1962 Constitution was presidential form of government with absolute powers vested in the President..
یکم مارچ 1962ء کو "جنرل ایوب خان کا آئین" نافذ ہوا جس میں بنیادی انسانی حقوق کی مشروط ضمانت دی گئی تھی۔۔!
یہ ایک صدارتی آئین تھا جس میں طاقت اور عقل کل ، صدر کی ذات تھی اور عوام محض رعایا اور تماشائی تھے۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندی تھی لیکن خود صدر صاحب کے مسلم لیگ کو ہائی جیک کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس آئین میں پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ" کے بجائے صرف "جمہوریہ" یا The Repblic of Pakistan قرار دیا گیا تھا اور مزے کی بات ہے کہ کسی مذہبی حلقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی یا شاید رینگنے ہی نہیں دی گئی تھی۔۔!
اس شخصی آئین کے تحت صدر ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا بالواسطہ انتخاب بنیادی جمہوریتوں کے ممبران اور ان کا بلاواسطہ انتخاب بلدیاتی انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام الناس کرتے تھے۔ صدر کو کلی اختیار حاصل تھا کہ وہ ہر کسی کو گھر بھیج سکتا تھا اور اس کا حکم ، آرڈیننس کی صورت میں قانون بن جاتا تھا۔ قومی اسمبلی توڑنے کی صورت میں صدر کو بھی مستعفی ہونا پڑتا تھا۔ صدر ، اسمبلی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کر سکتا تھا جبکہ دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ صدر کا مسلمان ہونا لازم اور اس کا انتخاب صرف دو بار ہی ہو سکتا تھا۔ صدر اور سپیکر کے عہدوں پر بیک وقت ایک ہی صوبے کے افراد فائز نہیں ہو سکتے تھے۔ صدر کے بعد گورنرز کی حیثیت تھی جو صوبائی حکومت چلانے کے لئے صدر کے سامنے جوابدہ تھے۔
17 فروری 1960ء کو سابق چیف جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا گیا تھا جن کے ذمہ ایک اسلامی ، جمہوری اور وفاقی آئین مرتب کرنا تھا۔ اس کمیشن میں وزیر خارجہ منظور قادر کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ چھ ہزار سے زائد تجاویز اور پانچ سو سے زائد متعلقہ افراد کے انٹرویوز کے بعد 6 مئی 1961ء کو آئینی رپورٹ تیار ہوئی جس پر کابینہ کے علاوہ تمام متعلقہ اداروں میں غوروغوض کیا گیا اور یکم مارچ 1962ء کو آئین کی منظوری دے دی گئی تھی۔
اس آئین کے تحت قومی اسمبلی کی کل 156 نشستیں تھیں جن میں چھ خواتین کی مخصوص نشستیں بھی تھیں جبکہ دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان سے 75 ارکان فی یونٹ تھے۔ صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی تعداد 150 فی یونٹ تھی۔
ریڈیو پاکستان پر اپنی اس نشری تقریر میں صدر ایوب خان ، اہل پاکستان کو یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ ان کے لئے دستور تیار کر لیا گیا ہے اور جب وقت آیا تو ان کی رائے بھی لے لی جائے گی۔ وہ یہ بھی ارشاد فرما رہے ہیں کہ عوام کے لئے اس جمہوریت کا انتخاب کیا گیا ہے جو وہ سمجھ سکتے ہیں یا ان کے لئے مناسب سمجھا گیا ہے۔ یہ تقریر انگلش میں تھی اور دلچسپ بات یہ تھی کہ خود صدر صاحب اپنی اس تقریر میں فرما رہے ہیں کہ لوگ وہی بات سمجھ سکتے ہیں جو ان کی اپنی زبان میں ہو۔ اس وقت ملک بھر (پاکستان اور بنگلہ دیش) میں خواندگی کا تناسب دس فیصد سے بھی کم تھا اور دس کروڑ آبادی کے لئے صرف بیس ہزار اخبارات شائع ہوتے تھے جس سے امور مملکت میں عوام الناس کی دلچسپی یا شرکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔!
1962 Constitution (video)
Credit: Pak Broad Cor
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک انفرادی کاوش اور فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ ہے جو اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا ، ان شاء اللہ۔۔!
عید کی فلمیں …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… فنکاروں کی تقسیم …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… پاکستانی فلموں کے 75 سال …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد ……