A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
شریف نیر نے اپنے 40 سالہ فلمی کیرئر میں صرف 14 فلمیں بنائیں لیکن چند فلمیں ایسی ہیں کہ جو انھیں ایک ناقابل فراموش فنکار بنا دیتی ہیں۔۔!
اداکار نذیر کے ساتھ ان کی بڑی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ تقسیم سے قبل انھوں نے فلم لیلیٰ مجنوں (1945) سے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا جس کے وہ ہدایتکار تھے۔ معاون ہدایتکار اور فلمساز نذیر تھے جو اس فلم میں اپنی بیگم سورن لتا کے ساتھ مرکزی کرداروں میں بھی تھے۔ علاؤالدین ، ایم اسماعیل اور سلطان کھوسٹ بھی اس فلم میں موجود تھے جس کے نغمہ نگار تنویر نقوی اور موسیقار رفیق غزنوی تھے۔ نذیر ہی کے ساتھ ایک فلم یادگار (1947) بھی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی ان کی پہلی دونوں فلمیں انوکھی داستان (1950) اور بھیگی پلکیں (1952) بھی اسی ٹیم کے ساتھ تھی۔ پچاس کے عشرہ میں ان کی دیگر دو فلمیں محفل (1955) اور معصوم (1957) تھیں۔ ان کی پہلی سپرہٹ فلم عشق پر زور نہیں (1963) تھی جو مالا اور سائیں اختر کے مشہور زمانہ گیت
کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ فلم اسلم پرویز کی بطور ہیرو آخری کامیاب فلم تھی جس کی ہیروئن جمیلہ رزاق تھی۔ نیلو ، سائیڈ ہیروئن تھی جبکہ مسرت نذیر اور یاسمین مہمان اداکارائیں تھیں۔
اسلم پرویز پر روایتی ہیرو کے طور پر تین درجن گیتوں میں سے آخری دو گیت احمدرشدی کی آواز میں فلمائے گئے تھے لیکن اسلم پرویز پر مسعودرانا کا کبھی کوئی گیت نہیں فلمایا گیا تھا۔
معروف ولن اداکار الیاس کاشمیری کی بطور فلمساز یہ واحد فلم تھی جس میں مرکزی کردار بھی انھی کا تھا۔
ہدایتکار شریف نیر کی فلم نائیلہ (1965) ، ایک شاہکار نغماتی رومانٹک فلم تھی جو اپنے وقت کی ایک معروف ادیبہ رضیہ بٹ کے لکھے ہوئے اسی نام کے ایک ناول پر بنائی گئی تھی۔
اس سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم کے فلمساز آغا جی اے گل تھے جو اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی ایورنیو پکچرز کے مالک بھی تھے۔ ایک ناول کو سلورسکرین پر منتقل کرنے کے لیے فلم کا منظرنامہ بھی شریف نیر نے خود لکھا تھا اور مکالمے لکھنے میں سردار ادیب کی معاونت حاصل کی تھی۔
فلم کا ٹائٹل رول شمیم آراء نے کیا تھا جو اس وقت اردو فلموں کی مقبول ترین ہیروئن تھی۔ اس کا اصل نام پتلی بائی تھا اور واقعی ایک نازک اور خوبصورت سی پتلی ہی لگتی تھی۔
فلم نائیلہ (1965) کو کچھ لوگ مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم بھی کہتے تھے جو درست نہیں ، پہلی مکمل رنگین فلم ایک دل دو دیوانے (1964) تھی۔
فلم نائیلہ (1965) میں پہلی بار دونوں بھائیوں سنتوش اور درپن نے ایک ساتھ کام کیا تھا جو فلم میں شمیم آراء کے حصول کے لیے حریف ہوتے ہیں۔ راگنی نے سوتیلی ماں کا رول بڑی عمدگی سے کیا تھا۔
اس فلم کی جملہ خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی اس فلم کی موسیقی تھی۔ موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے گیتوں کی لازوال دھنیں بنائی تھیں۔ یہ فلم نغمات کے لحاظ سے گلوکارہ مالا کی فلم تھی جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ فلم کا سب سے مقبول ترین گیت مالا نے مسعودرانا کے ساتھ گایا تھا:
اور یہی فلم مسعودرانا کی شریف نیر کے ساتھ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں مالا کے دیگر مقبول گیت تھے:
شریف نیر کی اکلوتی پنجابی فلم لاڈو (1966) نغمات کے لحاظ سے ایک اور بھاری بھر کم فلم تھی۔ ماسٹرعبداللہ کی دھنوں پر منظور جھلا اور حزیں قادری کے لکھے ہوئے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے دوگیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ ان میں
نیلو اور حبیب پر فلمایا گیا تھا جسے مالا اور مسعودرانا نے گایا تھا۔ اسی فلم میں ایک سکھ شاعر موہن سنگھ ماہر کا ایک بڑا خوبصورت گیت اداکارہ یاسمین پر فلمایا گیا تھا
شریف نیر کی ایک اور نغماتی فلم ناز (1969) تھی جس میں نثاربزمی کی دھنوں پر قتیل شفائی کے دو گیتوں نے دھوم مچا دی تھی
کیا گیت تھے اور کیا نغمگی تھی؟ اداکارہ شبنم پر فلمائے ہوئے یہ دونوں گیت وقت کی مقبول ترین گلوکارہ مالا نے گائے تھے اور کیا خوب گائے تھے۔
1971ء میں شریف نیر کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم دوستی (1971) ریلیز ہوئی تھی۔ فلم زرقا (1969) کے بعد یہ دوسری فلم تھی جس نے کراچی میں سو ہفتے چل کر دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اعجاز ، اس فلم کے فلمساز اور ہیرو تھے اور شبنم ہیروئن تھی۔ پنجاب پکچرز کی اس شاہکار فلم میں مشرقی پاکستان کے مقبول ترین فلمی ہیرو رحمان نے پہلی بار مغربی پاکستان کی کسی فلم میں کام کیا تھا اور پہلی ہی بار سائیڈ ہیرو کے طور پر کام کیا تھا۔
اس فلم کی بیشتر شوٹنگ برطانیہ میں ہوئی تھی۔ حسنہ ، طالش اور رنگیلا دیگر اہم کردار تھے۔
یہ فلم بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے یادگار رہی۔ اے حمید کی موسیقی میں قتیل شفائی ، تنویر نقوی اور کلیم عثمانی کے گیتوں کو ملکہ ترنم نورجہاں نے گا کر امر کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی اس فلم کا صرف ایک گیت جو مالا نے گایا تھا ، گمنام رہا لیکن میڈم کے گائے ہوئے ساتوں گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں ایک دوگانے میں مجیب عالم بھی ساتھ تھے۔ یہ گیت تھے:
اداکارہ رانی کے مرکزی کردار میں ایک عجیب و غریب فلم ایک تھی لڑکی (1973) بھی تھی جس کے فلمساز احتشام تھے جو ان تین ہدایتکاروں میں سے ایک تھے۔ دوسرے دونوں حسن طارق اور شریف نیر تھے لیکن پھر بھی یہ ایک ناکام فلم تھی۔
اس فلم کی خاص بات غلام علی کا گایا ہوا ایک پنجابی گیت تھا جو معروف شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا لکھا ہوا تھا:
شریف نیر کی ایک اور ناکام فلم شیریں فرہاد (1975) بھی تھی جس میں زیبا اور محمدعلی مرکزی کرداروں میں تھے۔ خواجہ خورشید انور کی موسیقی اور قتیل شفائی کے گیتوں کے باوجود کوئی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔ مہدی حسن کے چار گیت تھے جبکہ مسعودرانا کا ایک تھیم سانگ "کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے۔۔" فلم میں ٹکڑوں میں آتا ہے۔
شریف نیر کی آخری فلم جھومرچور (1986) بھی ایک ناکام فلم تھی جس کے فلمساز ان کے داماد اعجاز تھے۔ شبنم اور جاویدشیخ کے ساتھ اعجاز نے بھی سائیڈ ہیرو کا رول کیا تھا۔
ہدایتکار شریف نیر ، 1922ء میں پیدا ہوئے اور 2007ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔
1 | فلم ... نائیلہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: شمیم آرا ، سنتوش |
2 | فلم ... لاڈو ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نیلو ، حبیب |
3 | فلم ... شیریں فرہاد ... اردو ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، زیبا ، محمد علی ) |
1. | 1965: Naela(Urdu) |
2. | 1966: Lado(Punjabi) |
3. | 1975: Shirin Farhad(Urdu) |
1. | Urdu filmNaelafrom Friday, 29 October 1965Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Shamim Ara, Santosh |
2. | Punjabi filmLadofrom Friday, 26 August 1966Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib |
3. | Urdu filmShirin Farhadfrom Friday, 9 May 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): (Playback, Zeba, Mohammad Ali) |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین