Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi



Pakistan Film History

Teri Yaad (1948)

Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on the first released Pakistani film Teri Yaad (1948)..

تیری یاد

پاکستان کی پہلی فلم "تیری یاد" کب بنی؟ کیسے بنی؟ کس نے بنائی؟ کیسی تھی؟ کہانی کیا تھی؟ گیت کیسے تھے؟ اداکار کون کون تھے؟ کارکردگی کیسی تھی؟ کیا یہ ایک "بری طرح سے ناکام" فلم تھی؟ مقابلہ کن فلموں سے تھا؟ اس وقت کے دیگر فلمی حالات کیسے تھے؟ اور کیا یہ فلم دستیاب ہے؟

آج کی نشست میں ان تمام سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

فلم تیری یاد کی کہانی

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی کہانی ، جرم و سزا ، لالچ و حرص اور عشق و محبت کے بارے میں ایک روایتی فلمی کہانی تھی جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

ایک امیر شخص ، اپنی دوستی کو دوام بخشنے کے لیے اپنی تمام تر جائیداد ، اپنی نومولود بیٹی اور اپنے ایک عزیز دوست کے نومولود بیٹے کے نام کر جاتا ہے۔ اس کی موت کے بعد لالچی دوست ، ساری جائیداد ہتھیانے کے چکر میں نومولود بچی کو دودھ میں زہر ملا کر قتل کر دیتا ہے۔ امیر کی بیوہ اور بچی کی ماں کو خبر ہو جاتی ہے اور وہ ، ایک ڈاکٹر کی مدد سے دوست کو سزا کے خوف سے ڈرا دھمکا کر شہر سے بھگا دیتی ہے اور مردہ بچی کی جگہ ایک یتیم بچی کو گود لے کر وصیت کے مطابق جائیداد پر قابض ہو جاتی ہے۔

یتیم بچی ، جوان ہو کر آشا پوسلے بنتی ہے جو اپنے کرایہ دار ، ناصر خان کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے لیکن ماں (رانی کرن) اس کی شادی اپنے من پسند ولائت پاس نوجوان جہانگیر خان سے کرنا چاہتی ہے جو اصل میں نجمہ سے محبت کرتا ہے۔ ماں ، ہار مان لیتی ہے لیکن جب ناصر خان کا باپ رشتہ لینے کے لیے آتا ہے تو وہ غصہ سے سیخ پا ہو جاتی ہے کیونکہ وہی اس کی اصل بچی کا قاتل ہوتا ہے۔

بیٹے کی محبت سے مجبور باپ کی منت و سماجت اور آہ و زاری کسی کام نہیں آتی اور آخر کار اپنی اولاد کی خوشی اور اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے اسے خودکشی کرنا پڑتی ہے جس سے دو دلوں کے ملن میں سب سے بڑی رکاوٹ دور جاتی ہے اور پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کا Happy End ہو جاتا ہے۔

فلم تیری یاد کے مصنف

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ ، خادم محی الدین نے لکھا تھا جن کے کریڈٹ پر تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی متعدد فلمیں تھیں۔ میڈم نورجہاں اور دلیپ کمار کی مشہور زمانہ فلم جگنو (1947) کا سکرین پلے بھی انھی کا لکھا ہوا تھا۔ پاکستان میں انھوں نے درجن بھر فلموں کی کہانیاں لکھیں جن میں سے گہرا داغ (1964) سب سے کامیاب فلم تھی۔

خادم محی الدین ، ایک ماہر ریاضی دان اور ڈرامہ نویس تھے لیکن ان کی سب سے بڑی پہچان بین الاقوامی شہرت یافتہ اداکار اور ٹی وی کمپئر ، ضیاء محی الدین تھے جو ان کے صاحبزادے تھے۔

فلم تیری یاد کے ہدایتکار

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہدایتکار داؤد چاند تھے جو ایک تجربہ کار فلم ڈائریکٹر تھے۔ تقسیم سے قبل درجن بھر فلمیں ان کے کریڈٹ پر تھیں جبکہ پاکستان میں بھی انھوں نے درجن سے زائد فلمیں بنائی تھیں۔ اصل میں یہ مضمون انھی پر لکھا جارہا تھا لیکن فلم تیری یاد (1948) کے بارے میں مواد کی طوالت کی وجہ سے الگ الگ مضامین لکھنا پڑے۔

فلم تیری یاد کے اداکار

فلم تیری یاد (1948) کی فامولا ٹائپ کہانی کے چار مرکزی کردار تھے ، آشا پوسلے ، ناصر خان ، رانی کرن اور "دوست" (سردارمحمد یا ماسٹرغلام قادر؟)۔ ہدایتکار داؤد چاند نے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ ان فنکاروں کا تعارف کچھ اس طرح سے ہے:

آشا پوسلے

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن آشا پوسلے ، تقسیم سے قبل لاہور کی درجن بھر فلموں میں کام کرچکی تھی لیکن بطور ہیروئن کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کا سپاٹ ان پڑھ پنجابی لہجہ ، اردو مکالموں کے لیے موزوں بھی نہیں تھا۔ صرف رقص میں ماہر تھی جو اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ اس فلم کی ہیروئن شاید نہ ہوتی اگر فلمساز دیوان سرداری لال سے ایک خاص تعلق نہ ہوتا۔

آشا پوسلے نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا لیکن صرف چار فلموں میں ہیروئن آنے کے بعد سائیڈ ہیروئن ، ویمپ ، کامیڈین اور معاون اداکارہ کے بعد چھوٹے موٹے ایکسٹرا کرداروں میں تنزلی کے بعد 1998ء میں گمنامی میں انتقال کر گئی تھی۔

ناصر خان

فلم تیری یاد (1948) کے ہیرو ناصرخان ، ایک خوبرو جوان تھے لیکن فلم کے کسی منظر میں متاثر نہیں کر پائے تھے۔ پاکستان میں ان کی دوسری اور آخری فلم شاہدہ (1949) تھی جس میں ناکامی کے بعد بھارت چلے گئے جہاں انھیں بہت سی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن اپنے بھائی دلیپ کمار کی طرح کبھی صف اول کے اداکار نہیں بن سکے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی فلم گنگا جمنا (1961) ، میری دیکھی ہوئی پہلی بھارتی فلم تھی جو سویڈش ٹی وی پر دو قسطوں میں دیکھی تھی۔ ناصر خان کا 1974ء میں انتقال ہو گیا تھا۔

روایت ہے کہ ناصر خان کی اداکارہ بیوی ، بیگم پارہ کے پاس ، پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کا مکمل پرنٹ موجود تھا۔

رانی کرن

فلم تیری یاد (1948) کا سب سے اہم کردار رانی کرن کا تھا جو امیر کی بیوہ اور فلم کی ہیروئن کی ماں بنتی ہے۔ ایک خوش شکل معاون اداکارہ کے طور پر اس نے تقسیم سے قبل چند فلموں میں کام کیا تھا۔ پاکستان میں بھی معاون اداکارہ کے طور پر اس کی صرف چار فلموں کا حوالہ ملتا ہے۔ رانی کرن ، آشا پوسلے ، کوثرپروین اور نجمہ بیگم کی بہن اور موسیقار عنایت علی ناتھ کی بیٹی تھی۔

سردار محمد یا غلام قادر

فلم تیری یاد (1948) میں ولن کا اہم رول "دوست" یا ہیرو کے باپ کا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کردار کس نے کیا تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کردار ، سردار محمد نامی اداکار نے کیا تھا جن کا نام فلمی اشتہارات پر نمایاں طور پر شائع ہوتا تھا لیکن اس فلم کے علاوہ ان کی کسی دوسری فلم کا ذکر نہیں ملتا۔

یہ کردار ، سینئر اداکار ، ماسٹر غلام قادر کا بھی ہو سکتا ہے جو لاہور میں بننے والی پہلی خاموش فلم Daughters of Today (1927) میں ہیرو کے کردار میں نظر آئے اور پاکستان کے ابتدائی دور میں کیریکٹرایکٹر کرداروں میں نظر آتے تھے۔

نذر

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے فنکاروں میں سے جس فنکار نے سب سے زیادہ نام کمایا ، وہ اداکار نذر تھے جنھیں نہ صرف پاکستان کی پہلی فلم کا پہلا کامیڈین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ پچاس کی دھائی کے سب سے مقبول اور مصروف مزاحیہ اداکار بھی تھے۔ وہ بھی تقسیم سے قبل متعدد فلموں میں کام کر چکے تھے جن میں لاہور میں بنائی گئی ان کی پہلی فلم گل بلوچ (1944) میں برصغیر کے عظیم ترین گلوکار محمد رفیع صاحب دریافت ہوئے تھے۔

دیگر اداکاران

فلم تیری یاد (1948) کے دیگر اداکاروں میں سیکنڈ ہیرو جہانگیر خان تھے جو ماضی قریب کے ایک مشہور اداکار شامل خان کے والد تھے۔ اس فلم میں ان کی جوڑی اداکارہ نجمہ کے ساتھ تھی جو تقسیم سے قبل کی ایک اور اداکارہ تھی لیکن پاکستان میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس نے باری ملک سے شادی کر کے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔

جہانگیر خان کی کمزور فنی صلاحیتوں کا اندازہ میڈم نورجہاں کی قیام پاکستان کے بعد پہلی فلم چن وے (1951) سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ ، ان کے ہیرو اور مشہور زمانہ "منڈیا سیالکوٹیا" تھے۔ ان کی تیسری اور آخری فلم غلط فہمی (1950) تھی جس کے بعد گوشہ گمنامی میں چلے گئے تھے۔

اداکارہ شعلہ بھی پچاس کی دھائی کی ایک نامور معاون اداکارہ تھی جبکہ اس فلم میں فلمساز دیوان سرداری لال نے بھی ایک رول کیا تھا۔

فلم تیری یاد کی موسیقی

فلم تیری یاد (1948) کے ایک گیت کی ریکارڈنگ کا منظر

ہماری فلموں میں روز اول ہی سے فلمی موسیقی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ بیشتر فلمیں اور اداکار صرف مقبول عام فلمی گیتوں ہی کی وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ فلم بینوں کی اکثریت نغماتی ، رومانوی ، مزاحیہ اور ایکشن فلمیں پسند کرتی تھی جبکہ تماش بین طبقہ صرف ناچ گانوں اور تھرکتی جوانیوں کے لیے فلمیں دیکھتا تھا۔

فلم تیری یاد (1948) کے گیتوں کے بارے میں یہ بتایا جاتا تھا کہ اس کے گراموفون ریکارڈز نہیں بنے تھے لیکن آشا پوسلے کا گایا ہوا ایک گیت "تیری یاد آئے۔۔" مل گیا تھا البتہ باقی گیت گمنام ہیں۔

موسیقار

فلم تیری یاد (1948) کے گیتوں کی بڑی تعریف ہوئی تھی لیکن کوئی گیت ہٹ نہیں تھا۔ فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کے والد ، موسیقار عنایت علی ناتھ کی یہ پہلی فلم تھی۔ مزے کی بات ہے کہ موصوف کی دوسری اور آخری فلم غلط فہمی (1950) تھی جو دیوان پکچرز کی پاکستان میں دوسری اور آخری فلم تھی۔ ظاہر ہے کہ ہیروئن ، آشا پوسلے ہی ہو سکتی تھی جس سے اس کے موسیقار باپ نے ایک بار پھر زبردستی گیت گوائے تھے حالانکہ اس کی آواز گائیکی کے قابل نہیں تھی۔

نغمہ نگار

فلم تیری یاد (1948) میں کل دس گیت تھے جن میں سے تنویر نقوی ، طفیل ہوشیارپوری اور قتیل شفائی نے دو دو اور سیف الدین سیف نے باقی چاروں گیت لکھے تھے۔ فلمی گیتوں کی شاعری عمدہ تھی۔

تقسیم سے قبل ہی تنویر نقوی ، انمول گھڑی (1946) اور جگنو (1947) جیسی شاہکار فلموں کے گیتوں کی وجہ سے ملک گیر شہرت رکھتے تھے۔ طفیل ہوشیارپوری نے بھی تقسیم سے قبل کی متعدد فلموں میں نغمہ نگاری کی تھی جبکہ دیگر شعرائے کرام بھی متعدد فلموں میں نغمہ نگاری کررہے تھے جو تقسیم کی وجہ سے نامکمل رہیں یا پھر بھارتی فلموں کے طور پر ریلیز ہوئیں۔ یہ سبھی حضرات ، پاکستانی فلموں کے بہت بڑے نام تھے جنھوں نے بڑی تعداد میں سپرہٹ گیت لکھے تھے۔ اتفاق سے ان سب پر بڑے تفصیلی مضامین لکھے جا چکے ہیں۔

گلوکار

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے گیت گانے کا اعزاز منور سلطانہ اور علی بخش ظہور جیسے پروفیشنل گلوکاروں کے علاوہ پارٹ ٹائم گلوکارہ آشا پوسلے کو حاصل ہوا تھا جس نے تین پاکستانی فلموں میں درجن بھر گیت گائے تھے۔ اس فلم کا واحد گیت جو سننے میں آتا ہے ، وہ "او تیری یاد آئے۔۔" ہے جو آشا پوسلے کا گایا ہوا تھا اور تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا۔ اس گیت کی شاعری ملاحظہ فرمائیں:

    او تیری یاد آئے ، تیری یاد آئے۔۔
    آئے ، بیتی باتوں کے افسانے دھرائے۔
    تیری یاد آئے۔۔
    بیری ، بہری ، گونگی ، اندھی ، کالی رات ڈرائے۔۔
    تیری یاد آئے۔۔
    بے کل دل کو کل نہ آئے۔۔
    او کلپ کلپ کلپائے۔۔
    رکتے رکتے ، دھک دھک دھڑکے۔۔
    دھڑک دھڑک ، رک جائے۔۔
    تیری یاد آئے۔۔

فلم تیری یاد کے گیت

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے دس گیتوں میں سے پانچ گیت فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی آواز میں تھے جو سبھی سولو گیت تھے اور یقیناً اسی پر فلمائے گئے ہوں گے جبکہ منور سلطانہ کے گائے ہوئے گیت نجمہ اور شعلہ پر فلمائے گئے ہوں گے۔ اسی فلم میں پاکستان کا پہلا مردانہ گیت "محبت کا مارا چلا جا رہا ہے۔۔" گانے کا اعزاز علی بخش ظہور کے حصہ میں آیا تھا جبکہ پہلا دوگانا بھی انھوں نے منور سلطانہ کے ساتھ گایا تھا جس کے بول تھے "بول بول ، ویرنیا ، میں گئی تھی کہاں۔۔"

    (1) چھلکی جوانی ، ہائے جیا مورا ڈھولے۔۔

    گلوکارہ منورسلطانہ ، گیت نگار سیف الدین سیف

    (2) بول بول ویرینیا ، میں گئی تھی کہاں۔۔

    گلوکار منورسلطانہ اور علی بخش ظہور ، گیت نگار طفیل ہوشیارپوری

    (3) ہمیں چھوڑ نہ جانا جی ، مونہہ موڑ نہ جانا جی۔۔

    گلوکارہ منورسلطانہ ، گیت نگار سیف الدین سیف

    (4) میں تتلی بن کے آئی ، جوبن نے لی انگڑائی۔۔

    گلوکارہ آشا پوسلے ، گیت نگار سیف الدین سیف

    (5) او تیری یاد آئے ، آئے بیتی باتوں کے افسانے دھرائے۔۔

    گلوکارہ آشا پوسلے ، گیت نگار تنویر نقوی

    (6) کیا یاد سہانی آئی ، او منچلے۔۔

    گلوکارہ آشا پوسلے ، گیت نگار تنویر نقوی

    (7) ہمیں تو انتظار تھا، سارا چمن بول رہا ہے۔۔

    گلوکارہ آشا پوسلے ، گیت نگار سیف الدین سیف

    (8) اے دل والو ، ساجن گئے ، ہم اجڑ گئے۔۔

    گلوکارہ منورسلطانہ ، گیت نگار طفیل ہوشیارپوری

    (9) دکھ کی ماری ، برسوں اپنے بھاگ پہ روئی۔۔

    گلوکارہ آشا پوسلے ، گیت نگار قتیل شفائی

    (10) محبت کا مارا چلا جا رہا ہے۔۔

    گلوکار علی بخش ظہور ، گیت نگار قتیل شفائی

قیام پاکستان کے ایک سال بعد پہلی فلم؟

قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہفتہ ، 7 اگست 1948ء کو عیدالفطر 1367ہجری کے دن پہلی "پاکستان ساختہ" فلم تیری یاد (1948) ریلیز ہوئی تھی۔ اس تاخیر کی بڑی وجہ یہ تھی کہ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں لاہور کے آٹھوں فلم سٹوڈیوز کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ فلموں پر سرمایہ کاری عام طور پر ہندو سیٹھ کیا کرتے تھے جنھیں لاہور سے بھگا دیا گیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ فلمیں خواہشات یا دعاؤں سے تو نہیں بن سکتی تھیں ، اس کے لیے مادی وسائل درکار تھے جو موجود نہیں تھے۔ بدقسمتی سے مسلمان ، اس وقت بھی ہر شعبے میں پسماندہ تھے اور لاہور کی ساٹھ فیصد آبادی ہونے کے باوجود صرف بیس فیصد کاروبار کے مالک تھے۔

قیام پاکستان کے وقت سات لاکھ آبادی کے ساتھ لاہور ، پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا اور وہاں بیس سینما گھر تھے جن پر بھارتی اور امریکی فلمیں چلتی تھیں۔ اسی لیے عام فلم بینوں کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ لاہور کی آباد فلم نگری اجڑ چکی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ بمبئی اور کلکتہ کی ہندی/اردو اور پنجابی یا بھارتی فلمیں ، قیام پاکستان کے سات سال بعد تک آزادانہ ریلیز ہوتی رہیں اور پہلی بار 1954ء میں پابندیاں لگیں جب فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ ہوا تھا۔

پاکستان کی پہلی فلم کی تکمیل

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی تکمیل لاہور میں پاکستان کے پہلے فلم سٹوڈیو "پنچولی فلم سٹوڈیو" میں ہوئی جس کا باضابطہ "افتتاح" 18 فروری 1948ء کو ہوا تھا۔ دل سکھ پنچولی ، اس فلم سٹوڈیو کے مالک تھے جو اصل میں 1936ء میں مسلم ٹاؤن لاہور میں نہر کے کنارے تعمیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا اسی نام کا دوسرا فلم سٹوڈیو بھی تھا جو اپر مال پر نہر کے کنارے واقع تھا۔ لاہور کے پربھات سینما کی ملکیت بھی انھی کی بتائی جاتی ہے ، جس پر پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) ریلیز ہوئی تھی۔

دل سکھ پنچولی

سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی ، 1930 کی دھائی کے ایک کامیاب فلم ڈسٹری بیوٹر اور 1940 کی دھائی کے کامیاب فلم پروڈیوسر تھے۔ دو فلم سٹوڈیوز کے علاوہ "پنچولی فلم کمپنی" کے مالک بھی تھے جس نے لاہور میں پنجابی فلموں ، گل بکاؤلی (1939) ، یملا جٹ (1940) اور چوہدری (1941) کے علاوہ لاہور کی پہلی بلاک باسٹر ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) بھی بنائی تھی جس میں پاکستان کے سینئر ترین اداکار ایم اسماعیل نے ٹائٹل رول کیا تھا اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ہندوستانی فلموں کی موسیقی کا سٹائل تک بدل ڈالا تھا۔

ملکہ ترنم نورجہاں کو فلم خاندان (1942) سے پورے ہندوستان میں متعارف کروانے کا سہرا بھی سیٹھ دل سکھ پنچولی کے سر تھا جو اس فلم کے فلمساز تھے۔ تقسیم سے قبل لاہور میں درجن بھر فلمیں ان کے کریڈٹ پر تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد انھیں مال کے بدلے جان بچاتے ہوئے اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا اور اپنا کاروبار ، اپنے مینجر دیوان سرداری لال کے سپرد کرگئے تھے۔

دیوان سرداری لال

دیوان سرداری لال ، سیٹھ دل سکھ پنچولی کے جنرل مینجر اور دست راست تھے جنھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان میں رہنے اور اپنے کاروبار کو بچانے کی کوشش کی۔ انھیں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے فلمساز ہونے کا اعزاز ہوا۔ اصل فلمساز ، ڈی پی سنگھا تھے جو ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی تھے۔ دیوان صاحب نے فلم بنانے کے تمام تر لوازمات فراہم کیے تھے۔ اس طرح سے پاکستان کی پہلی فلم ایک ہندو کے سرمایہ اور دوسرے ہندو کے سازوسامان سے بنی۔ عکاس کے طور پر رضا میر کا نام ملتا ہے جو بعد میں ایک نامور ہدایتکار بنے۔

دیوان سرداری لال کے کریڈٹ پر فلم تیری یاد (1948) کے علاوہ دوسری اور آخری پاکستانی فلم غلط فہمی بھی تھی جو 1950ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں بھی تقریباً پہلی فلم والی کاسٹ تھی اور آشا پوسلے ہی ہیروئن تھی۔ اس کے علاوہ دیوان صاحب کا نام بطور فلمساز لاہور میں بننے والی ایک فلم "برسات کی ایک رات" پر بھی آتا ہے جو تقسیم کے بعد 1949ء میں ایک بھارتی فلم کے طور پر ریلیز ہوئی اور شاید آشا پوسلے کی بطور ہیروئن اکلوتی "بھارتی فلم" بھی تھی۔

دیوان صاحب کو بھی دل سکھ پنچولی کی طرح پاکستان چھوڑنا پڑا تھا اور ان کے چھوڑے ہوئے دونوں فلم سٹوڈیوز اداکار نذیر اور گلوکارہ ملکہ پکھراج کو الاٹ ہوئے تھے۔

پاکستان کی پہلی فیچر فلم تیری یاد (1947) کے بارے میں متضاد آراء ہیں۔ ایک روایت ہے کہ وہ صرف تین ماہ میں مکمل ہوئی جبکہ دوسری رائے میں اس کی شوٹنگ تقسیم سے قبل شروع ہوگئی تھی۔ ہدایتکار لقمان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس پہلی فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوا ، وہ ان کی فلم شاہدہ (1959) تھی لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ریلیز کے اعتبار سے پہلی فلم تیری یاد (1948) ہی تھی جس کے تجربہ کار ہدایتکار داؤد چاند تھے۔

کیا فلم تیری یاد ، بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی؟

فلم تیری یاد (1948) ، لاہور کے پربھات (صنوبر/ایمپائر) سینما میں ریلیز ہوئی ، جہاں مسلسل پانچ ہفتے تک چلتی رہی جو کوئی بری کارکردگی نہیں تھی۔ اس دور میں فلم بینی صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہوتی تھی اور ایک فلم عام طور پر ایک ہی سینما پر ریلیز ہوتی تھی۔ اس وقت کے حالات ، فلم کے بجٹ اور فلمی مقابلے میں یہ "بری طرح سے فلاپ" ، "ڈیڈ فلاپ" یا "سپرفلاپ" فلم نہیں تھی بلکہ ایک اوسط درجہ کی یا ایک ناکام فلم تھی۔ فلموں کی کامیابی اور معیار کا پیمانہ ہر دور میں مختلف رہا ہے جس پر کبھی بڑی تفصیل سے لکھا جائے گا۔

فلموں کی کامیابی اور
میعار کا پیمانہ
ہر دور میں مختلف رہا ہے

"بری طرح سے ناکام" فلم کی اصطلاح اس فلم کے لیے استعمال ہوتی تھی جو چند ایک شو چلنے کے بعد ہی سینما سے اتر جاتی تھی۔ پاکستان میں ایسی کئی ایک فلمیں ہیں جو "بری طرح سے فلاپ" کے زمرے میں آتی ہیں لیکن فلم تیری یاد (1948) اس ضمن میں نہیں آتی۔ یہ فلم ، بھارتی فلموں کے مقابلے میں سات آٹھ سو سیٹوں والے صنوبر سینما میں مسلسل سوا ماہ ، پانچ ہفتے یا 35 دن تک چلتی رہی جو روزانہ تین شو اور عید اور اتوار کے 4 شو ملا کر اس فلم کے فی ہفتہ 22 شو اور پانچ ہفتوں کے کل 111 شو بنتے ہیں۔

اب ایسی فلم کو کوئی "ڈیڈ فلاپ" ، "سپرفلاپ" یا "بری طرح سے فلاپ" کہے گا تو یہ غلط بیانی ، تعصب اور تنگ نظری کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟

یاد رہے کہ پاکستانی فلموں کے عروج کے دور میں بہت سی نام نہاد "کامیاب سلور جوبلی" فلمیں ایسی بھی ہیں کہ جو ایک ماہ کے اندر اندر سینماؤں سے فارغ ہو جاتی تھیں ، یہ فلم تو پھر بھی سوا ماہ تک چلتی رہی تھی۔ کراچی میں بھی یہ فلم 4 نومبر 1949ء کو ایمپائر یا قسمت سینما پر ریلیز ہوئی تھی اور پانچ ہفتے تک چلی تھی۔ یہ فلم 1967ء میں کراچی کے رٹز سینما میں بھی ریلیز ہوئی تھی اور ممکن ہے کہ کسی کونے کھدرے میں اس کا کوئی پرنٹ پڑا ہوا ہو؟

1948ء کی عید فلموں کا دنگل

برصغیر میں فلمیں صرف تفریح کے لیے دیکھی جاتی تھیں۔ مذہبی تہواروں پر بطور خاص فلمی پروگرام ہوتے تھے جن میں مسلم علاقوں میں عید کا دن سب سے بڑا فلمی دن ہوتا تھا۔ اس وقت سینما گھر صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہوتے تھے جہاں دیگر علاقوں کے لوگ بھی عیدین پر بڑی تعداد میں فلمیں دیکھنے آتے تھے اور فلمی کاروبار عروج پر ہوتا تھا۔

فلم تیری یاد (1948) بھی عید کے دن ریلیز کی گئی لیکن اس پہلی اور اکلوتی پاکستانی فلم کو بڑی کامیابی "عید کے فلمی دنگل" کی وجہ سے بھی نہ مل سکی۔ 1948ء کی عید پر لاہور کے سینماؤں پر پانچ بھارتی فلمیں بھی ریلیز ہوئی تھیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

  • رتن سینما پر ہدایتکار محبوب کی فلم انوکھی ادا (1948)
  • نگار سینما پر ہدایتکار ایم صادق کی انگڑائی (1948)
  • پیلس سینما پر ہدایتکار کشور ساہو کی ساجن (1947)
  • ریجنٹ سینما پر موہن سنہا کی خوبصورت دنیا (1947)
ان فلموں کے علاوہ نشاط سینما پر ہدایتکار اے آر کاردار کی نغماتی فلم درد (1947) 21ویں ہفتے میں کامیاب بزنس کر رہی تھی جبکہ اسی سال دلیپ کمار کی مشہور فلمیں شہید اور میلہ وغیرہ بھی ریلیز ہوئی تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد پہلی پنجابی فلم

1948ء کی عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی سبھی فلموں پر بھاری ، ہدایتکار روپ کے شوری کی نغماتی پنجابی فلم چمن (1948) تھی جو عید کے فلمی دنگل کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔ تقسیم کے بعد قیصر سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی یہ پہلی پنجابی فلم تھی جو فلم تیری یاد (1948) کی ناکامی کی اصل وجہ بھی تھی۔ قدرتی بات ہے کہ اہل پنجاب کے لیے اپنی مادری زبان میں بننے والی پنجابی فلم سے بڑی اور بہتر تفریح کیا ہو سکتی تھی؟

فلم چمن (1948) ، اصل میں تقسیم سے قبل "بھائیا جی" کے نام سے لاہور کے شوری فلم سٹوڈیو میں بن رہی تھی لیکن 1947ء کے فسادات میں روپ کے شوری کو اپنا گھر بار اور کاروبار وغیرہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ لاہور کی اس ادھوری فلم کو بمبئی میں مکمل کیا گیا۔ ہیروئن ، اس کی اداکارہ بیوی ، مینا شوری تھی۔ کرن دیوان ہیرو ، مجنوں ولن اور کلدیپ کور سائیڈ ہیروئن تھی۔ اوم پرکاش نے ٹائٹل رول کیا اور اس کا گیٹ اپ اور مکالموں کی ادائیگی مکمل طور پر فلم کرتارسنگھ (1959) میں ظریف کی طرح سے تھی۔ اس سپرہٹ فلم میں یہ دو امر گیت شامل تھے: "چن کتھاں گزاری اے رات وے۔۔" اور "ساری رات تیرا تکنی آں راہ۔۔"

یاد رہے کہ"بھائیا جی" نام کی ایک اور بھارتی پنجابی فلم 1950ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں اوم پرکاش ہی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔

فلم تیری یاد کی یاد میں

پاکستان فلم میگزین پر 2008ء میں "پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال" کے سلسلے میں بہت سے اردو/پنجابی مضامین لکھے گئے تھے جن میں مختلف فنکاروں کے علاوہ یادگار فلموں پر معلوماتی تحریریں بھی تھیں۔ بڑی تعداد میں پاکستانی فلموں اور گیتوں کے ویڈیوز بھی یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے تھے جو کاپی رائٹ کے بہانے کسی نے ضائع کروا دیے تھے۔

اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں بڑی حیرت ہوئی جب ان یادگار فلموں کی فہرست میں فلم تیری یاد (1948) کو غائب پایا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد تھا کہ اس فلم پر نہ صرف ایک مضمون لکھا تھا بلکہ اس فلم کا اصل پوسٹر پہلی بار پاکستان فلم میگزین پر ہی شائع ہوا تھا جو کراچی کے ایک معروف محقق اور مورخ جناب عقیل عباس جعفری نے ارسال کیا تھا۔

پاکستان فلم میگزین کے پرانے ورژن کے فلمی تاریخ کے سیکشن سے فلم تیری یاد (1948) کا اردو لنک مل ہی گیا اور یاد آگیا کہ اسے کیوں آف لائن کیا تھا۔۔!

اصل میں اس مضمون میں فلم تیری یاد (1948) کی معلومات کے علاوہ فلم کی کہانی نہ صرف غلط تھی بلکہ ادھوری بھی تھی جو کراچی کے ایک معتبر فلمی اخبار سے ماخوذ تھی۔ اس پیج کو آف لائن کرنے کی بڑی وجہ بھی یہی تھی۔ اس وقت ، ویب سائٹ پر اردو صفحات گرافک ورژن میں بنانا پڑتے تھے اور اگر کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو نئے سرے سے ساری گرافک بنانا پڑتی تھی جو بڑا محنت اور وقت طلب کام ہوتا تھا ، لنک لگانا تو اور بھی مشکل ہوتا تھا۔ شاید دیگر مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس پیج پر دوبارہ توجہ نہ دے سکا لیکن اس کا لنک بہرحال سالانہ فلموں کی انگلش لسٹ میں موجود رہا۔

فلم تیری یاد کی تاریخ نمائش

پاکستان فلم میگزین پر پاکستانی فلموں کی فہرست لاہور کے ایک نامور فلمی صحافی جناب یاسین گوریجہ مرحوم کی 1986ء کی فلم ڈائریکٹری سے اخذ کی گئی تھی لیکن اس میں دیگر خامیوں کے علاوہ خاص طور پر تواریخ کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ مثلاً فلم تیری یاد (1948) کی تاریخ نمائش 2 ستمبر 1948ء درج تھی جو دیگر میڈیا میں بھی نقل ہوتی تھی۔

کراچی کا ایک فلمی اخبار تو بضد تھا کہ فلم تیری یاد (1948) ، عید کے دن ریلیز ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ، فلم بے قرار (1950) کو عید پر ریلیز ہونے والی پہلی فلم قرار دیتے تھے حالانکہ پنجابی فلم پھیرے اور اردو فلم دو کنارے بھی ، 1949ء کی عید پر لاہور میں ریلیز ہو چکی تھیں لیکن اس متعصب اور تنگ نظر فلمی اخبار کو لاہور اور پنجابی فلموں کے ریکارڈز سے خدا واسطے کا بیر تھا۔

ویسے بھی کچھ لوگوں کے لیے کتابوں میں لکھا ہوا حرف آخر ہوتا ہے اور وہ ، لکیر کے فقیر کی طرح اپنے ذہن کو سوچنے کی زحمت نہیں دیتے اور کتابوں کا حوالہ ایسے دیتے ہیں کہ جیسے خدا نخواستہ وہ انسانی نہیں ، الہامی کتابیں ہیں۔

فلم تیری یاد (1948) کی تاریخ نمائش کی غلطی 2003ء کی فلم ڈائریکٹری میں تب درست ہوئی جب پاکستان فلم میگزین پر یہ درستی کی گئی تھی۔ یہ تصحیح لاہور سے ایک شوکت علی چھینہ نامی صاحب کی مرہون منت تھی جنھوں نے 7 اگست 1948ء کے روزنامہ امروز لاہور سے اس فلم کا ایک اشتہار ، چند تصاویر ، فلمی کہانی پر ایک تبصرہ اور 1949ء میں ریلیز ہونے والی فلموں کی اصل تاریخ نمائش بھیجی تھی۔

رہی سہی کسر بعد میں فیس بک پر جناب امجد سلیم علوی صاحب نے پوری کر دی تھی جب انھوں نے اپنے والد بزرگوار جناب غلام رسول مہر (مرحوم) کے تاریخی اخبار روزنامہ انقلاب لاہور کا 6 اگست 1948ء کا فلمی صفحہ آن لائن کردیا تھا جس کے بعد فلم تیری یاد (1948) کی تاریخ نمائش کے بارے میں سارا ابہام ختم ہوگیا تھا۔

میری اپنی بڑی خواہش رہی ہے کہ کاش اتنا وقت ملے کہ لاہور یا کراچی کی کسی لائبریری میں بیٹھ کر پرانے اخبارات کی فائلیں کھنگالوں اور سیاسی اور فلمی ریکارڈز کو اپنے انداز میں مرتب کروں لیکن فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

ویسے آج کل یوٹیوب پر ایک صاحب ، روزنامہ جنگ راولپنڈی سے فلمی اشتہارات پیش کر رہے ہیں جو فلمی ریکارڈز کے لیے مناسب شہر نہیں ہے۔ اصل ریکارڈز صرف فلمی مرکز لاہور کے اخبارات سے ملیں گے جب کہ کراچی کے اخبارات صرف اردو فلموں کے ریکارڈز کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔



Parastish
Parastish
(1977)
Naaz
Naaz
(1969)
Khatarnak
Khatarnak
(1974)
Dillagi
Dillagi
(1974)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.