اداکار ساقی نے
پانچ سو کے قریب
فلموں میں کام کیا تھا
بہت سے باصلاحیت افراد کو زندگی بھر وہ موقع اور مقام نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ کامیابیوں کے لیے صرف قابلیت ہی کافی نہیں بلکہ اچھی قسمت کا ہونا بھی اشد ضروری ہے۔۔!
اداکار ساقی کا شمار ایسے فنکاروں میں ہوتا تھا کہ جنھوں نے پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا لیکن محض گنتی کی چند فلموں میں کوئی اہم رول ملا تھا۔
سندھ کے ایک وڈیرے فلمساز اور اداکار فضل علی شاہ جموٹ عرف ایس گل نے فلم التجا (1955) میں پہلی بار ایک کامیڈی رول میں متعارف کروایا تھا۔
ایک امریکی فلم بھوانی جنکشن (1956) کی تکمیل کے دوران اپنی انگلش دانی کی وجہ سے امریکن فلم یونٹ کے پاکستان میں ترجمان بنے اور اسی معاونت کے صلے میں ہالی وڈ کی فلم میں ایک چھوٹا سا رول بھی ملا۔ یہ فلم لاہور میں شوٹ ہوئی تھی اور ایکسٹرا اداکاروں میں سے ایک اداکارہ نیلو بھی تھی جس کی اس وقت تک کوئی پہچان نہیں تھی لیکن چند برسوں بعد ایک سپرسٹار بن گئی تھی۔
ساقی بطور ہیرو
ساقی ، ایک خوبرو جوان تھے ، شکل و صورت اور قدبت سے کوئی فلمی ہیرو لگتے تھے۔ اردو ، پنجابی ، سندھی اور پشتو فلم کے اداکار تھے لیکن عام طور پر چوکیدار ، ملازم یا دیگر چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آتے تھے۔
ابتدائی دور کی چند فلموں میں ثانوی کرداروں کے بعد ہدایتکار ایم اے رشید نے فلم لکھ پتی (1958) میں اداکارہ نگہت سلطانہ کے مقابل ہیرو کا رول دیا تھا۔ لیڈ رول میں یہ اکلوتی اردوفلم ثابت ہوئی جو فلم بینوں کو متاثر نہ کرسکی تھی۔
اسی سال کی سندھی فلم سسی پنوں (1958) میں بھی اسی جوڑی کو پیش کیا گیا تھا۔ ایک فلم بمبئے والا (1961) میں بھی سائیڈ ہیرو کے طور کام کرنے کی شنید ہے۔
ساقی کی دیگر اہم فلمیں
ہدایتکار خلیل قیصر کی شاہکار فلم شہید (1962) میں ایک گونگے کا یادگار کردار کیا جو ایک بدنام زمانہ عورت سے یکطرفہ محبت کرتا ہے۔ یہ کردار بعد میں اداکار ندیم نے فلم وطن (1981) میں کیا تھا۔
فلم لاکھوں میں ایک (1967) جیسی لازوال نغماتی فلم میں ایک ٹرک ڈرائیور پٹھان کا کردار بڑے کمال کا تھا اور نثاربزمی کی دھن میں ان پر اور اداکارہ چھم چھم پر یہ بھاری بھر کم گیت فلمایا گیا تھا
- پیار نہ ہو جب دل میں تو جینا ہے ادھورا ، مانے یہ نہ مانے ، غفوراً غفورا۔۔
نسیم بیگم اور احمدرشدی کی آوازیں تھیں۔ فلم زرقا (1969) میں ایک عرب بدو کا مختصر سا کردار بھی فلم بینوں کو ہمیشہ یاد رہا۔ فلم گھرانہ (1973) میں ایک وفادار ملازم کا کردار بھی بہت اچھا تھا۔
ساقی بطور ولن
اداکار ساقی کو بطور ولن بھی چند فلموں میں اہم کردار ملے تھے۔ ہدایتکار خلیل قیصر کی کامیاب فلم ناگن (1959) میں ایک سپیرے کا مرکزی رول تھا۔ پس منظر میں سلیم رضا کا یہ گیت سننے کو ملتا ہے
- رنگ رنگ بدلتا میلہ ، نہ تیرا نہ میرا ہے۔۔
ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم رات کے راہی (1960) میں مرکزی ولن تھے۔ فلم ہزارداستان (1965) میں سامری جادوگر کا مشہور زمانہ کردار بھی تھا۔ ان اہم کرداروں کے علاوہ بہت سی فلموں میں ولن پارٹی کے رکن یا دیگر چھوٹے بڑے منفی کرداروں میں بھی نظر آئے۔
ساقی بطور فلمساز
اداکار ساقی نے بطور فلمساز واحد فلم ہم لوگ (1970) بنائی جس میں مرکزی کردار بھی کیا تھا۔
پاکستان کی شاید یہ اکلوتی فلم تھی کہ جس میں کوئی روایتی ہیرو اور ہیروئن نہیں تھے۔ دو بچوں یا چائلڈ سٹارز ، جگنو اور مراد نے بڑے زبردست لیڈنگ رولز کیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مصنف رشید ساجد نے بھارتی فلم بوٹ پالش (1954) کی کہانی پر ہاتھ صاف کیا تھا۔
اس فلم میں ناصرہ نے ایک سنگدل کال گرل کا رول کیا تھا جو دو یتیم بچوں پر بڑا ظلم کرتی ہے اور انھیں بھیک مانگنے پر مجبورکرتی ہے لیکن ساقی کی کوششوں سے وہ بچے محنت مزدوری کرکے رزق حلال کمانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
