
سہروردی اور ناظم الدین
16 اگست 1946ء کا دن برصغیر کی تاریخ کا ایک المناک دن تھا جب تقسیم کے بعد ہونے والے خونزیر فرقہ وارانہ فسادات کا ایک خوفناک ٹریلر نظر آیا تھا۔۔!
ڈائریکٹ ایکشن ڈے
29 جولائی 1946ء کو
قائداعظمؒ نے "یوم راست اقدام" یا
Direct Action Day منانے کا حکم دیا۔ انھوں نے ملک بھر میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں کو ہندوستان سے الگ ، آزاد اور خودمختار "پاکستان" کی حمایت میں بھرپور احتجاج ، مظاہرے ، دھرنے ، ہڑتال اور جلسے جلوس کرنے کا کہا گیا تھا۔ ان کی اس اپیل پر ملک بھر میں پرامن احتجاج ہوا لیکن کلکتہ (یا کولکتہ) میں صورتحال ایسی بگڑی کہ ہندوستان کی تاریخ کے بدترین خونی فسادات ہوئے۔ ہزارہا افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ بے گھر ہونے والوں کی کمی بھی نہ تھی۔ فسادی شیطانی قوتیں اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ میدان عمل میں تھیں۔
کلکتہ کے فسادات کیوں ہوئے؟
کلکتہ کے ان خونریز فسادات کا آغاز اسوقت ہوا جب قائداعظمؒ کی اپیل پر بنگال کی صوبائی حکومت نے 16 اگست 1946ء کو صوبہ بھر میں سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا جس پر ہندو پریس اور لیڈران خاصے برہم تھے حالانکہ اس حکم کو انگریز گورنر کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بنگال ، واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ وزیراعلیٰ
حسین شہید سہروردی تھے جنھیں ہندو پریس ، فسادات کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیتا تھا اور "بنگال کا قصاب" بھی کہتا تھا۔
جب کشیدگی ، فسادات بن گئی
کلکتہ میں احتجاجی جلسہ وزیراعلیٰ حسین شہید سہروردی اور
خواجہ ناظم الدین کی قیادت میں شروع ہوا۔ اس دوران مسلم لیگی کارکنوں نے ہندوؤں کی دکانیں اور کاروبار زبردستی بند کروانا شروع کردیے جنھوں نے اپنے مقامی ہندو لیڈروں کے کہنے پر ہڑتال کو نظرانداز کردیا تھا۔ اس پر کشیدگی اتنی بڑھی کہ باہمی جھگڑے ، قتل و غارت گری کی بڑی وجہ بن گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ فسادات پورے بنگال اور بہار میں پھیل گئے تھے۔ جہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی ، وہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور جہاں مسلمان زیادہ تعداد میں آباد تھے وہاں سے نہ صرف ہندوؤں کا صفایا ہوا بلکہ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں نقل مکانی بھی ہوئی جس نے مغربی بنگال کو ہندوؤں اور مشرقی بنگال کو مسلمانوں کا علاقہ بنا دیا تھا۔ حقیقت میں تقسیم بنگال کے ساتھ ہی تقسیم ہند کا آغاز بھی ہوگیا تھا۔
راست اقدام کی ضرورت کیوں تھی؟
قائداعظمؒ کی پوری سیاسی زندگی میں یہ واحد موقع تھا کہ جب انھوں نے قانون و ضوابط کی پاسداری اور افہام و تفہیم کے بجائے سٹریٹ پاور کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کانگریس نے
کابینہ مشن پلان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا جو ہندوستان کی تقسیم کو روکنے کا آخری حربہ تھا۔ اس پلان میں متحدہ ہندوستان کی ضمانت دی گئی تھی لیکن ساتھ ہی مکمل صوبائی خودمختاری کے ساتھ صوبوں کو یہ حق بھی دیا گیا تھا کہ دس سال بعد وفاق سے الگ ہوسکتے ہیں۔
مسلم لیگ نے اپنے 9 اپریل 1946ء کے قرارداد دہلی کے اعلامیے کے بالکل برعکس اس منصوبے کو 6 جون 1946ء ہی کو تسلیم کرلیا تھا لیکن کانگریس کسی طور بھی صوبوں کو مرکز سے علیحدگی کا حق دینے کو تیار نہ تھی۔ اس "راست اقدام" کے بعد ان کی عقل ٹھکانے آئی اور نہ صرف کیبنٹ مشن پلان کو من و عن تسلیم کیا بلکہ 15 اکتوبر 1946ء کو
مسلم لیگ کے ساتھ مخلوط عبوری حکومت میں شرکت بھی کی تھی۔ لیکن یہ تلخی ایسی نہ تھی کہ مٹ جاتی ، نتیجہ تقسیم ہند کی شکل میں سامنے آیا اور برصغیر میں مسلمانوں کا ایک الگ وطن "پاکستان" وجود میں آگیا تھا۔

یوم راست اقدام