پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 16 مئی 1946
کیبنٹ مشن پلان
قائداعظمؒ اور وائسرائے ہند لارڈ ویول
کیبنٹ مشن پلان ، قائداعظمؒ کی ایک بہت بڑی سیاسی فتح تھی۔۔!
23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں قائداعظمؒ کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کا یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان تمام علاقوں کو مکمل صوبائی خودمختاری دی جائے ، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے یہ مطالبہ مان لیا تھا۔
کیبنٹ مشن پلان اگر منظور ہوجاتا تو قائداعظمؒ کو وہ سب کچھ مل جاتا ، جس کے لیے وہ ، پاکستان کے حصول کے لیے پرامن سیاسی اور قانونی جدوجہد کررہے تھے۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی نوبت نہ آتی بلکہ آسام سمیت ہندوستان کے 11 میں سے 5 غیر منقسم صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومتیں بن جاتیں جنھیں نہ صرف مکمل صوبائی خودمختاری کی ضمات مل رہی تھی بلکہ دس سال بعد مرکز سے علیحدگی کا حق بھی دیا جارہا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ہندو قیادت کو قابل قبول نہیں تھی جو پورے برصغیر پر اپنا اکلوتا حق سمجھتی تھی کیونکہ صدیوں بعد انھیں آزادی مل رہی تھی۔
کیبنٹ مشن پلان کیا تھا؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی معاشی بدحالی کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی کی منزل قریب تر آتی جارہی تھی۔ اسی سلسلے میں برطانوی وزیراعظم Clement Attlee نے 19 فروری 1946ءکو اپنی کابینہ کے تین وزراء پرمشتمل ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس کا مقصد ہندوستان کو آزادی دینے کے لیے طریقہ کار طے کرنا تھا۔ اسی لیے اسے Cabinet Mission Plan کا نام دیا گیا تھا جس نے 24 مارچ 1946ء کو اپنا کام شروع کردیا تھا۔
16 مئی 1946 کو کیبنٹ مشن پلان کے تحت اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی وحدت کو قائم رکھا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے پاس دفاع ، امورخارجہ اور مواصلات کے شعبے ہوں گے لیکن دیگر تمام شعبے صوبوں کے پاس ہوں گے جنھیں مکمل داخلی خودمختاری اور آئین سازی کا اختیار بھی ہوگا۔
قائداعظمؒ کا یوٹرن
آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی قیادت میں 6 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرلیا تھا حالانکہ 9 اپریل 1946ء کو دہلی قرارداد میں ہندوستان سے ایک الگ اور خودمختار پاکستان کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا اور "نظریہ پاکستان" کی بڑے سخت الفاظ میں تشریح بھی کی گئی تھی۔ یہ ایک یوٹرن تھا لیکن حقیقت پسندی بھی تھی۔ قائداعظمؒ جیسا دوراندیش لیڈر دیکھ رہا تھا اگر ہندوستان کی آئینی حدود میں رہ کر آزادی ملتی ہے تو وہ ایک الگ ملک بنانے سے بدرجہا بہتر ہے۔
راست اقدام کا فیصلہ
قائد اعظمؒ کے لچک دار موقف کے برعکس ہندو قیادت نے 25 جون 1946ء کو جواہر لال نہرو کی قیادت میں کیبنٹ مشن پلان کے پہلے حصے کو تو تسلیم کرلیا تھا لیکن دوسرے حصے یعنی دس سال بعد صوبوں کی علیحدگی کے حق کو مسترد کردیا تھا۔ قائداعظمؒ نے نہرو کے اس انکار پر ردعمل کے طور پر 29 جولائی 1946 کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں پورے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے 16 اگست 1946ء کو "راست اقدام" یا Direct Action کا حکم دے دیا تھا جس کا مطلب اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ قائداعظمؒ کی یہ دھمکی کام دکھا گئی اور 10 اگست 1946ء کو ہندو قیادت نے کابینہ مشن پلان کو من و عن منظور کرلیا اور منصوبے کے مطابق 2 ستمبر 1946ء کو ایک عبوری حکومت قائم ہوئی جس میں 25 اکتوبر 1946ء کو مسلم لیگ بھی شامل ہوگئی تھی۔
کیبنٹ مشن پلان کی ناکامی کی وجہ
عبوری حکومت کی تشکیل کے باوجود وائسرائے ہند Lord Wavell ، کانگریس کو کیبنٹ مشن پلان پر عمل درآمد پر آمادہ نہ کرسکے۔ ان کی جگہ Lord Mountbatten نے لے لی تھی۔ ہندو قیادت نے سوچا کہ اگر ہمیں مستقبل میں ان پانچوں صوبوں سے ہاتھ دھونا ہی ہیں تو کیوں نہ ابھی سے جان چھڑا لی جائے۔ انھوں نے پنجاب اور بنگال کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے علاوہ صوبہ سرحد اور آسام میں ریفرنڈم کا مطالبہ کردیا جو انگریزوں اور مسلم لیگ کو تسلیم کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو اس پلان سے سخت مایوسی ہوئی تھی لیکن کوئی دوسرا حل نہیں تھا۔ بالآخر 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق 15 اگست 1947ء کو دو آزاد اور خودمختار ملک ، پاکستان اور بھارت ، وجود میں آئے تھے۔
کیبنٹ مشن پلان کے اہم نکات
- متحدہ ہندوستان کے تمام صوبوں کی نمائندگی سے ایک مرکزی حکومت قائم ہوگی جس کے پاس دفاع ، امور خارجہ اور اور مواصلات کے شعبے ہوں گے۔ دیگر سبھی شعبے خودمختار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوں گے۔
- مرکز اور صوبوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت کی انتظامیہ اور مقننہ قائم ہوگی۔ متنازعہ فرقہ وارانہ مسائل فریقین کی کثرت رائے سے طے کیے جائیں گے۔
-
متحدہ ہندوستان میں مذہبی تفریق اور 1945/46ء کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں پورے ملک کے 11 صوبوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا جارہا تھا :
- گروپ A : ہندو صوبے (6) ، اترپردیش یا UP ، سنٹرل پرونسز یا CP، بمبئی ، مدراس ، بہار اور اڑیسہ
- گروپ B : شمال مغربی مسلم اکثریت کے صوبے (3) ، پنجاب ، سندھ اور سرحد
- گروپ C : شمال مشرقی مسلم اکثریت کے علاقے (2) ، بنگال اور آسام
- متحدہ ہندوستان کے مشترکہ آئین اور ہر صوبے کے مقامی آئین کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ تمام صوبوں کو یہ اختیار ہوگا کہ دس سال گزرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں، تو متحدہ ہندوستان کی یونین یا اتحاد سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔
- صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ ہوں گی۔ ہر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص ہوگی۔ متحدہ ہندوستان کے 11 صوبوں کو کل 290 نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے 78 نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔
منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ جو سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔
Cabinet Mission Plan
Thursday, 16 May 1946
The Cabinet Mission in 1946 was a plan to transfer of power from the British government to the Indians..
Cabinet Mission Plan (video)
Credit: British Pathé
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
10-12-1947: اردو بنگالی تنازعہ
27-06-1949: جسٹس میاں عبد الرشید
01-10-1951: معیاری وقت