پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 13 اگست 1954
قومی ترانہ
پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 13 اگست 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا۔۔!
قومی ترانے کی دھن پہلے بنی
پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن پہلے تیار ہوئی تھی جو 21 اگست 1949ء کو لیاقت حکومت نے منظور کی تھی۔ اس دھن کا دورانیہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ یا کل 80 سیکنڈ ہے اور اسے بجانے میں 21 آلات موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔ یکم مارچ 1950ء کو شاہ ایران کے دورہ پاکستان کے موقع پر پہلی بار یہ دھن بجائی گئی تھی۔ 5 جنوری 1954ء کو وزیراعظم محمدعلی بوگرا کی حکومت نے اس دھن کو قومی ترانہ کے طور پر منظور کرلیا تھا۔
پاک سرزمین شاد باد
كشورِ حسين شاد باد
تُو نشانِ عزمِ عالی شان
ارضِ پاکستان
مرکزِ یقین شاد باد
پاک سرزمین کا نظام
قوّتِ اُخوّتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزلِ مراد
پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقّى و کمال
ترجمانِ ماضی، شانِ حال
جانِ استقبال
سایۂ خدائے ذوالجلال
پاکستان کے قومی ترانے کی دھن ، کراچی کے ایک نامور موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ نے تیار کی تھی جن کا انتقال 5 فروری 1953ء کو ہوگیا تھا۔ 1996 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں چھاگلہ صاحب کو صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
قومی ترانہ بعد میں لکھا گیا
4 اگست 1954ء کو حکومت پاکستان نے ممتاز شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔ اس ترانے کے تین بند ہیں جن میں ہر بند کے پانچ پانچ مصرعے ہیں جو کل پندرہ مصرعے بنتے ہیں۔تمام مصرعے چھوٹے بڑے ہیں جو شاعری کےاصولوں پر نہیں بلکہ موسیقی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لکھے گئے تھے۔ تمام الفاظ ، دھن کے اتار چڑھاؤ ، موسیقی کے بہاؤ اور ٹھہراؤ کا حسین سنگم ہیں۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے سٹوڈیوز میں ریکارڈ ہونے والے اس قومی ترانے کی صدا بندی میں نامور گلوکار احمد رشدی کے علاوہ نسیمہ شاہین ، رشیدہ بیگم ، نجم آرا ، کوکب جہاں ، شمیم بانو ، زوار حسین ، اختر عباس ، غلام دستگیر ، انور ظہیر اور اختر وصی علی شامل تھے۔
قومی ترانہ ، ایک نجی پیش کش
جنوبی افریقہ میں مقیم ایک مسلمان تاجر اے آر غنی نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن بنانے والوں کو پانچ پانچ ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا جو 2 جون 1948 کو حکومت پاکستان نے قبول کر لیا تھا۔ اس مقابلے میں کل 723 ترانوں نے حصہ لیا تھا۔
قومی ترانے پر اعتراضات
21 دسمبر 1982ء کو انتقال کرجانے والے عظیم شاعر حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے اس ترانے میں صرف ایک لفظ "کا" ہے جو فارسی زبان میں مستعمل نہیں۔ اکثریت اس ترانے کا ترجمہ نہیں کرسکتی لیکن کچھ لوگ بضد ہیں کہ اس قومی ترانے کے سبھی الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے لیکن یار لوگ "کشورحسین" کو Kishor Hussain پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس ترانے میں "ہلال" کا لفظ پاکستانی پرچم پر چاند کے لیے استعمال ہوا ہے جو درست نہیں کیونکہ پاکستانی پرچم پر ہلال نہیں بلکہ آخری دنوں کا چاند ہے۔
پاکستان کی اکثریتی آبادی بنگالیوں کو بھی یہ شکایت ہوتی تھی کہ پاکستان کے فارسی زدہ قومی ترانے کا پاکستان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ مایوس سیاسی ذہنوں کو یہ اعتراض بھی رہا ہے کہ پاکستان میں "پاک سر زمین کا نظام ، قوت اخوت عوام" کہنا ، بہت بڑا مذاق اور زخموں پر نمک پاشی ہے۔۔!
قومی ترانہ ، سات سال میں بنا
پاکستان کے قومی ترانے کو جو سات سال لگے تو اس کی بڑی وجہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی سوچ میں نمایاں فرق تھا۔ مغربی پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبالؒ تھے جن کے کلام سے کوئی ایک بھی موزوں ترانہ نہیں مل سکا تھا جبکہ مشرقی پاکستان کے قومی شاعر رابندرناتھ ٹیگور تھے ، جو ایک ہندو تھے ، اس لیے مغربی پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ اردو بنگالی جھگڑا بھی بڑی وجہ تھا کہ سات سال تک پاکستان کا قومی ترانہ نہ بن سکا اور محمدعلی بوگرا کی کٹھ پتلی حکومت میں جا کر یہ فیصلہ ہوا کہ قومی ترانہ کون سا ہوگا۔ یادرہے کہ اسی دور میں جہاں پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی توڑی گئی اور ون یونٹ بنایا گیا تھا ، وہاں بنگالی کو دوسری قومی زبان کا درجہ بھی ملا تھا۔ اس طرح سے "کچھ لو کچھ دو" کی پالیسی کے تحت قومی ترانے پر بھی سمجھوتہ ہوا تھا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹرجنرل ذوالفقارعلی بخاری نے سورۃ فاتحہ کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر تجویز کیا تھا لیکن قائداعظمؒ کی کابینہ نے اس تجویز پر سرے سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد نے تحریر کیا تھا جس کی منظوری خود قائد اعظمؒ نے دی تھی۔ مگر ہمارے دیگر تاریخی تضادات کی طرح یہ بھی ایک کھلا تضاد ہے کہ ہم اپنی مرضی کی تاریخ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بہت سے حقائق دانستہ مسخ کردیتے ہیں۔ یقیناً ایسے میں یہ سوالات اٹھتے رہیں گے کہ ہم کیسی عجیب قوم ہیں کہ نو سال میں آئین نہیں بنا سکے اور پورے سات سال صرف قومی ترانہ بنانے میں لگ گئے۔۔!
The National Anthem of Pakistan
Friday, 13 August 1954
Pakistan's national anthem was officially adopted on August 13, 1954. It was written by Hafeez Jalandhari and composed by Ahmad G. Chhagla..
The National Anthem of Pakistan (video)
Credit: GovtofPakistan
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
21-02-1987: جنرل ضیاع کی کرکٹ ڈپلومیسی
15-08-1947: لاہور
24-03-1978: بھٹو اور چاند گرہن