PAK Magazine
Saturday, 27 April 2024, Week: 17

Pakistan Chronological History
Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

1951

راولپنڈی سازش کیس

جمعتہ المبارک 23 فروری 1951
راولپنڈی سازش کیس
میجر جنرل اکبر خان

راولپنڈی سازش کیس ، پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے خلاف پہلی فوجی بغاوت تھی۔۔!

سرکاری بیان کے مطابق 23 فروری 1951ء کی رات کو راولپنڈی کینٹ میں چیف آف آرمی سٹاف میجر جنرل محمد اکبر خان کی رہائش گاہ پر درجن بھر فوجی اور چند سویلین کا گٹھ جوڑ ہوا جس میں پاکستان کے قیام کے صرف ساڑھے تین سال بعد پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش تیار کی گئی تھی۔

9 مارچ 1951ء کو وزیرِاعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس سازش کا انکشاف کیا اور 15 مارچ 1951ء کو اپنے بیان میں یہ اضافہ بھی کیا کہ "جنرل اکبر نے کمیونسٹوں اور دیگر انقلابی عناصر کے ساتھ مل کر طاقت کے استعمال کا منصوبہ بنایا تھا۔۔!"

اگلے دن ، 18 بڑے قومی اخبارات نے بیک وقت ایک ہی اداریہ شائع کیا جس میں اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی گئی اور اس باغیانہ فعل کی کوشش پر کراہت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی مکمل حمایت کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

راولپنڈی سازش کیس کے "سازشی عناصر"

حکومتی دعوے کے مطابق راولپنڈی سازش کیس میں شریک ملزمان میں سے گیارہ فوجی افسران اور چار سویلین تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ گیارہ میں سات فوجی افسران اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی کی وجہ سے اعلیٰ فوجی اعزاز یافتہ تھے جنھیں بغاوت کے جرم میں فوج سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر فوجی افسران کی کشمیر کے محاذ پر انتہائی قابل قدر کارکردگی تھی اور ان میں سے کسی ایک کا بھی کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

راولپنڈی سازش کیس کے "سازشی عناصر" کی مکمل فہرست مندرجہ ذیل ہے:

  • میجر جنرل محمد اکبر خان (DSO) (چیف آف دی جنرل اسٹاف)
  • میجر جنرل نذیر احمد (MBE)
  • ائر کموڈور محمدخان جنجوعہ (ائر فورس کےسینئر ترین پاکستانی افسر)
  • بریگیڈیر ایم اے لطیف خان (MC) (کمانڈر کوئٹہ)
  • بریگیڈیر محمد صادق خان (MC)
  • لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب
  • لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین (MBE)
  • میجر حسن خان (MC)
  • میجر اسحاق محمد (MC)
  • کیپٹن خضر حیات
  • کیپٹن ظفر اللہ پوشنی
  • بیگم نسیم جہاں (جنرل اکبر کی بیگم)
  • فیض احمد فیض (پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر)
  • سید سجاد ظہیر (سربراہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی)
  • محمدحسین عطا (پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن)

ان کے علاوہ اس میٹنگ میں لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیڈھی بھی موجود تھے، جو بعد میں استغاثہ کی طرف سے بطور وعدہ معاف گواہ پیش ہوئے۔ یاد رہے کہ جنرل اکبر اور ان کی بیگم ، بھٹو دور میں اور کرنل نیاز محمد ارباب ، جنرل ضیاع مردود کے دور میں حکومتوں میں شامل رہے۔

راولپنڈی مقدمہ کیس کیا تھا؟

راولپنڈی مقدمہ کیس (یا راولپنڈی سازش کیس) کی اس مشہورِ زمانہ میٹنگ میں جنرل اکبر خان نے اپنا بغاوت کا منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو ایک ہفتہ بعد اسلام آباد آنے پرگرفتار کیا جانا تھا۔ اس کے بعد گورنر جنرل سے یہ اعلان کروایا جاتا کہ انھوں نے لیاقت حکومت کوبرطرف کر دیا ہے۔ اکبرخان کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی جو کچھ عرصہ بعد جنرل الیکشن کرواتی اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جاتا۔

اس موضوع پر زیادہ تر بات جنرل اکبر خان ہی نے کی اور بحث و مباحثہ مسلسل 8 گھنٹے جاری رہا۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل صاحب کے منصوبے پر کوئی اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ اس طرح سے یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی تھی۔

سازش کا انکشاف کیسے ہوا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سازش کا انکشاف ایک ایسے شخص نے کیا جو اس میٹنگ میں شریک ہی نہیں تھا لیکن اس کو قبل از وقت پتہ چل چکا تھا کہ جنرل اکبر کیا بات کہنے والے ہیں۔ پولیس انسپکٹر عسکر علی شاہ نے اس خبر کو گورنر سرحد آئی آئی چندریگر تک پہنچایا جنھوں نے یہ خبر وزیراعظم لیاقت علی خان کو دی۔

