A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
پاکستانی فلمی تاریخ کے بے مثل گلوکار جناب مسعودرانا صاحب کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں اس عظیم الشان اور منفرد سلسلے میں بات فلم دو باغی (1970) تک پہنچی ہے۔
اس فلم کے فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، ایم نسیم تھے جو بنیادی طور پر ایک فلم ڈسٹری بیوٹر تھے۔ ان کی سب سے بڑی پہچان اپنے وقت کی مشہور اداکارہ لیلیٰ تھی جس کے وہ شوہر نامدار تھے۔ موصوف کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ، اس لیے ان کے ساتھ ان کی اداکارہ بیگم لیلیٰ کے فلمی کیرئر کا ذکر بھی کیا جارہا ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ کے سبھی اہم فنکاروں پر تفصیلی معلومات محفوظ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ایم نسیم نے اپنی پہلی فلم پینگاں (1956) بنائی تھی۔ ہدایتکار امین ملک کی اس رومانٹک پنجابی فلم کی پہچان گلوکارہ کوثرپروین کے فلمی کیرئر کا مقبول ترین پنجابی گیت تھا
احمدراہی کے لکھے ہوئے اس سپرہٹ گیت کی دھن بابا جی اے چشتی نے بنائی تھی اور یہ گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا۔
اگلے ہی سال فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا نے اپنی فلم لیلیٰ مجنوں (1957) میں اداکارہ لیلیٰ کو ایک ثانوی رول میں پہلی بار کاسٹ کیا تھا۔ مقابلے کی فضا میں بنائی گئی یہ ایک سپرفلاپ فلم تھی۔
اپنے دور کی یہ ایک بہت بڑی نغماتی فلم وعدہ (1958) میں اسے قدرے بہتر رول ملا تھا لیکن اس کی اصل پہچان فلم چھومنتر (1958) سے ہوئی تھی۔ اس فلم میں لیلیٰ اور ظریف پر فلمایا ہوا یہ سدابہار اور سپرہٹ گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا
احمدراہی کا لکھا ہوا یہ شاہکار گیت زبیدہ خانم اور پارٹ ٹا ئم سنگر ظریف نے گایا تھا جبکہ ماسٹررفیق علی کی دھن تھی۔
1959ء میں ایم نسیم نے بطورہدایتکار اپنی پہلی فلم پردیسن (1959) بنائی جس کے فلمساز بھی وہ خود تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے فلمی کیرئر کی یہ ناکام ترین فلم تھی جس کا کوئی ایک بھی گیت ہٹ نہیں ہوا تھا حالانکہ احمدراہی اور حزیں قادری جیسے لیجنڈ لکھاری تھے۔
دوسری طرف لیلیٰ کو چھ فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم کرتارسنگھ (1959) تھی۔ اس یادگار فلم میں لیلیٰ نے فلم کے ہیرو سدھیر کی بہن کا رول کیا تھا جو تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات میں سکھوں کے ہاتھوں اغواء ہوجاتی ہے لیکن ایک غیور سکھ ، جرنیل سنگھ (اجمل) اپنے جواں سال بیٹے کو جان سے مار کر اس کی عزت بچا تا ہے اور بحفاظت پاکستان پہنچا دیتا ہے۔ اس دوران خواب میں وہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائی کی شادی کا سہرا گاتی ہے
وارث لدھیانوی کالکھا ہوا یہ لازوال گیت ایک لوک گیت کا درجہ اختیار کرگیا تھا۔ سلیم اقبال صاحبان کی سحرانگیز دھن میں نسیم بیگم نے بڑی عمدگی سے گایا تھا۔
اسی سال کی فلم شیرا (1959) میں لیلیٰ کا سیکنڈ ہیروئن کا رول تھا ، نیلو فرسٹ ہیروئن تھی جس کے ہیرو حبیب کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔
1960ء میں ایم نسیم کی تو کوئی فلم نہیں آئی لیکن لیلیٰ بڑی مصروف اداکارہ بن چکی تھی۔ ایک کیلنڈر ایئر میں اس کی دس فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے دو فلمیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی فلم بہروپیا (1960) میں لیلیٰ کی جوڑی ظریف کے ساتھ تھی جنھوں نے فلم کا ٹائٹل رول بھی کیا تھا۔ اس پنجابی فلم میں پہلی بار نیرسلطانہ کو ایک ثانوی رول میں کاسٹ کیا گیا تھا۔
اس سال کی دوسری اہم فلم رانی خان (1960) تھی جس کا ٹائٹل رول نذر نے کیا تھا جبکہ اس کی بیوی کے کردار میں لیلیٰ تھی جس کا بھائی ظریف ، 'رانی خان کے سالے' کے کردار میں تھا۔ اس نیم مزاحیہ فلم کی خاص بات یہ تھی کہ ملکہ ترنم نورجہاں نے بطور پلے بیک سنگر اپنا پہلا پنجابی گیت گایا تھا
جو اداکارہ حسنہ پر فلمایا گیا تھا جس کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔ پنجابی فلموں کی سپرسٹار ہیروئن نغمہ نے اس فلم میں ایک سین کا رول کیا تھا۔ دیگر سبھی فلموں میں لیلیٰ کے ثانوی کردار تھے۔
1961ء کی خاص بات یہ تھی کہ مسلسل پچیس فلموں میں سائیڈ رولز کرنے کے بعد لیلیٰ کو کل دس میں سے تین فلموں میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
پہلی بار فلم تاج اور تلوار (1961) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر رتن کمار کے مقابل تھی جبکہ فلم شیراسلام (1961) میں بھی یہی جوڑی تھی۔
اسی سال کی فلم سپیرن (1961) میں لیلیٰ ، حبیب کے ساتھ فرسٹ ہیروئن تھی۔ اس فلم میں احمدرشدی نے اپنا پہلا مقبول فلمی گیت گایا تھا
فلم مفت بر (1961) میں لیلیٰ کی جوڑی ایک بار پھر ظریف کے ساتھ تھی جن کا اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی انتقال ہوچکا تھا۔
1962ء میں بھی لیلیٰ کی گیارہ میں سے تین فلمیں ، فرسٹ ہیروئن کے طور پر تھیں۔ اس سال کی فلم چوہدری (1962) سب سے اہم فلم تھی جس کے شریک فلمساز ایم نسیم تھے۔ اس فلم کا ٹائٹل رول ظریف نے کرنا تھا لیکن ان کے اچانک انتقال کے بعد یہ رول آصف جاہ نے کیا تھا جن کی جوڑی لیلیٰ کے ساتھ تھی ۔ ان دونوں پر احمدرشدی کا گایا ہوا پہلا پنجابی گیت فلمایا گیا تھا
ساتھی گلوکارہ نذیربیگم تھی۔ اسی فلم میں پہلی بار نغمہ کو مکمل ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔
1963ء کا سال لیلیٰ کے فلمی کیرئر کا سب سے یادگار سال تھا جب وہ ، ساتوں فلموں میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کاسٹ ہوئی تھی جبکہ ایک فلم میں مہمان اداکارہ تھی۔ اس سال کی دوسپرہٹ فلمیں چوڑیاں اور چاچا خوامخواہ (1963) تھیں۔ ان دونوں پنجابی فلموں نے اس دور میں کراچی میں سلورجوبلیاں منائی تھیں جس سے لاہور میں کامیابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہدایتکار امین ملک کی فلم چوڑیاں (1963) ایک شاہکار فلم تھی جس میں لیلیٰ کو بھرپور کارکردگی دکھانے کا موقع ملا تھا۔
گاؤں کی ایک خوددار اور بہادر دوشیزہ کے روپ میں لیلیٰ نے فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ خاص طور پر جب گھڑسواری سے چلتی ٹرین کا تعاقب کرتے ہوئے وہ ، فلم کے ہیرو اکمل کو جا پکڑتی ہے اور اسے چوڑیوں کا تحفہ دے کر شرم دلاتی ہے کہ وہ گاؤں کا قبضہ ولن پارٹی کو نہیں لینے دیں گے، وہ بے شک چوڑیاں پہن کر شہر چلا جائے۔ بلاشبہ ، یہ لیلیٰ کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم تھی جو ایک شاہکار پنجابی فلم تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اسی فلم کے دوران لیلیٰ نے ایم نسیم کے ساتھ شادی کر لی تھی۔
اسی سال کی دوسری بڑی فلم چاچا خوامخواہ (1963) میں بھی لیلیٰ کی کارکردگی زبردست تھی جو ایک مردانہ روپ میں فلم کے ہیرو سدھیر کو چکمہ دیتی ہے۔ ہدایتکار اسلم ایرانی کی اس ملٹی کاسٹ فلم میں اکمل ، مظہرشاہ اور ساون بھی تھے جبکہ ٹائٹل رول اے شاہ شکارپوری نے کیا تھا۔
اسی سال ہدایتکار ایس سلیمان کی پہلی پنجابی فلم مہندی والے ہتھ (1963) میں لیلیٰ کی جوڑی سلطان نامی اداکار کے ساتھ تھی جبکہ اردو فلموں کی سپرسٹار زیبا نے اپنی اکلوتی پنجابی فلم میں سائیڈ رول کیا تھا۔
ہدایتکار رفیق رضوی کی اردو فلم شرارت (1963) میں لیلیٰ کی جوڑی محمدعلی کے ساتھ تھی جن کی بطورہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں مسعودرانا نے اپنا پہلا سپرہٹ گیت گایا تھا
یہ مسعودرانا اور لیلیٰ کی پہلی مشترکہ فلم تھی اور ممکن ہے کہ دو دوگانوں میں سے کوئی ایک لیلیٰ پر بھی فلمایا گیا ہو۔
1964ء میں لیلیٰ کی صرف چار فلمیں ریلیز ہوئیں اور وہ چاروں فلموں میں فرسٹ ہیروئن تھی۔
سب سے کامیاب فلم ماماجی (1964) تھی جس کے فلمساز ایم نسیم تھے۔ ہدایتکار امین ملک کی اس فلم میں لیلیٰ کی جوڑی سدھیر کے ساتھ تھی جبکہ حبیب بھی فلم کا حصہ تھے۔ اس پنجابی فلم نے بھی کراچی میں سلورجوبلی کی تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا اور مالا کا ایک دوگانا تھا جو ممکن ہے کہ لیلیٰ پر فلمایا گیا ہو۔
اسی سال کی فلم اندھی محبت (1964) کے فلمساز بھی ایم نسیم تھے ۔ اس سال کی ایک اور فلم واہ بھئی واہ (1964) میں لیلیٰ اور شیریں پہلی اور آخری بار کسی فلم میں ایک ساتھ تھیں۔ لیلیٰ ہی کی ایک فلم جھلک (1964) کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں سلیم رضا کا گایا ہوا ایک گیت احمدرشدی پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں اداکاری کررہے تھے۔
1965ء کا سال لیلیٰ کے فلمی کیرئر کا آخری سال تھا۔ اس سال اس کی صرف دو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ چھوٹی سی دنیا (1965) آخری فلم تھی۔
شادی کے بعد لیلیٰ نے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا لیکن 1979ء میں بطور فلمساز واپسی ہوئی تھی۔ ایک فلم پرورش بنائی جس میں اپنی بیٹی سویٹی کو فرسٹ ہیروئن کے طورپر کاسٹ کیا تھا۔ فلم شکنجہ (1980) میں بھی سویٹی ، فرسٹ ہیروئن تھی اور اس فلم میں لیلیٰ نے بھی سائیڈ رول کیا تھا۔
اس کے بعد بھی لیلیٰ نے متعدد فلموں میں ثانوی کردار کیے تھے۔ فلم جت قانون دی (1986) میں لیلیٰ نے ایک نائیکہ کا رول کیا تھا۔ متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔ ٹی وی اداکارہ جاناں ملک ، لیلیٰ کی نواسی تھی۔ وہ برطانیہ میں مقیم ہے۔
لیلیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایم نسیم نے فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور فلم میری بھابھی (1969) پر سرمایہ کاری کی تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا تھیم سانگ تھا
جو ایک چائلڈ سٹار مراد کے پس منظر میں گایا گیا تھا۔
فلم دوباغی (1970) دوسری اور آخری فلم تھی جس کے ہدایتکار کے طور پر ایم نسیم کا نام آتا ہے۔ اس فلم کے فلمساز اور مصنف بھی وہ خود تھے۔ یہ فلم 'صدائے کشمیر' کے نام سے بن رہی تھی لیکن معاہدہ تاشقند کی وجہ سے کشمیر پر بات کرنے کی پابندی کی وجہ سے اس کا نام بدل کر دو باغی (1970) رکھ دیا گیا تھا۔
موسیقار منظوراشرف نے اس فلم کے لیے مسعودرانا سے پانچ گیت گوائے تھے جن میں سے
بڑے پرجوش جذباتی گیت تھے جبکہ یہ دوگانا بڑارومانٹک تھا
اس گیت کی خاص بات یہ تھی کہ مالا کی آواز تو اداکارہ رانی پر فلمائی جاتی ہے لیکن مسعودرانا کی آواز گلاب کے ایک پھول پر فلمائی جاتی ہے جو ہوا میں معلق ہوکر 'یہ دوگانا گاتا ہے'۔ اسی فلم میں مسعودرانا کا ایک گیت
اداکار لہری پر فلمایا جاتا ہے جو پانچ مختلف کرداروں میں یہ گیت گاتے ہیں۔
ایم نسیم کی بطور فلمساز آخری فلم اللہ میری توبہ (1974) تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں احمدرشدی نے چھ گیت گائے تھے جو ان کے فلمی کیرئر کا واحد موقع تھا جب انھیں کسی ایک فلم میں اتنی بڑی تعداد میں گیت گانے کا موقع ملا تھا۔ کوئی گیت مقبول نہیں تھا لیکن ایک گیت انھوں نے مردانہ اور زنانہ آوازوں میں بیک وقت گایا تھا جو بڑے کمال کا تھا۔
ایم نسیم نے بطور مصنف فلم اک پیار تے دو پرچھاویں (1972) اور کہندے نیں نیناں (1973) کی کہانیاں بھی لکھی تھیں۔
لیلیٰ کے علاوہ اس نام کی متعدد اداکارائیں اور بھی تھیں جن میں سے زیادہ مشہور وہ ، لیلیٰ تھی جس نے فلم راجو بن گیا جینٹلمین (1996) سے آغاز کیا تھا۔ اس نے پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا لیکن کبھی صف اول کی اداکارہ نہیں بن سکی تھی۔
1 | فلم ... ماما جی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ؟ ... اداکار: ؟؟ |
2 | فلم ... میری بھابی ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: امجد بوبی ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: (پس پردہ ، مراد) |
3 | فلم ... دو باغی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: رانی ، (کمال ، گلاب کا پھول) |
4 | فلم ... دو باغی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ، فضل حسین ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: کمال ، لہری |
5 | فلم ... دو باغی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: لہری (5 کردار) |
6 | فلم ... دو باغی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: کمال ، لہری مع ساتھی |
7 | فلم ... دو باغی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: ؟؟ (تھیم سانگ کمال ،) |
1. | 15-02-1964:Mama Ji(Punjabi) |
2. | 03-10-1969:Meri Bhabhi(Urdu) |
3. | 25-09-1970:2 Baghi(Urdu) |
1. | Punjabi filmMama Jifrom Saturday, 15 February 1964Singer(s): Mala, Masood Rana & Co., Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): ?? |
2. | Urdu filmMeri Bhabhifrom Friday, 3 October 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Amjad Bobby, Poet: , Actor(s): (Playback - Master Murad) |
3. | Urdu film2 Baghifrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Lehri (5 roles) |
4. | Urdu film2 Baghifrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): ?? (Title song), Kemal |
5. | Urdu film2 Baghifrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Masood Rana, Fazal Hussain, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Kemal, Lehri |
6. | Urdu film2 Baghifrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Rani, (Rose, Kemal) |
7. | Urdu film2 Baghifrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Masood Rana , Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Kemal, Lehri & Co. |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.