A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
"شاہِ مدینہ ﷺ ، یثرب کے والی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔۔"
اس شاہکار اور لازوال فلمی نعت کی بے مثل دھن موسیقار حسن لطیف نے تخلیق کی تھی جو سننے والوں پر وجد کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو متعدد اعلیٰ پائے کی نعتیں کمپوز کی گئی ہیں لیکن ایسی لاجواب اور سدابہار دھن کا کوئی مقابلہ نہیں۔
اس نعت کو بڑی تعداد میں نقل بھی کیا گیا اور تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد مختلف گلوکاروں نے گانے کی کوشش بھی کی لیکن اصل نعت کے معیار تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار حسن لطیف کا باقی سارا فلمی کیرئر ایک طرف رکھ دیں اور صرف یہ نعت ایک طرف تو پلڑا اس نعت کا ہی بھاری رہے گا جو ان کی پہچان بھی ہے۔
"شاہِ مدینہ ﷺ۔۔" جیسی مشہور زمانہ نعت فلمساز جے سی آنند اور ہدایتکار نذیر کی فلم نوراسلام (1957) کے لیے گائی گئی تھی۔ اس لافانی نعت کو گانے کا اعزاز آنجہانی سلیم رضا کو حاصل ہے جو پاکستان کی فلمی تاریخ میں اردو فلموں کے پہلے مکمل گلوکار تھے۔ ایک غیرمسلم ہونے کے باوجود انھوں نے اس نعتیہ کلام کو جس عقیدت و احترام کے ساتھ گایا تھا ، وہ ایک انتہائی اعلیٰ پائے کے فلمی گلوکار ہونے کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس دور میں سلیم رضا اپنی جملہ خوبیوں کی وجہ سے فلمی گائیکی میں بے مثل گلوکار ہوتے تھے۔
اس عظیم نعت کے شاعر کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ فلم کے ٹائٹل پرصرف تنویرنقوی کا نام درج تھا لیکن ایک انٹرویو میں نعیم ہاشمی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ نعت ان کی لکھی ہوئی تھی جس کی کبھی تردید نہیں ہوئی۔
عام طور پر یہ دعویٰ ان کے صاحبزادے خاور نعیم ہاشمی کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے جنھوں نے پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں اپنے والد محترم کے بارے میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون کے لیے معلومات اور تصاویر فراہم کی تھیں۔
ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ اس دعویٰ کی تصدیق کی جا سکے اور ایسی کوئی وجہ بھی نہیں کی اس دعویٰ کی تردید کی جائے۔ اس نعتیہ کلام میں سب سے بڑا کمال اس کی دھن ، پھر گائیکی اور آخر میں شاعری آتی ہے۔
مذہبی حلقوں کی طرف سے اس نعت کے الفاظ پر یہ اعتراض بھی سامنے آتا ہے کہ لفظ 'یثرب' کی جگہ لفظ 'طیبہ' ہونا چاہئے کیونکہ 'یثرب' ، شہر مدینہ کا ایک قدیم اور توہین آمیز نام تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لفظ 'یثرب' کا اصل تلفظ ، 'ر' پر زبر سے نہیں زیر سے ہے۔ مزے کی بات ہے کہ سلیم رضا سمیت دیگر سبھی گلوکاروں نے بھی زبر ہی کے ساتھ گایا ہے۔
"شاہِ مدینہ ﷺ۔۔" جیسی سدابہار نعت کے شاعر ، نعیم ہاشمی ایک معاون اداکار ہونے کے علاوہ ڈیڑھ درجن فلمی گیتوں کے شاعر بھی تھے۔ فلم عظمت اسلام (1965) میں ان کا لکھا ہوا ایک مشہور ترانہ تھا
جسکی دھن ماسٹرعاشق حسین نے بنائی تھی اور اسے مسعودرانا نے گایا تھا۔
نعیم ہاشمی کی واحد فلم نگار (1957) تھی جس کے اداکار ، ہدایتکار ، مصنف اور مکمل شاعر کے طور پر ان کا نام آتا ہے۔ اس کے علاوہ صرف فلم الزام (1953) میں لکھے ہوئے تین گیت ملتے ہیں۔ فلم نوراسلام (1957) کے وہ معاون ہدایتکار تھے جبکہ اداکاری میں مرکزی ولن کے روپ میں بھی نظر آئے تھے۔
