پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
سومبوار 8 جولائی 2024ء
بھٹو معصوم قرار
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بے بنیاد مقدمہ قتل میں پھانسی کی سزا پانے والے ذوالفقار علی بھٹوؒ کو "معصوم" قرار دینے کے علاوہ مرکزی وعدہ معاف گواہ مسعودمحمود کو "اخلاقی پستی کا شکار اور جھوٹا گواہ" قرار دیا ہے۔۔!
عدالت کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مبنی صدارتی ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ " شفاف ٹرائل کے بغیر ایک معصوم شخص کو پھانسی چڑھا دیا گیا حالانکہ اس کے خلاف کوئی براہ راست شواہد موجود نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹوؒ معصوم تھے جنہیں غیر آئینی عدالتوں نے سزائے موت دی جس کا براہِ راست فائدہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو ہوا جن پر ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے جرم میں دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔"
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں بھی یہ بھی لکھا ہے کہ "جب بھٹو پر مقدمہ قتل چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی کیونکہ اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا اور بنیادی حقوق معطل تھے جبکہ اس وقت کی عدالتیں بھی مارشل لاء کی قیدی تھیں اور آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔"
بھٹو کیس کی غیر شفافیت
عدالتی فیصلے میں بھٹو کیخلاف چلائے گئے قتل کیس میں غیر شفافیت، غیر قانونی اور غیر آئینی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نوٹ کیا گیا کہ بھٹو کیخلاف دفعہ 302 لگانے کے ڈائریکٹ شواہد نہیں تھے۔ قتل کا الزام فیڈرل سیکورٹی فورس کے ذریعے عائد کیا گیا لیکن وقوعہ میں استعمال ہونے والی گولی کا خول FSF کے ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
عدالتوں نے بھٹو کی پارلیمنٹ میں تقاریر کو بھی فیصلوں میں جواز بنایا حالانکہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو کسی رکن کیخلاف عدالت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ FIA نے بھٹو کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ تفتیش مکمل ہو تو ایف آئی اے کو فائل دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک قتل کا ٹرائل لاہور ہائی کورٹ میں براہِ راست چلایا گیا جس کی پورے ایشیاء میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اپیل کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔
مرکزی گواہ مسعود محمود کا کردار
سپریم کورٹ نے بھٹو کے خلاف مرکزی گواہ، فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے سربراہ مسعود محمود کے کردار پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی اور اس کو "اخلاقی پستی کا شکار اور جھوٹا گواہ" قرار دیا۔
مسعود محمود نے اپنے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ نے انھیں، احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کے احکامات دیے تھے اور کہا تھا کہ "مجھے قصوری کی لاش چاہیے یا اس کے تشدد زدہ جسم پر ہر طرف پٹیاں بندھی ہوں۔"
ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کو بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد گرفتار کرنے کے بعد اس مقدمہ قتل میں بطور ملزم نامزد کیا گیا۔عدالت کے سامنے اس کا حلفیہ بیان، بھٹو کی پھانسی کی بنیاد بن گیا تھا۔
