A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعودرانا کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم ہمراہی (1966) کے ہدایتکار راجہ حفیظ تھے۔۔!
اس فلم کی تکمیل کا ایک خیالی نقشہ کچھ اس طرح سے ہے کہ میاں شفیق نے اپنے دو فلمساز ساتھیوں ، ایس اے حلیم اور سمیع دہلوی کے ساتھ بھارتی فلم دوستی (1964) دیکھی اور اتنے متاثر ہوئے کہ اس فلم کا ری میک بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس سے قبل بطور فلمساز وہ اپنی پہلی فلم رشتہ (1963) بنا چکے تھے جو مسعودرانا کی پہلی پنجابی فلم تھی۔
فلم ہمراہی (1966) بنانے کے لیے کسی معروف ہدایتکار کی بجائے ایک نئے فلم ڈائریکٹر راجہ حفیظ سے رابطہ ہوا جو اپنی پہلی فلم کھوٹا پیسہ (1965) بنا چکے تھے۔
نئی فلم کا نام ' ہمراہی ' تجویز کیا گیا جس کا مرکزی خیال دو معذور نوجوانوں کی لازوال دوستی ہے۔ ان میں ایک اندھا (خالد) ہے جو اپنے اپاہج اور مفلوک الحال دوست (حیدر) کی حصول علم کی خواہش کی تکمیل میں حق دوستی ادا کرتے ہوئے اس کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے سڑکوں اور گلیوں میں گا کر پیسہ اکٹھا کرتا ہے۔
یہ دونوں اداکار بھائی پہلی بار کسی فلم میں کام کررہے تھے اور فلمساز اور پیش کار میاں شفیق کے بیٹے تھے۔ ان میں خالد تو صرف ایک اور فلم کمانڈر (1968) میں دیکھا گیا تھا لیکن حیدر بہت سی فلموں میں ہیرو اور معاون اداکار کے علاوہ فلمساز اور ہدایتکار کے طور پر بھی دیکھا گیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوا تھا۔ فلم غازی علم الدین شہید (1978) کا ٹائٹل رول بھی کیا اور اس کا فلمساز اور ہدایتکار بھی خود تھا۔ ان کا ایک بھائی جاوید بھی تھا جس کی فلم ناہید (1968) تھی۔
کوئی بھی فلم بنانے کے لیے سرمایہ تو فلمساز کا ہوتا ہے لیکن فلم کا ناخدا ہدایتکار ہوتا ہے جو فلم کے ہر شعبہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہدایتکار راجہ حفیظ نے ایک چربہ کہانی پر ایک شاہکار فلم بنا کر فلمی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔
کچھ لوگوں کے نزدیک ایسی فلمیں بنانا سرقہ ہے لیکن یہ کام پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک بہت بڑی فرانسیسی فلم دیکھنے کا موقع ملا جس کی سین ٹو سین کاپی فلم بھی دیکھی جو امریکہ یا ہالی وڈ نے بنائی تھی اور جو میرے خیال میں اصل سے بہتر بنائی گئی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جب بھی بھارتی فلم کی نقل بنائی گئی ، وہ اصل سے بہتر ہوتی تھی جبکہ بھارتی کوشش ، اونچی دکان پھیکا پکوان کی طرح ہوتی تھی۔ اس موضوع پر کبھی تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فلم کی کہانی ، منظرنامہ اور مکالموں کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے لیے احمدراہی جیسے عظیم مصنف کی خدمات حاصل کی گئیں جنھوں نے اصل فلم سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
انھی دنوں پاک بھارت جنگ ہوئی جس سے متعلقہ متعدد جنگی مناظر اور صدر ایوب خان کی 6 ستمبر کی تاریخی تقریر کی فوٹیج شامل کر کے عوامی جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا تھا۔
فلم ہمراہی (1966) ، پاک بھارت جنگ کے موضوع پر بنائی جانے والی سبھی فلموں میں واحد کامیاب فلم تھی۔ یہ ایک ایسی لاجواب اور منفرد فلم تھی کہ جس میں کوئی ایک بھی "لو سین" یا "لو سانگ" نہیں تھا ، کوئی ایک بھی روایتی رقص یا مجرا نہیں تھا ، کوئی ایک بھی فائٹ یا بڑھک نہیں تھی۔ یہاں تک کہ اس فلم کے آٹھوں گیتوں میں سے کوئی ایک بھی رومانٹک یا عامیانہ گیت نہیں تھا لیکن باکس آفس کے ان تمام تر لازمی مسالوں کی عدم موجودگی کے باوجود اس فلم نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی اور سپرہٹ ہوئی تھی۔ صرف کراچی میں یہ شاہکار فلم مسلسل پانچ ماہ تک سینماؤں میں چلتی رہی تھی اور کل 59 ہفتے چل کر شاندار گولڈن جوبلی منائی تھی جو اس دور میں ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
فلم ہمراہی (1966) کے مرکزی کرداروں ، خالد اور حیدر نے منجھے ہوئے اداکاروں کی طرح اپنے کردار نبھائے اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ سنتوش ، روایتی ہیرو تھے جو اپنے عروج کا آخری دور دیکھ رہے تھے۔ حنا نامی اداکارہ روایتی ہیروئن تھی جس نے ایک نرس اور خالد کی بہن کا رول کیا تھا۔
سب سے متاثر کن کردار نگاری محمدعلی صاحب کی تھی جو ایک ہیڈماسٹر کے رول میں جس منظر میں بھی آئے ، اپنی عظمت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ خاص طور پر جب اپاہج حیدر ان کے دفتر میں ٹھوکر کھاتا ہے تو کس طرح سے اس کی مدد کو لپکتے ہیں ، وہ منظر ایکٹنگ لگتی ہی نہیں تھی۔
سینئر اداکار ایم اسماعیل نے ایک سکول ٹیچر کے طور قدرتی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ پاکستان کے سب سے سنیئر اداکار تھے جنھوں نے خاموش فلموں کے دور سے لاہور میں بننے والی پہلی فلم ڈاٹر آف ٹو ڈے (1928) میں کام کیا تھا۔
اس فلم کے دیگر معاون اداکاروں میں سلمیٰ ممتاز ، نصرت آرا اور گوتم کے علاوہ ایک بچی تھی جس کا نام بےبی نجمی بتایا جاتا ہے۔
ان کے علاوہ اس فلم کی ایک کشش اور بھی تھی۔ کئی بڑے بڑے اداکار جن میں درپن ، اعجاز ، حبیب ، یوسف خان ، ساون ، مظہرشاہ وغیرہ ایک ایک سین میں مہمان اداکار کے طور پر نظر آئے۔ ایسا تجربہ پہلی بار فلم معجزہ (1966) میں کیا گیا تھا لیکن وہ ایک بے ربط فلم تھی ، اس لیے ناکام رہی تھی۔
فلم کا کامیڈی سیکوئنس رنگیلا ، منورظریف ، زلفی اور اقبال کاشمیری پر مشتمل تھا جو قدرے مختصر لیکن خاصا دلچسپ تھا۔
دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ فلم ہمراہی (1966) میں اردو فلموں کے ممتاز ہدایتکار ایس سلیمان اور پنجابی فلموں کے ممتاز ہدایتکار اقبال کاشمیری نے ہدایتکار راجہ حفیظ کی ڈائریکشن میں مہمان اداکاروں کے طور پر کام کیا تھا۔ فلم گلفام (1959) کے بعد غالباً یہ واحد فلم تھی جس میں تینوں بھائی ، سنتوش ، درپن اور ایس سلیمان ایک ساتھ نظر آئے تھے۔
فلم ہمراہی (1966) کا سب سے اہم اور جاندار شعبہ اس کا لازوال میوزک تھا۔ یہ ذمہ داری ماسٹر تصدق حسین کو دی گئی جو فلم غالب (1961) کی موسیقی کی وجہ سے مشہور تھے۔ 1960ء میں انھیں دیگر بڑے بڑے موسیقاروں کی موجودگی میں بہترین موسیقار کا صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں نام نہاد سرکاری اور نجی ایوارڈز یا اعزازات محض ایک مذاق ہوتے ہیں اور ان کی بندر بانٹ سے کسی کی شان یا مقام میں کوئی فرق پڑتا۔
ماسٹر تصدق حسین نے بھارتی موسیقاروں لکشمی کانت ، پیارے لال اور آرڈی برمن کے مقابلے کی دھنیں بنائیں۔ نغمات کے لیے انھوں نے مجروح سلطان پوری کے مقابلے میں مظفر وارثی کا انتخاب کیا تھا جن کے کریڈٹ پر پہلے کوئی مقبول گیت نہیں تھا لیکن اس فلم میں انھوں نے سپرہٹ گیت لکھے تھے۔
فلم ہمراہی (1966) کی سب سے بڑی پہچان مسعودرانا کی بے مثل کارکردگی تھی جن سے بہتر کوئی دوسرا گلوکار نہیں تھا جو محمدرفیع کے مقابلے کے گیت گا سکتا تھا۔ اس فلم کی موسیقی پر ماسٹر تصدق حسین اور مظفر وارثی کے مضامین میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔
فلم ہمراہی (1966) کے بعد ہدایتکار راجہ حفیظ نے اگلی فلم بھائی جان (1966) بنائی تھی جو ایک سوشل فلم تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول محمدعلی نے کیا تھا جن کے پس منظر میں مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت فلمایا گیا تھا:
اس اعلیٰ معیار کے گیت کو فلم ہملوگ (1970) میں دوبارہ تھیم سانگ کی صورت میں فلمایا گیا تھا۔
چند سال کے وقفے کے بعد راجہ حفیظ کی پہلی پنجابی فلم وریام (1969) ریلیز ہوئی تھی جو اپنے وقت کی ایک بہت بڑی فلم تھی۔ سدھیر کا ایکشن اور سلونی اور حبیب کا رومانس اس فلم کی خوبی تھا۔ فلم کی موسیقی بڑی پاورفل تھی جو بظاہر گمنام موسیقاروں ، غلام حسین ، شبیر کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے اس دور میں جتنے بھی گیت گائے ، وہ کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس فلم میں بھی دو شاہکار گیت تھے:
ان کے علاوہ مسعودرانا کے تین سپرہٹ گیت تھے جن میں دو منیر حسین کے ساتھ تھے۔ فلم کا ٹائٹل گیت
بڑا مقبول ہوا تھا۔ یہ شاید واحد گیت تھا جس کا ایک ایک بول دونوں گلوکاروں نے ہم آواز ہو کر گایا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت
ماں کے موضوع پر گایا ہوا ایک لازوال گیت ہے جو فلم میں سدھیر اور حبیب پر فلمایا گیا تھا جو پنجابی فلموں کی روایتی ماں سلمیٰ ممتاز کو سب سے بہترین خراج تحسین تھا۔ اس فلم میں مسعودرانا کا گایا ہوا سولو گیت
ایک اور شاہکار گیت تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں گلوکار غلام عباس نے یہ گیت گا کر مسعودرانا کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
راجہ حفیظ کی اگلی فلم رنگو جٹ (1970) بھی ایک کامیاب فلم تھی جس کا ٹائٹل رول سدھیر نے کیا جو اس فلم میں سکھ بنے تھے۔ فلم کرتارسنگھ (1959) کے بعد غالباً یہ دوسری فلم تھی جس کا مرکزی کردار ایک سکھ تھا۔
سدھیر کا یہ کردار منفی نوعیت کا تھا اور ان کے پس منظر میں مسعودرانا کا یہ تھیم سانگ فلمایا گیا تھا:
اس فلم کا سب سے مقبول ترین گیت پنجابی فلموں کی کامیاب جوڑی نغمہ اور حبیب پر فلمایا گیا جسے میڈم نورجہاں اور مجیب عالم نے گایا تھا اور جس کی دھن ماسٹر عبداللہ نے بنائی تھی
اگلے ایک عشرہ میں راجہ حفیظ کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں ایک فلم میرا دل میری آرزو (1971) میں مسعودرانا کے دو گیت بڑے کمال کے تھے:
یہ دونوں گیت فلم کے ہیرو یوسف خان پر فلمائے گئے تھے جو بڑے بدقسمت تھے کہ اردو فلموں میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی پنجابی فلموں کے تین بڑے نام یعنی اکمل ، یوسف خان اور سلطان راہی ، پنجابی فلموں کے سپرسٹارز تو تھے لیکن اردو فلموں میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔ اسی طرح سے اردو فلموں کے سپرسٹارز ، محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم ، پنجابی فلموں کے ناکام اداکاروں میں شمار ہوتے تھے۔
اس دور میں صرف تین بڑے فلمی ہیروز تھے جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں کامیاب رہے تھے اور وہ ، سدھیر ، حبیب اور اعجاز تھے۔
راجہ حفیظ کی آخری پانچوں فلموں بازی جت لئی (1972) ، جوانی دی ہوا ، مسٹر 420 (1973) ، سوہنا ڈاکو (1974) اور لہو دے رشتے (1980) میں کیفی ہیرو تھے۔ یہ آخری فلم ، منورظریف کی ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی جس میں احمدرشدی نے بھی اپنا آخری پنجابی گیت گایا تھا۔
1 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: حیدر |
2 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
3 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
