شاہد
نے صرف آٹھ برسوں میں
فلموں کی سنچری
مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا
شاہد حمید
شاہد ، ایک انتہائی خوبرو اداکار اور ایک پیدائشی فلمی ہیروتھے۔۔!
اداکار عباس نوشہ نے فلمساز کے طور پر اپنی اکلوتی فلم ایک رات (1972) بنائی تو اس میں ایک خوبصورت نوجوان، شاہد حمید کو ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔ یہ نغماتی فلم ابھی بن ہی رہی تھی کہ دوسرے فلمسازوں نے بھی اس بنے بنائے ہیرو کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک نیا ریکارڈ بن گیا تھا کہ جب کسی نئے ہیرو کی اپنے فنی کیرئر کے پہلے ہی سال میں چار فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریکارڈ کو اب تک صرف اداکار بابر علی ہی برابر کرسکے ہیں۔
شاہد کی پہلی فلم
شاہد کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم ہدایتکار ایس اے بخاری کی شاہکار نغماتی اور ڈرامائی اردو فلم آنسو (1971) تھی جو اداکارہ ممتاز کی بھی پہلی فلم تھی۔ اس سپرہٹ فلم کا مرکزی کردار پنجابی فلموں کی سپرسٹاراداکارہ فردوس نے کیا تھا اور اپنی ینگ ٹو اولڈ ایکٹنگ سے ناقدین کو حیران کردیا تھا۔ روایتی جوڑی دیبا اور ندیم کی تھی لیکن شاہد کا منفی کردار زیادہ پاورفل تھا۔ موسیقار نذیرعلی کی اس میوزیکل فلم میں شاہد پر پہلا فلمی گیت جو فلمایا گیا ، وہ مسعودرانا کا گایا ہوا ایک مقبول عام کورس گیت تھا "زندگی ، زندہ دلی کا نام ہے ، زندگی سے پیارکرنا ہی ہمارا کام ہے۔۔" ساتھی گلوکارائیں مالا اور تصورخانم تھیں۔
اسی سال شاہد کی دوسری جبکہ پہلی پنجابی فلم سوہنا پتر (1971) بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں عالیہ ، ہیروئن تھی۔ فلم کا ٹائٹل رول اقبال حسن کا تھا۔ شاہد پر پہلا پنجابی گیت جو فلمایا گیا تھا ، وہ بھی مسعودرانا ہی کا گایا ہوا تھا جس کے بول تھے "میری خاطر دنیا دے نال لڑنا پیا تے لڑیں گا ، آخو جی ، لڑنا ای پے گا۔۔" ساتھی گلوکارہ نسیم بیگم تھی۔ تیسری فلم وارث (1971) بھی ایک پنجابی فلم تھی جس میں شاہد نے اعجاز کے مقابل سائیڈ ہیرو کا رول کیا تھا۔
شاہد کی کامیابیوں کا سفر
اسی سال ، شاہد کی چوتھی مگر سولو ہیرو کے طور پر پہلی فلم تہذیب (1971) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار حسن طارق کی اس سپرہٹ نغماتی اور اصلاحی اردوفلم کی کہانی اور رانی کی اداکاری لاجواب تھی۔ شاہد پر مہدی حسن کا پہلا گیت فلمایا گیا تھا "لگا ہے حُسن کا بازار دیکھو ، نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو۔۔" اس متنازعہ گیت کو میڈم نورجہاں نے بھی رانی کے لیے گایا تھا۔ پہلے اس گیت میں ' حُسن کا بازار' کی جگہ 'مصرکابازار' گایا گیا تھا لیکن حکام بالا کے حکم پر یہ تبدیلی کرنا پڑی تھی۔
شاہد ، حسن طارق کے پسندیدہ ترین فلمی ہیرو تھے اور ان کی ڈیڑھ درجن مشترکہ فلموں میں سے یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی ہیروئن رانی کے ساتھ شاہد کی فلموں کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہے۔
شاہد ، اردو فلموں کے چوتھے سپرسٹار
اپنے فلمی کیرئر کے دوسرے ہی سال یعنی 1972ء میں شاہد کی نو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے جنم جنم سے فلموں میں کام کررہے تھے اور نئے ہیرو تو لگتے ہی نہیں تھے۔
اس دور میں اردو فلموں پر محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم کا راج ہوتا تھا جبکہ پنجابی فلموں میں سدھیر ، حبیب ، اعجاز ، یوسف خان ، عنایت حسین بھٹی اور کیفی بام عروج پر تھے۔
شاہد نے اپنے دوسرے ہی سال اردو فلموں کا چوتھا سپرسٹار ہونے کا اعزاز حاصل کرلیاتھا اور واحد اردو فلمی ہیرو تھے جو پنجابی فلموں میں بھی مقبول و مصروف تھے۔ یہ اور بات تھی کہ پنجابی فلموں میں وہ ، ایک معاون ہیرو سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔
اسی سال ریلیز ہونے والی شاہد کی سپرہٹ فلم امراؤجان ادا (1972) کلاسیک فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ طوائف اور کوٹھے کے موضوع پر بنائی گئی ہدایتکار حسن طارق کی اس شاہکار فلم میں اداکارہ رانی نے اداکاری اور رقص کا ایک نیا معیار مقرر کیا تھا۔ شاہد نے ایک نوابزادے کا کردار بخوبی کیا تھا۔ اس فلم کی کہانی مرزا محمد ہادی رسواکے اسی نام کے ناول سے ماخوذ تھی جو 1905ء میں لکھا گیا اردو کا پہلا ناول تھا۔ اس نغماتی فلم میں موسیقار نثاربزمی کی کارکردگی بڑی زبردست تھی۔
شاہد کی اس سال کی دوسری بڑی فلم ایک رات (1972) تھی جو اصل میں ان کی پہلی فلم تھی لیکن ریلیز کے اعتبار سے گیارہویں فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں دیبا اور سنگیتا ، شاہد کے ساتھ تھیں لیکن فلم کی کہانی صبیحہ خانم ، سنتوش اور اسلم پرویز کے گرد گھومتی تھی۔ احمدفراز کی لکھی ہوئی اور مہدی حسن کی گائی ہوئی مشہورزمانہ غزل "اک بار چلے آؤ ، پھر آکے چلے جانا۔۔" شاہد صاحب پر فلمائی گئی تھی۔
دیگر فلموں میں فلم الزام (1972) میں شاہد کی جوڑی سنگیتا کے ساتھ تھی اور ان پر رونالیلیٰ اور احمدرشدی کا ایک دلکش دوگانا فلمایا گیا تھا "ایک بات کہوں ، دل کا راز کہوں۔۔" محمدعلی کے ساتھ شاہد کی دو درجن سے زائد فلموں میں سے یہ پہلی فلم تھی۔
فلم میں اکیلا (1972) اور میں بھی تو انسان ہوں (1972) میں شاہد ، روایتی ہیرو تھے اور ان دونوں فلموں میں آسیہ کے ساتھ جوڑی تھی۔ موخرالذکر فلم میں ان پر رونالیلیٰ اور رجب علی کا یہ سریلا گیت بھی فلمایا گیا تھا "جب بھی سنو گی تیری بانسریا ، تیرے پاس چلی آؤں گی ہو سجناں۔۔"
اسی سال کی پنجابی فلم ٹھاہ (1972) میں شاہد نے پہلی بار سدھیر کے مقابل ثانوی رول کیا تھا اور ان پر غلام علی کا پہلا سپرہٹ پنجابی گیت فلمایا گیا تھا "پہلی واری اج اناں اکھیاں نیں تکیا ، ایخو جیا تکیا کہ ہائے مار سٹیا۔۔" فلم غیرت تے قانون اور سردھڑدی بازی (1972) میں بھی شاہد معاون ہیرو تھے اور یہ تینوں کامیاب فلمیں تھیں۔
شاہد کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم
1973ء میں شاہد کی ایک درجن سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جو ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
