لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں 22 سے 24 مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے کی تھی۔
اس تاریخی اجلاس میں بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے 24 مارچ 1940ء کو ایک متفقہ قرارداد پیش کی جو تاریخ میں پہلے 'قرارداد لاہور' اور پھر 'قرارداد پاکستان' کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا تھا اور برطانوی ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ
"قرارداد لاہور" میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کا تصور کہیں بھی نہیں تھا بلکہ اپریل 1946ء میں 'قرارداد دہلی' میں پہلی بار یہ طے پایا تھا کہ یہ آزاد مسلم ریاستیں ، ہندوستان سے الگ تھلگ ایک واحد اور متقدر ریاست 'پاکستان' ہوگی۔ اسوقت تک مسلم لیگ کے پاس پورے ہندوستان کے مسلمان کی نمائندگی تھی جو 1945/46ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی تھی۔
تیس کی دھائی تک مسلمانوں کو الگ وطن بنانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اسوقت تک کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ انگریز کبھی ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ گو اس دور میں ہندوؤں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف آزادی کی مختلف تحریکیں زوروں پر تھیں لیکن مسلمان ، ہندوؤں کی اکثریت کے خوف سے انگریزوں کے وفادار تھے اور اسی کے نظام میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ 1930ء کے الہٰ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہلی بار علامہ اقبالؒ نے موجودہ پاکستان کا جو تصور پیش کیا تھا ، وہ بھی برطانوی ہند کی حدود ہی میں تھا۔
1933ء میں چوہدری رحمت علی نے 'پاکستان' کا نام اور آزاد اور خودمخؐتار جغرافیہ بھی پیش کردیا تھا لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے خیال میں متحدہ ہندوستان ہی میں مسلمانوں کے مسائل کا حل تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ، برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے اور ایسا کوئی خیال بھی ممکن نہ تھا کہ کروڑوں کی آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور بھی انتہائی احمقانہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے اتنی بڑی اضافی آبادی کا بوجھ برداشت کرسکیں گے۔ یہی وجہ تھی قرارداد لاہور میں جن آزاد مسلم ریاستوں کی بات کی گئی تھی ، وہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھی اور ہندوستانی آئین کی حدود میں رہ کر کی گئی تھی اور اسی میں پورے ملک کے مسلمانوں کا مفاد سمجھا گیا تھا۔
1937ء کے انتخابات نے مسلمانوں کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا جب کانگریس کی حکومت نے ہندوؤں کی اکثریتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ایسے متنازعہ اقدامات کیے کہ جن سے اقلیتی فرقے مسلمانوں کو اپنی بقاء کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ انگریزوں نے جو مغربی جمہوریت ، ہندوستان میں متعارف کروائی تھی ، قائداعظمؒ اس کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں ایسے نظام میں اکثریت ہمیشہ اقلیت پر حکومت کرتی۔ جداگانہ انتخابات بھی اس کا حل نہیں تھے کیونکہ مسلمان کبھی بھی مرکزی حکومت نہیں بنا سکتے تھے ، اس لیے سیاسی طور پر فیصلہ کن قوت بھی نہیں بن سکتے تھے۔
کانگریس کا اڑھائی سالہ دور اقتدار مسلمانوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔ جب 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو انگریز سرکار نے کانگریس حکومت کے مشورے کے بغیر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ہندوستان کو بھی جنگ میں جھونک دیا تھا جس پر کانگریس نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس پر مسلم لیگ نے ملک گیر "یوم نجات" منایا تھا۔
"قرارداد لاہور" کو پہلی بار "قرارداد پاکستان" کا نام آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف وطن پرست مسلمان سیاسی اتحاد ، آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے اپنے اپریل 1940ء کے جلسہ میں دیا تھا جس کی ہندو پریس نے بڑے مزے لے لے کر طنزیہ تشہیر کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے جب ہندوستان میں 15 خیالی مسلمان ریاستیں 'پاکستان' کے نام سے تشکیل دے دی تھیں تو ان کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ مسلم لیگی حلقوں نے بھی چوہدری صاحب کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ ہندو پریس کی اس معاندانہ تنقید سے ضد میں آکر مسلم لیگ نے 1941ء میں اپنے اگلے اجلاس میں "قرارداد لاہور" کو "قرارداد پاکستان" کا نام دے کر اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔
یہ تو بھلا ہو دوسری جنگ عظیم کا کہ جس نے انگریزوں کا کچومر نکال دیا تھا وگرنہ کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ انگریز ، ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ یہی وجہ تھی مسلم لیگ جس آزادی کا مطالبہ کررہی تھی وہ ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا گیا تھا یعنی مکمل مسلم اکثریت کے علاقوں میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ تھا۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر 1945/46ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں سو فیصدی مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا تھا۔
"قرارداد لاہور" کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا اور اس کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں ، خان اورنگ زیب خان، حاجی سرعبداللہ ہارون ، نواب اسماعیل خان ، قاضی محمدعیسیٰ ، بیگم مولانا محمدعلی جوہر ، آئی آئی چندریگر ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تقاریر کیں۔
"قرارداد پاکستان" کی یاد میں قیام پاکستان سے لے کر 1955ء تک کبھی بھی 23 مارچ کا دن "یوم پاکستان" کے طور پر نہیں منایا گیا۔ 1956ء کے پہلے آئین کی منظوری کی خوشی میں پہلی بار 23 مارچ 1956ء کو "یوم جمہوریہ" منایا گیا تھا اور یہ دن ، ایک قومی تعطیل کا دن قرار پایا تھا۔ اگلے دو سال یعنی 1957ء اور 1958ء میں بھی یہ دن منایا گیا لیکن جب اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا تو 23 مارچ 1959ء کو آخری بار "یوم جمہوریہ" منایا گیا تھا۔ 1960ء سے پاکستان میں ہر سال سرکاری طور پر 23 مارچ کا دن "یوم پاکستان" کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 23 مارچ کا دن ایک طرح سے فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا دن ہوتا ہے۔
The "Pakistan Resolution" was adopted by the All India Muslim League in March 1940, which asked for greater autonomy of Muslim majority states..
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک انفرادی کاوش اور فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ ہے جو اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا ، ان شاء اللہ۔۔!
تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… گیتوں کی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… فلمی ٹائم لائن …… سینما گھر …… جوبلی فلمیں …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… عید کی فلمیں …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… فنکاروں کی تقسیم …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… پاکستانی فلموں کے 75 سال …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد ……