Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


رشید اختر

اکمل کے فلمی کیرئر کی
سب سے بڑی فلم ملنگی (1965)
بنانے والے ہدایتکار رشید اختر تھے اکمل کے کیرئر کی سب سے بڑی فلم ملنگی (1965)
اکمل کے کیرئر کی سب سے بڑی فلم ملنگی (1965)

فلم ملنگی (1965) کا نام سنتے ہی پنجابی فلموں کے عظیم اداکار اکمل کا نام سننے کو ملتا ہے جن کے فلمی کیرئر کی یہ سب سے بڑی فلم تھی لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اکمل کو ' ملنگی ' بنانے والا کون تھا۔۔؟

عام طور پر فلم بین ، سامنے نظر آنے والے فلمی اداکاروں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں اداکاروں سمیت فلم کا ہر شعبہ ایک ہدایتکار کا محتاج ہوتا ہے جو فلم کا ناخدا ہوتا ہے۔ فلم ملنگی (1965) جیسی بھاری بھر کم فلم کے ہدایتکار رشیداختر تھے جنھیں اس مضمون میں یاد کیا جارہا ہے۔

فلمسازی کے تین بنیادی شعبے

فلم سازی کے تین بنیادی شعبوں میں پہلا انتظامی ، دوسرا تیکنیکی اور تیسرا تخلیقی ہوتا ہے۔

انتظامی شعبہ

انتظامی شعبے میں فلمساز یا پروڈیوسر ہوتا ہے جو فلم بنانے کے لیے سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے عام طور پر فلم محض ایک بزنس ہوتا ہے جس سے وہ پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ ڈسٹری بیورٹر اور سینما مالکان وغیرہ اسی شعبے میں آتے ہیں۔

تیکنیکی شعبہ

دوسرے شعبے میں فلم بنانے کے لوازمات ہیں جن میں ہنرمند افراد آتے ہیں جو کیمرہ ، آواز ، لائٹیں ، سیٹ وغیرہ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں

تخلیقی شعبہ

جبکہ تیسرا اور سب سے اہم شعبہ تخلیقی ہوتا ہے جس میں فلم کی کہانی ، مکالمے ، پس منظر ، گیت ، موسیقی ، گائیکی اور اداکاری وغیرہ آتے ہیں۔ ان تمام شعبوں سے حسب منشا بھرپور کام لینے والا ایک ہدایتکار ہوتا ہے جس کی قابلیت ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

فلم ملنگی (1965) کا بنیادی خیال کیا تھا؟

17 دسمبر 1965ء کو ریلیز ہونے والی سپر ہٹ پنجابی فلم ملنگی (1965) میں رشیداختر نے ایک ماہر ہدایتکار کی طرح ہر شعبے پر اپنی دسترس قائم رکھی تھی۔ فلم کے پروڈیوسر اور کہانی نویس چوہدری محمداسلم عرف اچھا شوکر والا تھے ، مکالمے اور منظرنامہ سکیدار کا لکھا ہوا تھا جنھوں نے اس فلم میں ایک بنئے کا رول بھی بہ احسن خوبی کیا تھا۔

فلم کا پیغام بڑا واضح اور بامقصد تھا کہ جہالت ، انتہاپسندی ، گمراہی اور قانون شکنی کے رحجانات کو جنم دیتی ہے جبکہ تعلیم انسان کو ایک باوقار زندگی گزارنے کا گر سکھاتی ہے۔

یہ تین دوستوں کی کہانی ہے جن میں اکمل اور مظہرشاہ دو الگ الگ مذاہب کے ماننے والے ہیں لیکن یک جان اور دو قالب ہیں۔ دونوں جاہل اور اجڈ ہیں اور جذبات میں مشتعل ہو کر گاؤں میں فساد برپا کرتے ہیں اور قانون کی گرفت میں آکر مجرم اور قانون شکن بن جاتے ہیں۔

ان کا تیسرا دوست یوسف خان ہے جو ایک پڑھا لکھا ، مہذب اور ایک شریف شہری ہے جو تعلیم کی دولت سے بہرہ مند ہے اور اپنی محنت و قابلیت سے وکیل بن کر معاشرے کا ایک قابل احترام فرد بن جاتا ہے۔ وہ اپنے قانون شکن دوستوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے سے نہیں بچا پاتا لیکن ان کی یاد میں گاؤں میں ایک سکول ضرور قائم کرتا ہے تا کہ جہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور آنے والی نسلیں پر وقار انداز میں زندگی بسر کر سکیں۔

کیا فلم ملنگی (1965) انگریزوں کے خلاف بنائی گئی تھی؟

فلم ملنگی (1965) کی پبلسٹی کے دوران ایک پنجابی فقرہ سننے میں آتا تھا

"دنے راج فرنگی دا تے راتیں راج ملنگی دا۔۔"

جس سے یہ خیال آتا تھا کہ یہ فلم انگریز سامراج کے خلاف بنائی گئی ہو گی۔ فلم کے آغاز میں اردو میں لکھا ہوا تعارف اداکار شیخ اقبال کی آواز میں سننے کو ملتا ہے جو ان الفاظ پر مبنی ہوتا ہے

"انگریزی دور حکومت کا سچا واقعہ۔ آج سے چالیس سال پہلے (یعنی 1925ء میں) جب جابر حکمران ، ظالم زمیندار اور مکار بنئے بھوکی گدوں کی طرح انسانیت کی بوٹیاں نوچ رہے تھے۔۔"

فلم کے آغاز میں مہمان اداکار محمدعلی ایک انگریز کے روپ میں پولیس افسر ایم ڈی شیخ کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اسے انگلینڈ سے خاص طور پر اس لیے بلایا گیا ہے کہ وہ ہندوستان میں بسنے والے ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں میں پھوٹ ڈالے اور حکومت کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری فلم کی کہانی میں کہیں بھی انگریز کی یہ مشہورزمانہ سیاست نظر نہیں آتی بلکہ ایک سیدھی سادھی طبقاتی کشمکش پر مبنی ایک روایتی کہانی ہے جو ہر دور میں دہرائی گئی ہے جہاں قانون ہمیشہ امیر اور طاقتور کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ غریب اور کمزور کو مار پڑتی ہے ، اور یہی اس فلم کا خلاصہ ہے۔

فلم ملنگی (1965) کے کردار

فلم ملنگی (1965) کے سبھی کردار قابل تعریف ہیں۔ اکمل کا ایک اجڈ دیہاتی انداز میں مکالمے بولنا ان کی پہچان بن گیا تھا جو اس دور کے فلم بینوں کو بے حد پسند آیا تھا۔

اکمل کی ہیروئن شیریں تھی جو اپنی پہلی فلم میں جتنی پرکشش نظر آئی تھی ، اس فلم میں نہیں رہی تھی کیونکہ اب وہ موٹی ہوگئی تھی۔ اس کے گلے کا ماس اور پیٹ کی تہیں نظر آرہی تھیں۔ اس کے برعکس فردوس اپنے قدرتی حسن اور معصوم انداز میں فلم بینوں کو اتنا پسند آئی کہ یہ فلم اس کے لیے بریک تھرو ثابت ہوئی تھی۔

ملکہ ترنم نورجہاں کے لازوال گیت

  • ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔۔

نے اسے راتوں رات سپرسٹار بنا دیا تھا اور اگلے ایک عشرے تک وہ پنجابی فلموں کی مقبول ترین ہیروئن بن گئی تھی۔

مظہرشاہ اور اجمل ، سکھ کرداروں میں اچھے رہے، یوسف خان پنے قدرتی انداز میں بڑا متاثر کرتے تھے۔ ساون اور طالش بڑے سخت جان ولن کے روپ میں تھے۔ ہدایتکار امین ملک نے یوسف خان کے باپ اور گوتم نے شیریں کے باپ کے کردار خوب نبھائے۔ منورظریف اور زلفی اپنے مزاحیہ کرداروں میں روایتی انداز میں تھے اور ان پر منورظریف اور ماسٹرعبداللہ کا گایا ہوا ایک کورس گیت

  • سجنوں تے بیلیو۔۔

فلمایا گیا تھا۔ فلم کے موسیقار ماسٹرعبداللہ اور نغمہ نگار حزیں قادری تھے۔ اس فلم کے دیگر گیتوں میں مالا کے یہ دو گیت بڑے اعلیٰ پائے کے تھے

