PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Thursday, 21 November 2024, Day: 326, Week: 47

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

ہفتہ 8 اپریل 1950

لیاقت نہرو معاہدہ

لیاقت نہرو معاہدہ
لیاقت نہرو معاہدے میں
اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی

8 اپریل 1950ء کو دہلی میں "لیاقت نہرو معاہدہ" یا "دہلی معاہدہ" ہوا جس میں دونوں ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔۔!

1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہولناک فسادات ہوئے جن سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ اس کے بعد بھی گاہے بگاہے فسادات ہوتے رہے۔ 8 فروری 1950ء کو کلکتہ میں شروع ہونے والے ہندو مسلم فسادات نے مشرقی اور مغربی بنگال ، آسام اور تری پورہ میں شدت اختیار کر لی اور بے شمار افراد لقمہ اجل بنے۔ لاکھوں لوگ ایک بار پھر نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے۔ قتل و غارت ، لوٹ مار ، اغواء اور آبروریزی کے واقعات عام ہوئے۔ کشیدگی ، نفرت اور امن و امان کی اس نازک صورتحال کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا۔ 20 فروری 1950ء تک ان خونریز فسادات پر قابو پا لیا گیا تھا۔

ان حالات میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے مابین 8 اپریل 1950ء کو دہلی میں ہونے والے "لیاقت نہرو معاہدے" کے خاص خاص نکات مندرجہ ذیل تھے:

(الف) حکومتِ ہند اور حکومتِ پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ
  • دونوں ممالک میں اقلیتوں کو بلا امتیاز جمہوری اور شہری حقوق حاصل رہیں گے۔
  • اقلیتوں کے جان و مال، تہذیب و ثقافت اور ذاتی عزت و وقار کی حفاظت و سلامتی کے علاوہ ملک بھر میں نقل و حرکت ، کاروبار اور تحریر و تقریر اور عقائد و عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی بشرطیکہ ان سے اخلاق و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
  • اقلیتوں کو بھی ملک کے دیگر اکثریتی طبقات کے ساتھ امورِ مملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے۔ وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے۔ سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کر سکیں گے۔
  • دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ اقلیتی طبقات کی وفاداریاں ان ممالک کے ساتھ ہی ہوں جن کے وہ شہری ہیں اور انہیں اپنی شکایات کے حل کے لیے اپنے ہی ممالک کی حکومتوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔
  • دونوں حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق ہیں اور ان کے مؤثر نفاذ کا عہد کرتی ہیں۔ وزیرِاعظم ہند نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی دستور ہند میں پہلے ہی سے ضمانت دی گئی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے بھی بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے لیے قرارداد مقاصد میں بھی منظور کی گئی ہیں۔ (یاد رہے کہ اس وقت تک بھارت کا آئین منظور ہو چکا تھا لیکن پاکستان میں انڈیا ایکٹ 1935ء کا نظام چل رہا تھا اور آئین 1956ء میں جا کر نافذ ہوا تھا۔)
(دوم) مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام اور تری پورہ کے مہاجرین کے بارے میں جہاں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، دونوں ممالک کی حکومتیں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ
  • ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے دوران مکمل تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہیے۔
  • مہاجرین کو یہ آزادی ملنی چاہیے کہ جس قدر اپنا مال و اسباب نکال سکیں، نکال لیں۔ منقولہ جائیداد میں ذاتی زیورات بھی شامل ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ نقد رقم فی بالغ مہاجر 150 روپے اور فی نابالغ مہاجر 75 روپے رکھنے کی اجازت ہوگی۔
  • اگر کوئی مہاجر یہ نقدی اور زیورات خود نہیں لے جانا چاہتا ہے تو اسے بینک میں جمع کروا سکتا ہے۔ کسٹم حکام انہیں پریشان نہیں کریں گے۔ اس کی ضمانت کے لیے کسٹم چوکیوں پر دوسرے ملک کے افسر بطور رابطہ کار تعینات رہیں گے۔
  • مہاجرین کی غیر منقولہ جائیداد میں مالکانہ حقوق اور کرایہ دارانہ حقوق کی بھی حفاظت ہوگی۔ اگر اس کی غیر حاضری میں کوئی اس کی جائیداد پر قبضہ کرلے تو یہ جائیداد واپس دلائی جائے گی بشرط یہ کہ مہاجر 13 دسمبر 1950ء سے پہلے واپس آجائے۔ اگر مہاجر زرعی زمین کا مالک یا کرایہ دار ہے تو اس کی بھی جائیداد اس تاریخ تک واپس آجانے پر اسے دلوائی جائے گی۔
  • کسی غیر معمولی کیس میں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی مہاجر کو اس کی جائیداد واپس نہیں کی جائے گی تو پھر یہ معاملہ مشورہ کے لیے متعلقہ اقلیتی کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ اگر مقرر تاریخ تک لوٹ آنے والے کسی مہاجر کی جائیداد لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر حکومت اس کی آباد کاری کرے گی۔
(سوم) دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ
  • مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام اور تریپورہ کے حالات سدھارنے اور معمول پر لانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔ لوٹی ہوئی املاک و جائداد واپس لی جائے گی۔ مغویہ عورتوں کو برآمد کرنے کے لیے فوری طور پر ایسی ایجنسی قائم کی جائے گی جن میں اقلیتی نمائندے بھی ہوں۔ جبری تبدیلی مذہب کو قبول نہیں کیا جائے اور ایسی حرکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے۔
  • فسادات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جائے اور اقلیت کے بھی ایسے افراد اس میں شامل ہوں جن سے انہیں حوصلہ ملے۔ یہ کمیشن "آئندہ ہنگاموں کو کیسے روکا جائے" کی بھی سفارشات پیش کرے۔
  • افواہیں اور غلط خبریں پھیلانے والے افراد اور اداروں کی سخت نگرانی کی جائے اور ان پر ایکشن لیا جائے۔
  • اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جائے یا دونوں کے درمیان جنگ بھڑکانے یا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیا جائے۔
  • اس معاہدے کے ذریعے ایسے اقدامات پر بھی غور ہوا کہ دونوں ممالک کا ماحول نارمل بنایا جائے تاکہ مہاجرین کی اپنے اپنے وطن واپسی ممکن ہوسکے۔اس کے لیے دونوں ممالک کے ایک ایک وزیر کو متاثرہ حلقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی کابینہ میں فوراً اقلیتی طبقہ کے ایک ایک وزیر کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
  • اس معاہدے کی تجاویز پر عمل کے لیے مشرقی بنگال، مغربی بنگال اور آسام میں ایک ایک اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا چیئرمین ایک صوبائی وزیر اور اراکین میں اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہوں۔ پاکستان اور بھارت کے دو وزیر کمیشن کی کارروائیوں میں شریک رہیں گے۔ اقلیتی کمیشن ضلع سطح کے اقلیتی بورڈز سے رابطہ میں رہے گا اور اس معاہدہ پر عمل درآمد کا اقلیتی کمیشن جائزہ لے گا۔





Liaquat-Nehru Pact

Saturday, 8 April 1950

The Liaquat-Nehru Pact (or the Delhi Pact) was a bilateral treaty between India and Pakistan to guarantee the rights of minorities in both countries..




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.