سال کی سب سے بڑی فلم انمول (1973) تھی جس نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ یہ فلم مفت بر (1959) کا ری میک تھی۔ شبنم اور شاہد کی کارکردگی زبردست تھی۔ ان دونوں کی مشترکہ فلمیں ایک درجن سے زائد ہیں۔
گھرانہ (1973) ایک اور کامیاب فلم تھی لیکن دیگر فلمیں کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھیں۔
اسی سال ، ندیم کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم نادان (1973) بھی ریلیز ہوئی تھی لیکن فلم تیراغم رہے سلامت (1973) میں ندیم نے شاہد کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔ ان دونوں کی مشترکہ فلموں کی تعداد ایک درجن سے زائدتھی۔
اس سال شاہد اور رانی کی ایک اور فلم ایک تھی لڑکی (1973) کے تین ہدایتکار تھے جن میں شریف نیر ، حسن طارق اور احتشام جیسے بڑے بڑے نام تھے لیکن پھر بھی یہ فلم ناکام رہی تھی۔ اس فلم میں مرزاغالب کے ایک فارسی کلام کو صوفی تبسم کے پنجابی ترجمہ کے ساتھ غلام علی سے گوایا گیا تھا "میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں ، آجا ویکھ میرا انتظار آجا۔۔"
فلم پہلا وار (1973) میں بھی شاہد پر غلام علی کا ایک اور خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا "نی چنبے دیے بند کلیے ، تینوں کہیڑے ویلے رب نیں بنایا۔۔"
1974ء میں شاہد کی فلموں کی تعداد ڈیڑھ درجن تک جا پہنچی تھی لیکن کوئی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ فلم شکار (1974) میں شاہد پر مسعودرانا کا یہ ہٹ گیت فلمایا گیا تھا "مر گیا ، لٹ گیا ، دل گیا ، میں تباہ ہوگیا ، اک شکاری ، اک نظر کا ، ہائے شکار ہوگیا۔۔" فلم سستا خون مہنگا پانی (1974) میں بھی یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "جا چڑھ جا ڈولی نی ، ماپیاں دی لج اتے حرف نہ آئے۔۔" اس سال کی فلم دیدار (1974) میں شاہد نے پہلی بار وحیدمراد کے ساتھ کام کیا تھا ، ان دونوں کی ایک درجن مشترکہ فلمیں تھیں۔ وحیدمراد کے زوال کی ایک وجہ شاہد کی بے پناہ مقبولیت بھی تھی۔
شاہد اور بابرہ شریف
1975ء میں بھی شاہد کی ڈیڑھ درجن فلمیں سامنے آئیں۔ سب سے بہترین فلم زینت (1975) تھی جس میں منورظریف نے ایک کامیڈی ولن کا بے مثل رول کیا تھا۔ ٹائٹل رول شبنم کا تھا جبکہ ندیم اور شاہد ، ففٹی ففٹی ہیرو تھے۔ اس فلم میں شاہد پر فلمائی ہوئی تسلیم فاضلی کی ایک شاہکار غزل خانصاحب مہدی حسن کی آواز میں سپرہٹ ہوئی تھی "رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے ، پہلے جاں ، پہلے جان جاں ، پھر جان جاناں ہوگئے۔۔" ناشاد نے بڑی عمدہ دھن بنائی تھی۔
فلم تیرے میرے سپنے (1975) میں شاہد کی جوڑی کویتا کے ساتھ تھی اور ان پر مسعودرانا اور ناہیداختر کا یہ شوخ دوگانا فلمایا گیا تھا "تیرے گھر ڈولی لے کے آؤں گا ، تجھے دلہن بنا کے لے جاؤں گا ، تیرے بچوں کا ابا کہلاؤں گا ، ان شاء اللہ۔۔"
اس سال شاہد نے پہلی بار بابرہ شریف کے ساتھ فلم میرا ناں پاٹے خان (1975) میں کام کیا تھا۔ ان دونوں نے بعد میں شادی بھی کی تھی اور تیس فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے تھے۔
جب شاہد ، وحیدمراد پر بھاری ثابت ہوئے
1976ء میں مسلسل تیسرے سال ، شاہد کی ڈیڑھ درجن سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں ان کی دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم شبانہ (1976) بھی تھی۔ اس فلم میں شاہد کے ساتھ بابرہ شریف کے علاوہ وحیدمراد بھی تھے جن کی یہ پہلی ڈائمنڈجوبلی فلم تھی لیکن سولو ہیرو کے طور پر ان کی کوئی فلم یہ اعزاز حاصل نہیں کر سکی تھی۔
فلم ثریا بھوپالی (1976) بھی ایک نغماتی فلم تھی جس میں شاہد کی ہیروئن رانی تھی جبکہ وحیدمراد ، ایک ثانوی کردار میں تھے جن پر مہدی حسن کا یہ دلگداز گیت فلمایا گیا تھا "نام آئے نہ تیرا پیار کی رسوائی میں ، کاش مرجاؤں اسی گوشہ تنہائی میں۔۔" شاہد اور رانی پر یہ سپرہٹ گیت بھی فلمایا گیا تھا "جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہے۔۔" ناہیداختر اور مہدی حسن کی آوازیں تھیں۔ سیف الدین سیف کی شاعری اور اے حمید کی دھنیں کمال کی تھیں۔
فلم دیکھا جائے گا (1976) میں شاہد پر احمدرشدی کا گایا ہوا ایک منفرد انگلش گیت فلمایا گیا تھا "دما دم مست قلندر ، دس ازسانگ آف ونڈر۔۔" فلم واردات (1976) میں شاہداور سنگیتا پر مسعودرانا اور مالا کا ایک شریر گیت فلمایا گیا تھا "شہروں باہر اجاڑ سڑک تے نیندر سانوں آ جاوے ، اسیں کی کراں گے۔۔" فلم ضرورت (1976) میں بھی مسعودرانا کا انتہائی اونچی سروں میں گایا ہوا یہ سدابہار گیت شاہد پر فلمایا گیا تھا "ہم بچھڑ جائیں گے سدا کے لیے ، اب تو کچھ یاد کر خدا کے لیے۔۔"
شاہد کا ایک منفرد ریکارڈ
اسی سال شاہد نے بھٹی بردران کی فلم زندہ باد (1976) میں بھی کام کیا تھا۔ اس طرح شاہد ، پاکستانی اردو فلموں کے واحد ہیرو تھے جنھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے وقت کے سبھی بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا تھا۔ یاد رہے کہ محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم نے کبھی کسی فلم میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ کام نہیں کیا تھا جبکہ ندیم کو سدھیر اور اقبال حسن کے ساتھ بھی کبھی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ شاہد نے ساٹھ کی دھائی کے مقبول ہیروز حبیب کے ساتھ فلم حیوان (1975) اور کمال کے ساتھ فلم فٹافٹ (1979) میں بھی کام کیا تھا۔ ستر کی دھائی کے دیگر ممتاز فلم ہیروز بدرمنیر ، آصف خان ، سلطان راہی اور غلام محی الدین کے ساتھ بھی شاہد کی متعدد فلمیں ہیں۔
1977ء میں بھی شاہد کی ڈیڑھ درجن فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اس سال ان کی تیسری اور آخری ڈائمنڈ جوبلی فلم اف یہ بیویاں (1977) ریلیز ہوئی تھی۔ اسی سال کی فلم عاشی اور شمع محبت کے علاوہ سسرال (1977) ، ایک بہت اچھی کامیڈی فلم تھی جس میں شاہد نے ایک قلعی گر کے عوامی کردار میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مہدی حسن نے اپنی ڈگر سے ہٹ کر شوخ گیت گائے تھے۔ "بھانڈے کلی کرالو۔۔" شاہد پر فلمایا ہوا ایک سپرہٹ گیت تھا۔ اس فلم کے دیگر مزاحیہ گیتوں میں مہدی حسن کی مدد کے لیے رجب علی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ شاہد پر زیادہ تر مہدی حسن کے گیت فلمائے گئے تھے جو ستر کی دھائی میں اردو فلموں کے سب سے مقبول گلوکار تھے۔
