پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 27 جون 1974
بھٹو کا دورہ بنگلہ دیش
بھٹؤ اور مجیب
27 جون 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جہاں شیخ مجیب الرحمان نے ان کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔۔!
مجیب الرحمان ، بھٹو کے شکرگزار تھے جنھوں نے انھیں موت کی کوٹھڑی سے نکال کر آزاد کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1971ء کے سیاسی بحران میں معاملات اگر بھٹو اور مجیب کے مابین ہوتے تو حل بھی ہوجاتے لیکن فساد کی اصل جڑ جنرل یحییٰ خان تھا جو جانے کے لیے نہیں آیا تھا۔
پروپیگنڈہ یہ کیا گیا کہ بھٹو نے مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا۔ ایسے لوگ جو اپنے دماغ سے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، اس بکواس پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ کوئی ایک بھی تاریخی حوالہ نہیں دیا جا سکتا جس میں یہ ثابت کیا جا سکے کہ بھٹو نے مجیب کی اکثریت کو کبھی چیلنج کیا تھا۔۔!
زیرنظر روزنامہ جنگ کا ایک تراشہ ملاحظہ فرمائیں جب بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ وزیراعظم بنے گا یا اس کی پارٹی حکومت بنائے گی۔ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔۔!!!
بھٹو نے کبھی مجیب کی اکثریت کو چیلنج نہیں کیا تھا!
بھٹو اور مجیب کے اختلافات کیا تھے؟
بھٹو اور مجیب کے درمیان اختلاف صرف آئین سازی پر تھے۔ مجیب اپنی مرضی کا آئین بنانا چاہتا تھا جبکہ بھٹو سبھی صوبوں کے لیے قابل قبول دستور کی بات کر رہا تھا۔ دوسری طرف پاکستان پر مسلط غاصب اور جابر حکمران جنرل یحییٰ خان ، اپنی مرضی کا آئین بنوانا چاہتا تھا جس میں اسے اگلے پانچ سال کے لیے صدر منتخب کیا جائے۔ اکثریتی پارٹی کا لیڈر مجیب الرحمان ، جہاں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا وہاں یہ غنڈہ گردی اور بدمعاشی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے غدار قرار پایا ، سب سے بڑی پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور طے شدہ منصوبے کے تحت بنگالیوں کی نسل کشی کی گئی جس کا نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
1970ء کے انتخابات کے نتائج
1970ء کے پہلے عام انتخابات میں مقابلہ بائیں بازو کی سوشلسٹ جماعتوں (یعنی عوامی لیگ ، پیپلز پارٹی ، نیشنل عوامی پارٹی اور قیوم لیگ) اور دائیں بازو کی مذہبی اور نظریاتی جماعتوں (یعنی جماعت اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام ، جمیعت علمائے پاکستان ، کونسل مسلم لیگ ، کنونشن مسلم لیگ اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی) کے درمیان ہوا تھا۔ ان انتخابات میں 60 فیصد وؤٹ سوشلسٹ جماعتوں کو ملے تھے۔
بدقسمتی سے پہلے چوبیس برسوں میں پاکستان میں جو حالات پیدا کیے گئے ، ان کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی جماعت ملک گیر مقبولیت نہیں رکھتی تھی۔ عوامی لیگ ، صرف مشرقی پاکستان تک محدود تھی لیکن 55 فیصد آبادی کی وجہ سے اس کی سیٹیں دیگر چاروں صوبوں کی مجموعی سیٹوں سے بھی زیادہ تھیں۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب اور سندھ میں برتری حاصل ہوئی تھی جبکہ صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو اکثریت ملی تھی۔ ایسے میں عوامی لیگ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی اور اگر روایتی جمہوری ماحول ہوتا تو ان تینوں ہم خیال پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنتی لیکن مسلسل محرومیوں اور ناانصافیوں نے اکثریتی آبادی بنگالیوں کو پاکستان سے اتنا متنفر کردیا تھا کہ وہ علیحدگی اور مکمل خودمختاری کے سوا کسی دوسرے حل پر راضی نہیں تھے۔
اگر بھٹو کے پاس اختیارات ہوتے۔۔!
اس وقت معاملات اگر بھٹو جیسے زیرک سیاستدان کے ہاتھوں میں ہوتے تو سانحہ مشرقی پاکستان کبھی نہ ہوتا۔ جو بھٹو ، اندرا گاندھی جیسی مہان سیاستدان کو ناک چنے چبوا سکتا تھا ، اس کے لیے مجیب کس باغ کی مولی تھا۔ بھٹو کی عظمت کا اعتراف تو امریکی صدر کینیڈی بھی کرچکے تھے لیکن جب سیاست و حکمت کی جگہ طاقت و وحشت لے لے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو 1971ء میں ہوا تھا۔
Constitution conflict in 1971
(Daily Mashriq Lahore 1970)
Bhutto in Bangladesh
Thursday, 27 June 1974
Prime Minister of Paksitan, Zulfikar Ali Bhutto visited Bangladesh on June 27, 1974..
Bhutto in Bangladesh (video)
Credit: AP Archive
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
17-12-1970: 1970ء کے صوبائی انتخابات
01-07-1970: صوبہ بلوچستان
01-05-1960: پاکستان میں امریکی فوجی اڈے