صرف محنت اور قابلیت ہی
سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے
قسمت اور وقت
کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے
ساٹھ اور ستر کی دھائیوں کی مقبول ترین اداکارہ ، عالیہ کے فلمی کیرئر پر ایک نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صرف محنت اور قابلیت ہی سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے قسمت اور وقت کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک بہترین اداکارہ اور ماہر رقاصہ ہونے کے باوجود وہ ، صف اول کی فلمی ہیروئن کبھی نہیں بن سکی تھی حالانکہ بیشتر ہمعصر اداکاراؤں سے کہیں زیادہ باصلاحیت تھی۔۔!
عالیہ کی پہلی فلم
عالیہ کی پہلی فلم اونچے محل (1962) تھی جس میں وہ چائلڈ سٹار کے طور پر سامنے آئی۔متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں کے بعد فلم تابعدار (1966) میں عالیہ کو ٹائٹل رول کرنے والے رنگیلا کے ساتھ کامیڈی جوڑی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ان دونوں پر نسیم بیگم اور منیر حسین کا گایا ہوا یہ مزاحیہ دوگانا فلمایا گیا تھا "اے بُندے جہیڑے توں لیاندے ، کن وچ کردے گلاں ، وے میں نال مجاجاں چلاں۔۔"
اس فلم میں عالیہ نے اپنی رقص کی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔
عالیہ کی جدوجہد کا دور
عالیہ کا پہلا اہم کردار ، فلم مرزاجٹ (1967) میں ایک ویمپ کا رول تھا۔ فلم پگڑی سنبھال جٹا (1968) میں مالا اور نذیربیگم کا گایا ہوا مشہورزمانہ سدابہار گیت "چن چن دے سامنے آگیا ، میں دوواں توں صدقے جاں ، سوہنیو عید مبارک۔۔" فردوس اور عالیہ پر فلمایا گیا تھا۔
اسی سال کی نغماتی فلم بدلہ (1968) ، جذباتی اداکاری کے لحاظ سے عالیہ کی پہلی بڑی فلم تھی۔ اسی سال کی ایک اور رومانٹک اور نغماتی فلم سسی پنوں (1968) میں بھی عالیہ نے ویمپ کا رول کیا تھا۔ اس دوران اس نے متعدد فلموں میں آئٹم نمبرز بھی کئے تھے جن میں فلم تاج محل (1968) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا کورس گیت "حسن کو عشق کا سلام ۔۔" بڑا پسند کیا گیا تھا۔
عالیہ ، فرسٹ ہیروئن بنی
1969ء کا سال عالیہ کے لئے ایک یادگار سال تھا جب فرسٹ ہیروئن کے طور پر اس کی پہلی فلم دھی رانی (1969) ریلیز ہوئی تھی۔ فلمساز اس کی والدہ ممتاز بانو اور ہدایتکار اس کے سوتیلے باپ ارشد کاظمی تھے۔
یہ فلم باکس آفس پر زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی لیکن ایک بہت بڑی نغماتی فلم ثابت ہوئی تھی۔ خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ ایم اشرف نے کیا غضب کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کےعوامی گیتوں نے گلی گلی دھوم مچائی تھی:
- میری چچی دا چھلا ماہی لاہ لیا ، گھر جاکے شکایت لاواں گی۔۔
- پٹھے سدھے بودے واہ کے شہری بابو لنگدا۔۔
- میں آں تیرے نال ، تینوں کاہدی پرواہ وے۔۔
- صدقے صدقے لال قلندر ، جھولے جھولے لال قلندر۔۔"
کے علاوہ مسعودرانا کے ساتھ یہ دلکش دوگانا:
- وے لکھ ترلے پاویں منڈیا ، تینوں پیار نئیں کرنا۔۔
بھی ایک سپرہٹ گیت تھا جو عالیہ اور اقبال حسن پر فلمایا گیا تھا۔
عالیہ اور اقبال حسن
ایک مکمل ہیروئن کے طور پر پہلے مکمل ہیرو اقبال حسن کے ساتھ عالیہ کی جوڑی سب سے زیادہ مقبول ہوئی تھی اور ان دونوں نے کچھ کم نہیں ، ساٹھ سے زائد فلموں میں اکٹھے کام کیا تھا۔ لیکن کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ یہ دونوں باصلاحیت فنکار بے حد مقبول و مصروف ہونے کے باوجود کبھی صف اول کے ہیرو ہیروئن نہیں بن سکے تھے۔
عالیہ کی مصروفیت کا دور
1969ء کی کل 15 ریلیز شدہ فلموں میں عالیہ نے مختلف النوع کردار ادا کئے تھے جن میں بیشتر فلموں میں وہ سیکنڈ ہیروئن تھی۔
عالیہ ، بنیادی طور پر پنجابی فلموں کی اداکارہ تھی لیکن اس سال کی اردو فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں (1969) میں اس کا کامیڈی رول بڑا پسند کیا گیا تھا۔ اس فلم میں مسعودرانا ، مالا اور ساتھیوں کا ایک کورس گیت "ندیا کے بیچ گوری ہل چل مچائے رے۔۔" عالیہ اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔
فلم تیرے عشق نچایا (1969) ، ایک بہت بڑی فلم تھی جس میں عالیہ نے مہمان اداکارہ کے طور پر بڑی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور گلے میں سانپ لٹکائے میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت گایا تھا "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا۔۔" اسی گیت کو مسعودرانا نے بھی گایا تھا جو عالیہ کے فلمی بیٹے اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔
عالیہ نے اس سال فلم نکے ہندیاں دا پیار ، چن ویر ، عندلیب اور جنٹرمین (1969) وغیرہ میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا تھا۔ فلم یملاجٹ (1969) کے علاوہ فلم ناجو (1969) میں اس کے ویمپ کے بھرپور کردار تھے۔ اس فلم میں اس پر مسعودرانا اور مالا کا یہ بھنگڑا گیت فلمایا گیاتھا "نی تیرا ڈولدا کلپ مٹیارے تے عاشقاں دا دل دھڑکے۔۔" اسی سال عالیہ نے فلم ویرپیارا (1969) میں ہدایتکار الطاف حسین کے ساتھ پہلی بار کام کیا تھا جو آگے چل کر اس کے شوہر بنے۔
عالیہ کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر پہلی اردو فلم
1970ء کی ڈیڑھ درجن فلموں میں سے عالیہ کی صرف ایک فلم لو ان جنگل (1970) تھی جس میں بنگالی ہیرو عظیم کے ساتھ فرسٹ ہیروئن تھی۔ یہ عالیہ کی کسی اردو فلم میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر پہلی فلم تھی۔ باقی سبھی فلموں میں وہ سیکنڈ ہیروئن کے طور پر نظر آئی تھی۔
نی ہرنی دے نیناں والیے
فلم چن سجناں (1970) میں اس کی جوڑی اقبال حسن کے ساتھ تھی جو مسعودرانا کا یہ دلکش رومانٹک گیت عالیہ ہی کے لیے گاتے ہیں "نی ہرنی دے نیناں والیے ، اساں پچھنا اے کجھ تسی لکدے ، نی تیرا میرا کی رشتہ ، مینوں ہان دے جوان منڈے پچھدے۔۔"
اردو فلم یہ راستے ہیں پیار کے (1970) میں عالیہ کی جوڑی حبیب کے ساتھ تھی اور اس پر نسیم بیگم کا یہ گیت فلمایاگیا تھا جسے مسعودرانا نے بھی حبیب کے لیے گایا تھا "زمانے میں رہ کے ، رہے ہم اکیلے ، ہمیں راس آئے نہ ، دنیا کے میلے۔۔"
فلم شمع اور پروانہ (1970) میں عالیہ پر میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا "آج ہے محفل دید کے قابل ، شمع بھی ہے اور پروانہ بھی۔۔"
فلم رب دی شان (1970) میں بھی میڈم کا ایک اور سپرہٹ گیت عالیہ پر فلمایا گیا تھا "میں الہڑ پنجاب دی ، ماہیا گبھرو پاکستان دا۔۔"
عالیہ ، ٹاپ کی سیکنڈ ہیروئن
1971ء میں بھی عالیہ نے ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کیا تھا لیکن کسی فلم میں فرسٹ ہیروئن نہیں تھی۔ پھر بھی وہ ، سیکنڈ ہیروئن ہونے کے باوجود فرسٹ ہیروئن پر غالب ہوتی تھی۔
اردو فلموں کے سپرسٹار وحیدمراد نے بطور فلمساز اور ہیرو پہلی پنجابی فلم مستانہ ماہی (1971) بنائی تھی جس میں ان کا ڈبل رول تھا لیکن اس فلم کی کامیابی سے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے تھے اورکبھی پنجابی فلموں کی ضرورت نہیں بن سکے تھے۔ اس فلم کا سارا کریڈٹ ملکہ ترنم نورجہاں کا میگا ہٹ گیت "سیونی میرا ماہی ، میرے بھاگ جگاون آگیا۔۔" لے گیا تھا۔ حزیں قادری کا لکھا ہوا اور نذیرعلی کا کمپوز کیا ہوا یہ سدابہار گیت عالیہ پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم کی مرکزی ہیروئن نغمہ پر بھاری ثابت ہوئی تھی۔
یہ گیت ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ روایت ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو اس کا حکمران نیرو بانسری بجا رہا تھا ، بعینہٖ ، دسمبر 1971ء میں ڈھاکہ ڈوب رہا تھا اور پاکستان کا مطلق العنان حکمران جنرل یحییٰ خان ایک فلمی گیت'سیونی میرا ماہی' سے جی بہلا رہا تھا۔۔!
عالیہ اور وحیدمراد کی رومانٹک جوڑی
اردو فلم افشاں (1971) میں اپنی پرفارمنس سے عالیہ ، شبنم پر بھی بھاری ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں وحیدمراد کے ساتھ عالیہ کے رومانٹک سین کمال کے تھے اور ان پر فلمائے ہوئے میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کے الگ الگ گیت "خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے ، کسی کا نام لوں ، لب پہ تمہارا نام آئے۔۔" لاجواب گیت تھے۔
فلم بابل (1971) میں عالیہ نے اپنی جذباتی اداکاری سے اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ فلم آسوبلا (1971) میں میڈم نورجہاں کی گائی ہوئی ایک سپرہٹ دھمال "حسینی لال قلندر ، نبی ﷺ دی آل قلندر ، میرے غم ٹال قلندر۔۔" عالیہ پر فلمائی گئی تھی جس نے دھمال ریکارڈ کروانے میں بھی دیگر سبھی اداکاراؤں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
فلم یاردیس پنجاب دے (1971) میں میڈم کا ایک اور سپرہٹ گیت "پاگل نیں او جہیڑے سچا پیار کسے نال کردے نیں۔۔" بھی عالیہ پر فلمایا گیا تھا۔ پنجابی فلموں میں ایک مظلوم طوائف کے کردار اور مجرے بھی عالیہ سے بہتر کوئی نہیں کر پاتا تھا۔
عالیہ کی کارکردگی عروج پر
1972ء کا سال عالیہ کے انتہائی عروج کا سال تھا جب اس کی دو درجن سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں لیکن مزے کی بات ہے کہ وہ کسی ایک فلم میں بھی فرسٹ ہیروئن نہیں تھی۔
کارکردگی کے لحاظ سے سب سے بڑی فلم بشیرا (1972) تھی جس میں اس کی جذباتی اداکاری کی دھوم مچ گئی تھی۔
بھٹی برادران کی ریکارڈ توڑ فلم ظلم دا بدلہ (1972) پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم ثابت ہوئی تھی جس میں عالیہ کے پگلی کے کردار کو بے حد سراہا گیا تھا اور اس پر فلمائے ہوئے گیت "لیکھاں اگے نئیوں تیرا زور چلنا۔۔" کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ "رووے مان تے غرور ۔۔" کی صورت میں عالیہ پر فلم مولا جٹ (1979) میں فلمایا گیا تھا۔
دیگر بڑی بڑی فلموں میں خان چاچا ، دولت اور دنیا ، دوپتراناراں دے ، غیرت تے قانون ، سلطان اور انتقام (1972) میں بھی عالیہ کی کارکردگی مثالی تھی۔ ان فلموں میں اس پر بڑے بڑے سپرہٹ گیت فلمائے گئے تھے۔
عالیہ اور الطاف حسین کی شادی
اس سال کی خاص بات فلم کون دلاں دیاں جانے (1972) تھی جس کے ہدایتکار الطاف حسین تھے جنھوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران قربت اتنی بڑھی کہ فلم انسان اک تماشہ (1972) کی شوٹنگ کے دوران دونوں نے شادی کرلی تھی۔
عالیہ ، مقبولیت کی بلندیوں پر
1973ء میں بھی عالیہ کی ڈیڑھ درجن سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے ایک تہائی فلموں میں پہلی بار فرسٹ ہیروئن کے طور پر نظر آئی تھی۔
فلم زرق خان (1973) میں عالیہ کی جوڑی سلطان راہی کے ساتھ تھی اور یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ فلم خون دا دریا اور جھلی (1973) میں عالیہ کی جوڑی یوسف خان کے ساتھ تھی۔
فلم اج دا مہینوال (1973) ، منورظریف کی بطور ہیرو پہلی فلم تھی اور عالیہ پہلی ہیروئن بنی تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا اور تصورخانم کا یہ دوگانا ان دونوں پر فلمایا گیا تھا "لنگ آجا پتن چناں دا یار۔۔" اس کے علاوہ "پیار نالوں پیاریئے تے سرور توں نشیلیئے۔۔" بھی عالیہ ہی کے لیے گایا گیا تھا۔
فلم بلا چیمپئن (1973) میں عالیہ کی جوڑی اسدبخاری کے ساتھ اور اردو فلم انہونی (1973) میں وحیدمراد ، عالیہ کے ہیرو تھے۔ اسی سال عالیہ کی اقبال حسن کے ساتھ اکلوتی اردو فلم باغی حسینہ (1973) بھی سامنے آئی تھی اور بری طرح سے ناکام رہی تھی۔ اسی سال عالیہ نے اپنے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی اردو فلم دامن اور چنگاری (1973) میں بڑا اہم رول کیا تھا اور بہت داد پائی تھی۔
عالیہ کی بطور ہیروئن کامیاب ترین فلم
1974ء میں بھی عالیہ کی ڈیڑھ درجن فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں اس کے کیرئر کی سب سے کامیاب فلم عشق میرا ناں (1974) بھی تھی۔ اس فلم نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی تھی۔
اس کامیاب رومانٹک اور نغماتی فلم کے ہیرو وحیدمراد اور ولن اقبال حسن تھے۔ اس فلم کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جنھیں میڈم نورجہاں اور مہدی حسن نے گایا تھا۔ ٹائٹل سانگ کے علاوہ "اک پیاری جئی ، سوہنی صورت ، پیار محبت جس دا ناں۔۔" اور " ماہیا وے ، جے میں کبوتری ہوواں۔۔" وغیرہ مقبول عام گیت تھے۔ لیکن اسی جوڑی کی دوسری فلم سیو نی میرا ماہی (1974) ناکام رہی تھی۔
فلم ماں دا لال (1974) میں عالیہ پر ملکہ ترنم نورجہاں کے دو بے مثل سریلے گیت فلمائے گئے تھے "دنیا چہ دل کولوں ، ود کہیڑی شے وے ، تیرے اتوں وار دیواں ، اک واری کہہ وے۔۔" اور "میں پل پل تینوں پیار کراں ، توں قدم قدم ٹھکرانا ایں ، کی کر بیٹھی تقصیراں میں ، کی بدلے لینے چاہنا ایں۔۔" اسی سال عالیہ کی فلم بابل صدقے تیرے (1974) بھی ایک کامیاب فلم تھی جس میں عالیہ کے ہیرو شاہد تھے۔
عوامی دور کی ایک فلم
اسی سال کی ایک فلم بدمعاش پتر (1974) میں ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا کا یہ گیت "مزدوری کوئی معنہ نئیں ، محنت تو نہ گبھرا۔۔" بھی عالیہ اور اقبال حسن پر فلمایا گیا تھا۔
یہ گیت ، قائدعوام جناب ذوالفقار علی بھٹو ؒ کے عظیم عوامی اور جمہوری دور کی یاددلاتا ہے جب مزدوروں سمیت دیگر پسے ہوئے طبقات کو پہلی بار بنیادی حقوق دیے گئے تھے۔
مفاد پرست سرمایہ داروں اور صعنت کاروں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا اور ناقابل معافی جرم تھا۔ اسی لیے آج بھی ان عوام دشمن طبقات کے چیلوں کی طرف سے بڑی ڈھٹائی اور بےشرمی سے یہ غلط بیانی کی جاتی ہے کہ بھٹو نے معیشت کو تباہ کردیا تھا حالانکہ حقائق بالکل برعکس تھے۔
بھٹو دور کی جی ڈی پی
بھٹو کو جب 1971ء کی جنگ میں شرمناک شکست کے بعد ایک تباہ حال پاکستان میں حکومت ملی تھی تو GDP تاریخ کی کم ترین سطح 0,47 فیصد پر تھی لیکن اس عظیم رہنما کے حسن تدبر سے جہاں ملک کی تعمیر نو ہوئی وہاں صرف ایک سال بعد ہی شرح نمو 7,06 فیصد تک جاپہنچی تھی۔
تیل کے پہلے سنگین عالمی بحران ، ملک میں خوفناک سیلاب اور زلزلہ کی تباہکاریوں کے علاوہ آمروں کو ملنے والی فراخدلانہ امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کی بندش کے باوجود بھٹو دور حکومت میں پاکستان کی شرح نمو ساڑھے چار فیصد سے زائد رہی تھی جو ہمارے روایتی حریف بھارت سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔
تاریخی حقائق نے بھٹو سے بغض رکھنے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کو قدم قدم پر جھوٹا ثابت کیا ہے لیکن وہ اس قدر بے غیرت اور ذلیل لوگ ہیں کہ اس عظیم ترین قومی ہیرو کے خلاف بکواس کرنے بلکہ بھونکنے سے باز نہیں آتے ، تُف لعنت ہے ، ایسے ایک ایک جھوٹے ، گھٹیا اور لعنتی کردار پر جو جھوٹ بولتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے خدا کو جان بھی دینی ہے ۔ ۔!