مسعود محمود کے حلفیہ بیان میں عدلیہ نے نوٹ کیا کہ احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری، موصوف کے والد کے بہترین دوست تھے۔ تاہم انھوں نے اپنے والد کے بہترین دوست کے بیٹے کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے حالانکہ ان کے مطابق بھٹو کو "قصوری پر تشدد" بھی منظور تھا۔ انھیں اچانک اعترافِ جرم کا خیال کیوں آیا؟ ان کے اپنے ہی الفاظ میں ایسا اس لیے کیا کیونکہ "اس گھناؤنے جرم کے احکامات دینے کے باعث ان کے ضمیر پر بوجھ ہے۔"
سپریم کورٹ کے فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ قید میں رہنے کے بعد ان کا کمزور ضمیر پھر سے جاگ گیا تھا۔ اس جرم کا ارتکاب تین سال پہلے ہوا تھا لیکن اس دوران ان کا ضمیر خاموش رہا مگر گرفتار ہوتے ہی جاگ اٹھا۔ ایک ایسا ضمیر جو پہلے اپنے لیے معافی یقینی بنانا چاہتا تھا۔ ایک ایسا ضمیر جس کے لیے کسی کو قتل کرنے کے احکامات دینا "صرف" کسی اور کے "احکامات پر عمل درآمد" کروانے جیسا تھا۔
مسعود محمود کی تضاد بیانی
عدالتِ عظمیٰ نے بھٹو کے خلاف مرکزی گواہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے سربراہ مسعود محمود کےحلفیہ بیان پر بھی تفصیل روشنی ڈالی اور مندرجہ ذیل نکات سامنے آئے:
- مسعوومحمود نے اپنے بارے میں بتایا کہ انڈین پولیس میں ان کی تعیناتی ایک جنگ کے لیے ریزرو کی گئی سیٹ پر ہوئی کیونکہ انھوں نے کچھ عرصہ رائل انڈین ایئرفورس میں بھی کام کیا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد 18 ستمبر 1948ء کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے طور پر ذمہ داری سنبھالی۔ اس کے بعد ان کے بیان میں بتایا گیا کہ 12 اپریل 1974ء کو وزیرِ اعظم بھٹو نے انھیں بلایا اور ان کی تعریف کی اور ان کے "اچھے کام" کو سراہتے ہوئے ان کی "دیانت داری، ایمانداری اور محنتی رویے" کا اعتراف کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایمانداری اور دیانتداری وہ خوبیاں ہیں جو آپ ایک ایسے شخص میں دیکھیں گے جو آپ کے لیے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے تیار ہو۔۔؟ - مسعود محمود کے مطابق بھٹو نے ایک گھنٹے تک انھیں منانے کی کوشش کی اور تب انھوں نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے عہدے پر تعیناتی کے لیے حامی بھر لی اور اس دوران فورس کی ٹریننگ اور اسے منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
- اس کے بعد انھوں نے اپنی "کمزوری" کا بھی بتایا کہ ان کے سابق ساتھی سعید احمد خان جو وزیرِاعظم کے چیف سیکورٹی افسر رہے تھے اور ان کے اسسٹنٹ عبدالماجد باجوہ نے انھیں بتایا کہ اگر انھوں ویسا نہ کیا جیسے بھٹو نے کہا تو "تمہاری بیوی اور بچے تمھیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ پائیں۔"
سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ سعید احمد خان کو اس کیس میں بطور گواہ پیش ہی نہیں کیا گیا اور عبدالماجد باجوہ تب تک وفات پا چکے تھے اس لیے ان کی جانب سے ان مبینہ دعوؤں کی حیثیت سنی سنائی باتوں سے زیادہ نہیں۔ - مسعود محمود نے اس کے بعد اپنی بزدلی کی وجہ یہ بھی بتائی کہ بھٹو نے مجھے کہا تھا کہ "تم بالکل بھی یہ نہیں چاہو گے کہ وقار تمھارا پیچھا کرے۔۔؟" یہاں وقار نامی شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔
- اسی طرح مسعود محمود نے بغیر کسی ثبوت کے ایم آر ویلچ کا نام لیا جو کوئٹہ میں ڈائریکٹر ایف ایس ایف تھے جنھیں، قصوری کو کوئٹہ میں ٹھکانے لگانے کا کہا گیا تھا۔
- مسعود محمود کے مطابق "ڈائریکٹر ایف ایس ایف میاں محمد عباس کو اس سے پہلے حق نواز ٹوانہ (سابق سربراہ فیڈرل سیکورٹی فورس) کے ذریعے بھٹو نے احکامات دیے تھے کہ وہ احمد رضا قصوری کو ٹھکانے لگائیں۔" بھٹو نے بعد میں مجھے کہا کہ "میں میاں عباس سے کہوں کہ وہ یا تو احمد رضا قصوری کی لاش یا اس کا تشدد زدہ جسم لائیں، جس پر ہر طرف پٹیاں بندھی ہوں۔"
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ میاں محمد عباس نے ٹرائل کورٹ میں اپنا بیان ہی واپس لے لیا تھا اور سابق ڈی جی ایف ایس ایف حق نواز ٹوانہ کو گواہ کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا تھا۔ - مسعود محمود کے مطابق بھٹو، ایک عرصہ سے قصوری کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ بھٹو نے پہلے ہی میاں عباس کو اس حوالے سے احکامات دے دیے تھے لیکن انھوں نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا۔ تاہم جب مسعود محمود نے انھیں احکامات دیے تو احمد رضا قصوری پر گولی چلائی گئی جو ان کی جگہ ان کے والد کو محمد احمد خان قصوری کو لگ گئی تھی۔
- سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ "مسعود محمود نے خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جسے خدا پر ایمان تھا اور معلوم تھا کہ کسی کو ہلاک کرنے کے احکامات جاری کرنا "خدا کے احکامات کے خلاف" تھا لیکن چونکہ بھٹو نے انھیں "مخصوص احکامات دیے" اور پھر ان کے بیان کے مطابق "میں خدا کے احکامات کی نفی کرنے اور ایک قیمتی انسانی جان لینے میں اہم کردار بن گیا (خدا مجھے معاف کرے)۔"
مسعود محمود کی جانب سے خدا کے احکامات کی نفی کرنے کی وجہ اپنا شادی شدہ ہونا بتایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ "اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی ان احکامات پر عمل نہ کرتا اور چھوڑ کر چلا جاتا۔"
سپریم کورٹ کا مسعودمحمود پر فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں بھٹو کے خلاف مرکزی گواہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے سربراہ مسعود محمود کے مشکوک کردار پر فیصلہ صادر کیا ہے اور اس قسم کے شخص کو "اخلاقی بدبخت" قرار دیا ہے۔ فیصلے میں بھٹو پھانسی کیس میں مندرجہ ذیل اہم نکات اٹھائے گئے ہیں:
- اس وقت کی عدالتوں کی جانب سے مسعود محمود کی ساکھ پر کسی قسم کے شک و شبے کا اظہار نہیں کیا گیا حالانکہ ایسے متعدد عوامل تھے جو کسی بھی عقل مند انسان کو الرٹ کرنے کے لیے کافی تھے اور یہ دکھاتے تھے کہ یہ ایک خود غرض شخص ہے جو اپنے آپ کو بچانے کے لیے اخلاقی پستی کا شکار اور ایک جھوٹا گواہ ہے۔
- مسعود محمود نے کہا کہ بھٹو نے انھیں اس لیے ڈائریکٹر ایف ایس ایف تعینات کیا کیونکہ وہ ایماندار اور دیانت دار تھے لیکن کیا ایسی خوبیوں کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جا سکتا ہے جس سے ایک مجرمانہ ایجنڈے پر کام کروانا مقصود ہو۔
- مسعود محمود نے کہا کہ ان کے والد اور ہلاک ہونے والے محمد احمد خان بہت اچھے دوست تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے والد کے بہترین دوست کے بیٹے کے قتل کے احکامات دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔۔!
- مسعود محمود کے مطابق بھٹو نے میاں محمد عباس کو پہلے ہی قصوری کے قتل کے احکامات دے دیے تھے، اس لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کے بعد وہ کیوں مسعود محمود کو احکامات دیں گے۔
- مسعود محمود نے کہا کہ میاں عباس نے قصوری کو قتل کرنے کے بھٹو کے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے انکار کیا لیکن اس بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی کہ انھیں نے یہ حکم عدولی کیوں کی اور اس کے بعد انھیں نافرمانی کی کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی۔ لیکن مسعود محمود کے احکامات پر میاں عباس نے عمل کیا حالانکہ پہلے ہی وہ، وزیرِ اعظم کے احکامات کو رد کر چکے تھے۔
- مسعود محمود نے یہ بھی بتایا ہے کہ بھٹو کو یہ بھی منظور تھا کہ قصوری کو صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا لیکن پھر بھی انھوں نے قصوری کے قتل کے احکامات دیے۔ تشدد کے احکامات دینے کی بجائے صرف قتل کے احکامات دینے کے باعث مسعود محمود ہی اس قتل کے ذمہ دار ہوں گے۔
- مسعود محمود نے یہ بھی بتایا کہ مندرجہ ذیل افراد بھی قصوری کی ہلاکت کی سازش میں شریک تھے:
- فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے پہلے ڈائریکٹر جنرل حق نواز ٹوانہ
- ڈائریکٹر ایف ایس ایف میاں محمد عباس
- ڈائریکٹر ایف ایس ایف کوئٹہ ایم آر ویلچ
- وزیرِ اعظم کے چیف سکیورٹی افسر سعید احمد خان
- وزیرِ اعظم کے اسسٹنٹ سکیورٹی افسر عبدالحمید باجوہ
- فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود (خود)
- اس قتل کے بعد بھی مسعود محمود ڈی جی ایف ایس ایف کے عہدے پر تعینات رہے لیکن کیا اس کے بعد انھیں کبھی بھٹو کی جانب سے کوئی اور گھناؤنا جرم کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو کا کوئی اور دشمن نہیں تھا اور ہزاروں اہلکاروں والی اس فورس کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔
- مسعود محمود نے اپنی آزادی حاصل کر لی اور بھٹو کو قربان کر کے ملک سے باہر جانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ کسی بھی سمجھدار شخص کو ایسے شخص کا رویہ ضرور کھٹکے گا لیکن مسعود محمود کی ساکھ پر ان کی جانب سے سوال نہیں اٹھایا گیا تھا جن کی عدالتی ذمہ داری تھی کہ وہ خود کو اس بارے میں مطمئن کرتے۔
- مسعود محمود نے بارہا اپنے ضمیر کے بارے میں بات کی ہے اور کہا کہ "ان کے ضمیر نے انھیں بہت ملامت کی" اور "یہ کام (قتل) میرے ضمیر کے خلاف تھا"۔ لیکن ان کا ضمیر صرف اس وقت جاگا جب انھیں کچھ دیر حراست میں گزارنے پڑے اور ان کے جاگے ہوئے ضمیر نے پہلا کام اپنے لیے معافی یقینی بنانا اور خود کو اس صورتحال سے نکالنا تھا۔ یہاں تحفظ اور سہولت ان کے ضمیر پر ایک بار پھر حاوی ہو گیا، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سچ بول رہے تھے یا صرف ایک موقع پرست شخص تھے۔
- عدالت کی جانب سے مسعود محمود سے متعلق بات مکمل کرتے ہوئے کہا گیا کہ انھوں نے اپنے مذہب کو ڈرامائی انداز میں پیش تو کیا لیکن اسلام کے سب سے بنیادی احکام اور پابندی کو بھول گئے، یعنی کسی شخص کا قتل اور یہ کہ کسی ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور کسی ایک شخص کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
- عدالتی فیصلے کے مطابق استغاثہ نے اپنا پورا مقدمہ مسعود محمود اور میاں محمد عباس کے بیانات کی بنیاد پر بنایا تھا لیکن میاں محمد عباس نے اپنا بیان واپس لے لیا اور اس کے برعکس بیان دیا۔ حق نواز ٹوانہ اور عبدالحمید باجوہ اس وقت تک وفات پا چکے تھے۔ ایم آر ویلچ اور سعید احمد خان کو وعدہ معاف گواہ بنائے بغیر انھیں استغاثہ کی جانب سے بطور گواہ پیش کیا گیا تھا۔
Bhutto innocent
Monday, 8 July 2024
Pakistan Supreme Court verdict about Bhutto's case..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
20-12-1965: صدرایوب کی بھارت کو جنگ نہ کرنے کی پیش کش
11-01-1992: موٹر ویز
13-01-1932: سکھر بیراج