A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
عنایت حسین بھٹی کو پنجاب میں 'عوامی گلوکار' کہا جاتا تھا۔۔!
اپنے آبائی شہر گجرات سے لاہور وکالت کے لیے گئے لیکن فلمی گلوکار بن گئے۔ پہلا گیت:
فلم شمی (1950) کے لیے گایا لیکن ریلیز کے اعتبار سے پہلی فلم سچائی (1949) تھی۔
بریک تھرو ، پاکستان میں بننے والی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) سے ملا۔ یہ پاکستان کی فلمی تاریخ کی پہلی سپرہٹ نغماتی فلم تھی جس میں پاکستانی فلموں کا پہلا مقبول مردانہ گیت:
اور پہلا ہٹ دوگانا:
گانے کا اعزاز عنایت حسین بھٹی کو حاصل ہوا تھا جن کی ساتھی گلوکارہ منور سلطانہ کوپاکستانی فلموں کا پہلا سپرہٹ نسوانی گیت گانے کا ناقابل شکست اعزاز بھی حاصل ہوا تھا جس کے بول تھے:
عنایت حسین بھٹی کے فلمی کیرئر پر ایک تفصیلی مضمون سابقہ ویب سائٹ پر لکھا جاچکا ہے ، اس لیے اسے دھرانے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں ان کی فنی زندگی کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
پچاس کا عشرہ ،عنایت حسین بھٹی کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ پاکستان کے ابتدائی دور کے زیادہ تر مقبول عام گیت بھٹی صاحب ہی کے گائے ہوئے ہوتے تھے۔
اس دور میں انھوں نے تین فلموں جلن ، ہیر (1955) اور مورنی (1956) میں ہیرو کے طور پر بھی کام کیا لیکن اداکاری میں کامیاب نہیں ہوئے۔
فلم شہری بابو (1953) کا لازوال گیت:
اور " فلم ماہی منڈا (1956) کا عوامی گیت:
ان کے گائے ہوئے چند ناقابل فراموش پنجابی گیت تھے۔ فلم عشق لیلیٰ (1957) کا یہ دلسوز گیت:
اور فلم چنگیز خان (1958) کا یہ تاریخی رزمیہ ترانہ:
ان کے چند لازوال اردو گیت تھے۔
ایسے عروج کے باوجود گلوکار سلیم رضا اور منیر حسین کی آمد سے زوال پذیر ہوئے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ فلم کرتارسنگھ (1959) میں سلیم رضا کی آواز ، عنایت حسین بھٹی پر فلمائی گئی تھی جواس فلم میں ایک ثانوی کردار کررہے تھے۔
بے قدری کی انتہا تھی جب بقول موسیقار وزیر افضل ، فلم چاچا خوامخواہ (1963) کے ایک دوگانے کی ریہرسل کے لیے بھٹی صاحب گجرات سے لاہور آتے تھے اور فلمساز انھیں روزانہ کے صرف تین روپے دیتا تھا لیکن گلوکار منیر حسین جو لاہور ہی میں رہتے تھے ، انھیں پانچ روپے ملتے تھے۔
یہ دور بھٹی صاحب کے مکمل فلمی زوال کا دور تھا جس کی وجہ سے فلم کی دنیا سے مایوس ہوکر تھیٹر کی دنیا میں چلے گئے تھے جہاں نئے تجربات اور مشاہدات ان کے منتظر تھے۔