عالیہ کے زوال کا دور
1975ء میں عالیہ درجن بھر فلموں میں نظر آئی تھی۔ اس سال فردوس اور نغمہ ، بطور ہیروئن زوال پذیر ہوگئی تھیں لیکن عالیہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا کیونکہ ان کی جگہ آسیہ اور ممتاز نے لے لی تھی۔
اس سال کی خاص فلم سجن کملا (1975) تھی جس میں عالیہ کے ہیرو وحیدمراد اور منورظریف تھے لیکن یہ فلم حسب توقع بزنس نہ کر سکی تھی ۔ اس فلم میں میڈم کا یہ گیت "دل کملا ، کجھ سجن کملا ، کجھ میں سودائی۔۔" بڑا پسند کیا گیا تھا جو عالیہ پر ہی فلمایا گیا تھا۔
عالیہ ، ثانوی کرداروں میں
1976ء میں بھی عالیہ کی ڈیڑھ درجن کے قریب فلمیں ریلیز ہوئی تھیں لیکن کوئی قابل ذکر فلم نہیں تھی۔ فلم غیرت (1976) میں عالیہ پر ناہیداختر کا یہ مشہور گیت فلمایا گیاتھا "کنڈلاں دے والاں والیا ، تیرے نال پیار پا لیا۔۔" اس دور میں زیادہ تر پرتشدد فلمیں بننے لگی تھیں جن میں عالیہ کو ثانوی اور معمولی کردار ملتے تھے۔
1979ء میں الطاف حسین سے طلاق کے بعد بھی عالیہ ، فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں تک محدود رہی۔ فلم شیرخان (1981) میں میڈم نورجہاں کے اس خوبصورت اور سپرہٹ گیت کے ساتھ اقبال حسن کا دل لبھاتے ہوئے دیکھی گئی " میں وی بدنام سیاں ، تو وی بدنام ایں ، پتہ مینوں دوواں دا نئیں چنگا انجام ، اللہ معاف کرے۔۔"
فلم سمندرپار (1983) میں عالیہ نے فلم کے ہیرو علی اعجاز کی بہن کا رول کیا تھا اور ان کے لیے مسعودرانانے ایک انتہائی بامقصد اور پراثر گیت گایا تھا:
- گورا مکھڑا تے شکل نورانی ، جیوے جگ جگ لاڈو رانی ، تینوں میری عمر وی لگ جاوے ، ہووے لکھ وریاں دی زندگانی۔۔
عالیہ کے لیے مسعودرانا کا آخری گیت فلم اللہ وارث (1990) میں ملتا ہے جو عذراجہاں کے ساتھ گایا گیا تھا اور فلم میں عالیہ اور سلطان راہی پر فلمایا گیا تھا:
- او سجناں ، تیرے بنا میرا کوئی نہ ، میری اکھیاں چہ تو ، میرے ساہواں چہ تو ، دل کوے ، رات دن رہویں بانھواں چہ تو۔۔
بارہ تیرہ سال کے وقفے کے بعد عالیہ نے فلم کالا گجر (2003) میں کام کیا اور اس کی اب تک کی آخری فلم لاڈورانی (2010) ہے۔
(3 اردو گیت ... 10 پنجابی گیت )