امین ملک ، پاکستان کے پہلے دو عشروں کے ایک نامور ہدایتکار تھے جو ایک پارٹ ٹائم اداکار بھی تھے۔
تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی پنجابی فلم منگتی (1942) ، بطور اداکار ان کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد وہ بمبئی کی بہت سی فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں میں دیکھے گئے تھے۔
آزادی کے بعد پاکستان میں انھوں نے بطور ہدایتکار اور فلمساز ڈیڑھ درجن فلمیں بنائی تھیں جن میں سے فلم جدائی (1950) ان کی پہلی فلم تھی۔
امین ملک بطور اداکار
ان کی پہلی نو فلموں میں سے سات اردو فلمیں تھیں جن میں سے ایک فلم پنجرہ (1951) بھی تھی جس میں انھوں نے صبیحہ خانم اور مسعود کے مقابل اداکاری کرتے ہوئے ڈبل رول بھی کیا تھا۔
اس دور میں بھارت کے ساتھ فلموں کی آزادانہ تجارت ہوتی تھی اور پاکستانی اردو فلمیں ، بھارتی فلمی سرکٹ کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی تھی کیونکہ پاکستان میں اردو فلموں کا سرکٹ بڑا محدود ہوتا تھا۔
امین ملک کی پہلی پنجابی فلم
پنجابی فلم پینگاں (1956) ، ان کی پہلی کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی جس میں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے موسیقار عنایت علی ناتھ کی بیٹی ، پہلی ہیروئن آشا پوسلے کی بہن ، موسیقار اختر حسین کی بیوی اور پچاس کے عشرہ میں زبیدہ خانم کے بعد دوسری مقبول اور مصروف ترین گلوکارہ کوثر پروین کا گایا ہوا سب سے سپر ہٹ پنجابی گیت بھی شامل تھا:
- تینوں بھل گیاں ساڈیاں چاہواں تے اساں تینوں کی آکھناں وے
ساڈے لیکھاں وچ لکھیاں نیں ہاواں تے اساں تینوں کی آکھناں وے
احمد راہی کے لکھے ہوئے اس لازوال گیت کی دھن بابا چشتی نے بنائی تھی اور یہ شاہکار گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا جو آج بھی بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔
امین ملک کی سب سے بڑی فلم چوڑیاں (1963)
امین ملک کی آخری نو فلموں میں سے صرف ایک اردو فلم تھی۔ ان کی دسویں فلم چوڑیاں (1963) ان کے فلمی کیرئر کی سب سے کامیاب اور ایک انتہائی اعلیٰ میعار کی فلم تھی۔
اس فلم کا ہر شعبہ قابل تعریف تھا ، خصوصاَ فلم کی کہانی ، مکالموں اور سکرین پلے کے علاوہ فلم کی ڈائریکشن قابل تعریف تھی۔ تمام اداکاروں کی اداکاری بھی زبردست تھی۔
اکمل کے لیے بریک تھرو
فلم چوڑیاں (1963) ، اکمل کے لیے بھی بریک تھرو ثابت ہوئی تھی جو اپنی پہلی فلم جبرو (1957) کے بعد سے جدوجہد کر رہے تھے۔ فلم چوڑیاں (1963) نے انھیں سپر سٹار بنا دیا تھا۔
فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں تھا لیکن فلم کی حد تک سبھی گیت بہت اچھے لگتے تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں ، نذیر بیگم ، مالا اور منیر حسین کے علاوہ احمدرشدی بھی تھے جن کے اس پنجابی فلم میں تین گیت تھے جو ایک منفرد واقعہ تھا کیونکہ اس کے فلم کے علاوہ انھیں کبھی کسی پنجابی فلم میں اتنے گیت گانے کا موقع نہیں ملا تھا البتہ پنجابی فلموں کے حوالے سے ان کے دو ناقابل شکست ریکارڈز ہیں۔
احمدرشدی کے منفرد ریکارڈ
فلم چوڑیاں (1963) میں احمدرشدی کے گائے ہوئے تینوں گیت فلم کے تینوں اہم کرداروں یعنی ہیرو ، ولن اور کامیڈین پر فلمائے گئے تھے۔ اس کے بعد ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی ایک گلوکار نے کسی ایک فلم کے ان تینوں روایتی کرداروں کے لیے نغمہ سرائی کی ہو۔ اس کے علاوہ احمدرشدی کا ایک ریکارڈ یہ بھی تھا کہ 1963ء میں ریلیز ہونے والی تمام یا سو فیصدی پنجابی فلموں میں ان کے گائے ہوئے گیت ملتے ہیں جو ایک اور منفرد ریکارڈ ہے۔
امین ملک اور مسعودرانا کا ساتھ
امین ملک کی مسعودرانا کے ساتھ پہلی فلم ماما جی (1964) تھی اور اس فلم کو ملا کر ان کی آخری آٹھ فلموں میں سے چھ میں مسعودرانا کے دو درجن سے زائد گیت ملتے ہیں۔ ان کی دوسری مشترکہ فلم اک سی چور (1965) تھی جس میں مسعودرانا کی بے مثل گائیکی کا یہ شاہکار گیت بھی تھا:
امین ملک کی قابل تعریف فلم زمیندار (1966)
فلم چوڑیاں (1963) کے بعد امین ملک کی ایک اور یادگار اور قابل تعریف فلم زمیندار (1966) بھی تھی جس کی کہانی اور ایک ایک کردار پاکستان کی سیاسی حالات کی منہ بولتی تصویر تھا۔
اس فلم پر 14 اگست 2008ء کو پاکستان فلم میگزین پر بڑا تفصیلی تبصرہ لکھا گیا تھا جو پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے سلسلے کی ایک کڑی تھا اور پورا سال اس ویب سائٹ پر یادگار فلموں اور فنکاروں کے بارے میں مفید معلومات دی گئی تھیں۔
اس موقع پر پہلی بار یو ٹیوب پر یہ فلم اپ لوڈ بھی کی گئی تھی جسے کاپی رائٹ کے بہانے کسی بد بخت نے ضائع کروا دیا تھا اور میری ساری محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔ پاکستان فلموں اور خصوصاَ پرانی فلموں کا ریکارڈ محفوظ کرنا میری مخلصانہ کوشش رہی ہے لیکن ٹانگیں کھینچنے والے اپنی عادت سے مجبور ہیں ورنہ تیس سال سے پرانے مواد پر کاپی رائٹ کا قانون کیسا۔۔؟ بے شمار پرانی بھارتی فلمیں آن لائن ہیں لیکن آج بھی خاص طور پر پرانی پاکستانی فلموں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا ہے حالانکہ ان فلموں کی اب کوئی کمرشل ویلیو بھی نہیں ہے۔
اس فلم میں مسعودرانا ، مالا اور ساتھیوں کا یہ کورس گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا:
امین ملک کی ایک اور مشہور فلم پیداگیر (1966) بھی تھی جو عورتوں کے دلالوں اور ہیرا منڈی کے موضوع پر بنائی گئی ایک بولڈ فلم تھی۔ اس فلم کا تھیم سانگ مسعودرانا کی آواز میں تھا جو اداکار طالش پر فلمایا گیا تھا:
امین ملک انتقال 31 دسمبر 1970ء کو ہوا تھا اور ان کے انتقال کے بعد ان کی آخری فلم چنگا خون ، 1972ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
(0 اردو گیت ... 15 پنجابی گیت )