پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 19 فروری 1949
پاکستان مسلم لیگ
قیام پاکستان کے بعد 14 دسمبر 1947ء کو کراچی میں گورنرجنرل قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کی صدارت میں ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ اور "پاکستان مسلم لیگ" کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد 19 فروری 1949ء سے پہلے نہ ہوسکا۔
پاکستان مسلم لیگ نے چوہدری خلیق الزمان کو پہلا بلا مقابلہ صدر منتخب کیا تھا لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی یعنی 13 اگست 1950ء کو چوہدری صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اپنے پہلے صدر کی رخصتی پر مسلم لیگی حلقوں نے "یوم نجات" منایا تھا۔۔!
مسلم لیگ کا "یوم نجات"
یہ "یوم نجات" اصل میں مسلم لیگ میں پہلا شب خون تھا جب اپنے ہی پارٹی صدر کا تختہ الٹا گیا تھا۔ پارٹی کے آئین کے تحت گورنر جنرل یا وزیراعظم کے عہدوں پر کوئی پارٹی صدر نامزد نہیں ہوسکتا تھا لیکن قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان ، جو محلاتی سازشوں کے ماہر اور اختیارت کی ہوس میں مبتلا تھے ، انھوں نے آئین میں ترمیم کی اور پہلے صدر کا تختہ الٹ کر مسلم لیگ کے بلا مقابلہ صدر "منتخب" ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد خواجہ ناظم الدین بھی بلا مقابلہ صدر بنے لیکن پہلے کٹھ پتلی وزیراعظم محمدعلی بوگرا کو صدر مسلم لیگ بننے کے لیے مدمقابل کو ہرانا پڑا تھا۔
مسلم لیگ کی شکست و ریخت
پاکستان مسلم لیگ کے آخری متفقہ صدر سردار عبدالرب نشتر تھے جنھیں 29 جنوری 1956ء کو اس عہدہ پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگ کے بطن سے "عوامی لیگ" اور "ری پبلکن پارٹی" وجود میں آ چکی تھیں اور مسلم لیگ ، 1954ء کے مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں بری طرح سے شکست کھانے کے بعد اپنا وجود کھو چکی تھی۔ 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سیاسی پارٹیاں ویسے بھی ممنوع ہوگئی تھیں۔
جب مسلم لیگ ہائی جیک ہوئی
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کرنے والے بھی پہلے فوجی آمر، جنرل ایوب خان ہی تھے جنھوں نے حکومت پر قبضہ کرتے ہی تمام سیاسی پارٹیوں اور سرگرمیوں کو معطل کر دیا تھا۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات کے لیے جنرل ایوب خان نے مسلم لیگ کو ہائی جیک کیا تھا اور "کنونشن مسلم لیگ" کے نام سے ایک سرکاری پارٹی بنائی جس کے خود سربراہ اور ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ ، جنرل سیکرٹری نامزد ہوئے تھے۔
ان صدارتی انتخابات میں مخالف پارٹی، محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں "کونسل مسلم لیگ" تھی لیکن 1970ء کے انتخابات میں یہ دونوں مسلم لیگیں بری طرح سے ہار گئی تھیں اور ان کے مقابلے میں "مسلم لیگ ، قیوم گروپ" تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی لیکن بھٹو صاحب کی مفاہمت کی سیاست نے ان تینوں پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کا حلیف بنا کر ختم کر دیا تھا۔
مسلم لیگ کی حیات نو
پاکستان مسلم لیگ
1977ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ، نو جماعتوں کے اتحاد کا ایک حصہ تھی اور اس کی حیثیت ایک علاقائی جماعت کی سی تھی جس کے سربراہ سندھ کے ایک روحانی پیشوا اور اسٹبلشمنٹ کے مہرے پیر صاحب پگارا تھے۔
جنرل ضیاع مردود نے پیپلز پارٹی کے خوف سے 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے اور جو ہم خیال ممبران "منتخب" ہوئے تھے ، انھیں جبراً پاکستان مسلم لیگ کی صورت میں دوبارہ منظم کیا گیا تھا۔ اصل میں یہی موجودہ مسلم لیگ کا احیاء تھا جو ایک اور فوجی آمر کا کارنامہ تھا۔ آج اصل مسلم لیگ صرف "نواز لیگ" ہے ، باقی سب ہیر پھیر ہے۔
2002ء کے انتخابات میں ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا زور توڑنے کے لیے مسلم لیگ کی "قاف لیگ" کو کامیاب کروا کر حکومت میں شامل کیا لیکن اس کے جاتے ہی اس غبارے میں سے بھی ہوا نکل گئی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد اس پارٹی کے کئی ایک حصے ہوئے جن میں عوامی لیگ ، جناح مسلم لیگ ، کنونشن مسلم لیگ ، کونسل مسلم لیگ ، قیوم لیگ ، نون لیگ ، قاف لیگ ، ضیاع لیگ ، فنکشنل لیگ ، جونیجو لیگ ، ہم خیال گروپ، پگارا لیگ، عوامی مسلم لیگ ، آل پاکستان مسلم لیگ وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
Pakistan Muslim League
Saturday, 19 February 1949
All India Muslim League was re-named to Pakistan Muslim Leauge and its first President was Chodhary Khaliquzzaman..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
16-12-1957: ملک فیروز خان نون
16-10-2020: نواز شریف کی تاریخی تقریر
13-01-1932: سکھر بیراج