A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
طفیل ہوشیارپوری ، پچاس کی دھائی کے ایک ممتاز فلمی نغمہ نگار تھے جنھیں ، پاکستان کی پہلی فیچر فلم تیری یاد (1948) کے دو عدد گیت لکھنےکا اعزاز بھی حاصل تھا۔ پہلا گیت ، پاکستان کی پہلی باقاعدہ پلے بیک سنگر منور سلطانہ نے گایا تھا:
اسی فلم میں پاکستانی فلموں کا پہلا دوگانا:
لکھنے کا ناقابل شکست اعزاز بھی طفیل صاحب کو حاصل ہوا تھا ، منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کی آوازیں اور موسیقار عنایت علی ناتھ کی دھن تھی۔
فلم تیری یاد (1948) کے بارے میں یہ غلط بیانی کی جاتی ہے کہ یہ ایک "بری طرح فلاپ" یا "ڈیڈ فلاپ" فلم تھی۔ یہ درست نہیں ہے۔ ایک "بری طرح فلاپ" فلم وہ ہوتی تھی جو لاہور یا کراچی کے سینماؤں میں ایک ہفتہ بھی نہیں چلتی تھی لیکن یہ فلم ان دونوں شہروں میں پانچ پانچ ہفتےتک چلتی رہی تھی۔ ایسے میں اس فلم کو ایک "فلاپ" فلم تو کہا جاسکتا ہے ، "بری طرح فلاپ" نہیں۔ یہ ایک اوسط درجہ کی فلم بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس دور میں فلم بینی کا رحجان زیادہ نہیں ہوتا تھا اور سینما گھر عام طور پر صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہوتے تھے۔ ایک فلم ، ایک ہی سینما پر چلتی تھی اور بھارتی فلموں کی نمائش بلا روک ٹوک ہوتی تھی۔
فلم تیری یاد (1948) کو بڑی کامیابی نہ ملنے کی جو سب سے بڑی وجہ تھی ، اس پر آج تک کسی نے بات نہیں کی اور شاید دانستہ بات کرنا پسند بھی نہیں کیا۔ ان شاء اللہ ، اس فلم کے ہدایتکار داؤد چاند پر جب مضمون لکھا جائے گا تو تفصیلی بحث ہوگی۔
طفیل ہوشیارپوری ، بنیادی طور پر ایک شاعر اور صحافی تھے۔ 1993ء میں اپنے انتقال تک لاہور سے شائع ہونے والے دو ادبی جریدوں کے مدیر رہے۔ شاعری کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے۔
وہ ، بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیارپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سکول ٹیچر بنے لیکن ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے کیونکہ تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن تھے۔
تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی آدھ درجن فلموں میں گیت نگاری کی تھی۔ پہلی فلم کیسے کہوں (1945) تھی۔ ان کی ایک فلم ڈائریکٹر (1947) ، تقسیم سے قبل ریلیز ہوگئی تھی لیکن اس کے فلمساز نے اسی فلم کو دوبارہ 4 مئی 1951ء کو نئی پاکستانی فلم کے طور پر ریلیز کیا تھا۔ ایسی ہی ہیرا پھیری ، فلم خانہ بدوش اور بت تراش (1947) کے سلسلے میں بھی کی گئی تھی۔
طفیل ہوشیارپوری ، پچاس کی دھائی میں بے حد مقبول و مصروف نغمہ نگار تھے۔ انھوں نے ستر کے قریب فلموں میں اڑھائی سو کے قریب گیت لکھے تھے۔ ان کے چند مشہور گیتوں میں سے فلم بے قرار (1950) میں منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
موسیقار ماسٹرغلام حیدر تھے جو چالیس کے عشرہ کے ایک ممتاز موسیقار تھے۔
اسی سال طفیل صاحب نے اپنی پہلی پنجابی فلم شمی (1950) میں یہ پہلا سپرہٹ گیت لکھا تھا:
موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں گلوکار عنایت حسین بھٹی کی آواز تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اصل میں یہ بھٹی صاحب کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت تھا لیکن ان کی دیگر فلمیں پہلے ریلیز ہوچکی تھیں۔ فلم قاتل (1955) میں کوثرپروین کا یہ مقبول عام گیت بھی طفیل صاحب کا لکھا ہوا تھا "او مینا ، جانے کیا ہوگیا ، کہاں دل کھو گیا۔۔"
طفیل ہوشیارپوری کے فلمی کیریر کا سب سے سپرہٹ گیت ، پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلابھٹی (1956) میں تھا:
ایک بار پھر ، منور سلطانہ کی دلکش آواز میں اس سدابہار گیت کی دھن پچاس کی دھائی کے سب سے مقبول ، مصروف اور کامیاب ترین موسیقار بابا جی اے چشتی نے بنائی تھی۔
خطہ پنجاب کی اس مشہور لوک داستان پر بنائی جانے والی ریکارڈ توڑ فلم میں صبیحہ ، سدھیر اور علاؤالدین مرکزی کرداروں میں تھے اور ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے جو اس فلم کے کیمرہ مین اسلم ڈار کے والد تھے۔ انور کمال پاشا جیسے عظیم ہدایتکار سپروائزر یا نگران تھے اور ایک اور بڑا نام ، ایم اکرم ، فلم ایڈیٹر تھے۔
فلمساز آغا جی اے گل نے اس عظیم فلم کی کمائی سے پاکستان کے جدید فلم سٹوڈیو ، ایورنیو کی بنیاد رکھی تھی۔ بزنس کے لحاظ سے پچاس کی دھائی کی فلمیں ، پاکستان کی فلمی تاریخ کی کامیاب ترین فلمیں ہوتی تھیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی ریلیز ہوتی تھیں ۔ ان کی کمائی سے جو بڑی بڑی سرمایہ کاری ہوتی تھی ، وہ اس کے بعد کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی۔
اسی سال ، شہنشاہ غزل مہدی حسن کی پہلی فلم کنواری بیوہ (1956) بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں ان کے تینوں گیت ، کوثرپروین کے ساتھ گائے ہوئے دوگانے تھے۔ یہ تینوں گیت بھی طفیل ہوشیارپوری نے لکھے تھے۔ موسیقار فتح علی خان نے ان گیتوں کی دھنیں بنائی تھیں لیکن کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہوسکا تھا۔ مہدی حسن کوفلمی گلوکار بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی اور ساٹھ کی دھائی کے آخر میں اردو فلموں کے مقبول اور مصروف ترین گلوکار بن گئے تھے۔
مقبول عام گیتوں کے لحاظ سے فلم سرفروش (1956) بھی طفیل ہوشیارپوری کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم تھی۔ اس فلم میں ان کے لکھے ہوئے دو گیت رشیدعطرے کی موسیقی میں زبیدہ خانم کی آواز میں سپرہٹ ہوئے تھے:
اسی سال کی نغماتی فلم گڈی گڈا (1956) میں منور سلطانہ کی آواز میں بابا چشتی کا یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا:
فلم چن ماہی (1956) میں بھی طفیل صاحب کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ فلم وعدہ (1957) کا یہ کلاسک گیت بھی طفیل صاحب کا لکھا ہوا تھا:
ساٹھ کی دھائی میں انھوں نے فلمی گیت لکھنے بند کردیے تھے جس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے جواں سال بیٹے کی ایک حادثے میں موت واقع ہوگئی تھی جس سے وہ انتہائی دل شکستہ تھے۔ ان کی آخری آخری فلموں میں ایک پنجابی فلم لارالپا (1970) بھی تھی جس میں ان کا اکلوتا گیت مسعودرانا کے لیے لکھا گیا تھا:
اس دوگانے میں ساتھی گلوکارہ مالا تھی۔
طفیل ہوشیارپوری کے فلمی کیرئر کا ذکر اس یادگار رزمیہ ترانے کے بغیر ناممکن ہے
عظیم موسیقار رشیدعطرے کی موسیقی میں اس تاریخی گیت کو عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں فلم چنگیزخان (1958) کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ جب 6 ستمبر 1965ء کی صبح بھارت نے "اعلان جنگ کیے بغیر اچانک پاکستان پر حملہ کردیا تھا" تو ریڈیو پاکستان کے پاس ایسا کوئی ترانہ نہیں تھا جو اس موقع پر بجایا جاتا۔ اس وقت اسی ترانے کو پہلی بار جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور پر بجنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ترانے کو پاک فوج نے اپنے سرکاری بینڈ میں بھی شامل کر لیا تھا۔
