پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگلوار 30 اپریل 1974
جنگی قیدیوں کی واپسی
جنگی قیدیوں پر ایک ڈاک ٹکٹ
16 دسمبر 1971ء کو 9 ماہ کی خونزیز خانہ جنگی اور بھارتی مداخلت کے بعد جب پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈالے تو ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی جنگی قیدی ہوگئے تھے۔۔!
کتنے قیدی تھے؟
پاکستان سے مسلح جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کرنے والی نئی ریاست ، بنگلہ دیش کا مطالبہ تھا کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کو ان کی تحویل میں دیا جائے تاکہ جنگی جرائم میں ملوث فوجی افسران پر مقدمات چلائے جا سکیں۔ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش کا یہ مطالبہ نہیں مانا اور فیصلہ کیا کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی حفاظت اور بنگالیوں کے انتقام سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں بھارتی کیمپوں میں رکھا جائے۔
اطلاعات کے مطابق ، پاکستان کے جنگی قیدیوں میں سے 79.676 یونیفارم میں ملبوس اہلکار تھے جن میں سے 55.692 آرمی ، 16.354 نیم فوجی ، 5.296 پولیس ، 1.000 نیوی اور 800 ایئرفورس کے اہلکار تھے۔ بقیہ 13.324 قیدی ، فوجی اہلکاروں کے خاندان کے افراد یا بہاری تھے۔
بھارت نے 90 ہزار سے زائد پاکستانی جنگی قیدیوں کو دو سال تک اپنے ملک کے مختلف کیمپوں میں قید میں رکھا تھا۔ پاکستانی فوج کی مشرقی کمان کے فوجی افسران کو کلکتہ کے فورٹ ولیم میں جبکہ جنگی قیدیوں کی اکثریت کو نئی دہلی کے لال قلعہ اور گوالیار قلعے میں قید رکھا گیا تھا۔
جنگی قیدیوں کی قید طویل کیوں ہوئی؟
1925ء کے جینوا کنوینشن کے مطابق جنگ کے بعد فریقین کو جلد از جلد ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو باعزت رہا کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستانی جنگی قیدیوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس مسئلہ میں بنگلہ دیش خود کو ایک اہم فریق سمجھتا تھا لیکن پاکستان اسے تسلیم نہیں کرتا تھا۔ بنگلہ دیش کا اصرار تھا کہ 195 پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جائے جو بنگالیوں کی نسل کشی میں ملوث تھے۔ تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کا شوشا بھی تھا اور پاکستان سے سرکاری طور پر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی تھا جو تسلیم نہیں کیا گیا اور یہ موقف اپنایا گیا کہ پاک فوج نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی ہے جو کوئی جرم نہیں بلکہ ایک پیشہ وارانہ فرض تھا۔
شملہ معاہدہ اور جنگی قیدی
2 جولائی 1972ء کو صدرپاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے مابین معاہدہ شملہ پر دستخط ہوئے لیکن اس میں مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر جنگی قیدیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق بھارت نے مغربی محاذ پر پاکستان کے آٹھ سے نو ہزار مربع کلومیٹر کے مقبوضہ علاقے واپس کیے جبکہ دیگر معاملات کو پرامن ذرائع سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جب چین نے پاکستان کے لیے ویٹو کا حق استعمال کیا
اس دوران سفارتی محاذ پر جنگ جاری تھی ، بنگلہ دیش اپنی ضد پر اڑا رہا کہ اسے ایک آزاد ملک تسلیم کرنے اور متعلقہ پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جائے ، پاکستان مسلسل انکاری رہا۔ اس دوران 25 اگست 1972ء کو پاکستان کو ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ملی جب عوامی جمہوریہ چین نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن نہیں بننے دیا تھا۔
جنگی قیدیوں کا مسئلہ ، عالمی عدالت میں
صدر ذوالفقار علی بھٹوؒ ، جو پاکستان کے وزیرخارجہ بھی تھے ، انھوں نے 11 مئی 1973ء کو عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکٹایا اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی جو منظور ہوگئی۔ بین الاقوامی دباؤ پر بھارت اور بنگلہ دیش مجبور ہوئے کہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور اس طرح سے 28 اگست 1973ء کو دہلی میں ایک سہ طرفہ معاہدہ ہوا جس میں بنگلہ دیش بھی شامل تھا حالانکہ پاکستان اسے تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن ایسے میں غیرسرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 7 جولائی 1973ء کو سپریم کورٹ نے صدر بھٹو کو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لیے قانون سازی کی اجازت دے دی تھی اور 10 جولائی 1973ء کو پارلیمنٹ نے بھٹو صاحب کو یہ حق دے دیا تھا کہ وہ جب چاہیں ، بنگلہ دیش کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ 1973ء کے مستقل آئین میں پہلی آئینی ترمیم یہی تھی کہ مشرقی پاکستان ، اب پاکستان کا حصہ نہیں رہا۔ یہ ترمیم 30 اپریل 1974ء کو منظور ہوئی تھی۔
سہ طرفہ دہلی معاہدہ
معاہدہ دہلی میں یہ طے پایا کہ پاکستان کے تمام جنگی قیدیوں کو 195 فوجی افسران سمیت بلا مشروط رہا کردیا جائے گا۔ 28 ستمبر 1973ء کو جنگی قیدیوں کا پہلا قافلہ پاکستان کی سرزمین پر پہنچا۔ 22 فروری 1974ء کو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا اور بانی بنگلہ دیش اور وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان نے بھی اس تاریخی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
30 اپریل 1974ء کو بھارت میں قید ، جنگی قیدیوں کا آخری قافلہ بھی پاکستان کی سرزمین پر پہنچ گیا تھا جس میں جنرل نیازی بھی موجود تھے۔ 3 مئی کو تمام جنگی قیدیوں کی وطن واپسی پر یوم تشکر منایا گیا تھا۔
Prisoner of War released
Tuesday, 30 April 1974
Pakistan's prisoners of wars were held in Indian camps. They were released on September 28, 1973 till 30 April 1974..
Prisoner of War released (video)
Credit: News Now
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
01-07-1997: چودھویں آئینی ترمیم: فلورا کراسنگ
08-09-1958: گوادر
13-12-1971: جنرل نیازی اور سرنڈر