"شاہِ مدینہ ﷺ۔۔" جیسی مشہور زمانہ فلمی نعت اداکار درپن اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھی جو مجھے 2004ء میں اپنے سفر حج بیت اللہ کی یاد دلاتی ہے۔ ارکان حج سے فراغت کے بعد ہم مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ایک بس میں سفر کر رہے تھے۔ دیگر دعاؤں کے علاوہ زیادہ تر اسی نعت کا ورد کرتے رہے اور شاید ہی کوئی مسافر ہوگا جس نے اپنے اپنے حصہ کا بول نہ گایا ہو۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی حلقے نعتیں گانے کو 'نعت خوانی' یعنی نعت پڑھنا کہتے ہیں جو کسی طور بھی صحیح نہیں ہے ، پڑھنے اور گانے میں واضح فرق ہوتا ہے ، جب بھی کوئی کلام ترنم یا سُر اور لے میں ہوگا ، وہ گانا ہی ہوگا اور گانے والے کو گلوکار یا گویا ہی کہا جائے گا۔
حسن لطیف کی بطور موسیقار پہلی فلم جدائی (1950) تھی۔ ابتدائی پانچ فلموں میں کوئی ایسا گیت نہیں ملتا جو کبھی سننے میں آتا ہو لیکن یقیناً اس دور میں کچھ گیت مقبول بھی ہوئے ہوں گے۔
پہلی کامیابی انھیں فلم انوکھی (1956) میں ملی تھی جس میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
حسن لطیف نے اس فلم میں صرف یہی گیت کمپوز کیا تھا جبکہ باقی سبھی گیت بھارت سے آئے ہوئے ایک موسیقار تمرن برن نے ترتیب دیے تھے جو فلم دیوداس (1935) میں کندن لال سہگل کے گیتوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ پاکستانی بنگالی موسیقار دیبو بھٹا چاریہ کے استاد بھی تھے۔
اس فلم میں بھارت سے آئی ہوئی ایک اداکارہ شیلا رمانی نے ڈبل رول کیا تھا جس میں ٹائٹل رول بھی تھا جبکہ نیرسلطانہ سیکنڈ ہیروئن تھی۔ مزاحیہ اداکار لہری کے علاوہ عظیم گلوکار احمدرشدی کی بھی یہ پہلی فلم تھی جس میں فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا یہ مزاحیہ گیت اداکار دلجیت مرزا پر فلمایا گیا تھا
اس گیت کی دھن بھارتی موسیقار تمرن برن نے بنائی تھی۔
حسن لطیف نے پاکستان کی پہلی مکمل مذہبی فلم دیار حبیب (1956) میں عنایت حسین بھٹی کی آواز میں چھ گیت گوائے تھے جبکہ معاون موسیقار رحمان ورما تھے۔
حسن لطیف کی پہلی پنجابی فلم لکن میٹی (1959) تھی جس میں زبیدہ خانم اور ساتھیوں کا گایا ہوا ایک گیت
پنجاب کے بچے بچے کی زبان پر ہوتا تھا جب اسی فلم کے نام کا کھیل کھیلتے ہوئے یہ گیت گایا جاتا تھا۔
فلم شمع (1959) میں سلیم رضا کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا
حسن لطیف کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم سسرال (1962) تھی جو بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، ریاض شاہد کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا مقبول ترین گیت ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا تھا
اسی فلم میں طویل جدوجہد کے بعد مہدی حسن اپنا پہلا ہٹ گیت گانے میں کامیاب ہوئے تھے
فلم برسات میں (1962) میں بھی حسن لطیف نے میڈم نورجہاں اور سلیم رضا سے یہ خوبصورت گیت گوایا تھا
فلم شکوہ (1963) میں انھوں نے مزاحیہ گیتوں کے ماہر احمدرشدی سے یہ دلچسپ گیت گوایا تھا
فلم سازوآواز (1965) میں انھوں نے منیر حسین ، باتش ، روشن ، ماسٹر اللہ رکھا اور ساتھیوں سے یہ زبردست قوالی گائی تھی
فلم تیرے شہر میں (1965) میں بھی حسن لطیف کی یہ دھن بڑی مقبول ہوئی تھی جو مہدی حسن کی آواز میں تھی
حسن لطیف کی یادگار فلموں میں ایک فلم ماں بہو اور بیٹا (1966) بھی تھی جس کے بیشتر گیت مقبول ہوئے تھے۔ یہی اکلوتی فلم تھی جس میں انھوں نے مسعودرانا سے دو گیت گوائے تھے۔
یہ شوخ رومانٹک گیت سن کر اندازہ نہیں ہوتا کہ انھیں سنتوش جیسے سنجیدہ ٹائپ اداکار پر فلمایا گیا ہوگا۔
مہدی حسن کی اپنے مخصوص انداز کی یہ مشہور غزل بڑی مقبول ہوئی تھی
اس فلم کا سب سے مقبول گیت ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا
یہ اکلوتی فلم تھی جس کے فلمساز اور ہدایتکار اکبرحسین رضوی تھے جو ملکہ ترنم نورجہاں اور سید شوکت حسین رضوی کے بڑے بیٹے تھے۔ صرف ایک اور فلم پتر پنج دریاواں دا (1972) کے فلمساز کے طور پر بھی ان کا نام آتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اس فلم میں جہاں ان کی اپنی سگی ماں نے گائیکی کا مظاہرہ کیا تھا وہاں ٹائٹل رول میں سوتیلی ماں یاسمین بھی تھی۔
حسن لطیف نے فلم کرشمہ (1968) میں مجیب عالم سے یہ خوبصورت گیت بھی گوایا تھا
پنجابی فلم میری دھرتی میرا پیار (1970) میں میڈم نورجہاں کا یہ گیت بھی سپرہٹ تھا
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملکہ ترنم نورجہاں کے پانچ سولو گیت پانچ مختلف اداکاراؤں ، نغمہ ، عالیہ ، دیبا ، نگو اور سلمیٰ ممتاز پر فلمائے گئے تھے جو شاید ایک ریکارڈ ہے۔
آخری فلم بلونت کور (1975) تھی لیکن ریلیز کے اعتبار سے آخری فلم بانو (1988) ثابت ہوئی تھی جو بہار اور اسلم پرویز کی ایک عرصہ دراز سے رکی ہوئی فلم تھی۔
موسیقار حسن لطیف نے کل 27 فلموں میں پونے دو سو کے قریب فلمی گیت کمپوز کیے تھے۔ سب سے زیادہ گیت زبیدہ خانم ، ملکہ ترنم نورجہاں ، سلیم رضا اور احمدرشدی نے گائے تھے۔ اردو فلموں کی تعداد 22 اور پنجابی فلمیں صرف 5 تھیں۔ زیادہ تر گیت تنویرنقوی کے لکھے ہوئے کمپوز کیے تھے۔ 1916ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے اور 1979ء میں انتقال ہوا تھا۔
1 | اونازک ، نرم حسینہ ، تیری نیلی نیلی آنکھوں نے دل میرا چھینا..فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: حسن لطیف ... شاعر: حبیب جالب ... اداکار: سنتوش |
2 | چہرے پہ گرا آنچل ہو گا ، یہ آج نہیں تو کل ہو گا..فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: حسن لطیف ... شاعر: حبیب جالب ... اداکار: سنتوش |
3 | مینوں بکاں دے نال پیا دے تے پیالہ میں نئیں منگدا..فلم ... میڈم تے مزدور ... پنجابی ... (غیر ریلیز شدہ) ... گلوکار: مسعودرانا ... موسیقی: حسن لطیف ... شاعر: عابد شجاع ... اداکار: ؟؟ |
1 | چہرے پہ گرا آنچل ہو گا ، یہ آج نہیں تو کل ہو گا ...(فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... 1966) |
2 | اونازک ، نرم حسینہ ، تیری نیلی نیلی آنکھوں نے دل میرا چھینا ...(فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... 1966) |
1 | مینوں بکاں دے نال پیا دے تے پیالہ میں نئیں منگدا ...(فلم ... میڈم تے مزدور ... غیر ریلیز شدہ) |
1 | چہرے پہ گرا آنچل ہو گا ، یہ آج نہیں تو کل ہو گا ...(فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... 1966) |
2 | اونازک ، نرم حسینہ ، تیری نیلی نیلی آنکھوں نے دل میرا چھینا ...(فلم ... ماں بہو اور بیٹا ... 1966) |
3 | مینوں بکاں دے نال پیا دے تے پیالہ میں نئیں منگدا ...(فلم ... میڈم تے مزدور ... غیر ریلیز شدہ) |
1. | 1963: Shikva(Urdu) |
2. | 1966: Maa Bahu Aur Beta(Urdu) |
3. | Unreleased: Madam Tay Mazdoor(Punjabi) |
1. | Urdu filmMaa Bahu Aur Betafrom Friday, 11 November 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Hassan Latif, Poet: , Actor(s): Santosh |
2. | Urdu filmMaa Bahu Aur Betafrom Friday, 11 November 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Hassan Latif, Poet: , Actor(s): Santosh |
3. | Punjabi filmMadam Tay Mazdoorfrom UnreleasedSinger(s): Masood Rana, Music: Hassan Latif, Poet: , Actor(s): ? |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.