پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
سوموار 29 دسمبر 1930
نظریہ پاکستان
علامہ اقبالؒ
29 دسمبر 1930ء کو الہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے اپنا مشہور زمانہ "نظریہ پاکستان" پیش کیا تھا جس میں انہوں نے تجویز کیا تھا کہ
-
"میری خواہش ہے کہ پنجاب ، سندھ ، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میں مدغم کر دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتاہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر حکومت خود اختیاری اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کار مسلمانوں کا مقدر ہے۔۔"
نظریہ پاکستان کے بارے میں ابہام
ابتداء میں نظریہ پاکستان کے بارے میں خاصا ابہام رہا۔ علامہ اقبالؒ اور 'پاکستان' نام کے خالق چوہدری رحمت علی نے بھی جس آزاد اسلامی مملکت کا خیال پیش کیا تھا اس میں بنگال شامل نہیں تھا حالانکہ وہ بھی ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور میں بھی مسلمانوں کے لیے ہندوستانی حدود میں رہتے ہوئے آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی لیکن 9 اپریل 1946ء کی قرارداد دہلی میں پہلی بار "نظریہ پاکستان" پر ایک واضح پالیسی اختیار کی گئی تھی اور "دو قومی نظریہ" کے علاوہ ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ہندوستانی آئین کے ماتحت نہ ہو۔
نظریہ پاکستان کیا تھا؟
قرار دہلی 1946ء کے مطابق نظریہ پاکستان کی یہ تشریح کی گئی تھی:
-
ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں کہ جو ان کی زندگی کے ہر شعبہ بشمول تعلیم ، سماج ، معیشت اور سیاست پر حاوی ہے اور جس دین کا ضابطہ روحانی عقائد ، ایمان اور رسم و رواج تک محدود نہیں ہے۔ یہ دین ، اس ہندو دھرم اور فلاسفی سے متصادم ہے جس نے ہزاروں سالوں سے ذات پات کے تنگ نظر نظام کو قائم کیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان کے کروڑوں انسان پس ماندہ ہو کر اچھوت بن کررہ گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان غیر فطری دیواریں حائل ہوگئی ہیں۔ اس ملک کے باشندوں کی بڑی تعداد پر سماجی اور معاشی عدم مساوات کے توہمات مسلط ہوگئے ہیں جس سے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ معاشرتی اور معاشی حیثیت سے ایسی غلامی میں مبتلا ہو جائیں گے جس سے نجات ممکن نہیں ہوگی۔ ہندوؤں کا ذات پات کا نظام براہِ راست قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔
تاریخی پس منظر، روایات ، ثقافت ، سماجی اور معاشی نظاموں کے اختلاف نے ایک ہندوستانی قوم کی تشکیل کو ناممکن بنا دیا ہے۔ اس کے لیے مشترک تمنائیں اور تصورات ہی موجود نہیں ہیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔
ہندوستان میں برطانوی پالیسی کے مطابق مغربی جمہوریت کی روشنی میں اکثریت کے اصول پر مبنی سیاسی ادارے قائم کیے گئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک قوم کی اکثریت کی رائے دوسری قوم پر اس کی مخالفت کے باوجود مسلط کردی جائے گی۔ جیسا کہ ہندو اکثریت رکھنے والے صوبوں میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے آئین کے تحت کانگرسی حکومتوں کے ڈھائی سالہ دور سے اچھی طرح ظاہر ہوگیا ہے۔ جب مسلمانوں پر ناقابل بیان مصائب ڈھائے گئے اور جس کے نتیجے میں انھیں یقین ہوگیا کہ ایکٹ اور گورنروں کے ہدایت ناموں میں نام نہاد تحفظات فضول اور بے اثر ہیں۔ متحدہ وفاق میں مسلم اکثریت والے صوبوں کے مسلمانوں کا انجام بھی بہتر نہیں ہوگا اور مرکز میں ہندوؤں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق اور مفاد ات کا تحفظ نہیں ہوسکے گا۔
مسلمانوں کو یقین کامل ہے کہ مسلم ہند کو ہندوؤں کے تسلط سے بچانے کے لیے اور انہیں اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ضرورت ہے ایک آزاد اور بااختیار ریاست قائم کی جائے۔
پاکستان اور ہندوستان کی اقلیتوں کو اس طریقہ پر تحفظات دئیے جائیں جو آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940ء کو لاہور کی قرارداد میں پیش کیے تھے۔ مرکزی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کے تعاون اور اس کی شرکت کے لیے یہ شرط لازم ہے کہ مسلم لیگ کا پاکستان کا مطالبہ منظور کیا جائے اور بلا تاخیر نفاذ کی ذمے داری لی جائے۔
23 مارچ 1940ء کی "قرارداد لاہور" یا "قرارداد پاکستان" میں مسلم لیگ کے رہنما پاکستان کے بارے میں واضح اور یکسو نہیں تھے اس لیے "قرارداد لاہور" میں ایک ریاست کی بجائے ’’ریاستوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ 1946ء کی متفقہ قرارداد میں پہلی بار ایک الگ ریاست پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرارداد دہلی ، برصغیر کے مسلمانوں سے دھوکہ؟
ناقدین کی رائے میں قرارداد دہلی ، برصغیر کے مسلمانوں کے مینڈیٹ کے ساتھ دھوکہ تھا کیونکہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان کی حدود میں رہتے ہوئے آزاد اور خودمختار مسلم ریاستوں کو وؤٹ دیا تھا نہ کہ ایک الگ تھلگ اور بھارت دشمن پاکستان کے لیے۔ ان کی رائے میں بھارت کے مسلمان ، "نظریہ پاکستان" کو وؤٹ دینے کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے بھارتی مسلمان ، قائداعظمؒ کو اچھے نام سے یاد نہیں کرتے اور انھیں تحریک آزادی کے رہنماؤں میں شامل نہیں کرتے۔
اس کنونشن میں متحدہ ہندوستان کی 11 صوبائی اسمبلیوں کے 56 مسلم اراکین ، مرکزی اسمبلی کے 10 اراکین اور کونسل آف سٹیٹ کے 13ممبروں نے نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا۔
The Two Nation Theory
Monday, 29 December 1930
Allama Iqbal's famous statement on the Two Nation Theory on December 29, 1930 which was the foundation of creation of Pakistan..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
03-11-2007: جسٹس عبد الحمید ڈوگر
04-04-1965: رن آف کچھ کا تنازعہ
12-10-1999: مارشل لاء 1999ء