Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on the first released Pakistani Punjabi film Pheray (1949)..
پاکستان کی پہلی پنجابی ، پہلی نغماتی اور پہلی سپرہٹ فلم پھیرے ، جمعرات 28 جولائی 1949ء کو عیدالفطر کے مبارک دن لاہور کے پیلس سینما میں ریلیز ہوئی اور مسلسل چھ ماہ تک چلنے کے بعد پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم قرار پائی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد ریلیز ہونے والی پہلی پنجابی فلم چمن (1948) ، ہفتہ 7 اگست 1948ء کو عیدالفطر کے دن نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔ اسی دن پاکستان کی بنی ہوئی پہلی اردو فلم تیری یاد (1948) بھی ریلیز ہوئی تھی۔
شوری پکچرز کی نغماتی پنجابی فلم چمن (1948) ، "بھائیا جی" کے نام سے شوری فلم سٹوڈیوز (شاہ نور فلم سٹوڈیو) ، ملتان روڈ لاہور میں بن رہی تھی لیکن تقسیم کے فسادات میں جب ہندوؤں اور سکھوں کو مار بھگایا گیا تو فلمساز اور ہدایتکار روپ کے شوری نے اس فلم کا باقی ماندہ کام بمبئی میں جا کر مکمل کیا۔ ان کی اداکارہ بیوی ، مینا شوری ، ہیروئن جبکہ اوم پرکاش نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
فلم چمن (1948) کے دو سدا بہار گیت تھے "ساری رات تیرا تکنی آں راہ۔۔" اور "چن کتھاں گزاری اے رات وے۔۔" یہ نغماتی فلم ، ایک بھارتی پنجابی فلم کے طور پر لاہور کے قیصر سینما میں ریلیز ہوئی اور بڑی کامیاب ہوئی تھی۔
پاکستان کی پہلی پنجابی اور نغماتی فلم پھیرے (1949) کی کامیابی غیر معمولی تھی۔ قبل ازیں ، پاکستان کی پانچوں ریلیز شدہ فلمیں اردو زبان میں تھیں لیکن ان میں سے کوئی ایک فلم بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس کی ایک وجہ بھارتی فلموں کی عام نمائش بھی تھی۔ تقسیم کے بعد 1954ء تک بھارتی فلمیں آزادانہ ریلیز ہوتی رہیں اور ان پر مکمل پابندی 1965ء کی جنگ کے وقت لگائی گئی تھی۔
1949ء میں بھارتی فلموں کا گولڈن پیریڈ شروع ہو چکا تھا اور ہر شعبے میں بڑے بڑے فنکار سامنے آئے تھے۔ دلیپ کمار ، راج کپور ، اشوک کمار ، نرگس ، مدھو بالا اور ثریا وغیرہ بام عروج پر پہنچ گئے تھے۔ اس سال برسات ، انداز ، محل ، دل لگی اور دلاری جیسی بڑی بڑی نغماتی ہندی/اردو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان کے مقابلے میں کسی پاکستانی فلم کا اس دور میں سلور جوبلی کرنا ، 1970/80 کی دھائیوں کی ڈائمنڈ جوبلی کے برابر تھا۔
اسی سال پہلی بھارتی پنجابی فلم لچھی (1949) بھی ریلیز ہوئی جو فلم پھیرے (1949) کی اصل مدمقابل تھی۔ یہ فلم ، بھارتی پنجابی فلموں کی سب سے کامیاب گلوکارہ شمشاد بیگم کے ایک سدا بہار گیت "میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹدی نوں جگ جان دا۔۔" کی وجہ سے یادگار ہے۔ یہی پہلی بھارتی پنجابی فلم تھی جس میں لتا منگیشکر اور محمدرفیع کے گیت بھی تھے۔ لتا نے اندازاً 20 پنجابی فلموں میں 80 کے قریب گیت گائے جبکہ رفیع صاحب نے اڑھائی سو کے قریب پنجابی گیت گائے تھے۔ ہنس راج بہل سب سے کامیاب موسیقار تھے اور عزیز کاشمیری نے بے شمار لازوال پنجابی گیت لکھے تھے۔
پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) کی غیر معمولی کامیابی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مادری زبان کی جو اہمیت ہوتی ہے ، وہ دنیا کی کسی دوسری زبان کی ہو ہی نہیں سکتی۔ جو تعلیم اور تفریح ، مادری زبان میں ممکن ہے ، وہ کسی قومی ، الہامی یا بین الاقوامی زبان میں ممکن ہی نہیں۔ اتنی سادہ اور عام فہم سی بات موٹی عقل کے متعصب اور تنگ نظر لوگوں کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی۔
نمبر | فلم | زبان | سال | ساختہ | سینما |
1 | پھیرے | پنجابی | 1949 | پاکستانی | پیلس |
2 | دو کنارے | اردو | 1949 | پاکستانی | ریجنٹ |
3 | لچھی | پنجابی | 1949 | بھارتی | قیصر |
4 | کنیز | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | رتن |
5 | دل لگی | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | رٹز ، ریوالی |
6 | سانوریا | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | کیپیٹل |
7 | بچ کے رہنا | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | نگار |
8 | نیکی اور بدی | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | صنوبر |
9 | بازار | ہندی/اردو | 1949 | بھارتی | نشاط |
10 | درد | ہندی/اردو | 1948 | بھارتی | پیراماؤنٹ |
11 | سنجوگ | ہندی/اردو | 1943 | بھارتی | اوڈین |
12 | پکار | ہندی/اردو | 1939 | بھارتی | روز |
13 | The Paleface | انگلش | 1948 | امریکی | ریگل |
14 | Hollow Triumph | انگلش | 1948 | امریکی | پلازہ |
ہماری فلموں میں سب سے زیادہ اہمیت فلمی گیتوں کو حاصل رہی ہے۔ اداکاروں کی مقبولیت وقتی ہوتی تھی لیکن فلمی گیتوں کی مقبولیت دائمی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی بیشتر فلمیں اپنے اداکاروں یا کرداروں کے بجائے گیتوں کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہیں۔
پاکستان کی پہلی میوزیکل فلم پھیرے (1949) کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کے سدابہار اور مقبول عام گیت تھے۔ عظیم موسیقار ، بابا جی اے چشتی نے مدھر دھنوں کے علاوہ بابا عالم سیاہ پوش کے ساتھ مل کر متعدد سپرہٹ گیت خود بھی لکھے جنھیں گانے کا اعزاز ، منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی کو حاصل ہوا۔ یہ روایت بھی ہے کہ بابا چشتی نے اس فلم کے سات گیت ایک ہی دن میں لکھے، کمپوز کیے اور ریکارڈ کروا دیے تھے۔
1930/40 کی دھائیوں میں متحدہ ہندوستان کے کامیاب اداکار ، فلمساز اور ہدایتکار ، نذیر ، اپنی 1940 کی دھائی کی کامیاب اداکارہ بیوی ، سورن لتا کے ساتھ وطن واپس آئے تو نوزائیدہ مملکت پاکستان میں اپنی ہی بنائی ہوئی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) میں ہیرو اور ہیروئن کے کردار کیے۔ یہ ان دونوں کی اولین پنجابی فلم بھی تھی۔ میاں بیوی کی اس جوڑی کی دوسری پنجابی فلم لارے (1950) بھی ایک بڑی اعلیٰ پائے کی نغماتی فلم تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ فلم پھیرے (1949) ، مسلم ٹاؤن لاہور کے پنچولی فلم سٹوڈیو میں بنائی گئی جہاں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی تکمیل بھی ہوئی تھی۔ یہ فلمی نگار خانہ بعد میں نذیر صاحب کو الاٹ ہوا اور انھوں نے اس کا نام "پنجاب آرٹ سٹوڈیو" رکھا تھا۔
فلم پھیرے (1949) کے ہدایتکار کے طور پر مجید کا نام دیا گیا تھا لیکن اصل فلم ڈائریکٹر نذیر خود تھے جن کے کریڈٹ پر تقسیم سے قبل لیلیٰ مجنوں ، گاؤں کی گوری (1945) اور وامق عذرا (1946) جیسی بڑی بڑی فلمیں تھیں۔ وہ ، خاموش فلموں کے دور کے فنکار تھے۔ پہلی فلم مسٹیریس بینڈٹ (1931) تھی جو لاہور میں بنائی گئی تھی۔ پاکستان میں 15 اور تقسیم سے قبل کی پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا۔ درجن بھر فلمیں بطور ہدایتکار ملتی ہیں۔
فلم پھیرے (1949) کی کہانی مستری غلام محمد کی تھی جو ایک میک اپ آرٹسٹ تھے۔ متعدد فلموں کی کہانیاں ان کے کریڈٹ پر تھیں لیکن فلمی اشتہارات پر کہانی سعیدہ بانو یعنی سورن لتا سے منسوب تھی جو فلم کی ہیروئن بھی تھی۔
سورن لتا نے تقسیم سے قبل دو درجن فلموں میں کام کیا جن میں بلاک باسٹر فلم رتن (1944) بھی تھی جو 1940 کی دھائی کی ایک ہزار سے زائد فلموں میں بزنس کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھی۔ پاکستان میں سورن لتا کی ڈیڑھ درجن فلموں میں سے نوکر (1955) ، ایک سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی۔
فلم پھیرے (1949) کے مکالمے اور متعدد گیت بابا عالم سیاہ پوش کے لکھے ہوئے تھے۔ عکاس کے طور پر رضا میر کا نام آتا ہے جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے سینماٹوگرافر بھی تھے۔
فلم پھیرے (1949) کے ہیرو نذیر (جانی) ، اپنے ایک دوست نذر (چھجو) کے ساتھ اپنے گاؤں میں بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک مقابلے میں ان کا پالتو جانور بھیڈو ، (بھیڑ کی تذکیر) ، گاؤں کے چوہدری کے بیٹے کے بھیڈو سے مقابلہ جیت جاتا ہے لیکن ایک امیر آدمی سے جیتنے کے "جرم" میں اسے گاؤں سے دیس نکالا مل جاتا ہے۔
نذیر ، اپنے دوست نذر اور اپنی ماں کے ساتھ دوسرے گاؤں ہجرت کر جاتا ہے جہاں اس کا سامنا مقامی چوہدری کی بیٹی سورن لتا (رانی) سے ہوتا ہے۔ وہ "باگاں دی مورنی۔۔" بن کر باغ باغیچوں میں ناچ گا کر جوانی کی موج بہار سے لطف اندوز ہورہی ہوتی ہے۔ ایسے میں اس کا سامنا ہیرو سے ہوتا ہے جو اسے "سپ دی ٹوہر نہ ٹریئے ، نی کڑیئے۔۔" گاتے ہوئے حال دل سنانے کی کوشش کرتا ہے۔
چند مزید ملاقاتوں کے بعد ہیرو کی کوششیں بارآور ہوتی ہیں اور ہیروئن ، ہیرو کو منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی کے گائے ہوئے اور بابا چشتی کی دھن کے علاوہ لکھے ہوئے پاکستانی فلموں کے پہلے سپرہٹ دوگانے کی صورت میں عشق و محبت میں متوقع نشیب و فراز سے خبردار کرتے ہوئے گاتی ہے:
ہیرو بڑا ثابت قدم ہوتا ہے اور ہیروئن کو اپنی وفا کا یقین دلاتے ہوئے گاتا ہے:
ہیرو (جانی) ، ہیروئن (رانی) کو متاثر کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ محبت کی آگ اس کے دل میں بھڑکنے لگتی ہے جس کی آنچ میں اس کے دن کا چین اور رات کا سکون تک غارت ہوجاتا ہے۔ بالآخر رانی ( سورن لتا) اقرار محبت کرتے ہوئے دل کی بات کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی فلموں کا پہلا سپرہٹ سولو گیت تخلیق ہوتا ہے جو منور سلطانہ کی آواز میں ایک بار پھر بابا چشتی کی دھن اور بے ساختہ عوامی شاعری کا شاہکار ہوتا ہے:
محبت کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور محبوب کی دید کی خواہش شدید تر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بابا عالم سیاہ پوش کا لکھا ہوا یہ خوبصورت گیت منور سلطانہ کی آواز میں سورن لتا پر فلمایا جاتا ہے:
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ اب ہیر رانجھا جیسے عاشق ہوں اور ان میں کیدو جیسا ولن نہ ہو ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟
رانی ( سورن لتا) کا بھائی راجو (علاؤالدین) ولن بن کر سامنے آجاتا ہے۔ چند ایک بار جانی (نذیر) کی پٹائی بھی کرتا ہے لیکن عاشق لوک سودائی بھلا مار پیٹ سے کب ڈرتے ہیں۔
اتفاق سے ایک میلے میں ایک گاؤں کا چوہدری لچھو (ایم اسماعیل) ، رانی کو دیکھ کر لٹو ہو جاتا ہے۔ مالدار آدمی کے لیے خواہشات کی تکمیل ویسے بھی بہت آسان ہوتی ہے۔ راجو ، اپنی بہن کی شادی چوہدری لچھو کے ساتھ کرنے پر فوراً راضی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بابا چشتی نے جو گیت اپنی بیوی کے انتقال پر لکھا ہوتا ہے ، وہ فلم کی ہیروئن پر فلمانے کا موقع مل جاتا ہے:
بھائی (راجو) کے جبروتشدد کے باوجود بہن (رانی) ، اپنے ہونے والے دولہا (چوہدری لچھو) کے ساتھ ہندوآنہ نکاح کے سات "پھیرے" لینے کو تیار نہیں ہوتی تو خاندان کی عزت کی خاطر اس کی سہیلی لچھی (زینت) کو دلہن کا لباس پہنا کر پھیرے دلوا دیے جاتے ہیں۔ رخصتی ہوتی ہے تو سہیلی کو بھی ڈولی کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ اس موقع پر بابا عالم سیاہ پوش کا لکھا ہوا اور بابا چشتی کا کمپوز کیا ہوا پاکستانی فلموں کا پہلا سپرہٹ مردانہ گیت عنایت حسین بھٹی کی آواز میں نذیر پر فلمایا جاتا ہے:
سسرال جا کر رانی ، اپنے دولہا کو حیلوں بہانوں سے دور رکھتی ہے لیکن جلد ہی چوہدری لچھو پر یہ راز کھل جاتا ہے کہ اصل بات کیا ہے۔ وہ ، راجو کو شرمندہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی بہن کو بغیر نکاح یا پھیروں کے اس کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ اس لیے اب تجدید نکاح کے لیے پھیرے دوبارہ ہوں گے۔
ایک بارپھر شادی کی تقریب ہوتی ہے۔ رانی ( سورن لتا) کی حیرت اور خوشی کی انتہا ہو جاتی ہے جب پھیرے لگانے کے لیے اس کا محبوب جانی (نذیر) اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ چوہدری لچھو (ایم اسماعیل) ، اپنی منکوحہ لچھی (زینت) پر قناعت کرتا ہے اور پاکستان کی پہلی پنجابی فلم کا خوشگوار اختتام ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) کی کہانی دیگر بہت سی رومانٹک فلموں کی طرح کلاسک پنجابی ادبی شہ پارے "ہیر وارث شاہ" سے متاثر تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاکستان کی اس پہلی پنجابی فلم کے سبھی کردار ہندوآنہ تھے۔
پاکستان کی ابتدائی دور کی بیشتر فلموں کے کردار ہندوآنہ ہوتے تھے جس کی بنیادی وجہ تو ایک ہی تھی کہ برصغیر کی فلموں کا سٹائل مکمل طور پر ہندوآنہ رہا ہے جو اکثریتی آبادی کی نمائندگی بھی کرتا تھا۔ گو پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن فلم بینوں کی اکثریت ہندو/سکھ ہوتی تھی اور انھیں سامنے رکھ کر ہی فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ مسلمانوں میں فلم دیکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ فلم بھی اسی تناظر میں بنائی گئی تھی۔
فلم پھیرے (1949) کا پرنٹ دستیاب نہیں لیکن اس کے گیت یوٹیوب پر سننے کو ملتے ہیں۔
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین