
نثار بزمی
ایک اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے
نثار بزمی ، اردو فلموں کے ایک مایہ ناز موسیقار تھے۔۔!
موسیقار نثار بزمی نے اپنی جنم بومی ہندوستان میں چالیس کے قریب فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی لیکن کسی کامیابی سے محروم رہے تھے۔ 1962ء میں جب وہ اپنے عزیزواقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تو قسمت کی دیوی ایسی مہربان ہوئی کہ پانسہ ہی پلٹ گیا تھا۔ پاک سر زمین ان کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کی اردو فلموں کے کامیاب ترین موسیقار بن گئے تھے۔
نثار بزمی کا فلمی کیرئر
نثار بزمی نے سب سے پہلے فلمساز اور ہدایتکار فضل احمد کریم فضلی کی فلم ایسا بھی ہوتا ہے (1965) کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ان کی پہلی کمپوزیشن اس فلم میں میڈم نورجہاں کا یہ کورس گیت تھا:
- آئے آئے ، بہار کے دن آئے۔۔
اس فلم میں ان کا پہلا سپر ہٹ گیت بھی میڈم نورجہاں نے گایا تھا:
- ہو تمنا اور کیا ، جان تمنا آپ ہیں۔۔
اسی فلم میں انھوں نے پہلی بار مسعودرانا سے ایک بڑا اعلیٰ پائے کا یہ دوگانا گوایا تھا جس میں دوسرے گلوکار احمدرشدی تھے:
- مالک بنا ہوا ہے تو ہے وہ بھی آدمی۔۔
نثار بزمی کی بھارتی فلمیں
نثار بزمی نے بھارت میں کل چالیس فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں سے 24 فلموں کا ریکارڈ پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن پر موجود ہے۔ ان کی پہلی فلم جمنار پار (1946) تھی جبکہ آخری فلم شعلہ جو بھڑکے (1961) کا ریکارڈ ملتا ہے۔
بقول ان کے اپنے ، یہ سبھی بی اور سی کلاس فلمیں تھیں اور ان میں سے کسی فلم کا کوئی ایک بھی گیت سپر ہٹ نہیں ہوا تھا حالانکہ گانے والوں میں محمدرفیع ، لتا منگیشکر اور آشا بھونسلے جیسے بڑے بڑے نام تھے۔
ریکارڈز کے لیے ان کی 24 بھارتی فلموں کی مکمل تفصیل اس طرح سے تھی: جمنا پار ، جیب کترا (1946) ، دغا باز دوست ، ایکسٹرا گرل (1947) ، ہماری قسمت ، جیو راجہ ، روپ لیکھا (1949) ، رام بھروسے (1951) ، باما ، کیوں جی (1952) ، گوریلا ، کھوج (1953) ، ہلا گلا ، ستمگر (1954) ، پیارا دشمن ، آدم خور (1955) ، فلائنگ کوئین ، جنگل کوئین ، کربھلا (1956) ، بھلا آدمی ، کل کیا ہوگا ، سچے کا بول بالا (1958) ، تیر اور تلوار (1960) ، شعلہ جو بھڑکے (1961)۔
نثار بزمی کی پہلی پاکستانی فلم
پاکستان آمد کے بعد ریلیز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم ہیڈ کانسٹیبل (1964) تھی جبکہ آخری فلم ویری گڈ دنیا ، ویر بیڈ لوگ (1998) تھی۔
ان کی فلموں کی کل تعداد 68 ہے جن میں سات گیتوں کی اوسط سے اندازاً پانچ سو کے قریب گیت بنتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر گیت احمدرشدی ، ملکہ ترنم نورجہاں ، مہدی حسن ، مالا ، رونا لیلیٰ اور مہناز نے گائے تھے۔
بزمی صاحب نے مسعودرانا سے صرف 16 گیت گوائے تھے جن میں سے چار گیت پہلے دس برسوں میں اور آخری بارہ گیت آخری دو برسوں یعنی 1974/75ء میں گوائے تھے۔ اس کی وجوہات آگے بیان کی گئی ہیں۔
نثار بزمی نے کبھی کسی پنجابی فلموں کی موسیقی نہیں دی تھی
نثار بزمی ، پاکستان کے ان پانچ بڑے موسیقاروں میں شامل ہیں کہ جنھوں نے کبھی کسی پنجابی فلم کی موسیقی ترتیب نہیں دی تھی حالانکہ ان کے کریڈٹ پر ایک پشتو فلم جوند یا مرگ (1978) کا ذکر بھی ملتا ہے۔ نثار بزمی کے علاوہ دیگر چار خالص اردو موسیقار سہیل رعنا ، روبن گھوش ، ناشاد اور لعل محمد اقبال ہیں۔
نثار بزمی کی شاہکار فلم لاکھوں میں ایک (1967)
نثار بزمی ایک انتہائی اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے۔ اپنے ابتدائی دور میں ان کی سب سے بڑی فلم لاکھوں میں ایک (1967) تھی جس کے بیشتر گیت امر سنگیت میں شامل ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ان کی تمام فلموں میں سے اس فلم کے گیت سب سے زیادہ پسند رہے ہیں۔ خاص طور پر میڈم نورجہاں کا یہ گیت:
- سن ساجنا ، دکھی من کی پکار۔۔
اتنا پسند ہے کہ جب کبھی کسی اداسی کے عالم میں گنگناتا ہوں تو جو دو گیت کسی ہوک کی طرح دل کی گہرائیوں نکلتے ہیں ان میں مسعودرانا کے فلم ہمراہی (1966) کے گیت "نقشہ تیری جدائی کا زخم جگر میں ہے۔۔" کی طرح یہ گیت بھی ہے۔
اسی فلم کا ایک اور گیت:
- چلو اچھا ہوا تم بھول گئے۔۔
میں شمیم آراء کا معصوم سا چہرہ نہیں بھولتا جو کسی بھی فلم آرٹسٹ کا پہلا پہلا چہرہ ہے جو میرے ذہن پر نقش ہے کیونکہ سینما پر اپنی پہلی فلم دیکھنے سے قبل یہی چہرہ ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا۔
جب نثار بزمی نے مہدی حسن اور نورجہاں کے گیت رد کئے
نثار بزمی ، ایک اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے جو میعار پرسمجھوتہ نہیں کرتے تھے اور اس وجہ سے بڑا نقصان بھی اٹھاتے تھے۔
انھوں نے فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت:
- میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔۔
پہلے خانصاحب مہدی حسن سے گوایا تھا لیکن مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر وہی گیت انھوں نے کہیں کم تجربہ کار گلوکار مجیب عالم سے گوایا تو ان کی کارکردگی سے اتنے خوش ہوئے تھے کہ ان سے فلم کے چھ گیت گوا لیے تھے۔
یہ جرات بھی صرف بزمی صاحب ہی کی تھی کہ انھوں نے فلم امراؤ جان ادا (1972) میں میڈم نورجہاں کا گیت:
- جو بچا تھا ، وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں۔۔
کی ریکارڈنگ کے بعد اپنی ناپسندیدگی اور ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بات جب ملکہ ترنم کے کانوں تک پہنچی تھی تو وہ اتنی سیخ پا ہوئی تھیں کہ ان کے دباؤ پر سنگر ایسوسی ایشن نے بزمی صاحب کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور انھیں لاہور چھوڑ کر واپس کراچی شفٹ ہونا پڑا تھا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت وہ ایک فلم جاگیر (1975) کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے اور اس کا گیت:
- ہم چلے تو ہمارے ، سنگ سنگ نظارے چلے۔۔
احمدرشدی سے گوانا چاہتے تھے لیکن گلوکاروں کے بائیکاٹ کی وجہ سے نہ گوا سکے تو انھوں نے کراچی ٹی وی کے ایک نوجوان گلوکار عالمگیر کو موقع دیا تھا جو فلم کے کامیاب گلوکار تو نہ بن سکے تھے لیکن ٹی وی کے مقبول ترین اور پہلے پاپ گلوکار تھے۔
جب نثار بزمی نے محمدرفیع کے مقابلے کا گیت مسعودرانا سے گوایا
نثار بزمی صاحب اپنی مرضی کا کام کرنا پسند کرتے تھے اور کسی قسم کا دباؤ پسند نہیں کرتے تھے۔
فلم حاتم طائی (1967) میں انھوں نے مسعودرانا سے ایک بڑی اعلیٰ پائے کی حمد گوائی تھی:
- مشکل میں سب نے تجھ کو پکارا ، پروردگارا۔۔
اس حمد کی ساری شاعری ایک بھارتی فلم حاتم طائی (1956) میں محمدرفیع کی گائی ہوئی حمد سے لی گئی تھی "پروردگار عالم ، تیرا ہی ہے سہارا۔۔"
فلمساز کی خواہش تھی کی دھن بھی نقل ہو لیکن بزمی صاحب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور ایک اوریجنل دھن بنا کر فلمساز کو لاجواب کر دیا تھا۔
عام طور پر بزمی صاحب کے فیورٹ گلوکار احمدرشدی اور مہدی حسن ہوتے تھے لیکن اونچی سروں میں گانا ان دونوں کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی ، اسی لیے مسعودرانا سے گوانا ، اردو موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی۔