4 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
5 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
6 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
7 | فلم ... ہمراہی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: خالد |
8 | فلم ... بھائی جان ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: ارسلان (محمد علی) |
9 | فلم ... وریام ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: سائیں اختر ، منیر حسین ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: غلام حسین ، شبیر ... شاعر: ؟ ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ) |
10 | فلم ... وریام ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: غلام حسین ، شبیر ... شاعر: ؟ ... اداکار: (پس پردہ ، فضل حق) |
11 | فلم ... وریام ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، منیر حسین ... موسیقی: غلام حسین ، شبیر ... شاعر: اسماعیل متوالا ... اداکار: سدھیر ، حبیب |
12 | فلم ... رنگو جٹ ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: سلیم کاشر ... اداکار: (پس پردہ ، سدھیر) |
13 | فلم ... میرا دل میری آرزو ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ایم جاوید ... شاعر: آتش لدھیانوی ... اداکار: یوسف خان |
14 | فلم ... میرا دل میری آرزو ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ایم جاوید ... شاعر: آتش لدھیانوی ... اداکار: یوسف خان |
1. | 1966: Bhai Jan(Urdu) |
2. | 1969: Veryam(Punjabi) |
1. | 1966: Hamrahi(Urdu) |
2. | 1966: Bhai Jan(Urdu) |
3. | 1969: Veryam(Punjabi) |
4. | 1970: Rangu Jatt(Punjabi) |
5. | 1971: Mera Dil Meri Aarzoo(Urdu) |
1. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
2. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
3. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
4. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
5. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
6. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Khalid |
7. | Urdu filmHamrahifrom Friday, 6 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Haidar |
8. | Urdu filmBhai Janfrom Friday, 20 May 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Arsalan (Mohammad Ali) |
9. | Punjabi filmVeryamfrom Friday, 16 May 1969Singer(s): Masood Rana, Munir Hussain, Music: Ghulam Hussain, Shabbir, Poet: , Actor(s): Sudhir, Habib |
10. | Punjabi filmVeryamfrom Friday, 16 May 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Ghulam Hussain, Shabbir, Poet: , Actor(s): (Playback - Fazal Haq) |
11. | Punjabi filmVeryamfrom Friday, 16 May 1969Singer(s): Sain Akhtar, Munir Hussain, Masood Rana & Co., Music: Ghulam Hussain, Shabbir, Poet: , Actor(s): (Playback - Title song) |
12. | Punjabi filmRangu Jattfrom Friday, 25 September 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): (Playback, Sudhir) |
13. | Urdu filmMera Dil Meri Aarzoofrom Sunday, 7 February 1971Singer(s): Masood Rana, Music: M. Javed, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan |
14. | Urdu filmMera Dil Meri Aarzoofrom Sunday, 7 February 1971Singer(s): Masood Rana, Music: M. Javed, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین