پاکستان کی فلمی تاریخ میں بڑے بڑے با صلاحیت فنکار موجود رہے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں بہت اچھا کام کیا تھا۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام ، روبینہ بدر کا تھا جس کے بارے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ فلم بیٹی (1964) میں جس بےبی روبینہ نے گائیکی کا مظاہرہ کیا تھا ، یہ وہی تھی۔ اگر وہی تھی تو یہ ایک منفرد اعزاز ہے کہ بچپن میں فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی ایک گلوکارہ نے جوانی میں بھی نام پیدا کیا تھا۔
ہدایتکار رضا میر اور فلمساز اقبال شہزاد کی ایک سماجی موضوع پر بننے والی انتہائی بامقصد اور یادگار فلم بیٹی (1964) میں ایک بچی گٹو نے ٹائٹل رول کیا تھا اور پوری فلم پر چھائی ہوئی تھی۔ اس پر بےبی روبینہ کے دو کورس گیت فلمائے گئے تھے ، جن میں سے پہلا گیت تھا:
-
ذرا بچ کے رہنا یہاں ، دنیا سب کو ستائے ، اللہ میاں بچائے۔۔
جبکہ دوسرا گیت ایک مزاحیہ کورس گیت تھا:
-
دنیا ریل گاڑی ، ہے سانپ کی سواری ، جو سمجھے وہ کھلاڑی ، نہ سمجھے وہ اناڑی ، بھیا۔۔
زندگی کے حقائق پر مبنی اس بامقصد اور مزاحیہ گیت میں
بےبی روبینہ اور ساتھیوں کے علاوہ نمایاں آوازیں
احمدرشدی اور
مسعودرانا کی تھیں جو
دلجیت مرزا ،
رنگیلا اور
ارسلان وغیرہ پر فلمائی گئی تھیں۔ فلم
بیٹی (1964) کے گیت
فیاض ہاشمی نے لکھے تھے اور موسیقار
دیبو بھٹاچاریہ تھے جنہوں نے بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں جبکہ اس فلم کے روایتی کردار
نیلو اور
اعجاز نے ادا کئے تھے۔
روبینہ بدر نے مسعودرانا کے ساتھ سات گیت گائے تھے جن میں سے دو گیتوں پر بات کئے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔ ان میں سے پہلا گیت ہدایتکار حسن طارق کی فلم دلربا (1975) میں تھا:
-
جو ٹوٹ گئی پائل تو کیا ہوگا۔۔؟
فلمی صورتحال میں
رانی اور
وحیدمراد کے مابین گائیکی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ رانی اپنے رقص و گیت کے ساتھ اور
وحیدمراد اپنی گائیکی سے مقابلہ کرتے ہیں اور جیت جاتے ہیں۔ اس گیت میں
مسعودرانا نے جو کلاسیکل ٹچ دیا تھا ، وہ لاجواب تھا۔
ایم اشرف کی دھن بڑے کمال کی تھی۔
روبینہ بدر کا مسعودرانا کے ساتھ ایک اور دوگانا پنجابی فلم اج دی گل (1975) میں تھا:
-
ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار ، ہاؤ آئی ونڈر وٹ یو آر۔۔
فلمساز اور ہدایتکار
اسد بخاری کی اس فلم کے اس پنجابی/اردو/انگلش مکس گیت میں
روبینہ بدر کو اتنی محنت نہیں کرنا پڑی تھی جتنی
مسعودرانا کو کرنا پڑی تھی کیونکہ چند انگلش گیتوں کو پنجابی سٹائل میں گانا اور کسی لفظ پر پھسلے بغیر گانا ، ایک ایسا شاندار کارنامہ تھا کہ کوئی عام تو کیا ، ایک اچھے خاصے گلوکار کے لئے بھی آسان کام نہیں تھا۔ یہ گیت شہنشاہ ظرافت
منورظریف اور
مسرت شاہین پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کے دوران حاضرین میں سے ایک
مسعودرانا خود بھی تھے جن کے بالوں کو چھیڑ کر
منورظریف ان سے اپنی دوستی اور قربت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ گیت کے آخر میں سب حاضرین بھنگڑہ ڈالتے ہیں جن میں
مسعودرانا بھی ہوتے ہیں جن پر ان کا اپنا گایا ہوا یہ بول فلمایا جاتا ہے "جی اؤئے میم بلئے۔۔" یہ گیت موسیقار
تصدق حسین نے ایک بھارتی فلم سے کاپی کیا تھا۔ مجھے ایسے کاپی گیتوں سے بڑی دلچسپی رہی ہے کیونکہ اس طرح سے مختلف فنکاروں کا موازنہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ پاکستان نے جب بھی بھارتی فلموں یا گیتوں کو کاپی کیا ، عام طور پر وہ نقل ، اصل سے بہتر رہی لیکن جب بھارت نے کاپی کیا تو اکثر وہ اونچی دکان اور پھیکا پکوان ثابت ہوئے تھے۔۔!
روبینہ بدر کا سب سے مقبول گیت ایک پنجابی فلمی گیت تھا:
-
رس کے ٹر پئے او سرکار ، توڑ کے میرا سجرا پیار ، وخا لو اپنی شان حضور ، کرالو منتاں لکھ لکھ وار۔۔
یہ گیت فلم
خانزادہ (1975) کے لئے
نذیر علی نے کمپوز کیا تھا لیکن جسے
مسعودرانا کی آواز میں زیادہ شہرت ملی تھی۔
روبینہ بدر نے دیگر گیتوں کے علاوہ معروف گلوکار
اے نیر کے پہلے فلمی گیت "یونہی دن کٹ جائیں۔۔" میں بھی سنگت کی تھی جو فلم
بہشت (1974) کے لئے گایا گیا تھا۔ ٹی وی پر بھی
روبینہ کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "تجھ سنگ نیناں لاگے ، مانے نہ ہی جیا را۔۔"
روبینہ بدر کا انتقال 2006ء میں ہوا تھا۔
4 اردو گیت ... 3 پنجابی گیت