پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 10 دسمبر 1947
اردو بنگالی تنازعہ
اردو بنگالی تنازعہ
14 اگست 1947ء کو پاکستان کے قیام کے صرف تین ماہ بعد ہی آشیاں میں پہلی چنگاری بھڑک اٹھی تھی جب 10 دسمبر 1947ء کو زبان کے مسئلہ پر ڈھاکہ کے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے صوبائی سیکرٹریٹ کے سامنے بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔
یہ لسانی فسادات کا آغاز تھا جس نے پاکستان کی وحدت میں پہلی دراڑ ڈال دی تھی۔ قیام پاکستان کے حق میں 97 فیصد وؤٹ دینے والے بنگالی اپنی زبان اور قوم پرستی کے متعلق انتہائی حساس تھے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے جب کہ پاکستان کے ارباب اختیار بنگالی عوام کے مزاج کو سمجھنے میں بری طرح سے ناکام رہے تھے اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بدستور نظریہ پاکستان کے سراب میں گم تھے۔
پاکستان کی اکلوتی قومی زبان اردو ؟
21مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں بطور گورنر جنرل اپنے اکلوتے دورہ مشرقی پاکستان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے یہ واضح بیان دیا تھا کہ
-
"پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔۔"
یہی بیان جب انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے دہرایا تھا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا اور جن نوجوان طالب علموں نے یہ ہنگامہ کیا تھا ان میں بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان کانام نامی بھی تھا۔
اس سے قبل مرکزی حکومت 25فروری 1948ء کو اردو ہی کو اکلوتی قومی زبان بنانے کا اعلان کر چکی تھی اور وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے بقول
-
"صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو متحدرکھ سکتی ہے۔۔"
23 مارچ 1940ء کے دن قرار داد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قائد اعظم ؒ کے اس متنازعہ بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ
-
"گورنر جنرل کا یہ کام نہیں کہ وہ بتائے کہ ملک کی سرکاری زبان کونسی ہو گی، یہ فیصلہ عوام کریں گے۔۔"
قائداعظمؒ کی آمد پر یوم احتجاج
یاد رہے کہ قائد اعظم ؒ کی ڈھاکہ آمد اور بنگالی کو قومی زبان نہ بنانے پربطور احتجاج 11مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان میں عام ہڑتال کی گئی تھی لیکن قائد اعظم ؒ نے 28مارچ 1948ء کو ایک بار پھر ریڈیو پر یہی بیان دہرایا تھا کہ "اردو ہی پاکستان کی واحد قومی زبان ہو گی۔۔" اس سے قبل 24مارچ 1948ء کوقائد اعظم ؒ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے بیان کی یہ وضاحت بھی کر چکے تھے کہ
-
"صوبائی سطح پر مقامی زبان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن قومی سطح پر صرف اردو ہی رابطہ زبان ہو سکتی ہے۔۔!"
لیکن ان کی یہ مناسب وضاحت بھی بنگالیوں کو مطمئن نہ کر سکی تھی اور بنگالی زبان کی تحریک زور و شور سے جاری تھی۔
لسانی فسادات
جنوری 1952ء میں اس وقت کے بنگالی نژاد وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے اس اصرار پر کہ
-
"پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔۔"
جلتی پرتیل ثابت ہوا اور بطور احتجاج ڈھاکہ میں 21 فروری 1952ء کو عام ہڑتال کی گئی تھی جس کے دوران مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد طلباء جا ں بحق ہو گئے تھے۔ بنگالی زبان کی تحریک کو شہید مل گئے تھے لیکن مغربی پاکستان میں انہیں "شر پسند ، سماج دشمن عناصر اور غدار" کہا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا صفایا
اب بنگالیوں کے ہیرو ، مغربی پاکستان کے غدار تھے اوریہ محاذ آرائی شدیدتر ہو گئی تھی جس کا عملی مظاہرہ یہ دیکھنے میں آیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ سے بغاوت کر نے والی عوامی لیگ نے اپنا نام بطور احتجاج عوامی مسلم لیگ سے صرف عوامی لیگ کر دیا تھا اور قرار داد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے اپنی الگ سیاسی پارٹی مزدور کسان پارٹی بناڈالی تھی جن کے اتحاد نے 1954ء کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کے نام سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی تھی کہ مشرقی پاکستان سے پاکستان کی خالق حکمران جماعت مسلم لیگ کا صفایا ہو گیا تھا جس میں پاکستان کے خیر خواہ بنگالی لیڈر نور الامین بھی انتخابات میں بری طرح سے ہار گئے تھے۔
مغربی پاکستان کے عاقبت نا اندیش پالیسی سازوں کے لئے یہ بہت بڑی وارننگ تھی لیکن نوشتہ دیوار پڑھنے کی صلاحیت کسی میں نہیں تھی۔
اردو بنگالی تنازعہ
بنگالی زبان کی اس تحریک کو اس وقت فیصلہ کن کامیابی ملی تھی جب 19 اپریل 1954ء کوایک اور بنگالی نژاد وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرا کی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنگالی بھی پاکستان کی دوسری قومی زبان ہو گی۔
اس فیصلہ پر بطور احتجاج کراچی میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کی قیادت میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے بہت بڑا مظاہر ہ کیا تھا جو ایک انتہائی غیر دانشمندانہ فعل تھا۔ کابینہ کے اس فیصلہ کی حمایت کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا تھا اور کراچی کے اردو میڈیا نے طوفان بدتمیزی کی حد کر دی تھی۔ نامور شا عر رئیس امروہوی نے اپنے روزانہ قطعہ میں یہ مصرعہ لکھا تھا:
……اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے……!
لیکن اس تمام تر مخالفت کے باوجود 7 مئی 1954ء کو بنگالی کو دوسری قومی زبان کا درجہ مل گیا تھا۔۔!
مادری زبان کا عالمی دن
21 فروری 1952ء کے دن بنگالی زبان کی تحریک کے دوران ہلاک ہونے والے شہداء کی یاد میں 21 فروری 1963ء کو ڈھاکہ میں شہید مینار کا افتتاح کیا گیا تھا اور بنگلہ دیشی حکومت کی کوششوں سے نومبر1999ء میں یونیسکو نے اس دن کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
مندرجہ بالا تاریخی حقائق کو ایک غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھیں تو بظاہر بنگالی سوچ غلط نہیں تھی۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ ہر قوم اور قبیلے کو اپنی شناخت، اپنی مادری زبان اوراپنے تہذیب و تمدن کی حفاظت کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسری قوم یا افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ انہیں ان بنیادی حقوق سے محروم کرے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ ایک مشترکہ گھر میں رہتے ہوں تو آپ کو دوسرے مکینوں کا خیال بھی کرنا چاہئے۔ بنگالی قیادت اس وصف سے محروم تھی اور انتہائی خود غرضی اور قابل نفرت قوم پرستی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ پاکستان میں صرف بنگالی اور اردو زبانیں ہی نہیں تھیں بلکہ …… پنجابی ، سندھی ، پشتو ، بلوچی وغیرہ …… جیسی بڑی …… مادری زبانیں …… بھی تھیں ، انھیں بھی قومی زبانیں بننے کا وہی حق حاصل تھا جو بنگالی جیسی علاقائی زبان کو حاصل تھا لیکن بنگالی رہنماؤں کو دیگر پاکستانیوں یا ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اردو زبان ، ایک مشترکہ ورثہ
جس اردو زبان کوبنگالیوں نے وجہ نزاع بنا دیا تھا ، وہ غیر متنازعہ ہونا چاہئے تھی کیونکہ اردو ، مغربی پاکستان کے کسی بھی خطہ کی زبان نہیں تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے مشترکہ ورثہ کے طور پرقومی زبان کی صورت میں اپنائی گئی تھی۔
اردو ہی دنیا کی واحد اسلامی زبان تھی جو ہندوستان کے ہندی بولنے والے علاقوں میں ایک الگ زبان کے طور پر اس وقت وجود میں آئی تھی جب ان علاقوں میں مسلمانوں کی آمد اور مقامی افراد کے قبو لِ اسلام سے ہندی زبان میں اسلامی ، عربی اور فارسی الفاظ کی آمیزش ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اردو کی بنیاد تو ہندی ہی رہی اور یہ پڑوسی زبانوں پنجابی اور سندھی کے لئے اجنبی بھی نہ تھی لیکن بنگالی زبان ، اردو سے بالکل مختلف تھی۔
بدقسمتی سے جب اردو کے حامی زبان کے اس نازک مسئلہ پر خود ایک فریق بن گئے تھے تو مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو گیا تھا اور بنگالی عوام ، اردو کی اجارہ داری کو نو آبادیاتی نظام کا نیا شاخسانہ سمجھ رہے تھے۔مشرقی پاکستان میں بڑی تعداد میں اردو بولنے والے بہاری مہاجرین کی آمد بھی بنگالیوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی اور وہ بیچارے غریب الوطن آج بھی بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان کی قومی زبان کون سی ہونی چاہئے تھی؟
آزادی سے قبل جولائی 1947ء ہی میں ایک بنگالی فلاسفر اور ماہر تعلیم نے بڑے دلائل کے ساتھ یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کی قومی زبان بنگالی ہونی چاہئے کیونکہ کسی بھی ملک کی اکثریتی زبان ہی اس کی قومی زبان ہو تی ہے جیسا کہ بھارت میں ہندی سب سے بڑی زبان تھی لیکن اردو پاکستان کے کسی بھی خطہ میں بولی جانے زبان نہیں تھی۔
بد قسمتی سے یہ احمقانہ بنگالی نقطہ نظر بھی اردو نقطہ نظر سے مختلف نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان جیسے کثیرالسانی مملکت کے لئے قابل عمل حل تھا۔
زبان کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہ تھا کہ جس کا کوئی حل نہ ہوتا۔ ایک جمہوری سوچ پیدا ہو جاتی تواپنے پڑوسی ملک بھار ت کی طرح ایک کثیر السانی ملک باآسانی چلایا جا سکتا تھا۔ بھارت میں انگلش اور ہندی سرکاری زبانیں ہیں لیکن ان کے علاوہ 22 دیگر بڑی زبانوں کو بھی سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے اور ہر صوبے کی اپنی اپنی زبان ہے۔
اب ظاہر ہے کہ رابطہ زبان تو ایک ہی ہو سکتی ہے اور پاکستان میں عام افراد کے لئے اردو ہی ہو سکتی تھی جس سے بر صغیر کے مسلمانوں کو جذباتی لگاؤ رہا ہے۔ بنگالیوں کو بھی باقی پاکستان سے رابطہ کے لئے بنگالی کے علاوہ کوئی دوسری زبان درکار تھی اور وہ صرف اردو ہی ہو سکتی تھی کیونکہ باقی ملک بنگالی تو نہیں بو ل سکتا تھا اور نہ اس کا کوئی جواز بنتا تھا۔
بنگالیوں کی منفی سوچ
بنگالیوں کی اسی منفی سوچ نے انہیں کنویں کا مینڈک بنا کر رکھ دیا ہے جو اپنی ہی دنیا میں مست ہیں۔ گو بنگالی زبان ، دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے لیکن بہر حال ایک علاقائی ، غیر ترقی یافتہ اور غیر اہم زبان ہے جسے بنگال کے باہر کوئی نہیں جانتا۔ نہ ہی نام نہاد آزادی کے بعد بنگالیوں نے کوئی ایسا تیر مارا ہے کہ وہ پاکستان یا باقی دنیا کے لئے قابل رشک ہوں بلکہ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کے مصداق وہ اپنی "کھڈ کے چوہے" بن کر رہ گئے ہیں۔
یہی پہلا روگ تھاجس نے پاکستان کے وجود کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نتیجہ 1971ء میں بنگلہ دیش کے ناجائز وجود کی صورت میں سامنے آیا تھا۔۔!
Urdu Bengali Conflict
Wednesday, 10 December 1947
An Urdu article on the conflict about Urdu-Bengali-Languages in ex-East Pakistan..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
18-09-1966: جنرل یحییٰ خان
29-05-1988: جونیجو حکومت کی برطرفی
15-08-1947: ریڈیو پاکستان