حکومت نے اس خبر پر فوری کاروائی کی اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ فردِ جرم صرف 15 افراد پر لگائی گئی۔ اس دوران پارلیمنٹ سے ایک خصوصی قانون بھی پاس کروایا گیا جس کے تحت حیدرآباد جیل میں 15 جون 1951ء سے کاروائی شروع کی گئی۔ جسٹس سرعبدالرحمٰن ، جسٹس محمد شریف اور جسٹس امیر الدین تھے۔ استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ، اے کے بروہی تھے۔ ملزمان کی جانب سے حسین شہید سہروردی، زیڈ ایچ لاری، خواجہ عبدالرحیم، ملک فیض محمد، صاحبزادہ نوازش علی، قاضی اسلم اور محمود قصوری پیش ہوئے۔

"سازش" کی تعریف کیا ہے؟

اس مقدمہ کا سارا دارومدار دو فوجی افسروں لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی کے بیانات پر تھا جن کی غلط بیانی پر ملزمان کو مختلف المیعاد سزائیں دی گئی تھیں جو اسمبلی برخاست ہونے پر قانون کی منسوخی کے بعد سزائیں بھی معطل ہو گئی تھیں۔ ان کے علاوہ مزید گواہان میں سے بریگیڈیر حبیب اللہ بھی تھے جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ وہ نہ صرف گندھارا انڈسٹریز کے مالک بنے بلکہ صدر ایوب خان کے سمدھی بھی تھے یعنی گوہر ایوب خان کے سسر اور عمر ایوب خان کے نانا۔ صوبہ کے پی کے سیاسی لیڈر یوسف خٹک ، ان کے بھائی اور کلثوم سیف اللہ ان کی بہن تھی۔

پاکستان پینل کوڈ کے مطابق "سازش" کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:

    The Crime of Conspiracy is only established when two or more persons agreement commit an illegal act or a legal act by illegab mean

(یعنی جب تک دو یا ان سے زائد افراد کے مابین معاہدہ نہ ہو ، وہ سازش نہیں ہوتی ، جیسا کہ عمران خان کا بدنام زمانہ سائفر کیس۔۔!)

راولپنڈی سازش کیس کا پس منظر

راولپنڈی سازش کیس کے سرغنہ ، میجر جنرل محمد اکبر خان نے اپنی کتاب Raiders in Kashmir میں اس پورے واقعہ کو "کارٹون کہانی" قرار دیا ہے لیکن یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ لیاقت حکومت کی مسئلہ کشمیر اور امریکہ/برطانیہ نواز پالیسی کے سخت نقاد تھے اور نجی محفلوں میں اس کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔

میجر جنرل محمد اکبر خان ، جنگِ کشمیر کے ہیرو تھے۔ پاکستان کے پاس جو گلگت ، بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے موجود ہیں ، وہ جنرل اکبر اور ان کے معتوب ساتھیوں کی کاوشوں کا مرہونِ منت رہے ہیں ورنہ جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج ، کشمیر میں اتری تو قائدِاعظمؒ کے حکم کے باوجود پاک فوج کے انگریز آرمی چیف نے فوجی کاروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس عدم تعاون اور محدود وسائل کے باوجود کشمیر کی جنگ یکم جنوری 1949ء تک جاری رہی اور بھارتی فوج تمام تر وسائل اور برتری کے باوجود پاکستانی علاقے واپس نہیں لے سکی تھی۔ یہ سارا کریڈٹ جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے جو سرکاری پالیسوں سے بیزار تھے۔ رہی سہی کسر حکومت کی امریکہ نواز پالیسوں نے پوری کر دی تھی جو کسی بھی خوددار اور غیرت مند شخص کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔

ان "سازشی عناصر" کا یہی عمل اس سازش کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ جنرل اکبر کے بقول اس نام نہاد سازش کے منصوبہ ساز پاکستان کے پہلے مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان تھے جو فوج سے ایسے عناصر کا خاتمہ چاہتے تھے جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ تھے۔

فیض احمد فیض

راولپنڈی سازش کیس میں سب سے بڑا سویلین نام وقت کے عظیم شاعر اور انگریزی اخبار دی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ وہ ، حکومتِ وقت کے بہت بڑے ناقد تھے۔ خاص طور پر پنجاب میں ہونے والے پہلے صوبائی انتخابات میں (جو 10 مارچ 1951 کو ہوئے) ، لیاقت حکومت کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے رہتے تھے۔ وہ تین ماہ تک "لاپتہ" رہے اور بالآخر 5 سال کی جیل ہوئی اور 1955ء میں اس قانون کی منسوخی پر رہا ہوئے تھے۔

پاکستان کمیونسٹ پارٹی

راولپنڈی سازش کیس سے جہاں "ناپسندیدہ فوجی افسران" اور ایک نامور صحافی سے چھٹکارا پایا گیا ، وہاں سرد جنگ کے عروج کے دور میں امریکی دباؤ پر پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر بھی عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور بالآخر "ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی" اس چھوٹی سی بے ضرر پارٹی پر 24 جولائی 1954ء کو پابندی لگا دی گئی تھی۔ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کا احیاء ، بھٹو دور حکومت میں ہوا لیکن اس پارٹی کو عوام میں کبھی پذیرائی نہ مل سکی۔

پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سید سجاد ظہیر تھے ، جو جیل کاٹنے کے بعد واپس بھارت چلے گئے تھے۔ ان کے ساتھ اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمدحسین عطا کو بھی مشرقی پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ جنرل اکبر کی بیگم ، نسیم جہاں کو بھی حکومت مخالف بیانات دینے اور کمیونسٹ نظریات سے ہمدردی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمات کا فیصلہ

خصوصی عدالت نے راولپنڈی سازش کیس کا فیصلہ 5 جنوری 1953 کو سنایا۔ جنرل اکبر کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی جبکہ باقی افسران کو مختلف المیعاد قید کی سزا دی گئی۔ میجر جنرل نذیر احمد کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا دی گئی۔ ان کے علاوہ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کو پانچ پانچ برس کی سزا سنائی گئی۔ بیگم نسیم اکبر (نسیم جہاں) کو دو برس قید میں رکھنے کے بعد بری کر دیا گیا۔

1954ء میں جب پہلی دستور ساز اسمبلی کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے برخاست کیا تو اس کے بنائے ہوئے سبھی قوانین بھی منسوخ ہوگئے ، اسی بنا پر تمام اسیروں کی قبل از وقت رہائی ممکن ہوئی تھی۔

Rawalpindi Conspiracy Case





Rawalpindi Conspiracy Case

Friday, 23 February 1951

Rawalpindi Conspiracy Case was an attempted coup d'état against Liaquat Ali Khan, the first Prime Minister of Pakistan, in 1951. The coup was planned by Major-General Akbar Khan, a senior commander in the Pakistani army, in conjunction with 15 other military officers and left-wing Pakistani politicians.



1971
بھٹو اور مشرقی پاکستان
بھٹو اور مشرقی پاکستان
1940
قرارداد پاکستان
قرارداد پاکستان
1971
بھٹو نے پولینڈ کی قرار داد پھاڑ دی؟
بھٹو نے پولینڈ کی قرار داد پھاڑ دی؟
2012
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف
1947
جنرل سر فرینک میسروی
جنرل سر فرینک میسروی



تاریخ پاکستان

پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔



تاریخ پاکستان ، اہم موضوعات

تحریک پاکستان
تحریک پاکستان
جغرافیائی تاریخ
جغرافیائی تاریخ
سقوط ڈھاکہ
سقوط ڈھاکہ
عظیم منصوبے
عظیم منصوبے
انتخابات
انتخابات
امریکی امداد
امریکی امداد
آئی ایم ایف
آئی ایم ایف
صدر
صدر
وزیر اعظم
وزیر اعظم
آرمی چیف
آرمی چیف
چیف جسٹس
چیف جسٹس
سیاسی ڈائری
سیاسی ڈائری

تاریخ پاکستان ، اہم شخصیات

قائد اعظمؒ
قائد اعظمؒ
ذوالفقار علی بھٹوؒ
ذوالفقار علی بھٹوؒ
بے نظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو
نواز شریف
نواز شریف
عمران خان
عمران خان
سکندرمرزا
سکندرمرزا
جنرل ایوب
جنرل ایوب
جنرل یحییٰ
جنرل یحییٰ
جنرل ضیاع
جنرل ضیاع
جنرل مشرف
جنرل مشرف

دیگر پرانی ویب سائٹس

حج بیت اللہ
حج بیت اللہ
مغلیہ سلطنت
مغلیہ سلطنت
اٹلی کا سفر
اٹلی کا سفر
سیف الملوک
سیف الملوک
شعر و شاعری
شعر و شاعری
ہیلتھ میگزین
ہیلتھ میگزین
ڈنمارک
ڈنمارک
میڈیا لنکس
میڈیا لنکس
فلم میگزین
فلم میگزین

پاکستان کے بارے میں اہم معلومات

Pakistan

چند اہم بیرونی لنکس


پاکستان کی فلمی تاریخ

پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……


محمد علی
محمد علی
مسعود رانا
مسعود رانا
سلمیٰ ممتاز
سلمیٰ ممتاز
نذیر
نذیر
کیفی
کیفی


PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.