PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Thursday, 21 November 2024, Day: 326, Week: 47

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

ہفتہ 23 مارچ 1940

قرارداد پاکستان

قرارداد لاہور
قراردادِپاکستان
میں لفظ "پاکستان" کہیں نہیں تھا

لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں 22 سے 24 مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے کی تھی۔

اس تاریخی اجلاس میں بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے 24 مارچ 1940ء کو ایک متفقہ قرارداد پیش کی جو تاریخ میں پہلے 'قرارداد لاہور' اور پھر 'قرارداد پاکستان' کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا تھا اور برطانوی ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ

    "آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروغوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حدبندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردوبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو ، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں ، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔"

قرارداد لاہور میں 'پاکستان' کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟

"قرارداد لاہور" میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کا تصور کہیں بھی نہیں تھا بلکہ اپریل 1946ء میں 'قرارداد دہلی' میں پہلی بار یہ طے پایا تھا کہ یہ آزاد مسلم ریاستیں ، ہندوستان سے الگ تھلگ ایک واحد اور متقدر ریاست 'پاکستان' ہوگی۔ اسوقت تک مسلم لیگ کے پاس پورے ہندوستان کے مسلمان کی نمائندگی تھی جو 1945/46ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی تھی۔

تیس کی دھائی تک مسلمانوں کو الگ وطن بنانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اسوقت تک کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ انگریز کبھی ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ گو اس دور میں ہندوؤں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف آزادی کی مختلف تحریکیں زوروں پر تھیں لیکن مسلمان ، ہندوؤں کی اکثریت کے خوف سے انگریزوں کے وفادار تھے اور اسی کے نظام میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ 1930ء کے الہٰ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہلی بار علامہ اقبالؒ نے موجودہ پاکستان کا جو تصور پیش کیا تھا ، وہ بھی برطانوی ہند کی حدود ہی میں تھا۔

جب 'پاکستان' کا نام ایک طنز تھا

1933ء میں چوہدری رحمت علی نے 'پاکستان' کا نام اور آزاد اور خودمخؐتار جغرافیہ بھی پیش کردیا تھا لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے خیال میں متحدہ ہندوستان ہی میں مسلمانوں کے مسائل کا حل تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ، برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے اور ایسا کوئی خیال بھی ممکن نہ تھا کہ کروڑوں کی آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور بھی انتہائی احمقانہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے اتنی بڑی اضافی آبادی کا بوجھ برداشت کرسکیں گے۔ یہی وجہ تھی قرارداد لاہور میں جن آزاد مسلم ریاستوں کی بات کی گئی تھی ، وہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھی اور ہندوستانی آئین کی حدود میں رہ کر کی گئی تھی اور اسی میں پورے ملک کے مسلمانوں کا مفاد سمجھا گیا تھا۔

قرارداد پاکستان
قائداعظمؒ ، قرارداد لاہور کے دوران

یوم نجات

1937ء کے انتخابات نے مسلمانوں کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا جب کانگریس کی حکومت نے ہندوؤں کی اکثریتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ایسے متنازعہ اقدامات کیے کہ جن سے اقلیتی فرقے مسلمانوں کو اپنی بقاء کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ انگریزوں نے جو مغربی جمہوریت ، ہندوستان میں متعارف کروائی تھی ، قائداعظمؒ اس کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں ایسے نظام میں اکثریت ہمیشہ اقلیت پر حکومت کرتی۔ جداگانہ انتخابات بھی اس کا حل نہیں تھے کیونکہ مسلمان کبھی بھی مرکزی حکومت نہیں بنا سکتے تھے ، اس لیے سیاسی طور پر فیصلہ کن قوت بھی نہیں بن سکتے تھے۔

کانگریس کا اڑھائی سالہ دور اقتدار مسلمانوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔ جب 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو انگریز سرکار نے کانگریس حکومت کے مشورے کے بغیر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ہندوستان کو بھی جنگ میں جھونک دیا تھا جس پر کانگریس نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس پر مسلم لیگ نے ملک گیر "یوم نجات" منایا تھا۔

جب قرارداد لاہور ، قرارداد پاکستان بنی

"قرارداد لاہور" کو پہلی بار "قرارداد پاکستان" کا نام آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف وطن پرست مسلمان سیاسی اتحاد ، آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے اپنے اپریل 1940ء کے جلسہ میں دیا تھا جس کی ہندو پریس نے بڑے مزے لے لے کر طنزیہ تشہیر کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے جب ہندوستان میں 15 خیالی مسلمان ریاستیں 'پاکستان' کے نام سے تشکیل دے دی تھیں تو ان کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ مسلم لیگی حلقوں نے بھی چوہدری صاحب کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ ہندو پریس کی اس معاندانہ تنقید سے ضد میں آکر مسلم لیگ نے 1941ء میں اپنے اگلے اجلاس میں "قرارداد لاہور" کو "قرارداد پاکستان" کا نام دے کر اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔

یہ تو بھلا ہو دوسری جنگ عظیم کا کہ جس نے انگریزوں کا کچومر نکال دیا تھا وگرنہ کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ انگریز ، ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ یہی وجہ تھی مسلم لیگ جس آزادی کا مطالبہ کررہی تھی وہ ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا گیا تھا یعنی مکمل مسلم اکثریت کے علاقوں میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ تھا۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر 1945/46ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں سو فیصدی مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا تھا۔

قرارداد لاہور کا مکمل متن

  1. آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ، آئینی مسائل پر 27 اگست ، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1940ء کی قراردادوں کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں شامل وفاق کی تجویز ، اس ملک کے مخصوص حالات میں مکمل طور پر نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔
  2. کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کہ جب تک جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی حد بندی نہ کی جائے۔ ان خطوں میں جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں، ان کو "آزاد ریاستوں" کی شکل دی جائے جن میں تمام اکائیاں آزاد اور خود مختار ہوں۔
  3. آئین میں مسلم اکائیوں اور خطوں میں غیرمسلم اقلیتوں اور دیگر علاقوں کے مسلم اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی مشاورت سے مناسب اور موثر اقدامات کی ضمانت دی جائے۔
  4. آئین میں یہ گنجائش رکھی جائے کہ مسلم خطے ، دفاع، خارجی امور، رسل و رسائل پر عملدرآمد اور دوسرے ضروری امور کے اختیارات پر بھی قابض ہو سکیں۔
قرارداد پاکستان
24 مارچ 1940ء کو منظورہ کی گئی قراردداد لاہور کا ایک اخباری عکس

"قرارداد لاہور" کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا اور اس کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں ، خان اورنگ زیب خان، حاجی سرعبداللہ ہارون ، نواب اسماعیل خان ، قاضی محمدعیسیٰ ، بیگم مولانا محمدعلی جوہر ، آئی آئی چندریگر ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تقاریر کیں۔

یوم پاکستان پہلی بار کب منایا گیا؟

"قرارداد پاکستان" کی یاد میں قیام پاکستان سے لے کر 1955ء تک کبھی بھی 23 مارچ کا دن "یوم پاکستان" کے طور پر نہیں منایا گیا۔ 1956ء کے پہلے آئین کی منظوری کی خوشی میں پہلی بار 23 مارچ 1956ء کو "یوم جمہوریہ" منایا گیا تھا اور یہ دن ، ایک قومی تعطیل کا دن قرار پایا تھا۔ اگلے دو سال یعنی 1957ء اور 1958ء میں بھی یہ دن منایا گیا لیکن جب اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا تو 23 مارچ 1959ء کو آخری بار "یوم جمہوریہ" منایا گیا تھا۔ 1960ء سے پاکستان میں ہر سال سرکاری طور پر 23 مارچ کا دن "یوم پاکستان" کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 23 مارچ کا دن ایک طرح سے فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا دن ہوتا ہے۔

1909ء میں برطانوی ہند کے مذاہب کا نقشہ




The Pakistan Resolution
(Daily Inqilab Lahore on March 25, 1940)


The Pakistan Resolution

Saturday, 23 March 1940

The "Pakistan Resolution" was adopted by the All India Muslim League in March 1940, which asked for greater autonomy of Muslim majority states..




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.