی آسانی کے ساتھ گایا تھا کیونکہ اس عجوبہ روزگار گلوکار کے لیے کوئی دھن مشکل نہیں ہوتی تھی۔ مجھے ذاتی طور پر رانا صاحب کا ورژن زیادہ پسند ہے۔ خاص طور پر تنویر نقوی کے لکھے ہوئے یہ بول تو بڑے منفرد ہیں:
- وٹ نہ کچیچیاں تے تیوڑیاں چڑھا نہ
سنی نئیں گل جہیڑی ، ایس نوں وداء نہ
گل اے وے کہ ہن رہیا نئیں جا۔۔
نئیں نئیں ، کجھ نئیں ، جا جا
ہو میں کہیا ، گل سن جا۔۔
ناخواندہ تصورخانم
تصورخانم ، لکھ پڑھ نہیں سکتی تھی لیکن قدرت نے اسے غضب کا حافظہ دیا تھا۔ فلم جاگدے رہنا (1972) کے اس سپرہٹ گیت "میرا دلبر ، میرا دلدار ، توں ایں۔۔" کو بغیر کسی ریہرسل کے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ موسیقار ماسٹر عبداللہ ، تصورخانم کے کان میں بتاتے جاتے تھے اور وہ گاتی جاتی تھی۔
فلم اک پیار تے دو پرچھاویں (1972) میں بھی تصورخانم کا موسیقار بخشی وزیر کی دھن میں یہ دل گداز سولو گیت سپرہٹ ہوا تھا "ایس جگ دی جدوں تک کہانی روے ، پیار تیرا ، میری زندگانی روے۔۔"
فلم عید دا چن (1972) میں نذیرعلی کی موسیقی میں میڈم نورجہاں کے ساتھ یہ دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "دل نوں توڑ گیا دلدار۔۔"
فلم بہارو پھول برساؤ (1972) میں آئرن پروین ، شوکت علی اور ساتھیوں کے ساتھ موسیقار ناشاد کی دھن میں یہ خوبصورت قوالی بھی گائی تھی "اے محبت ، تیرا جواب نہیں ہے۔۔" اسی سال کی
فلم اشتہاری ملزم (1972) میں تصورخانم کا مسعودرانا کے ساتھ یہ دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "اے دنیا روپ بہروپ ، ایس توں بچنا پیندا اے ، کسے نوں گانا پیندا اے ، کسے نوں نچنا پیندا اے۔۔" موسیقار بابا چشتی تھے۔
ایسی چال میں چلوں
1973ء میں تصورخانم کا مقبول ترین گیت فلم انمول (1973) میں تھا جس کے بول تھے "ایسی چال میں چلوں ، کلیجہ ہل جائے گا ، کسی کی جان جائے گی ، کسی کا دل جائے گا۔۔" موسیقار نثاربزمی تھے۔
فلم زخمی (1973) میں اے حمید کی دھن میں میڈم کے ساتھ یہ دوگانا بھی بڑا سنا گیا تھا "سنو کہانی میری زبانی ، اک لڑکی تھی بڑی غریب۔۔"
فلم اج دا مہینوال (1973) میں تصورخانم نے مسعودرانا کے ساتھ دو دوگانے گائے تھے جن میں ایک "لنگ آ جا پتن چناں یار دا۔۔" کے علاوہ ایک دلکش رومانٹک گیت تھا "او سجناں ، میل دتا اے خدا ، ماہیا۔۔"
اس گیت میں دونوں گلوکاروں کا ہر انترے کے بعد "ہاہا ، ہاہا" کرنا بڑا پر لطف تھا۔ دلچسپ بات تھی کہ گیت کے آخر میں تصورخانم ، اپنی باری کا انتظار کیے بغیر گانے کی کوشش کرتی ہے لیکن مسعودرانا کے جاری بول سنتے ہی فوراً خاموش ہوجاتی ہے۔ سلیم اقبال صاحبان اس فلم کے موسیقار تھے۔
فلم پردے میں رہنے دو اور دامن اور چنگاری (1973) میں ایم اشرف کی دھنوں پر تصورخانم نے احمدرشدی کے ساتھ دو پیروڈی گیت گائے تھے جن میں مختلف گیتوں کے بول توڑ مروڑ کر گائے گئے تھے جو بڑے دلچسپ تھے مثلاً "تو ایس کھمبے دا بلب ماہی لالیا ، جاکے واپڈا شکایت لاواں گی۔۔"
اگر تم مل جاؤ ، زمانہ چھوڑ دیں گے ہم
1974ء میں تصورخانم نے موسیقار ناشاد کی دھن میں ایک اور سپرہٹ گیت گایا تھا:
- اگر تم مل جاؤ ، زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔۔
یہ گیت فلم ایماندار (1974) کا تھا۔ 1975ء کا سال تصورخانم کی مصروفیت کا آخری سال تھا۔
اس سال فلم پیار کا موسم (1975) میں مسعودرانا کے ساتھ ماسٹر تصدق حسین کی موسیقی میں یہ دوگانا مقبول ہوا تھا "پیار کا موسم ، دل کو جلائے ، ایسے مجھے کوئی ساتھی مل جائے۔۔"
تو میری زندگی ہے ، کس نے گایا تھا؟
اگلے سات برسوں میں تصورخانم کے درجن بھر گیت ملتے ہیں۔ ان گیتوں میں سے ایک اور سپرہٹ گیت تھا:
- تو ، میری زندگی ہے ، تو ، میری ہرخوشی ہے۔۔
اس گیت کو تصورخانم کی آواز میں سن کر مجھے خاصی حیرت ہوتی تھی کیونکہ فلم محبت مرنہیں سکتی (1977) میں یہ گیت میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کی آوازوں میں تھا۔ تصورخانم کے ایک انٹرویو کے مطابق یہ گیت ، موسیقار ناشاد نے پہلے اسی کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا لیکن بعد میں بتائے بغیر یہ گیت میڈم نورجہاں سے گوا کر فلم میں شامل کردیا تھا۔
ایسے متعدد واقعات اور بھی ہیں جب ایک گلوکار کا گیت کسی دوسرے گلوکار سے گوا کر فلم میں شامل کر دیا گیا تھا۔ سب سے نمایاں مثال فلم شمع اور پروانہ (1970) میں نثاربزمی کی دھن میں گائے ہوئے گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔۔" کی ہے جسے مہدی حسن نے گایا تھا لیکن فلم میں مجیب عالم کی آواز میں تھا۔
فلم پیارکرن توں نئیں ڈرنا (1991) میں مسعودرانا کا گیت "دو ہنساں دا جوڑا ، اڈدا ہی جائے۔۔" کیسٹ میں تو تھا لیکن فلم میں غالباً موسیقار کمال احمد نے خود ہی گایا تھا جبکہ اس گیت کا اردو ورژن بھی مسعودرانا ہی کا گایا ہوا تھا۔ بہت سے ڈبل ورژن گیت ایسے ملتے ہیں کہ جنھیں ایک ہی گیت کو دو الگ الگ گلوکاروں نے گایا تھا۔
تصورخانم کے فلمی ریکارڈز
تصورخانم کا فلمی کیرئر صرف چھ سال پر محیط تھا لیکن بے حد مقبول گلوکارہ تھی۔ غیرحتمی اعدادوشمار کے مطابق سوا سو سے زائد فلموں میں پونے دو سو کے قریب گیت ملتے ہیں لیکن کامیاب گیتوں کا تناسب بہت کم تھا۔ 1972ء سے 1975ء تک کے چار برسوں میں سالانہ دو درجن کے حساب سے فلموں میں گیت گائےتھے۔ پنجابی فلموں اور گیتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ میڈم نورجہاں سمیت مالا ، نسیم بیگم اور آئرن پروین کے ساتھ بڑی تعداد میں دوگانے گائے تھے۔ گلوکاروں میں سب سے زیادہ گیت مسعودرانا اور احمدرشدی کے ساتھ گائے تھے جبکہ مہدی حسن کے ساتھ کبھی کوئی گیت نہیں گایا تھا۔
تصورخانم کا خاندانی پس منظر
تصورخانم کی پیدائش 1950ء میں کراچی میں ہوئی تھی لیکن تعلق گجرات کے ایک نواحی گاؤں سے ہے۔ والد اخترحسین ، ایک درزی تھے۔ ایک پھوپھی ، نسیم بانو (نسیم بیگم نہیں!) ، ریڈیو پاکستان لاہور پر گاتی تھی جسے سن کر گانے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ سکول کی روایتی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن یادداشت بڑے کمال کی تھی۔ سارنگی نواز استاد بوٹے علی خان ' ٹانڈے واسی' سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔
1969ء میں سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ایک رئیس غلام علی خان مری سے شادی ہوئی جس سے تین بچے ہوئے۔ وہ اپنے خاوند کی تیسری بیوی تھی جس کے انتقال کے بعد شوبز کی دنیا میں واپسی پر زیادہ تر ٹی وی اور سٹیج پر گایا اور بہت سے گیت اور غزلیں مقبول ہوئی تھیں۔ کراچی میں قیام ہے۔
ایک ادھوری فلم 'سلطان خان' کے لئے وجاہت عطرے کی دھن میں یہ گیت ریکارڈ کروایا تھا "تو میرا دل کھو لیا منڈیا ۔۔" اس طرح فلمی دنیا میں آغاز بھی ایک ادھوری فلم سے ہوا اور تادم تحریر اختتام بھی ایک ادھوری فلم پر ہی ہوا ہے۔
8 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت