اداکار ساون
کبھی پنجابی فلموں کی
ضرورت ہوتے تھے
پاکستان کی فلمی تاریخ میں بعض فنکاروں نے بڑی حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ان میں ایک بڑا نام اداکار ساون کا تھا جو ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کیریکٹرایکٹر کرداروں میں صف اول کے اداکار ثابت ہوئے تھے۔
ساون کا عروج و زوال
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اس دراز قد ، تنومند ، گرجدار آواز کے مالک پہلوان نما اداکار کو سامنے رکھ کر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ چوٹی کے اس اداکار کو نظر انداز کر دیا گیا تھا اور وہ زندہ رہنے کے لیے چھوٹے موٹے فلمی کردار قبول کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔!
ساون کی پہلی فلم کارنامہ (1956) تھی جو کراچی میں بنائی گئی تھی۔ لگتا ہے کہ باقی ملک کے لیے یہ ایک اجنبی فلم تھی کیونکہ فلم آس پاس (1957) کے ٹائٹل پر ساون کا نام introducing کے ضمن میں لکھا ہوا تھا۔
چالیس سال کی عمر میں بریک تھرو ملا
پہلی ایک درجن فلموں میں صرف ایک پنجابی فلم شیرا (1959) تھی ، باقی سبھی اردو فلمیں تھیں۔ ان فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں کے بعد فلم تیس مارخان (1963) میں پہلی بار مرکزی ولن کے کردار میں خوب چمکے۔
یہ بریک تھرو انھیں چالیس سال کی عمر میں ملا تھا۔ اس فلم میں پہلی بار پچاس کے عشرہ کے کامیاب ترین ولن اداکار علاؤالدین ، سولو ہیرو کے طور پر سامنے آئے اور کامیاب رہے تھے۔ ساٹھ کے عشرہ میں پنجابی فلموں میں مظہرشاہ کے بعد ساون دوسرے مقبول ترین ولن اداکار ہوتے تھے۔ علاؤالدین کی بطور ہیرو فلموں میں زیادہ تر ولن کے کردار ساون ہی نے کیے تھے۔
فلم چاچا خوامخوہ (1963) میں ایک یادگار منظر ایسا بھی تھا کہ جب پنجابی فلموں کے دونوں سپرسٹار ہیرو ، سدھیر اور اکمل اور ولن مظہرشاہ اور ساون ، ایک ہی فریم میں نظر آتے ہیں۔
فلم ملنگی (1965) ، بھریا میلہ اور نظام لوہار (1966) وغیرہ جیسی یادگار فلموں میں بڑے بھاری بھر کم ولن ثابت ہوئے تھے۔
ساون کی ٹائٹل رول میں پہلی فلم
دودرجن فلموں میں ولن کرداروں کے بعد فلم گونگا (1966) میں پہلی بار ساون کو ٹائٹل رول ملا تھا جس میں وہ کامیاب رہے تھے۔ اس فلم میں مسعودرانا کا یہ پس پردہ گیت حساس دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے
- کوئی اینی گل رب کولوں پچھ کے تے آوے ، ربا او کی کرے ، جدی ماں مر جائے۔۔
فلم جگری یار (1967) کے ٹائٹل رول میں ساون نے کسی ایک بھی سین میں علاؤالدین ، اکمل اور مظہرشاہ جیسے بھاری بھر کم اداکاروں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا تھا۔ اس فلم کے تھیم سانگ کے طور پر مسعودرانا کا یہ لازوال گیت
- سوچ کے یار بناویں بندیا۔۔
پوری فلم کی کہانی بیان کرتا ہے۔
ساون نے علاؤالدین کی جگہ لے لی
اس فلم کے بعد ساون کو روایتی ولن کرداروں کے بجائے مرکزی کردار ملنے لگے تھے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ علاؤالدین کی جگہ ساون نے لے لی تھی لیکن صرف پنجابی فلموں کی حد تک ، اردو زبان میں ان کی کوئی خاص فلم نہیں ملتی۔ جانی دشمن (1967) ، میدان اور پگڑی سنبھال جٹا (1968) کے مثبت کرداروں نے ساون کو فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا اور فلم میرا بابل (1968) کے ٹائٹل رول میں پنجابی فلموں کے مقبول ترین اداکار بن گئے تھے۔
ساون کے انتہائی عروج کا دور
1969ء سے 1975ء تک ساون ، پنجابی فلموں کی ضرورت ہوتے تھے۔ وہ کسی فلم میں روایتی ہیرو نہیں آئے۔ ان کی شکل و صورت یا جسمانی ساخت ہیرو والی تھی بھی نہیں اور پھر عمر کا تقاضا بھی تھا۔ انھیں جب عروج ملا تو وہ پچاس کے لگ بھگ تھے ، ایسے میں کیریکٹرایکٹر رولز ہی کر سکتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان نو برسوں میں ساون کی کل 56 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے صرف دو اردو اور باقی سبھی پنجابی فلمیں تھیں۔ ان میں سے ڈیڑھ درجن فلموں میں ان کے ٹائٹل رولز تھے۔
