10 جنوری 1966ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے۔۔!
6 سے 23 ستمبر 1965ء تک پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلانیہ جنگ ہوئی جس میں پاکستان کا دعویٰ تھا کہ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹروں پر بھارتی حملے پسپا کرکے پاکستان نے جنگ جیتی ہے۔
دوسری طرف بھارت کا دعویٰ تھا کہ جولائی 1965ء کے آخری ہفتے سے کشمیر میں ناکام مہم جوئی پر پاکستان کو شکست ہوئی ہے اور بھارت ، کشمیر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ متعدد عالمی لیڈروں کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی تھی۔
بظاہر جنگ میں کامیابیوں کے ان متضاد دعوؤں کے بعد مذاکرات کی گنجائش نہیں تھی لیکن پھر بھی معاہدہ تاشقند کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ اگر آپ نے جنگ جیت لی تھی تو پھر مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔؟
بھارت نے جنگ کے دوران کشمیر کے محاذ پر درہ حاجی پیر اور ٹیٹوال کے علاوہ سات سو مربع میل پاکستانی علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے صرف اڑھائی سو مربع میل بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ پاکستان اپنے علاقے واپس لینے کے لیے معاہدہ تاشقند پر مجبور تھا۔ پاکستانی حکمرانوں نے حسب معمول اپنی قوم سے اتنے جھوٹ بولے تھے کہ انھیں کہیں پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی۔
یاد رہے کہ صدر جنرل ایوب خان کے پریس سیکرٹری الطاف گوہر نے معاہدہ تاشقند پر وزیرِ خارجہ والفقار علی بھٹوؒ کے کردار پر بڑی سخت تنقید کی ہے جبکہ صدر جنرل ایوب خان کے پرسنل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب ، بالکل الگ داستان بیان کرتے ہیں۔ ان کے برعکس بھارتی موقف کوئی اور ہی کہانی بیان کرتا ہے جو شاید معاہدہ تاشقند کی اصل کہانی بھی ہے۔ لال بہادر شاستری کے سوانح نگار سی پی سری واستوا نے اپنی کتاب "سیاست میں سچ: لال بہادر شاستری" میں جنرل ایوب اور شاستری کے مابین یہ مکالمہ نقل کیا ہے:
پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے لیے روس کی میزبانی ایک سوالیہ نشان تھی کیونکہ روس ، روایتی طور پر بھارت کا اتحادی تھا اور پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف تھا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین روس کی میزبانی اس لیے ممکن ہوئی کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے روایتی حلیف اور اتحادی، پاکستان کو سفید جھنڈی دکھا دی تھی۔ قصور اصل میں پاکستان ہی کا تھا جس نے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ سے ملنے والا مفت اسلحہ روس کے بجائے بھارت کے خلاف پھونک دیا تھا اور عین جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ صدر جنرل ایوب خان کو فوجی امداد کے حصول کے لیے چین کا خفیہ دورہ کرنا پڑا تھا۔
اس سے قبل 1962ء کی بھارت اور چین کی جنگ کے دوران مغربی ممالک نے دل کھول کر بھارت کی مدد کی تھی جس سے پاکستان اپنے اتحادیوں سے ناراض تھا۔ 1963ء میں چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ اسی رنجش کا نتیجہ تھا جس پر مغربی ممالک ناراض تھے۔ 1965ء کی جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس سے مطلوبہ نتائج نہ نکل سکے اور مجبوراً ثالثی کے لیے روس کی طرف دیکھنا پڑا۔
تاشقند روانگی سے قبل صدر ایوب خان نے امریکہ اور برطانیہ کے دورے کیے لیکن وہاں سردمہری کا سامنا ہوا۔ معاہدہ تاشقند ، جنرل ایوب خان کی مجبوری اور زوال کی علامت بن گیا تھا۔
معاہدہ تاشقند کے بعد نہ صرف وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ اور صدر جنرل ایوب خان کے اختلافات کھل کر سامنے آئے بلکہ پاکستانی عوام اور حزب مخالف کے سیاست دانوں نے بھی سخت مخالفت کی تھی۔
یاد رہے کہ تاشقند مذاکرات کے لیے ضروری تفصیلات طے کرنے کے لیے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ نے 25 نومبر 1965ء کو ماسکو کا دورہ کیا تھا لیکن مذاکرات کے دوران ایوب اور بھٹو کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے۔ روایت ہے کہ ایک موقع پر جنرل ایوب خان نے طیش میں آکر سب کے سامنے بھٹو کو ڈانٹتے ہوئے اردو میں کہا تھا "اُلو کے پٹھے ، بکواس بند کرو۔۔!" یہیں سے دونوں کی راہیں جدا ہو گئی تھیں۔
13 جنوری 1966 سے مغربی پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ یہ تحریک جلد ہی مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی۔ لاہور میں پولیس نے مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں دو طالب علم ہلاک ہو گئے۔ 14 جنوری کو تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔
اسی دوران افواہوں کا بازار گرم ہو گیا کہ بھٹو کو جنرل ایوب خان کی کابینہ سے نکالا جارہا ہے۔ 29 جنوری 1966 کو ایوب خان نے اس بات کی تردید کی لیکن 17 جون 1966 کو حکومت نے یہ اعلان کر ہی دیا کہ بھٹو کو خرابی صحت کی بنا پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
Tashkent agreement was signed by India and Pakistan on January 10, 1966..
Tashkent agreement (video)
Credit: alibaba
Credit: British Pathé
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……