جب نثار بزمی ، مسعودرانا سے گوانے پر مجبور ہوئے
بزمی صاحب کو یہ شکایت بھی ہوتی تھی کہ ان کے کام میں مداخلت بہت ہوتی تھی اور بعض بڑے فلمساز اور ہدایتکار بھی اپنی مرضی کا کام کرواتے تھے۔
فلم دشمن (1974) کا واقعہ سناتے ہوئے وہ بتاتے تھے کہ ہدایتکار پرویز ملک نے ایک تھیم سانگ:
- اپنا لہو پھر اپنا لہو ہے۔۔
کے لیے انھیں مجبور کیا تھا کہ اسے صرف مسعودرانا ہی گائیں گے جبکہ وہ یہ گیت اقبال باہو سے گوانا چاہتے تھے۔
بزمی صاحب کے خیال میں ایک تھیم سانگ کی اتنی اہمیت نہیں تھی کیونکہ اردو فلم بینوں کے لیے صرف وہی مردانہ گیت اہم ہوتے تھے جو ان کے سپر سٹار اداکاروں محمدعلی ، وحیدمراد یا ندیم پر فلمائے جاتے تھے۔
پرویز ملک ایک اعلیٰ پائے کے ہدایتکار تھے ، گو ان کی فلموں میں تھیم سانگ اور مسعودرانا کے گیت کم ہی ہوتے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ ایک ایسے گیت کی فلم میں کیا اہمیت ہوتی تھی۔ ایسے تھیم سانگز میں جذبات و تاثرات کے اظہار اور آواز کے سوزوگداز میں جو کمال مسعودرانا کو حاصل تھا ، وہ پاکستان کے کسی گلوکار کو حاصل نہیں تھا جس کی وجہ سے ایسے گیتوں کے لیے وہ ہر موسیقار ، فلمساز اور ہدایتکار کا پہلا انتخاب ہوتے تھے۔
جب نثار بزمی کو نورجہاں اور مسعودرانا نے حیران کردیا
نثار بزمی صاحب کو اپنی فلموں میں ناگ منی (1972) کے گیت سب سے زیادہ پسند تھے۔
ان کے ایک انٹرویو میں یہ جان کی بڑا دکھ ہوا تھا کہ انھیں شک تھا کہ ان کی دھنیں میڈم نورجہاں جیسی بے مثل گلوکارہ نہیں گا پائے گی لیکن جب گیت ریکارڈ ہوئے تھے تو انھیں اپنا نظریہ بدلنا پڑا تھا اور وہ میڈم کی عظمت کے قائل ہو گئے تھے۔
شاید ایسا ہی تصور ان کا کچھ مسعودرانا کے بارے میں بھی تھا لیکن انھیں اپنا خیال بدلنا پڑا تھا جب انھوں نے فلم دو تصویریں (1974) میں ان سے یہ گیت گوایا تھا:
- تہہ دل سے کہہ رہے ہیں ، تجھے آج ہم مبارک۔۔
یہ ایک بڑا مشکل گیت تھا اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا مکھڑا بزمی صاحب نے اپنی بھارتی فلم کھوج (1953) میں محمدرفیع سے گوائے ہوئے گیت:
کا ری میک کیا تھا۔ ان دونوں مکھڑوں کا موازنہ کریں تو سننے والا بے ساختہ کہہ اٹھے گا کہ مسعودرانا کو اونچے سروں کی گائیکی میں اپنے روحانی استاد محمدرفیع پر بھی برتری حاصل تھی۔
اس کارکردگی سے بزمی صاحب اتنے خوش ہوئے تھے کہ انھوں نے اپنی اگلی فلم بات پہنچی تیری جوانی تک (1974) میں پہلی اور آخری بار مسعودرانا سے کچھ کم نہیں پانچ گیت گوائے تھے جن میں میڈم کے ساتھ گایا ہوا یہ رومانٹک گیت تو مسعودرانا کی عظمت کا عملی مظاہرہ تھا:
- اس حسن سے نہیں ہے مجھے تم سے پیار ہے۔۔
دلچسپ بات ہے کہ صرف ایک سال یعنی 1974ء میں بزمی صاحب نے مسعودرانا سے نو گیت گوائے تھے۔ یہ تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہوتی لیکن اس وقت لاہور کے گلوکاروں کی طرف سے ان کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔
نثار بزمی کا پس منظر
موسیقار نثار بزمی ، سید نثار احمد کے نام سے ممبئی کے قریب نصیرآباد میں 1924ء میں پیدا ہوئے تھے اور 2007ء میں کراچی میں فوت ہوئے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر بڑی تعداد میں سپر ہٹ گیت ہیں جن کا تفصیلی شمار دیگر فنکاروں کی طرح ان کے فلمی ریکارڈز کے صفحہ پر کیا گیا ہے۔ یہاں ان کے چند خاص خاص فن پاروں کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے جو اس عظیم فنکار کو ایک ادنیٰ سا خراج تحسین ہے:
نثار بزمی کے چند سپرہٹ گیت
16 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت