پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگل 5 جون 1979
اخبارات پر سنسر شپ
ایک سنسر شدہ اخبار
جنرل ضیاع مردود کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں پہلے مسلسل آٹھ سال تک پاکستان کی تاریخ کا بدترین مارشل لاء نافذ رہا۔ اس دوران اخبارات و جرائد پر سنسرشپ کی پابندیاں بڑی سخت تھیں۔ سرکاری میڈیا، ریڈیو اور ٹی وی، جی حضوری کرنے والے درباری ہوتے تھے۔ آمرمطلق کی خواہش کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا اور وہی کچھ نشر یا شائع ہوتا تھا جو جابر اور قابض حکمران مناسب سمجھتے تھے۔
بھٹو کے خلاف میڈیا کو اس کی پھانسی تک بھرپور انداز میں استعمال کیا لیکن اس کے بعد مجال ہے کہ کوئی اخبار یا رسالہ بھٹو کا نام بھی لے، پریس میں جانے سے پہلے ایک فوجی افسر ایسی خبریں اچک لیتا تھا اور قارئین کو اخبار میں وہ جگہ خالی نظر آتی تھی۔ یہ سلوک سبھی اخبارات کے ساتھ ہوتا تھا۔بھٹو کے حامی اخبارات
بھٹو کے حامی اخبارات کا تو جینا ہی محال ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار، روزنامہ "مساوات" لاہور بند کردیا گیا تھا۔ یہی سلوک اس اخبار کے لائل پور ایڈیشن سے بھی ہوا۔ ہمیں کھاریاں میں کراچی کا "مساوات" ایڈیشن، سبزی کے کریٹوں میں "سمگل" ہو کر ملتا تھا اور جب ایک اخبار بمشکل ایک ڈیڑھ روپے کا ہوتا تھا تو اس ممنوعہ اخبار کی قیمت پچاس روپے تک ادا کرنے والے لوگ ہوتے تھے۔
"مساوات" کراچی بھی بند ہوا تو لاہور سے نذیر ناجی نے روزنامہ "حیات" شائع کیا جو "مساوات" کی طرح بڑا مقبول ہوا۔ لیکن جب کوثرنیازی نے جابر حاکم سے وفاداری دکھائی تو ناجی صاحب نے بھی پینترا بدلا اور دیکھتے ہی دیکھتے "حیات"، بعد از حیات بن گیا۔ اس کے بعد بھٹو کے حامیوں کے لیے راولپنڈی سے ایک روزنامہ "تعمیر" تھوڑا بہت حوصلہ رہا لیکن یہ بھی سختیاں برداشت نہ کر سکا۔ کراچی میں غالباً روزنامہ "صداقت" بھی بھٹو کا حامی اخبار تھا جبکہ ایک ہفت روزہ "نصرت" بھی تھا۔ پاکستان میں عام طور پر اخبارات کے صوبائی ایڈیشن چلتے تھے، اس لیے دیگر صوبوں کے اخبارات کے بارے میں معلومات کم ہی ہوتی تھیں۔دیگر قومی اخبارات
1970 کی دھائی میں پاکستان کے مقبول ترین قومی اخبارات میں روزنامہ "جنگ"، اپنی غیرجانبداری کی وجہ سے معتبر سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت تک پنجاب میں راولپنڈی ایڈیشن تقسیم ہوتا تھا جبکہ لاہور میں کراچی کا "جنگ"، پانچ پیسے زائد قیمت پر دستیاب ہوتا تھا کیونکہ وہ روزانہ ہوائی جہاز سے آتا تھا۔ لاہور سے "جنگ" کا آغاز 1981ء میں ہوا تھا۔
لاہور کے اخبارات میں سے روزنامہ "مشرق" سب سے بڑا اور مقبول ترین اخبار ہوتا تھا۔ گو یہ اخبار روزنامہ "امروز" کی طرح سے سرکاری اخبار تھا لیکن یہ دونوں اخبارات اپنے رنگین سٹائل، دلکش لے آؤٹ اور عمدہ خطاطی کی وجہ سے آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنتے تھے اور مجھے خاص طور پر بڑے پسند تھے۔ ان کے علاوہ "مساوات" کا ذکر ہو چکا ہے۔ پاکستان کے قدیم اخبار، روزنامہ "نوائے وقت" کو اصل مقبولیت 1977ء کے بعد ملی جب وہ بھٹو مخالف اپوزیشن کا ترجمان اخبار بنا۔ اس اخبار کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا "بہترین جہاد، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔" دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ضیاع مردود کے دور میں "جابر سلطان" ، "جائز سلطان" بن گیا تھا یا بنا دیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پنجاب میں The Pakistan Times اور کراچی میں Dawn مقبول ترین انگلش اخبارات رہے ہیں۔Sensorship on Bhutto's news
Tuesday, 5 June 1979
Sensorship by dictator Zia on Bhutto's news
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
23-11-2002: میر ظفراللہ خان جمالی
05-05-2005: ڈکٹیٹروں کے لئے آئینہ
20-08-1971: راشد منہاس شہید