اس موقع پر ساقی پر دو کورس گیت فلمائے جاتے ہیں جن میں ایک مہدی حسن ، آئرن پروین اور ساتھیوں کا گایا ہوا یہ گیت ہوتا ہے
- گھور اندھیرا چھٹ جائے گا ، سورج ہے بس نکلنے والا ، وقت ہے کروٹ بدلنے والا ، دکھ رستے سے ہٹ جائے گا۔۔
جبکہ دوسرا گیت مسعودرانا ، آئرن پروین اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا
- منے ، دعا ہے میری آئے تجھ میں اور دلیری۔۔
اس فلم میں بچوں پر فلمائے ہوئے یہ دو گیت بھی بڑے زبردست تھے
- خدا کے نام پر ہم غریبوں کو دے دو۔۔
- اے بابو صاحب ، جناب اعلیٰ ، پالش کرا لو ہم سے۔۔
مسعودرانا کا ایک گیت ، دو فلموں میں
فلم ہم لوگ (1970) کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے تھیم سانگ کے طور پر مسعودرانا کا یہ پُرسوز گیت سننے کو ملتا ہے
- اے خدا ، کیسی زمانے کی رواداری ہے ، غم کا بازار ہے ، زخموں کی خریداری ہے۔۔
یہ بے مثل گیت پہلی بار میں نے اسی فلم میں سنا تھا لیکن جب فلم بھائی جان (1966) دیکھی تو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ گیت اس فلم کے تھیم سانگ کے طور محمدعلی کے پس منظر میں جس اداکار پر فلمایا گیا تھا و ہ گلوکار احمدرشدی کے بھائی ارسلان لگتے تھے۔ یہ غالباً اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ جب کسی فلم کے ایک گیت کو من و عن کسی دوسری فلم میں بھی فلمایا گیا تھا۔
دوسرا ایسا واقعہ فلم میراویر (1967) کے اس سوشل گیت کا ہے
- نیلی چھتری والیا ، میری مشکل کر آسان ، اوس بستی دا راہ دس دے ، جتھے وسدے نیں انسان۔۔
مسعودرانا کا گایا ہوا یہ پورا گیت بھی پنجابی فلم وچھڑے رب میلے (1970) کے ٹائٹل سانگ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ مسعودرانا کا فلم چاچاجی (1967) کا یہ مشہورزمانہ گیت
- کلا بندہ ہووے پاویں کلا رکھ نی ، دوواں کلیاں نوں ہوندا بڑا دکھ نی ، تو کلی کلی کتھے چلی ایں۔۔
ایک بونے اداکار جاوید کوڈو پر فلمایا گیا تھا۔ فلم کا نام یاد نہیں لیکن یہ مکمل گیت اداکارہ میرا کے لیے گایا جاتا ہے۔
90 کی دھائی میں بہت سے پرانے فلمی گیتوں پر ہاتھ صاف کیے گئے تھے۔ خاص طور موسیقار ایم اشرف ، نغمہ نگار خواجہ پرویز اور میڈم نورجہاں نے شاید ہی کوئی پرانا سپرہٹ گیت چھوڑا ہوگا کہ جس کا ری میک نہ کیا ہو۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے اس دور میں فنکارانہ صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا تھا جو فلموں کے زوال کی ایک بڑی وجہ بھی تھی۔
اداکار ساقی نے مسعودرانا کو متعارف کروایا تھا
اداکار ساقی نے مسعودرانا اور مجیب عالم جیسے اعلیٰ پائے کے گلوکاروں کو فلموں میں متعارف کروایا تھا۔
سن اسی کی دھائی میں ساقی نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سینٹر کی دو یادگار ٹی وی سیریلز 'دیواریں' اور 'جنگل' میں زبردست پرفارمنس دی تھی ، ان میں سے ایک ٹی وی سیریل ، سندھ میں قرآن سے شادیوں کے بارے میں تھی جو لڑکیوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کا ایک غیر اسلامی اور غیراخلاقی حربہ ہوتا تھا ، یا شاید اب بھی ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ساقی کی 484 فلموں کی حوالہ ملتا ہے جن میں سے تین سو سے زائد اردو فلمیں تھیں ، آخری فلم دشمنی (1990) تھی جو ان کے انتقال کے چار سال کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔
اداکار ساقی کا پس منظر
ساقی کا اصل نام 'عبدللطیف بلوچ' تھا۔ بلوچستان کے ضلع کچھی کے رند قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو سندھ کے ضلع دادو میں بس گیا تھا۔ ان کے والد ، پہلی جنگ عظیم میں عراق میں تعینات ہوئے اور پھر وہیں ریلوے میں ملازم ہوگئے تھے۔ وہاں انھوں نے ایک کُرد عورت سے شادی کی تھی جس کے بطن سے 1925ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ساقی کی پہلی خاندانی بیوی سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئی جبکہ انھوں نے پشتو اداکارہ یاسمین خان سے بھی ایک مختصر مدت کے لیے شادی کی تھی۔
(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )