پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 16 دسمبر 1971
پاک بھارت جنگ 1971
سانحہ مشرقی پاکستان ، میری ذاتی زندگی کا ایک انتہائی ناقابل فراموش واقعہ ہے۔۔!
نصف صدی قبل ، 16 دسمبر 1971ء کو جب پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ عظیم رونما ہوا تو دیگر بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی دھاڑے مار مار کر رویا تھا۔
گو اس وقت میری عمر صرف نو سال تھی لیکن اپنی عمر سے بڑا اور باشعور تھا۔ ریڈیو ، ٹی وی ، اخبارات اور فلموں کا رسیا تھا اور سیاسی بحث و مباحثوں میں شرکت کی وجہ سے حالات حاضرہ اور عوامی مزاج کو بخوبی سمجھتا تھا۔
گھر میں مورچہ
1971ء کی پاک بھارت جنگ کی صورتحال گھر ہی میں مل گئی تھی جب ہمارے صحن میں ایک L شکل کا مورچہ کھودا گیا تھا جو آج تک میرے ذہن میں کھدا ہوا ہے۔
جب بھی ہوائی سائرن بجتے تو مورچے میں دبکنے کی بجائے ہم چھوٹے موٹے پتھر لے کر مکان کی چھت پر چڑھ دوڑتے اور دشمن کے طیاروں کو للکارتے تھے۔ صرف ایک بار یاد پڑتا ہے کہ چند طیارے ہمارے اوپر سے گولی کی رفتار سے گزر گئے تھے لیکن بمباری وغیرہ کہیں نہیں دیکھی تھی۔
میرے آبائی شہر کھاریاں کی بہت بڑی فوجی چھاؤنی ویسے بھی دشمن کے لیے ایک قدرتی ٹارگٹ تھا۔ کشمیر اور بھارت کی سرحد کے بہت قریب بھی تھی لیکن مجھے کوئی حملہ ، حادثہ یا دھماکہ یاد نہیں۔
بلیک آؤٹ
جنگ کے دوران رات کے وقت مکمل اندھیرا یا بلیک آؤٹ ہوتا تھا اور کسی قسم کی روشنی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ سفید اور چمکدار اشیاء پر مٹی مل دی جاتی تھی۔ ہم دن بھر دفاعی فنڈ اکٹھا کرنے والوں کی مدد کیا کرتے اور اپنے طور پر قومی رضاکار بنے ہوئے تھے۔
اس دوران ایک واقعہ نہیں بھولتا کہ میرا ایک کزن سگریٹ نوشی کا بڑا عادی تھا۔ اس بلیک آؤٹ میں بھی وہ اپنا نشہ پورا کر لیا کرتا تھا۔ وہ سگریٹ سلگا کر پوری ہتھیلی اس کی سلگتی راکھ پر رکھ کر چھپا لیتا اور پانچوں انگلیوں سے سگریٹ کو درمیان سے پکڑ کر کش لگا کر ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔
میں ، اس وقت چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ جب سکول سے سیدھا اپنی دکان پر جاتا تو دادا جان مرحوم و مغفور بڑی بے چینی سے منتظر ہوتے۔ وہ خود ناخواندہ تھے لیکن میرے لیے روزانہ کا اخبار ، روزنامہ جنگ راولپنڈی خریدتے تھے۔ میں ، انھیں اور ان کے ساتھی دکانداروں کو نیوز ریڈرز کے انداز میں خبریں پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔
مستقل اخبار بینی کا یہ سلسلہ گزشتہ سال یعنی 1970ء سے شروع ہوا تھا جب پاکستان میں پہلے انتخابات کی گہما گہمی تھی اور بھٹو صاحب کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کی دوروغ گوئی
سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر تو الا ماشا اللہ ، ہمیشہ کی طرح جھوٹ کی فراوانی ہوتی تھی جسے عام لوگ بھی سمجھتے تھے اور یقین کم ہی کیا کرتے تھے۔ اخبارات میں بھی خبریں سنسر شدہ ہوتی تھیں اور جو ہوتی تھیں ، وہ بہت زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی تھیں جو کسی اندھے کو بھی سفید جھوٹ کی طرح سے نظر آتی تھیں۔ ایسے میں آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو جموں دن بھر سنائی دیتے تھے لیکن ہندوستان سے نفرت کی وجہ سے دشمن کی باتوں پر بھی یقین نہیں آتا تھا۔
عام آدمی کے لیے رات کو صرف بی بی سی ریڈیو ہی باقی بچتا تھا جس کے بارے میں ملک بھر میں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا کو وہ "برہمن براڈکاسٹنگ کارپوریشن" ہے ، جیسا کہ ایک ویڈیو میں نام نہاد "ٹائیگر" جنرل نیازی صاحب بھی فرماتے ہیں۔
اس دور میں آج کی طرح سے سوشل میڈیا تو نہیں تھا لیکن ایک "سینہ گزٹ" ہوتا تھا ، یعنی طرح طرح کی افواہیں سینہ بہ سینہ ہوائی بگولوں کی طرح سے گردش کرتی رہتیں جو عام طور پر سچی ہوتی تھیں۔
جب ہتھیار ڈالے گئے۔۔!