  • چھڈ چلی بابلا ، تیریاں میں گلیاں ، اج تیرے پنڈ نوں سلام کر چلیاں۔۔
  • چناں وے چڑھ کوٹھے تے اڈیکاں ، کدے آجا تو۔۔

مالا ، نذیر بیگم ، آئرن پروین اور ساتھیوں کا گایا ہوا ایک کورس گیت بھی بڑے کمال کا تھا

  • بلے بلے بھئی لوکاں بھانے پھل اڈیا۔۔

اس گیت کے دوران فلم بینوں کی توجہ کا مرکز صرف فردوس تھی حالانکہ اس میں شیریں ، گل رخ اور کئی خوبصورت چہرے اور بھی تھے۔

خاناں دے خان پروہنے ، کوئی غریب دا یار نئیں

ہدایتکار رشیداختر کی اس سپرہٹ فلم ملنگی (1965) میں مسعودرانا کے دو گیت تھے جو ایک ایکسٹرا اداکار ابوشاہ پر فلمائے گئے تھے۔ ان میں سے پہلا گیت جو فلم کی کہانی بھی بیان کرتا ہے

  • خاناں دے خان پروہنے ، کوئی غریب دا یار نئیں ، کوئی کوئی یار غریب دا بن دا ، اے کوئی سوکھی کار نئیں۔۔

اس گیت کے بولوں پر ایک فلم خاناں دے خان پروہنے (1974) بھی بنائی گئی تھی۔ دوسرا گیت ایک انقلابی گیت تھا

  • اٹھ ماجھے دیا شیر جواناں ، کیوں گیا ایں ہمت ہار ، ویریاں تینوں مار دینا ای ، ایویں گل نہ دیویں وسار۔۔

اس گیت کی گائیکی بڑی اعلیٰ پائے کی تھی۔ یہی گیت فلم کا ٹرننگ پوائنٹ بھی ہوتا ہے جو دو سیدے سادھے دیہاتیوں کو نامی گرامی ڈاکو بنا دیتا ہے۔

یاد رہے کہ ہماری فلموں میں چار مشہور زمانہ ڈاکوؤں کے ناموں پر متعدد فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں ملنگی کے علاوہ جبرو ، نظام اور سلطانا ڈاکو شامل تھے۔

جانے والی چیز کا غم کیا کریں

ہدایتکار رشیداختر قبل ازیں اپنی پہلی فلم واہ بھئی واہ (1964) بنا چکے تھے۔ اردو میں بنائی گئی اپنی اس اکلوتی فلم میں انھوں نے وقت کی دو معروف اداکاراؤں لیلیٰ اور شیریں کو پہلی اور آخری بار ایک ساتھ پیش کیا تھا۔ یوسف خان فرسٹ ہیرو جبکہ اکمل سیکنڈ ہیرو کے رول میں تھے۔

ماسٹرعبداللہ کی موسیقی میں میڈم نورجہاں کی یہ غزل بڑی پسند کی گئی تھی

  • جانے والی چیز کا غم کیا کریں۔۔

رشید اختر کی دیگر فلمیں

ان کی اگلی فلم سورما (1966) بھی انھی اداکاروں پر مشتمل تھی۔ شیریں کی جوڑی اکمل کے ساتھ تھی جبکہ فردوس ، اکمل کی بہن کے کردار میں تھی۔

فلم اکبرا (1967) ایک کامیاب فلم تھی جو اکمل کے انتقال کے ایک ماہ بعد ریلیز ہوئی تھی اور کامیاب رہی تھی۔ اس فلم میں جہاں آئرن پروین کا گیت

  • سجناں نہ جا ، اجے نئیں اوں لتھا چاہ میرے پیار دا۔۔

بڑا دلکش تھا وہاں مسعودرانا ، منورظریف ، امدادحسین ، سلیم چوہدری اور ساتھیوں کی گائی ہوئی یہ مزاحیہ قوالی زندگی کی حقیقت بیان کرتی ہے

  • سن ہاڑے بابا لڈنا ، بھکیاں بے روزگاراں دے ، ایتھے نقد بہ نقدی سودا ، نئیں کم ادھاراں دے۔۔

نذیرعلی کی موسیقی میں منورظریف نے اس گیت میں 'نقد بہ نقدی' کی تکرار بڑے دلچسپ انداز میں کی تھی۔

رشیداختر کی فلم اک سونا اک مٹی (1970) میں ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کا گایا ہوا ایک سپرہٹ رومانٹک دوگانا تھا

  • اج تسی گئے مل ، ساڈا ہار گیا دل ، بازی جت لئی پیار نے۔۔

فلم جوڑجواناں دا (1971) میں مسعودرانا اور ساتھیوں کی آوازوں میں کلام سلطان باہوؒ گایا گیا تھا

  • الف اللہ ، چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ہُو۔۔

اس کورس گیت کی دھن طفیل فاروقی نے بنائی تھی جو بڑی متاثر کن تھی۔

صبیحہ اور سدھیر کا منفرد ریکارڈ

فلم بھین بھرا (1971) میں رشیداختر نے سدھیر اور صبیحہ خانم کو ٹائٹل رول میں پیش کیا تھا۔ یہ دلچسپ اتفاق تھا کہ ان دونوں فنکاروں نے تمام قریبی رشتوں کے کردار نبھائے تھے۔ صبیحہ خانم ، سدھیر کی ہیروئن یا محبوبہ اور بیوی کے علاوہ بیٹی ، بہن ، ماں ، بھابھی ، ساس ، اجنبی اور دشمن کے کرداروں میں بھی نظر آئی تھی۔

فلم بھین بھرا (1971) سے منسلک ایک یادگار واقعہ

اس فلم سے میرے بچپن کا ایک ناقابل فراموش واقعہ منسلک ہے۔ میں اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اور روزمرہ کا معمول ہوتا تھا کہ سکول سے سیدھا دادا جان مرحوم و مغفور کی دکان پر جاتا جہاں چائے اور بسکٹ سے تواضع کے بعد دن کا اخبار ملتا تھا۔اردگرد کے چند دکاندار بھی جمع ہوجاتے جو دادا جان کی طرح ناخواندہ ہوتے تھے۔

میں ایک نیوز ریڈر کی طرح انھیں اخبار سے خبریں پڑھ پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ اگر کسی لفظ پر رک جاتا تو دادا جان صحیح لفظ بتا دیا کرتے تھے اور میں بڑی حیرت سے ان سے پوچھتا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں لیکن انھیں کیسے پتہ ہے؟

ان کے لبوں کی مسکراہٹ میرے سوال کا جواب ہوتی تھی۔۔!

ایک دن سینما کا تانگہ عین ہماری دکان کے سامنے آن رکا۔ بورڈ پر فلم 'بھین بھرا' لکھا ہوا تھا۔ دادا جان نے حسب معمول مجھ سے پوچھا کہ اس بورڈ پر کیا لکھا ہے ، وہ غیرشعوری طور پر میری تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی پوری کررہے تھے۔

میرا بچگانہ ذہن نام نہاد قومی میڈیا سے بڑا متاثر تھا جہاں اردو بولنا مہذب اور پنجابی بولنا اجڈ اور جاہل لوگوں کی نشانی بتایا جاتا تھا۔ دانستہ انھیں فلم کا نام اردو تلفظ میں بتایا تو وہ جھنجھلا کر بولے

"سیدھا کیوں نہیں کہتا کہ 'پین پرا' لکھا ہوا ہے۔۔"

مجھے غصہ آگیا اور دادا جان سے درشت لہجے میں کہا

"ہم غلط بولتے ہیں ، ہمیں ویسا ہی بولنا چاہئے ، جیسا لکھا جاتا ہے۔۔!"

دادا جان مرحوم و مغفور نے مجھے گھور کر دیکھا اور جو ناقابل فراموش مسکراہٹ ان کے چہرے پر دیکھی وہ آج بھی مجھے شرمندہ کر دیتی ہے۔۔!

سجنو ، اے نگری داتا دی

ہدایتکار رشیداختر کی ایک یادگار فلم نگری داتا دی (1974) بھی تھی جس میں مسعودرانا کا گایا ہوا ایک لاجواب گیت تھا جو لاہور شہر کا سب سے بہترین روحانی تعارف تھا

  • سجنو ، اے نگری داتا دی ، ایتھے آندا کل زمانہ ، در میرے مرشد دا ، پیراں ولیاں دا آستانہ۔۔

یہ گیت ساون پر فلمایا گیا تھا اور اس گیت کے دوران لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ہونے والے مسلم رہنماؤں مثلاً شاہ فیصل ، یاسر عرفات اور کرنل قذافی کے علاوہ وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے فوٹیج بھی دکھائے گئے تھے۔

ہدایتکار رشیداختر کی آخری فلم لاڈلا پتر (1980) تھی جس میں رنگیلا ہیرو تھے۔ اس فلم میں بھی مسعودرانا کا ایک بڑا دلکش گیت تھا

  • جوگی ، اتر پہاڑوں آیا ، نگری نگری ہیر نوں لبھدا ، عشق دا الخ جگایا۔۔

علاوہ ازیں رشیداختر کی دو غیرریلیز شدہ فلموں میں سے ایک دہائی رب دی میں مسعودرانا کا یہ انتہائی بامقصد گیت ، پاکستان کے آج تک کے حالات کا خلاصہ بیان کرتا ہے

  • جتھے ویکھو سن لائی ، دہائی رب دی۔۔!!!

مسعودرانا کے رشید اختر کی 7 فلموں میں 8 گیت

(0 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت )
1
فلم ... ملنگی ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: ماسٹر عبد اللہ ... اداکار: ابو شاہ
2
فلم ... ملنگی ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: ماسٹر عبد اللہ ... اداکار: ابو شاہ
3
فلم ... اکبرا ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، منور ظریف ، امداد حسین ، سلیم چودھری مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: منور ظریف ، خلیفہ نذیر ، زلفی مع ساتھی
4
فلم ... ہر فن مولا ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ؟
5
فلم ... جوڑ جواناں دا ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ، سائیں اختر مع ساتھی ... موسیقی: طفیل فاروقی ... شاعر: ؟ ... اداکار: چوہان ، گلریز مع ساتھی
6
فلم ... نگری داتا دی ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: ساون
7
فلم ... لاڈلا پتر ... پنجابی ... (1980) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: رنگیلا
8
فلم ... دہائی رب دی ... پنجابی ... (غیر ریلیز شدہ) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: اقبال کاشر ... اداکار: ؟

Masood Rana & Rasheed Akhtar: Latest Online film

Masood Rana & Rasheed Akhtar: Film posters
MalangiAkbaraHar Fun MaulaNagri Daata DiLadla Puttar
Masood Rana & Rasheed Akhtar:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Rasheed Akhtar:

Total 7 joint films

(0 Urdu, 7 Punjabi films)

1.1965: Malangi
(Punjabi)
2.1967: Akbara
(Punjabi)
3.1968: Har Fun Maula
(Punjabi)
4.1971: Jor Javana Da
(Punjabi)
5.1974: Nagri Daata Di
(Punjabi)
6.1980: Ladla Puttar
(Punjabi)
7.Unreleased: Duhai Rabb Di
(Punjabi)


Masood Rana & Rasheed Akhtar: 8 songs in 7 films

(0 Urdu and 8 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Malangi
from Friday, 5 November 1965
Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Abbu Shah
2.
Punjabi film
Malangi
from Friday, 5 November 1965
Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Abbu Shah
3.
Punjabi film
Akbara
from Friday, 7 July 1967
Singer(s): Masood Rana, Munawar Zarif, Imdad Hussain, Saleem Chodhary & Co., Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif, Khalifa Nazir, Zulfi & Co.
4.
Punjabi film
Har Fun Maula
from Friday, 10 May 1968
Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): ?
5.
Punjabi film
Jor Javana Da
from Friday, 12 March 1971
Singer(s): Masood Rana, Sain Akhtar & Co., Music: Tufail Farooqi, Poet: , Actor(s): ?, Gulrez & Co.
6.
Punjabi film
Nagri Daata Di
from Friday, 8 March 1974
Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Sawan
7.
Punjabi film
Ladla Puttar
from Friday, 4 July 1980
Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Rangeela
8.
Punjabi film
Duhai Rabb Di
from Unreleased
Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): ?




241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.