ساون ، عام طور پر ایک طاقتور ، بااختیار ، بارعب شخص کے کرداروں میں نظر آتے تھے اور اپنی خبردار قسم کی آواز ، تحکمانہ انداز اور مکالمے بولتے وقت پرجوش جسمانی ارتعاش کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔
ساون جب عروج پر تھے
ساون کے عروج کے اس دور کا میں بھی عینی شاہد ہوں کیونکہ میری پہلی فلم لچھی (1969) کا مرکزی کردار بھی ساون ہی کا تھا۔
میرے ذہن میں "ساون بطور" آج بھی تازہ ہے۔ فلم کی کاسٹ کے نام عام طور پر نستعلیق خط میں لکھے جاتے تھے لیکن آخر میں ہائی لائٹ کرنے کے لیے خط نسخ ، ثلت یا رقعہ میں ساون کا نام لکھا جاتا تھا۔ بعض اوقات ساون کا نام کسی اور رنگ سے بھی لکھا جاتا تھا جو فلم کے بل بورڈز کے علاوہ پوسٹروں ، کیلنڈروں ، بک لیٹس ، سٹکرز ، سینما سلائیڈوں اور اخباری اشتہارات میں بھی واضح طور پر نظر آتا تھا۔
اس سال کی دیگر فلموں میں شیراں دی جوڑی (1969) میں ساون نے مظہرشاہ کے ساتھ ٹائٹل رول کیا تھا۔ اس فلم میں مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا یہ الگ الگ گایا ہوا سپرہٹ گیت
- تیرے ہتھ کی بے دردے آیا ، پھلاں جیا دل توڑ کے۔۔
فلم کی جان تھا۔ فلم لنگوٹیا ، عشق نہ پچھے ذات ، مکھڑا چن ورگا ، شیراں دے پتر شیر اور دھی رانی (1969) جیسی مشہور فلموں میں بھی ساون مرکزی کرداروں میں تھے۔
ساون کی فلم کا کراچی میں ریکارڈ
1970ء کا سال ساون کے انتہائی عروج کا سال تھا۔ اس سال کی فلم انورا (1970) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جو موسیقار طافو کی پہلی فلم تھی۔
اس فلم میں ساون کا ٹائٹل رول تھا۔ اہل کراچی کو یہ فلم نغمہ کے لباس ، رقص اور میڈم نورجہاں کے گیت
کی وجہ سے اتنی پسند آئی تھی کہ یہ پہلی پنجابی فلم ثابت ہوئی جس نے کراچی میں 75 ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
اسی کامیابی کو فلم اصغرا (1971) کی صورت میں دھرانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ناکامی ہوئی تھی۔
اسی سال ساون کی مرکزی کردار میں پہلی رنگین فلم چڑھدا سورج (1970) ریلیز ہوئی جس میں سدھیر ، ہیرو تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل صرف دو رنگین پنجابی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں فلم ہیررانجھا (1970) کے علاوہ پہلی رنگین پنجابی فلم پنج دریا (1968) تھی جس کے مرکزی ولن کے طور پر بھی ساون نے کام کیا تھا۔ اکمل کی یہ واحد رنگین فلم تھی جو ان کے انتقال کے بعدریلیز ہوئی تھی۔
ساون کی فلم لندن میں شوٹ ہوئی
1971ء میں ساون کی سات فلمیں منظرعام پر آئیں جن میں اصغرا ، مالی ، خزانچی اور بابا دینا (1971) میں ٹائٹل رولز میں تھے۔ فلم پہلوان جی ان لندن (1971) میں بھی مرکزی کردار تھا۔ یہ غالباً واحد فلم تھی جس میں ساون کے لیے نغمہ پر ایک رومانٹک گیت فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کی ایک بہت بڑی خامی یہ تھی کہ نغمہ جو انگلستان میں رہتی ہے اور ساون جیسے پینڈو جاہل سے شادی سے انکار کرتی ہے۔ وہ شرٹ اور سکرٹ میں ملبوس ہے لیکن ٹھیٹھ پنجابی گیت گاتی ہے جو بڑا مصنوعی سا لگتا تھا۔ یہ پہلی پنجابی فلم تھی جو لندن میں شوٹ کی گئی تھی۔
ساون کے کیریر کی سب سے بڑی فلم
1972ء کا سال ساون کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ اس سال انھوں نے ایک درجن سے زائد فلموں میں کام کیا تھا جو سبھی پنجابی فلمیں تھیں اور جن میں ساون مرکزی کرداروں میں تھے۔
اس سال ان کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم خان چاچا (1972) ریلیز ہوئی تھی۔ اس شاہکار سوشل اور نغمہ بار فلم میں ساون نے کردارنگاری میں ایسی دھاک بٹھائی کہ فلمی حلقوں میں بھی انھیں 'خان چاچا' کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس فلم کی کامیابی کے خمار نے ساون کو زوال کی طرف دھکیل دیا تھا۔
