پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگل 14 اگست 1973
1973ء کا مستقل آئین
ذوالفقار علی بھٹوؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ایک منتشر قوم کو ایک متفقہ آئین دینا تھا..!
10 اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی نے پاکستان کے پہلے متفقہ دستور کی منظوری دی تھی جو 14 اگست 1973ء کو نافذ العمل ہوا تھا۔
ایک پارلیمانی آئین
مبینہ طور پر بھٹو صاحب کی خواہش اور 1956ء اور 1962ء کے سابقہ دونوں دستوروں اور 1972ء کے عارضی دستور کے برعکس ، 1973ء کا یہ دستور صدارتی کے بجائے پارلیمانی طرز کا تھا۔ اس آئین کے مطابق اختیارات صدر کے بجائے وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں جسے قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت منتخب یا معطل کرتی ہے۔
1956ء کا پہلا آئین
اس سے قبل پاکستان کا پہلا دستور قیام پاکستان کے نو سال بعد 23 مارچ 1956ء کو نافذ ہوا تھا جو ون یونٹ کی بنیاد پر سول اور ملٹری بیوروکریسی کا بنایا ہوا ایک متنازعہ صدارتی آئین تھا اور جس کا مشرقی پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اس آئین میں پہلی بار پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ" قرار دیا گیا تھا جو 1962ء کے آئین میں صرف "جمہوریہ" رہ گیا تھا لیکن 1973ء کے آئین میں ایک بار پھر "اسلامی جمہوریہ" بن گیا تھا۔
1962ء کا دوسرا آئین
پاکستان کا دوسرا آئین بھی صدارتی طرز کا تھا جو 8 جون 1962ء کو نافذ ہوا تھا۔ وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے اس شخصی دستور کو "لائل پور کا گھنٹہ گھر" بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اس دستور کی تمام راہیں ، صدر صاحب کی ذات سے نکلتی تھیں۔ اس پر معروف شاعر حبیب جالب کا یہ مصرعہ تاریخی اہمیت اختیار کرگیا تھا "ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو ، میں نہیں مانتا۔۔" یہ آئین بھی ایک اور فوجی آمر جنرل یحییٰ کے اقتدار پر شب خون مارنے سے ختم ہوگیا تھا اور ملک بھر میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا گیا تھا۔
1972ء کا تیسرا آئین
1972ء میں پاکستان کا عبوری آئین محض پانچ ماہ کی قلیل مدت میں بنا تھا جس سے مارشل لاء کی لعنت کو ختم کیا گیا تھا۔ یہ بھی صدارتی طرز کا آئین کا تھا۔
آئین شکن مر کھپ گئے!
1973ء میں بننے والے پاکستان کے اس تیسرے (یا چوتھے) آئین کا انجام بھی مارشل لاء ہی تھا جب جنرل ضیاع مردود نے ایک متفقہ آئین کو توڑا اور بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اس بدقسمت ملک پر قابض ہوگیا تھا۔ یہ آئین البتہ بڑا سخت جان ثابت ہوا ہے کیونکہ اس نے دو آمروں اور بیشتر عرصہ نیم آمرانہ نظام کو برداشت کیا ہے۔ اسے توڑنے والے مرکھپ گئے لیکن منتخب عوامی نمائندوں کا بنایا ہوا یہ آئین آج بھی زندہ و پائندہ ہے اور جمہوریت دشمن قوتوں کے سینوں پر مسلسل مونگ دل رہا ہے۔
ایک متفقہ آئین لیکن ۔۔
پاکستان کے 1973ء کے مستقل اور متفقہ آئین کی منظوری کے خلاف کوئی وؤٹ نہیں آیا تھا لیکن تین ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے وؤٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ ان میں سب سے اہم شخصیت میاں محمود علی قصوری تھے جو بھٹو حکومت کے 1972ء کے عبوری آئین کے خالق تھے۔ ان کا اصل تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا اور سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے۔ شاید آئین سازی میں مذہبی حلقوں کے بے جا مطالبات کو تسلیم کرنے پر بھٹو صاحب سے ناراض تھے ، اس لیے دستور سازی کے دوران ایک بار استعفیٰ دے چکے تھے لیکن کام مکمل ہونے تک بھٹو صاحب نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا تھا۔
دوسرے بریلوی سیاسی جماعت ، جمیعت العلمائے پاکستان کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے جبکہ تیسرا شخص احمدرضا قصوری تھا جسے 1971ء ہی میں پیپلز پارٹی سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ بھٹو کے بغض میں اس نے وؤٹ نہیں دیا تھا لیکن خود کو آئین کا گاڈفادر کہتا پھرتا ہے۔ اسی شخص کے باپ کے قتل کے کیس میں 1979ء میں بھٹو صاحب کو بے گناہ پھانسی دی گئی تھی۔
Constitution of Pakistan
(Daily Imrooz Lahore, 11 April 1973)
Constitution of Pakistan
(Daily Jang Karchi 11 April 1973)
Constitution of Pakistan
Tuesday, 14 August 1973
The Constitution of Pakistan was approved by the Parliament on 10 April and ratified on 14 August 1973..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
06-11-1964: فاطمہ جناح کی انتخابی مہم
13-04-1949: پاکستان کا پاسپورٹ
01-03-1968: جسٹس ایس اے رحمان