فلم ساز چوہدری حسن الدین نے فلم چنگیزخان (1958) کا ٹائٹل رول بھی کیا تھا۔ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن آشا پوسلے کی سولو ہیروئن کے طور پر یہ آخری فلم تھی۔ یہ فلم معروف ناول نگار نسیم حجازی کے ناول 'آخری چٹان' سے ماخوذ تھی لیکن ناکام رہی تھی۔
ہمارے ہاں عام طور پر تاریخ موضوعات پر بنائی جانے والی فلمیں اس لیے بھی ناکام ہوجاتی تھیں کہ ایک عام شخص بھی صاف محسوس کرتا تھا کہ ان میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور دوروغ گوئی کی جارہی ہے۔ حقائق کے بجائے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے بیشتر تاریخ دان ، شاعر ، ادیب اور اہل قلم ، اپنی ہی دنیا میں مست رہتے ہیں اور ان کا عوام الناس کی اکثریت کے حالات و واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ آج تک ایک ایسی مصنوعی قومیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ جس کا کہیں کوئی وجود نہیں ، البتہ کتابوں کے صفحات ضرور سیاہ کیے گئے ہیں جن میں ایک الگ ہی دنیا بسائی گئی ہے جو الہ دین کی کہانیوں سے مختلف نہیں ہے۔
میں خود بھی نسیم حجازی جیسے انتہاپسند ، متعصب اور ڈرامہ باز ناول نگاروں کے متاثرین میں سے ایک رہا ہوں ، شاید ہی ان کا کوئی ناول ہوگا ، جو نہ پڑھا ہو۔ لڑکپن میں جب ڈنمارک میں رہتا تھا تو پاکستان سے بےشمار اردو کتابیں اور ناول وغیرہ یہاں لائبریری میں پڑھنے کو مل جاتے تھے۔ سکول کے بعد میرے فارغ اوقات انھی کتابوں پر وقت ضائع کرنے میں گزرتے تھے جنھوں نے مجھے ایک جنونی پاکستانی اورایک متعصب مسلمان بنا دیا تھا۔
ڈنمارک میں جو مادی سہولیات دستیاب تھیں ، پاکستان میں ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن اپنے "نظریات" کی وجہ سے ایک غیرمسلم ملک کی ان "نعمتوں" سے بے نیاز تھا۔ اسوقت یہاں جو مفت سہولتیں میسر تھیں ان میں تعلیم کے علاوہ کتابیں ، کاپیاں اور لکھنے پڑھنے کے دیگر لوازمات بھی سکول کی طرف سے ملتے تھے۔ یہاں سکول یونیفارم کا تکلف نہیں ہوتا۔ روزانہ ، صبح کا دودھ ، پھل ، وٹامن کی گولیاں اور دوپہر کا کھانا بھی ملتا تھا جبکہ ٹرانسپورٹ کا پورے سال کا فری کارڈ بھی ملتا تھا۔
سکول میں ہم چند ایک مسلمان بچے تھے اور ہمارے لیے حلال کھانا دستیاب ہوتا تھا۔ ہمارے مذہبی تہواروں پر چھٹی بھی مل جاتی تھی اور ہفتے میں ایک بار مادری زبان کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ باقاعدگی سے طبی معائنہ اور دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا بھی لازمی ہوتا تھا۔ ہر ہفتے مختلف موضوعات پر دستاویزی فلموں کے علاوہ مختلف اداروں کے دورے بھی کرائے جاتے تھے جہاں ہم کتابوں کے علاوہ عملی طور پر کاروباری زندگی کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک بار فٹ بال یا جمناسٹک اور مہینے میں ایک بار سوئمنگ کی سہولت بھی ہوتی تھی۔
والدین کو اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے جیب خرچ کے لیے ماہانہ ایک مخصوص رقم بھی ملتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ بڑے ہوکر انکم کا کم از کم چالیس فیصد ٹیکس اور پچیس فیصد سیلز ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔۔!
سکول میں ہم ہر ہفتے ایک مضمون لکھ کر اپنے ٹیچر کو دیتے تھے جو ہر جمعہ کے دن ان پر اپنے ریمارکس دیتا اور اگر کوئی خاص مضمون ہوتا تو پوری کلاس کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔
میں چونکہ اپنی عمر سے بڑا اور سیانا تھا جس کی وجہ میڈیا وغیرہ سے گہری دلچسپی تھی اور مطالعہ بڑا وسیع ہوتا تھا ، اس لیے میرا طرز تحریر اور نکتہ نظر دیگر ہم جماعتوں کی نسبت منفرد ہوتا تھا ۔
ہمارا جہاندیدہ اور بزرگ استاد ، میرا بڑا قدردان تھا اور اکثر و بیشتر ، کلاس کی بارہ لڑکیوں اور مجھ سمیت چھ لڑکوں کو میرے مضامین کی مثالیں دیا کرتا تھا۔ لیکن ایک دن وہ بجھا بجھا سا تھا۔ اس کے چہرے کی اداسی اور آنکھوں کی سرخی بتا رہی تھی کہ وہ شدید کرب میں مبتلا ہے۔ اس نے سب بچوں کو باری باری پکار کر ان کی کاپیاں واپس کیں اور آخر میں میری کاپی کے اوراق دیکھ کر بڑے رنجیدہ لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوکر بولا:
"اگر تمہیں ہماری تہذیب و تمدن سے اتنی ہی نفرت ہے تو اس ملک میں کیا کررہے ہو۔۔؟"
میں اتنے شفیق استاد کا جملہ آج تک نہیں بھلا سکا اور محسوس کررہا تھا کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔
وہ ، میرا بچپن تھا ، میڈیا سے متاثر ہوجاتا تھا۔ دماغ پر مسلم تشخص کا نشہ اور آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ غیرمسلم ، کافر اور گمراہ ہیں اور دوزخ کا ایندھن ہیں۔ صرف ہم مسلمان ہی راہ حق پر ہیں اور دنیا میں بادشاہت اور جنت کے حقدار بھی صرف ہم ہی ہیں۔
میرے اس مضمون کا خلاصہ کچھ ایسا ہی تھا جس کا جو ردعمل سامنے آیا وہ میرے لیے سبق آموز تھا۔ وہ باتیں جو جملہ کتابیں نہ سمجھا سکیں ، وہ مجھے استاد کے اس ایک جملے نے سمجھا دی تھی کہ جیو اور جینے دو کا اصول یہی ہے کہ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسروں کا چھیڑو نہیں ۔ یہ حق ہر کسی کو حاصل ہے کہ وہ خود کو حق پر سمجھے لیکن یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کرے کہ کون حق پر ہے اور کون حق پر نہیں ہے۔۔!
اس واقعہ نے میرے ذہن پر بڑا گہرا اثرڈالا تھا اور والدصاحب مرحوم و مغفور کو مجبور کیا کہ مجھے جلد از جلد پاکستان بھیج دیں۔
میری یہ خواہش پوری ہوگئی اور ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں واپسی ہوئی جہاں 1977ء سے 1982ء تک کا قیام میری زندگی کا انتہائی تلخ دور تھا۔
وہ ایک طرح سے کفران نعمت کی سزا بھی تھی۔ مسلم تشخص اور پاکستانی قومیت کا نشہ ہرن ہوگیا تھا اور زمینی حقائق منہ چڑا رہے تھے۔
ڈنمارک جیسے مثالی ملک میں ہر کام اصول و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ہر شہری کو بلا تعصب بنیادی انسانی ، مذہبی اور جمہوری حقوق حاصل ہیں۔ پونے دو سو سال سے جمہوری نظام اتنی کامیابی سے چل رہا ہے کہ کبھی سیاسی غنڈہ گردی یا لاقانونیت نہیں ہوئی۔ مذہب بیزار اس معاشرے میں ایمانداری اور انصاف کا معیار انتہائی قابل رشک ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ہر وہ کام ہوتا ہے جس کا ہمارا مذہب بھی اجازت نہیں دیتا لیکن ہم اپنے مقاصد کے حصول میں دین کو بھی بدنام کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس کی بدترین مثال جنرل ضیاع مردود کا آمرانہ دور تھا جب آئین و قانون کی دھجیاں بکھیریں گئیں اور خلق خدا کو باور کرایا گیا کہ ان کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ نہیں ہے اور یہ کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہی چلے گا۔
اس آمرمردود سے شدید نفرت کے باوجود یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس کا مجھ پر یہ بہت بڑا احسان تھا کہ اس نے مجھے حقیقت پسند بنا دیا تھا اور میری تمام تر خوش فہمیاں اور جنون ختم کر دیے تھے۔
گزشتہ چالیس برسوں سے "ضیاع کی باقیات" یا "ضیاع کی بدروح " نے پاکستان کی جو درگت بنائی ہے ، وہ اس تکلیف دہ احساس کو مزید تقویت پہنچاتی ہے کہ ہم ، تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں اور ابھی نجانے یہ حالت کب تک رہے گی۔۔؟
1 | اج گیت خوشی دے گاواں ، نی میں نچ نچ پیلاں پاواں ، صدقڑے جاواں..فلم ... لارالپا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر رفیق علی ... شاعر: طفیل ہوشیارپوری ... اداکار: ناصرہ ، مظہر شاہ |
1. | 1964: Azad(Urdu) |
2. | 1965: Naela(Urdu) |
3. | 1970: Laralappa(Punjabi) |
1. | Punjabi filmLaralappafrom Friday, 10 April 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Rafiq Ali, Poet: , Actor(s): Nasira, Mazhar Shah |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.