ساون کا زوال
اسی سال ریلیز ہونے والے مشہور زمانہ فلم بشیرا (1972) کا ٹائٹل رول بھی ساون نے کرنا تھا لیکن معاوضے پر بات نہ بنی اور فلمساز نے سلطان راہی سے کل معاوضے کے دسویں حصہ پر ایسا کام لیا کہ ہر طرف سلطان راہی کے نام کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔
اس سال ساون کی دو فلموں ذیلدار اور قاسو (1972) میں ٹائٹل رولز تھے۔ فلم مورچہ (1972) میں ساون جنگ میں جاتے ہیں اور ان کے پس منظر میں مسعودرانا کا یہ جنگی ترانہ سننے کو ملتا ہے
- جاگ پیے میرے دیس دے راکھے ، غازی شیر جوان۔۔
فلم اک ڈولی دو کہار (1972) میں ساون کی ضرورت نہیں تھی لیکن ان کی مارکیٹ ویلیو ایسی تھی کہ فلمساز کو انھیں نہ صرف فلم میں رکھنا پڑا بلکہ اس فلم کے انتہائی شاندار پوسٹر پر بھی نمایاں کرنا پڑا۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ فوک گلوکار شوکت علی کے فلمی کیرئر کا سب سے مقبول گیت
- کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں۔۔
بھی اس فلم میں شامل تھا۔
1973ء میں ساون کی صرف پانچ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں ایک اردو فلم کبڑا عاشق (1973) کے سوا باقی چاروں پنجابی فلموں میں ان کے مرکزی کردار تھے لیکن کوئی بھی فلم کسی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ فلم شیرو (1973) میں ٹائٹل رول تھا۔ اسی سال ساون کی بطور فلمساز واحد فلم پنڈ دلیراں دا (1973) ریلیز ہوئی تھی۔
ساون کی آخری بڑی فلم
1974ء ، ساون کے عروج کا آخری سال تھا۔ اس سال کی فلموں میں ہاشو خان (1974) ایک یادگار فلم تھی جس میں ساون نے ٹائٹل رول کیا تھا جو ایک ملحد منگول سردار کا تھا۔
اس فلم کے فلمساز فاضل بٹ تھے جو پنجابی فلموں کے ایک بی کلاس ولن اداکار تھے لیکن پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھے۔ یہ واحد فلم تھی جس میں وہ آسیہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ سلطان راہی اور اقبال حسن بھی سائیڈ رولز میں تھے۔
اس فلم میں ساون کے پس منظر میں ابو شاہ پر فلمایا ہوا مسعودرانا کا یہ شاہکار تھیم سانگ فلم کی جان تھا
- رہے نام اللہ دا ، اللہ ہی اللہ۔۔
اسی سال کی فلم بڈھا شیر (1974) میں بھی ساون کا ٹائٹل رول تھا۔ بطور ہدایتکار یہ عظیم مصنف اور نغمہ نگار حزیں قادری کی واحد فلم تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا نے فلم کا تھیم سانگ گایا تھا جو ساون کے پس منظر میں گایا گیا تھا
- یا غوث الاعظمؒ ، پیر میرا ، میرے ستڑے بھاگ جگا دینا۔۔
سجنو ، اے نگری داتا دی
اسی سال کی فلم نگری داتا دی (1974) میں ساون پر مسعودرانا کا اکلوتا سولو گیت فلمایا گیا تھا
- سجنو ، اے نگری داتا دی ، ایتھے آندا کل زمانہ۔۔
یہ گیت ، آج تک لاہور شہر کا سب سے بہترین روحانی تعارف رہا ہے۔ اس گیت کی خاص بات یہ تھی کہ فروری 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں آنے والی مسلم لیڈروں کے فوٹیج بھی شامل کیے گئے تھے۔
1975ء میں غالباً ساون کی ٹائٹل رول میں آخری فلم نادرخان (1975) ریلیز ہوئی تھی۔ اسی سال کی فلم وحشی جٹ (1975) نے سلطان راہی کو فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا۔ ساون کو اس کے بعد معاون اداکار کے طور پر فلموں میں کام ملتا رہا اور کچھ کم نہیں ، صرف سلطان راہی کے ساتھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
ساون کا پس منظر
ساون کا اصل نام ظفراحمدبٹ تھا۔ 1923ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کم تھی اور تانگہ چلایا کرتے تھے۔ فوج میں بھرتی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ذریعہ معاش کی تلاش میں کراچی میں بھی رہے جہاں مزدوری کی اور سینما ٹکٹ بھی بیچے جس سے فلموں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ 1998ء میں لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
(0 اردو گیت ... 7 پنجابی گیت )