عنایت حسین بھٹی نے ہمت نہیں ہاری اور پنجاب کے عوامی میلوں میں "بھٹی تھیٹر" کے نام سے اپنے فن کامظاہرہ کرنا شروع کردیا تھا۔ مقابلہ یہاں بھی بڑا سخت تھا ، عالم لوہار ، طفیل نیازی ، بالی جٹی ، عاشق جٹ اور منظورجھلا وغیرہ جیسے بڑے بڑے لوک فنکار عوامی میلوں کی جان ہوتے تھے۔
ہمارے میڈیا کے بڑے بڑے جغادریوں کے وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ ریڈیو ، ٹی وی اور فلم کے مقابلے میں میلے ٹھیلوں کا کلچر پنجاب میں کس قدر مقبول ہوتا تھا اور لوک فنکاروں کی عوامی مقبولیت ، فلمی فنکاروں سے کہیں زیادہ ہوتی تھی لیکن میڈیا میں انھیں کوریج نہیں ملتی تھی۔
میرے آبائی شہر کھاریاں میں ہر سال جولائی کے مہینے میں ایک بہت بڑا میلہ "میلہ مہدی شاہ" کے نام سے منعقد ہوتا تھا۔ تین دن کے لیے شہر میں خیموں کا ایک عارضی شہر آباد کیا جاتا تھا جس میں اتنی رونق ہوتی تھی کہ لوگ دوردراز سے جوق جوق میلہ دیکھنے آتے تھے۔
ان دنوں ہمارے گھر میں بھی بڑی گہما گہمی ہوتی تھی اور دور دراز سے ، خاص طور پر دیہاتی رشتہ دار اپنے دیگر پینڈو ساتھیوں کے ہمراہ میلہ دیکھنے آتے تھے۔ ان کے لیے صرف بستراورچارپائی کا بندوبست کرنا پڑتا تھا ، کھانے پینے کا تردد نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھ اتنا کچھ لاتے تھے کہ ہم بچوں کی بھی عید ہوجاتی تھی۔ کوئی تازہ تازہ حلو ہ پوری لارہا ہے تو کوئی نان کباب ، پھل اور طرح طرح کی مٹھائیوں کے علاوہ گرم گرم پیلی پیلی جلیبیوں کا ذائقہ تو آج تک زبان پر ہے۔
جن لوگوں کے عزیز و اقارب نہیں ہوتے تھے وہ تینوں راتیں اس پنڈال میں گزارتے تھے جہاں مہدی شاہ صاحب ، عام طور قوالی کرواتے تھے۔ بڑے بڑے نامور قوال اور گویے آتے تھے جو عام طور پر ہماری بیٹھک میں قیام کیا کرتے تھے۔ ایسے مشہور ناموں میں مجھے خاص طور پر اسد امانت علی خان اور استاد نصرت فتح علی خان یاد ہیں جو اس وقت تک اتنے مشہور نہیں ہوئے تھے۔
ایک میلے میں تو ایک چھوٹے سے خیمہ نما سینما میں فلم چن سجناں (1970) کے چند شارٹس بھی دیکھے تھے جو ایک چھوٹے سے فلم پروجیکٹر پر ہوتے تھے۔ پرانی فلمیں اگر مکمل نہیں ملتیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی تھی کہ مختلف سینماؤں پر فلم آپریٹرز فلم کی ریلوں سے کئی سین کاٹ کر بیچا کرتے تھےجو ان کی فالتو کمائی کا ذریعہ بن جاتے تھے۔
ایک میلے میں مجھے پہلی اور آخری بار ایک "میجک شو" میں مائیک پر غلام علی کا مشہور زمانہ گیت گانے کا موقع ملا تھا "پہلی واری اج انہاں اکھیاں نیں تکیا۔۔" خیال تھا کہ غلام علی جیسی نہیں تو ان سے ملتی جلتی آواز تو ہوگی لیکن جب لاؤڈ سپیکر سے صدائے بازگشت سنائی دی تو میری اپنی بھی ہنسی چھوٹ گئی تھی کیونکہ میری آواز مالا سے بھی زیادہ باریک تھی ، ظاہر ہے ، عمر صرف گیارہ بارہ برس کی تھی۔۔!
ایسے ہی ایک میلے میں بچپن میں صرف ایک بار تھیٹر دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ عام طور پر تھیٹروں کے باہر بڑے بڑے بل بورڈ آویزاں ہوتے تھے جن پر لوک داستانوں کے مرکزی کرداروں کی بڑی بڑی تصاویر ہوتی تھیں اور خیال ہوتا تھا کہ اندر ڈرامہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ رات گئے تک تھیٹر شروع ہوتا تھا اور صبح سحر کو جاکر ختم ہوتا تھا۔
یہ پنجاب کی ایک مشہور لوک فنکارہ ، بالی جٹی کا تھیٹر تھا جس سے ملحق معروف لوک گلوکار عالم لوہار کا تھیٹربھی تھا۔ یہ دونوں نامور فنکار اپنے اپنے سٹیج سے مقابلے میں گاتے تھے ، بالی جٹی جو بول گاتی ، عالم لوہار اس کے جواب میں گاتے ، جیسے اردو میں بیعت بازی ہوتی ہے۔
ایسا مقابلہ پہلے عالم لوہار اور عنایت حسین بھٹی کے درمیان ہوتا تھا۔ میں نے تو وہ دورنہیں دیکھا لیکن بڑے کزنوں اور انکلوں سے پتہ چلتا تھا کہ مقابلہ بڑا سخت ہوتاتھا ۔ دونوں ایک ہی ضلع گجرات کے باسی تھے اور ان میں خاصی پیشہ وارانہ رقابت پائی جاتی تھی۔ بھٹی صاحب کو یہ برتری حاصل ہوتی تھی کہ وہ فلمی فنکار کا لیبل لگا کر زیادہ اہم ہوجاتے تھے جبکہ عالم لوہار تمام تر کوشش کے باوجود فلموں میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ البتہ لوک گائیکی میں ان کی عظمت سے انکار ممکن نہیں۔
مجھے فلمی گیتوں سے زیادہ دلچسپی ہوتی تھی ، اس لیے عالم لوہار اور دیگر لوک فنکاروں کے بارے میں اتنا علم نہیں ہوتا تھا حالانکہ عالم لوہار کے بارے میں اپنے دوستوں کو اکثر بڑے فخر سے بتایاکرتا تھا کہ ان کی ایک بیٹی کی بارات میں شامل تھا جو ہمارے شہر میں بیاہی ہوئی تھی۔ لالہ موسیٰ کے ریلوے روڈ پر ان کا گھرآج بھی یاد ہے۔
ایک بار میرے ایک محلہ دار اور عزیز ہمارے گھر آئے اور ٹی وی دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عالم لوہار کے گیتوں کا پروگرام تھا جو میں نے پہلی بار دیکھا اور سنا تھا۔ اس شخص نے بڑی گہری دلچسپی کے ساتھ وہ پروگرام دیکھا اور ساتھ ساتھ تبصرہ کرکےبتاتا رہا کہ جب عالم لوہار کی ٹانگ ٹوٹی تو اس نے کون سا گیت لکھا اور گایا تھا۔
اس وقت پہلی بار یہ اندازہ ہوا تھا کہ لوک فنکاروں کا پنجاب کے عوام میں کتنا بڑا مقام ہوتا تھا لیکن چونکہ پاکستانی عوام کی اکثریت ، جاہل ، ان پڑھ اور بے زبان ہے، اس لیے ہمارے نام نہاد قومی میڈیا میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
60 کی دھائی کے آغاز میں جب عنایت حسین بھٹی زوال پذیر ہوئے تو مردانہ فلمی گائیکی کی صورتحال کچھ اس طرح سے تھی کہ سلیم رضا چوٹی کے گلوکار تھے جو زیادہ تر اردو فلموں میں نیم کلاسیکل گائیکی کے بہترین گلوکار تھے جبکہ منیر حسین ، آل راؤنڈر گلوکار تھے جو اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں مہارت سے گاتے تھے۔
فلم مہتاب (1962) سے احمدرشدی بھی صف اول کے گلوکار بن گئے تھے ، یہاں تک کہ اس سال کی سبھی پنجابی فلموں میں بھی ان کے گیت تھے۔ مہدی حسن بھی فلم سسرال (1962) سے اپنی پہچان کروا چکے تھے لیکن غزل کے مخصوص گلوکار تھے اور ان کی آواز پنجابی فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں تھی۔
مسعودرانا بھی فلم بنجارن (1962) سے ملک گیر شہرت حاصل کرچکے تھے لیکن اس وقت تک کراچی میں مقیم تھے اور وہیں بننے والی اردو فلموں کے لیے نغمہ سرائی کررہے تھے لیکن سب سے افسوسناک صورتحال عنایت حسین بھٹی کی تھی جنھیں موسیقاروں نے نظر انداز کردیا تھا۔ 1962ء سے 1967ء تک کے چھ برسوں میں بھٹی صاحب کی صرف آٹھ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے کوئی ایک بھی مشہور گیت نہیں تھا۔
زوال کے اس دور میں ایک پنجابی فلم رشتہ (1963) ، مسعودرانا کی عنایت حسین بھٹی کے ساتھ پہلی مشترکہ فلم تھی۔
اس سے قبل رانا صاحب کی پہلی فلم انقلاب (1962) صرف کراچی تک محدود رہی تھی لیکن دوسری فلم بنجارن (1962) ، پورے ملک میں ریلیز ہوئی تھی۔ کراچی میں بننے والی اس سپرہٹ فلم میں مسعودرانا کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔
بابا چشتی نے اس فلم کے گیت سنتے ہی انھیں کراچی سے لاہور بلوا بھیجا تھا اور پہلی بار اپنی زیرتکمیل فلم رشتہ (1963) میں منیر حسین کے ساتھ ایک قوالی گوائی تھی:
اس پہلے بلاوے میں انھوں نے فلم ڈاچی (1964) کا یہ مزاحیہ گیت بھی مسعودرانا اور احمدرشدی سے گوایا تھا:
بابا چشتی نے جب "ٹانگے والا خیرمنگدا۔۔" کی دھن بنائی تو اس کے لیے موزوں ترین آواز کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔ فن موسیقی کے اس عظیم جوہری نے وقت کے سبھی بڑے گلوکاروں میں سے مسعودرانا جیسے ہیرے کا انتخاب کیا جو سو فیصدی درست ثابت ہوا اور پھر ایک ایسا شاہکار گیت تخلیق ہوا کہ جس نے مسعودرانا کو تاحیات پنجابی فلموں کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔
مسعودرانا کی پنجابی فلمی گائیکی پر اجارہ داری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بابا چشتی نے عنایت حسین بھٹی سے 25 برسوں میں سو گیت گوائے تھے لیکن مسعودرانا سے صرف 14 برسوں میں سو سے زائد گیت گوا لیے تھے۔
مسعودرانا کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں اور فلموں کی تعداد ، پاکستان کے دیگر پانچوں بڑے گلوکاروں یعنی عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا ، منیر حسین ، مہدی حسن اور احمدرشدی کے گائے ہوئے مجموعی پنجابی گیتوں اور فلموں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
عوامی میلوں میں "عوامی گلوکار" کا خطاب پانے اور پنجاب کے عظیم کلچر کو قریب سے جاننے اور پرکھنے کے بعد عنایت حسین بھٹی نے پہلے ایک تاریخی فلم وارث شاہ (1964) بنائی جو فلم بینوں کو متاثر نہ کر سکی۔ اس فلم میں انھوں نے گائیکی کے علاوہ فلم کا ٹائٹل رول بھی کیا تھا۔
دوسری فلم مونہہ زور (1966) قدرے بہتر رہی لیکن 1968ء کی دوفلموں ، چن مکھناں اور سجن پیارا نے بھٹی صاحب کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ ان فلموں سے نہ صرف بطور گلوکار بلکہ اداکار بھی سپرہٹ ہوئے اور ملکہ ترنم نورجہاں کے بعد دوسرے فنکار تھے جو گلوکاری اور اداکاری میں بیک وقت کامیاب ہوئے تھے۔
بھٹی صاحب کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا تھا اور ان کی فلمیں ریکارڈ بزنس کرتی تھیں۔ فلم بین بڑی بے تابی سے ان کی نئی فلموں کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس وقت کے بڑے بڑے پنجابی فلمی ہیروز یعنی سدھیر ، حبیب ، اعجاز اور یوسف خان کے مقابلے میں ان کی اپنی الگ شناخت ہوتی تھی اور وہ پچاس سے زائد فلموں میں ہیرو آئے تھے۔
اپنے دوسرے دور میں عنایت حسین بھٹی کے گائے ہوئے بیشتر فلمی گیت بھی سپرہٹ ہوتے تھے لیکن وہ گیت صرف ان پر یا ان کے بھائی کیفی پر فلمائے جاتے تھے۔ دیگر فلموں میں انھیں پلے بیک سنگر کے طور پر کم ہی موقع ملتا تھا جس کی بڑی وجہ تو یہ تھی کہ پنجابی فلمی گائیکی پر مسعودرانا کی اجارہ داری ہوتی تھی جسے ان کی زندگی میں کوئی دوسرا گلوکار چیلنج نہیں کر سکاتھا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ بھٹی صاحب کی آواز کو فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کی بطور گلوکار کامیابی کو نوے کی دھائی میں لوک گلوکاروں عارف لوہار اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی کامیابی کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے یعنی بھٹی صاحب کو فلمی گلوکار سے زیادہ لوک گلوکار کے طور پر کامیابی ملی تھی۔
ویسے بھی بھٹی صاحب کی گائیکی کے دونوں ادوار میں نمایاں فرق تھا۔ پہلے دور میں ان سے اردو اور پنجابی گیت گوائے جاتے تھے۔ بابا چشتی کے علاوہ فیروز نظامی ، رشید عطرے ، ماسٹر عنایت حسین اور صفدرحسین جیسے بڑے بڑے موسیقار بھی ان سے گیت گواتےتھے لیکن دوسرے دور میں وہ صرف پنجابی فلموں تک محدود رہے جس کی بڑی وجہ یقیناً میلے ٹھیلوں میں زیادہ لاؤڈ گانا تھا۔ اس دور میں بھٹی صاحب کی گائیکی پر فوک گائیکی کا غلبہ تھا جو ا ن کی عوام الناس میں بے مثل کامیابی کی وجہ بھی تھی۔
اونچی سروں میں گائے ہوئے گیت پنجاب میں تو پسند کیے جاتے تھے لیکن اردو بولنے والوں میں نرم اور ملائم آوازیں زیادہ پسند کی جاتی تھیں۔ اردو فلموں کے مخصوص موسیقاروں یعنی نثاربزمی ، ناشاد ، سہیل رعنا اور روبن گھوش کے علاوہ خواجہ خورشیدانور نے کبھی کوئی گیت بھٹی صاحب سے نہیں گوایا تھا اور نہ ہی بھٹی صاحب کا گایا ہوا کوئی گیت اردو فلموں کے مخصوص ہیروز محمدعلی ، وحیدمراد ، ندیم یا شاہد پر فلمایا گیا تھا۔
بظاہر اسی وجہ سے کراچی کے ایک معروف فلمی اخبار کی لاعلمی کی انتہا تھی جب اس نے اپنے ایک سالنامے میں جہاں سبھی اہم فنکاروں کا تفصیلی ذکر کیا ، وہاں عنایت حسین بھٹی کو گلوکار کی بجائے اداکاروں کی صف میں شامل کیا تھا ، حالانکہ بنیادی طور پر وہ ایک گلوکار تھے اور پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے بڑے گلوکار تھے ، اداکاری تو ان کی ایک اضافی خوبی تھی۔
مسعودرانا اور عنایت حسین بھٹی کا ساتھ پہلی بار فلم سجن بیلی (1970) میں ہواتھا۔ موسیقار تصدق حسین نے ان دونوں گلوکاروں کی آوازوں میں یہ گیت الگ الگ گوایا تھا
بھٹی صاحب کا گایا ہوا گیت انھی پر فلمایا گیا تھا جبکہ مسعودرانا کا گیت فلم کے ٹائٹل اور تھیم سانگ کے طور پر پس منظر اور علاؤالدین پر فلمایا گیا تھا۔
ان دونوں عظیم گلوکاروں کا پہلا روایتی دوگانا فلم یاربادشاہ (1971) میں تھا:
یہ گیت اداکار افضل خان کے علاوہ خود مسعودرانا پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں اداکاری بھی کررہے تھے۔ عنایت حسین بھٹی کے برعکس مسعودرانا کو اداکاری کے شعبہ میں سخت ناکامی ہوئی تھی۔
ان دونوں کا دوسرا گیت اصل میں ایک قوالی تھی:
موسیقار بخشی وزیر صاحبان نے بڑی متاثرکن دھن بنائی تھی اور دونوں گلوکاروں کی گائیکی بھی لاجواب تھی۔ یہ قوالی سن کر مجھے بڑی سخت حیرت ہوئی تھی کہ اتنا اچھا گانے کے باوجود بھٹی صاحب کو اردو فلموں میں موقع کیوں نہیں ملا تھا۔۔؟
فلم میں اکیلا (1972) میں یہ قوالی ، موسیقاروں کی جوڑی بخشی وزیر پر فلمائی گئی تھی جو شاید اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔
مسعودرانا اور عنایت حسین بھٹی کا تیسرا اور آخری گیت فلم غیرت دا پرچھاواں (1973) میں تھا:
یہ گیت کیفی اور بھٹی صاحب پر فلمایا گیا تھا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ، یہ اکلوتا دوگانا تھا جو ان دونوں بھائیوں پر فلمایا گیا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ بھٹی پکچرز کی یہ واحد فلم تھی جس میں مسعودرانا کا کوئی گیت تھا۔ ماسٹرعاشق حسین کی موسیقی تھی۔
عنایت حسین بھٹی نے 160 سے زائد فلموں میں ساڑھے تین سو کے قریب گیت گائے تھے جن میں سے تین چوتھائی ، پنجابی گیت تھے۔ انھوں نے 1949ء سے لے کر 1984ء تک یعنی 36 برسوں تک مسلسل فلموں کے لیےنغمہ سرائی کی تھی جو ایک ریکارڈ ہے۔ گو یہ اعزاز مسعودرانا کو حاصل ہے کہ اپنی پہلی فلم سے لے کر اپنے انتقال تک فلموں کےلیے مسلسل گاتے رہے لیکن ان کا عرصہ گائیکی 34 سال بنتا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق بھٹی صاحب کی بطور گلوکار پہلی فلم سچائی (1949) اور آخری فلم مچھ جیل (1994) تھی۔
بطور اداکار بھٹی صاحب نے 64 فلموں میں کام کیا ، پہلی فلم بھیگی پلکیں (1952) اور آخری فلم عشق روگ (1989) تھی۔ گائیکی اور اداکاری کے علاوہ بھٹی پکچرز کی سبھی فلمیں بھی پروڈیوس کی تھیں۔ فلمساز کے طور پر نام ، اپنے دونوں بیٹوں ندیم عباس اور وسیم عباس کا استعمال کرتے تھے۔
ان کی بیشتر فلموں کے ہدایتکار ان کے بھائی کیفی یا بہنوئی ایس اے اشرفی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے خود بھی چار فلموں کی ڈائریکشن دی تھی جن میں تین سرائیکی فلمیں تھیں۔
وہ پاکستان کے پہلے فلمساز تھے جنھوں نے سرائیکی فلم دھیاں نمانیاں (1973) بنائی تھی جس نے جنوبی پنجاب میں زبردست بزنس کیا تھا۔ فلم حیدردلیر (1978) میں بھٹی صاحب نے شاید اپنا اکلوتا گیت بھی لکھا تھا جسے انھوں نے خود ہی گایا تھا:
عنایت حسین بھٹی ایک بہت بڑی فلمی فیملی کے سربراہ بھی تھے۔ ان کی تیسری نسل بھی اس وقت شو بز میں ہے۔ ان کے بیٹے وسیم عباس ، فلم ، سٹیج اور ٹی وی کے ممتاز فنکار ہیں۔ پوتے علی عباس بھی ایک نوجوان اور باصلاحیت اداکار ہیں۔ ایک بیٹے ندیم عباس نے ایک ہی فلم میں اداکاری کی تھی۔ داماد آغا سکندر بھی ٹی وی اداکارتھے جو فلم اداکار آغا سلیم رضا کے بیٹے تھے۔ نواسے آغا علی بھی ایک مقبول نوجوان اداکار ہیں۔
ان کے چھوٹے بھائی کیفی ایک ممتاز اداکار اور ہدایتکار تھے جن کی دونوں بیویاں غزالہ اور چکوری بھی نامور اداکارائیں تھیں۔ غزالہ کے بیٹے عامرکیفی نےبھی فلموں میں کام کیا۔ چکوری کے ایک بیٹے اسد کیفی بھی ٹی وی پر اداکاری کرتے ہیں۔
بھٹی صاحب کے ایک بھائی شجاعت حسین بھٹی بھی ایک فلم میں نظر آئے تھے جبکہ ان کے ایک اور بھائی، جیون ، ٹی وی ڈراموں میں کام کرتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ان کے کچھ رشتہ دار اور ہیں جن کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
بھٹی صاحب ، ایک ذاکر بھی تھے اور اولیائے کرام پر تحقیق بھی کررہے تھے۔ اخبارات و جرائد میں کالم نگاری کے علاوہ سیاست میں بھی آئے لیکن ناکام رہےتھے۔ 1928ء میں پیداہوئے اور 1999ء میں انتقال ہوا تھا۔
1 | فلم ... یار بادشاہ ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: عنایت حسین بھٹی ، مسعودرانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: ؟ ... اداکار: افضل خان ، مسعودرانا |
2 | فلم ... میں اکیلا ... اردو ... (1972) ... گلوکار: سائیں اختر ، عنایت حسین بھٹی ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: ؟ ... اداکار: بخشی وزیر مع ساتھی |
3 | فلم ... غیرت دا پرچھاواں ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: عنایت حسین بھٹی ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عاشق حسین ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: عنایت حسین بھٹی ، کیفی |
1. | 1963: Rishta(Punjabi) |
2. | 1967: Shaam Savera(Urdu) |
3. | 1968: Dil Darya(Punjabi) |
4. | 1969: Langotia(Punjabi) |
5. | 1969: Dhee Rani(Punjabi) |
6. | 1970: Sajjan Beli(Punjabi) |
7. | 1971: Yaar Badshah(Punjabi) |
8. | 1972: Melay Sajna Day(Punjabi) |
9. | 1972: Main Akela(Urdu) |
10. | 1973: Ghairat Da Parchhavan(Punjabi) |
11. | 1974: Bol Bachan(Punjabi) |
12. | 1974: Rano(Punjabi) |
13. | 1981: Athra Puttar(Punjabi) |
14. | 1982: Vichhria Puttar(Punjabi) |
1. | Punjabi filmYaar Badshahfrom Friday, 6 August 1971Singer(s): Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: ?, Actor(s): Afzal Khan, Masood Rana |
2. | Urdu filmMain Akelafrom Friday, 23 June 1972Singer(s): Sain Akhtar, Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana & Co., Music: Bakhshi Wazir, Poet: ?, Actor(s): Bakhshi Wazir & Co. |
3. | Punjabi filmGhairat Da Parchhavanfrom Friday, 31 August 1973Singer(s): Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana, Music: Master Ashiq Hussain, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): Inayat Hussain Bhatti, Kaifee |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.