پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات یکم مارچ 1962
1962ء کا معطل آئین
فوجی آمر، جنرل ایوب خان کے آئین میں "اسلامی جمہوریہ پاکستان" صرف "جمہوریہ پاکستان" رہ گیا تھا۔۔!
یکم مارچ 1962ء کو "جنرل ایوب خان کا (ذاتی) آئین"، ایک صدارتی آئین تھا جس میں طاقت اور عقلِ کل ، صدر کی ذات تھی اور عوام محض رعایا اور غلام تھے۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندی تھی لیکن خود صدر صاحب کے مسلم لیگ کو ہائی جیک کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
اس "دستورِ بے نور" کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس آئین میں پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ" کے بجائے صرف "جمہوریہ" یا The Repblic of Pakistan قرار دیا گیا تھا اور مزے کی بات ہے کہ کسی مذہبی حلقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی یا شاید رینگنے ہی نہیں دی گئی تھی۔۔!
ایک شخصی آئین
1962ء کے آئین کی یاد میں جاری شدہ ڈاک ٹکٹ
اس شخصی آئین کے تحت صدر ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا بالواسطہ انتخاب بنیادی جمہوریتوں کے ممبران اور ان کا بلاواسطہ انتخاب بلدیاتی انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام الناس کرتے تھے۔ صدر کو کلی اختیار حاصل تھا کہ وہ ہر کسی کو گھر بھیج سکتا تھا اور اس کا حکم ، آرڈیننس کی صورت میں قانون بن جاتا تھا۔ قومی اسمبلی توڑنے کی صورت میں صدر کو بھی مستعفی ہونا پڑتا تھا۔ صدر ، اسمبلی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کر سکتا تھا جبکہ دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ صدر کا مسلمان ہونا لازم اور اس کا انتخاب صرف دو بار ہی ہو سکتا تھا۔ صدر اور سپیکر کے عہدوں پر بیک وقت ایک ہی صوبے کے افراد فائز نہیں ہو سکتے تھے۔ صدر کے بعد گورنرز کی حیثیت تھی جو صوبائی حکومت چلانے کے لئے صدر کے سامنے جوابدہ تھے۔
"صدر ایوب نے پاکستان کا نیا آئین نافذ کر دیا" ، روزنامہ جنگ کی معنی خیز شہ سرخی
آئینی کمیٹی میں بھٹو بھی شامل تھے!
17 فروری 1960ء کو سابق چیف جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا گیا تھا جن کے ذمہ ایک اسلامی ، جمہوری اور وفاقی آئین مرتب کرنا تھا۔ اس کمیشن میں وزیر خارجہ منظور قادر کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ چھ ہزار سے زائد تجاویز اور پانچ سو سے زائد متعلقہ افراد کے انٹرویوز کے بعد 6 مئی 1961ء کو آئینی رپورٹ تیار ہوئی جس پر کابینہ کے علاوہ تمام متعلقہ اداروں میں غوروغوض کیا گیا اور یکم مارچ 1962ء کو آئین کی منظوری دے دی گئی تھی۔
اس آئین کے تحت قومی اسمبلی کی کل 156 نشستیں تھیں جن میں چھ خواتین کی مخصوص نشستیں بھی تھیں جبکہ دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان سے 75 ارکان فی یونٹ تھے۔ صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی تعداد 150 فی یونٹ تھی۔
عوام کے لیے دستور؟
ریڈیو پاکستان پر اپنی اس نشری تقریر میں صدر ایوب خان ، اہل پاکستان کو یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ ان کے لئے دستور تیار کر لیا گیا ہے اور جب وقت آیا تو ان کی رائے بھی لے لی جائے گی۔ وہ یہ بھی ارشاد فرما رہے ہیں کہ عوام کے لئے اس جمہوریت کا انتخاب کیا گیا ہے جو وہ سمجھ سکتے ہیں یا ان کے لئے مناسب سمجھا گیا ہے۔ یہ تقریر انگلش میں تھی اور دلچسپ بات یہ تھی کہ خود صدر صاحب اپنی اس تقریر میں فرما رہے ہیں کہ لوگ وہی بات سمجھ سکتے ہیں جو ان کی اپنی زبان میں ہو۔ اس وقت ملک بھر (پاکستان اور بنگلہ دیش) میں خواندگی کا تناسب دس فیصد سے بھی کم تھا اور دس کروڑ آبادی کے لئے اخبارات کی مجموعی اشاعت بیس ہزار کے قریب تھی جس سے امور مملکت میں عوام الناس کی دلچسپی یا شرکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔!
1962 Constitution
Thursday, 1 March 1962
The "General Ayub Khan's Personal Constitution", was a presidential constitution in which the power and intellect were vested in the President and the people were mere subjects and slaves. Political parties were banned but the President himself was allowed to hijack the Muslim League.
1962 Constitution (video)
Credit: Pak Broad Cor
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
15-08-1947: پاکستان کی پہلی کابینہ
02-12-1988: بے نظیر بھٹو
23-03-1956: سکندر مرزا