1971ء کی جنگ کے دوران فتح کے سرکاری قصیدے سنتے سنتے اچانک یہ اندوہناک خبر ملی کہ ڈھاکہ میں بھارتی فوج داخل ہوگئی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے کاغذی شیر جنرل نیازی نے بڑے ذلت آمیز انداز میں ہتھیار ڈال دیے ہیں اور مشرقی پاکستان کو بھارت نے فتح کر لیا ہے۔
ان دنوں یہ مقولہ زبان زدعام تھا کہ "مر گئے تو شہید ، بچ گئے تو غازی ، اور ہتھیار ڈال دیے ، تو نیازی۔۔!"
عوام الناس میں جنرل نیازی ، بزدلی اور نااہلی کی ایک بدترین علامت بن چکے تھے۔ آج کے سیاستدان جب عمران خان کو 'نیازی' کے نام سے چھیڑتے ہیں تو ان کا اشارہ اسی طرف ہوتا ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ بظاہر مہا بھارت کی جنگ و جدل سے بھرپور داستانوں والے سورمے مگر ہمارے ہاں روایتی اور "بزدل دشمن ، ہندو بنیے" سے ہمیں تاریخ کی ایک شرمناک ترین فوجی شکست ہوئی ہے جس پر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان زخموں پر نمک تھا کہ "ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔۔"
ہمیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمارے نوے ہزار سے زائد جنگی قیدی ، ہمارے ازلی دشمن کی قید میں چلے گئے ہیں اور 190 سے زائد فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ کی خبریں بھی دنیا بھر میں گردش کر رہی ہیں۔
یہ خبر بھی بعد میں معلوم ہوئی تھی کہ مغربی پاکستان کا ساڑھے پانچ ہزار مربع میل علاقہ بھی دشمن کے قبضے میں ہے۔ اگر مشرقی محاذ پر جنرل نیازی جیسا بزدل اور نااہل کمانڈر تھا تو مغربی محاذ پر جنرل حمید جیسا یحییٰ خان کا دست راست بھی اس سے کم نہیں تھا جس کی وجہ سے شکر گڑھ کی پوری تحصیل پر دشمن نے قبضہ کر لیا تھا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا دفاع تہس نہس ہوچکا ہے۔ کراچی کے نیول ہیڈکوارٹر کی تباہی کے بعد دشمن کے طیارے آزادی کے ساتھ آتے اور بمباری کر کے چلے جاتے تھے۔ میرے سسر صاحب ائیر فورس میں ہوتے تھے ، ان کے بقول ، دشمن کے طیارے تباہی مچا جاتے اور ہماری قابلیت صرف یہ ہوتی کہ وہ نقصان کتنی دیر میں پورا کرتے ہیں۔ جنگی جنون رکھنے والے لوگ بھی یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ جنگ کا مزہ نہیں آرہا۔۔!
سقوط مشرقی پاکستان پر یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا بڑا المیہ کیوں اور کیسے ہوا؟ ہم لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ مجھے نہیں بھولتا کہ کئی مائیں بین کر رہی تھیں کہ "ہائے میرا پتر ، ڈھاکے بنگالے گیا ، مڑ کے نئیں آیا۔۔!!!" میں آج بھی اس ناقابل فراموش جملے پر خون کے آنسو روتا ہوں۔۔!
17 دسمبر 1971ء کی صبح کا وہ منظر بھی نہیں بھولتا جب محلے کے تین لڑکوں کے ساتھ ایک دیوار کی اوٹ میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے رفع حاجت کرتے ہوئے سقوط ڈھاکہ کا بتا رہا تھا اور زاروقطار رو بھی رہا تھا۔۔!
قدرتی بات ہے کہ اس المناک واقعہ کا مجھ پر بڑا گہرا اثر ہوا تھا جس پر بڑی تحقیق کی ہے۔ مجھے دور دور تک کوئی شک نہیں کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اور یہی کچھ اپنی ویب سائٹ پر پیش کر کے اپنا قومی فرض پورا کررہا ہوں۔
Indo-Pak War 1971
Thursday, 16 December 1971
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
15-07-2020: دیامیربھاشا ڈیم کا افتتاح
10-02-1975: تیسری آئینی ترمیم: نیپ پر پابندی
24-08-1967: پاکستان کی پہلی سٹیل مل