اس سال شاہد کی ایک فلم انسان (1977) میں سات معروف موسیقاروں نے ایک ایک گیت کمپوز کیا تھا اور سبھی گیت مہناز سے گوائے گئے تھے جبکہ دو موسیقاروں نے بیک گراؤنڈ میوزک دیا تھا ، اس طرح سے ایک فلم میں نو موسیقاروں کا منفرد ریکارڈ قائم ہوا تھا۔
شاہد کی فلموں کی ریکارڈ سینچری
1978ء میں شاہد ، ایک درجن سے زائد فلموں کے ہیرو تھے۔ اپنے فلمی کیرئر کے صرف آٹھویں ہی سال میں سو فلمیں مکمل کرکے شاہد نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا جو آج تک برقرار ہے۔ پاکستان کے کسی بھی فلمی ہیرو نے فلموں کی سینچری اتنی کم مدت میں مکمل نہیں کی تھی۔ یہ اس لیے ممکن ہوا تھا کہ ستر کی دھائی میں سالانہ سو کی اوسط سے فلمیں بنتی تھیں جو پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کا سنہری دور تھا۔
اس سال کی فلم ابھی تو میں جوان ہوں (1978) میں شاہد کی جوڑی شبنم کے علاوہ صبیحہ خانم ، نیرسلطانہ اور میناداؤد کے ساتھ بھی تھی جن پر فلم کا ٹائٹل سانگ بھی فلمایا گیا تھا۔ فلم آبشار (1978) میں شاہد پر مہدی حسن کا یہ مشہورزمانہ گیت بھی فلمایا گیا تھا "بہت خوبصورت ہے میرا صنم ، خدا ایسے مکھڑے بناتا ہے کم۔۔" اس سال کی ایک فلم شیشے کا گھر (1978) میں ساٹھ کی دھائی کے عظیم فلمی ہیرو وحیدمراد نے اپنے زوال کے دور میں شاہد کے مقابل ولن کا رول کیاتھا ، نذرالسلام ہدایتکار تھے۔ فلم بہت خوب (1978) میں شاہد نے چار الگ الگ کردار ادا کیے تھے۔
1979ء میں ایک بار پھر ڈیڑھ درجن فلمیں شاہد کے کریڈٹ پر تھیں۔ فلم خوشبو (1979) میں مہناز اور مہدی حسن کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "میں جس دن بھلا دوں ، تیرا پیار دل سے ، وہ دن آخری ہو ، میری زندگی کا۔۔" فلم نیا انداز (1979) میں اے نیر کا ایک سپرہٹ گیت "ضد نہ کر اس قدر جان جاں ، حرج کیا مسکرانے میں ہے۔۔" بھی شاہد پر فلمایا گیا تھا۔ فلم مسٹررانجھا (1979) میں شاہد نے ایک ماڈرن رانجھا کا کردار کیا تھا۔ گلوکار رجب علی نے موسیقی ترتیب دی تھی اور مسعودرانا نے شاہد کے لیے یہ گیت گایا تھا "اے محفل کے لوگو سن لو ، اقرارمحبت کرتا ہوں ، کوئی اور نہیں میں رانجھا ہوں اور ہیر کی چاہت کرتا ہوں۔۔"
شاہد کے زوال کا دور
اپنے ابتدائی نو برسوں میں سوا سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کے بعد 80کی دھائی میں شاہد ، اپنی اہمیت کھو چکے تھے۔ گو ان دس برسوں میں شاہد نے پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا تھا لیکن ایکشن فلموں کے سلطانی دورمیں کوئی خاص فلم نہیں تھی۔
حسن طارق نے ماضی کی عظیم فلم شہید (1962) کا ری میک وطن (1981) کے نام سے بنایا تھا اور شاہد کو مرکزی کردار دیا تھا جبکہ محمدعلی اور ندیم جیسے لیجنڈز ثانوی کرداروں میں تھے لیکن یہ فلم کسی بھی شعبہ میں اصل فلم کا مقابلہ نہیں کرسکی تھی۔
فلم مرزاجٹ (1982) میں بھی شاہد کو یوسف خان کی جگہ ٹائٹل رول ملا تھا جس پر انھوں نے بطور احتجاج مقابلے میں فلم جٹ مرزا (1982) بنائی تھی لیکن یہ دونوں فلمیں ، اعجاز کی مرزاجٹ (1967) کے میعار تک نہ پہنچ سکی تھیں اور نہ ہی یہ دونوں ہیرو ، اعجاز کی کردارنگاری کا طلسم توڑ سکے تھے جو رانجھا اور مرزاجٹ کے کرداروں میں ایک امرکردار بن چکے ہیں۔
فلم ساتھی (1980) میں اےنیر اور رجب علی کا یہ سپرہٹ گیت شاہد پر فلمایا گیا تھا "او ہمدم ، او ساتھی ، مجھے تیری دوستی پہ ناز ہے۔۔" اردو فلموں کی عظیم ہیروئن شبنم نے اپنے فلمی کیرئر کے آخر میں دو پنجابی فلموں مالکا اور بازی (1987) میں کام کیا تو شاہد، یوسف خان اور سلطان راہی کے ساتھ معاون ہیرو کے طور پر دونوں فلموں میں موجود تھے۔
نوے کی پوری دھائی میں شاہد کی گنتی کی چند فلمیں تھیں۔ گزشتہ بیس برسوں سے متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے یا خصوصی کرداروں میں نظر آتے رہے۔ اب تک کی آخری فلم شریکے دی اگ (2019) ہے۔ شاہد نے متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔
شاہد کا لاابالی پن
شاہد صاحب ، ستر کی دھائی میں اردو فلموں کے سپرسٹار تو تھے لیکن ایک اوسط درجہ کے اداکار تھے۔ ساٹھ سے زائد پنجابی فلموں میں کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے تھے۔ بڑے لاابالی طبیعت کے مالک تھے۔ اپنے عروج کے دور میں غیرپیشہ وارانہ سرگرمیوں کی وجہ سے فلمسازوں کے لیے اکثر و بیشتر دردسر بنے رہتے تھے۔ اپنے عروج کے دور میں بابرہ شریف اور رانی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔ خودکوئی فلم نہ بنا سکے لیکن 'مقدر' اور ' تحفہ' جیسی نامکمل فلموں پر سرمایہ کاری کررہے تھے۔
شاہد کا خاندانی پس منظر
شاہدحمید کا تعلق اوکاڑہ کے ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ خداداد مردانہ وجاہت کی وجہ سے اپنے دور کے سب سے پرکشش اور مقبول ترین فلمی ہیرو ہوتے تھے ۔ اپنے قدرتی حُسن کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور شادی شدہ ہونے کے باوجود کسی ہرجائی بھنورے کی طرح من پسند کلیوں اور پھولوں کے رس چوستے رہے۔ کم عمری میں ماں کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے ، شاید یہی وجہ تھی کہ شاہد کو پختہ عمرکی عورتوں سےخاص لگاؤ تھا۔ پچاس کی دھائی میں فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ زمرد سے شادی کی اور اس کی ایک بچی کے باپ بنے۔ فردوس اور سیما کے ساتھ نام بھی آیا۔ بابرہ شریف اور عشرت چوہدری کے ساتھ نکاح کے دورانیے بڑے مختصر رہے۔ عاشقانہ مزاج کی وجہ سے فلمی کیرئر کے آغاز ہی میں محض بیس سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی تھی۔ تین بیٹوں کے باپ ہیں جن میں ایک معروف ٹی وی اینکر کامران شاہد بھی ہیں۔ ماشاء اللہ ، بڑے ہشاش بشاش ہیں اور لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں ایک خوشحال اور ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے ہیں۔
13 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت